ذوق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ذوق
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ایک روز مجلس میں کسی نے کہاشاہ جی انسان بھی خدا کی عجیب مخلوق ہے کسی کو شعر و شاعری کا ذوق ہے کوئی شاعری کو قطعاً پسند نہیں کرتا، کوئی تیز لال مرچ کا سالن پسند کرتاہے کوئی مرچوں سے دور بھاگتاہے ہر شخص کا اپنااپنا ذوق ہے۔ ملک صاحب نے کہا شاہ جی یہ تو بتائیے کہ ذوق، ذائقہ اور چٹخارے میں کیا فرق ہے؟ شاہ جی نے کہا: ذوق ذائقہ اور چٹخارے میں بہت لطیف فرق ہے۔ ذوق طبع لطیف کا آئینہ دارہوتاہے، ذائقہ کھانے اور صحت کے اچھے ہونے کی دلیل ہے اور چٹخارہ چٹورپن اور شوقین مزاجی کا عکاس ہوتاہے۔ ذوق چائے، ذائقے کے دلدادہ لسی اور چٹخارے کے رسیا پانی بتاشے یعنی گول گپے پسند کرتے ہیں۔ منہ اور معدہ اجازت دے تو ذائقے اور چٹخارے کے لیے گوالمنڈی کاہریسہ، لوہاری کی نہاری اور بھاٹی کے سری پائے کھائیے منہ میں چھالے پڑجائیں اور معدے میں زخم ہوجائیں تو کسی ماہر طبیب حکیم سے مشورہ کیجئے۔
اتنے میں ایک حکیم صاحب تشریف لے آئے۔ شاہ جی نے یوں ان کا تعارف کرایا کہ یہ حکیم عبداللطیف صاحب ہیں ، لطیف ذوق کے مالک ہیں ، کافیاں سنتے ہیں کافی پیتے ہیں اور کلاسکی موسیقی پسند کرتے ہیں یوں اپنے ذوق لطیف کا ثبوت دیتے ہیں مہمانوں کو مفت اپنا کلام بلاغت نظام سناتے ہیں مریضوں کو مفت دوائے نزلہ وزکام دیتے ہیں ، ہماری صحت خراب ہویا ہمیں صحبت خوب کی تلاش ہوتو ہم ان کے مطب میں جاتے ہیں ، خمیرہ گائو زبان کھاتے ہیں کوثر وسلسبیل میں دھلی ہوئی ز بان سنتے ہیں کہ اہل زبان ہیں اور دھلی مرحوم سے تعلق رکھتے ہیں جب بولتے ہیں تو دوسروں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور جب خاموش رہتے ہیں۔
اگرچہ عام کہاوت ہے:۔
نائی ‘ دائی‘ بید‘ قصائی انکی غلاظت کبھی نہ جائی
لیکن ان کی دکان پر صفائی ان کی زبان اور ان کے دل کی صفائی کی طرح بے مثال ہوتی ہے۔ اب شفاف مرتبانوں اور بوتلوں سے شربت اور مربے آنکھیں مارتے ہوئے بڑے بھلے لگتے ہیں اور ذوق زبان کو یوں بھڑکاتے ہیں کہ پیسہ پاس نہ ہوتب بھی جی چاہتا ہے کہ ادھار سے ہی ان مربہ جات اور مشروبات سے زبان اور دل کو بہلایا جائے۔
کسی نے کہا کہ شاہ جی ! آج کل کے حکماء کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے؟ ذرا اس موضوع پر تو روشنی ڈالئے۔ شاہ جی نے کہا:’’میاں ! اس پر خاموشی ہی بہتر ہے اس باب میں ہم حق بات کہہ کر شرمندہ ہوں گے آپ لوگ اسے سمجھ کر افسردہ ہوں گے مہمان محترم حکیم عبداللطیف صاحب سن کر اسے بدمزہ ہو ں گے۔ ‘‘حکیم صاحب نے کہا:
’’نہیں شاہ جی! جو حق بات ہے اسے ضرور فرمائیے۔ ہم اس بات کا برا نہیں مناتے حق بات سن کر بد مزہ نہیں ہوتے اورتنقید سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ‘‘
شاہ جی نے کہا یہ کوئی منہ دیکھے کی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کہ حکیم عبداللطیف حکمائے کامل میں سے ہیں۔ البتہ آج کل کے حکماء نیم حکیم خطرہ جان کے زمرہ میں ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں حکیم، عالم متبحر یعنی تمام علوم کاماہر بلکہ علامہ دھر ہوتاتھا طبابت کا حکیمیت کا پیشہ اضافی یا ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ علماء وقت طلباء کومفت دوائی دیتے تھے طبابت سے روزی کماتے تھے اور اعلی انسانی اقدار کے مالک ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکیم یا ڈاکٹر وہی اچھا ہے جو اچھا انسان بھی ہو، اگرچہ کوئی پیشہ بھی ہو جسے وہ اختیار کرے اس کا اچھا انسان ہونا ضروری ہے لیکن معالج اگر اچھا انسان نہ ہو تو اس سے مال کے خطرے کے ساتھ ساتھ جان کا خطرہ بھی ہے۔ویسے ان کے ہاتھ میں شفا ء نہیں ہوتی خواہ وہ کتنا بڑا حاذق طبیب یاماہر ڈاکٹر کیوں نہ ہو۔ ایک حکیم سے کسی حاکم وقت نے کہا کہ’’ مجھے اپنے دشمن کو مارنے کے لئے ایک ایسا زہر جو اسے آہستہ آہستہ ختم کر دے دو تاکہ کسی کو یہ خبر نہ ہو کہ یہ زہر سے مرا ہے۔جتنی بھی دولت تم انعام میں مانگو میں تمہیں دوں گا۔‘‘ اس نے کہا: ’’حضور! میں حکیم ہوں صحت اور زندگی کے لیے دوائیں دیتا ہوں ، زندگی ختم کرنے کے لیے نہ دوائیں تیار کی ہیں نہ دیتا ہوں نہ مجھے ایسے زہروں کا علم ہے مجھے معاف رکھیے اگر یہ حکیم اچھا انسان نہ ہو تا توآج تاریخ میں اس کا نام نیک نامی سے زندہ نہ رہتا آج بھی بحیثیت وہ حکیم تاریخ کے اوراق زندہ ہے۔
حکماء یعنی اطبائے اسلامی نہ صرف بے مثال نباض اور فن طبابت میں ماہر ہوتے تھے بلکہ ماہر نفسیا ت بھی ہوتے تھے۔ تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ حکماء بعض اوقات صرف نفسیاتی طریقوں سے مریض کا علاج کیا اور مریض حیرت انگیز طور پر صحت یاب ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کی مجلس میں ایک کنیز کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر آئی وہ جھکی تاکہ خوان کو سر سے زمین پر رکھے جب اس نے چاہا کہ سیدھی کھڑی ہو جا ئے تو سیدھی کھڑی نہ ہو سکی اور اس طرح جھکی کھڑی رہی اس ریح غلیظ کی وجہ سے جو اس کے جوڑوں میں پھنس گئی تھی بادشاہ نے دربار میں موجود طبیب سے کہا کہ جس طرح بھی ہو اس کا فورا علاج کرو۔چونکہ دوائیں پاس نہیں تھیں اس لئے دواؤں سے علاج کرنا ممکن نہیں تھاطبیب نے نفسیا تی علاج کی طرف رخ کیا اور کہا کہ اس کا دوپٹہ اتار دو اور اس کے سر کو ننگا کردو ایسا ہی کیا گیا اس پر حیا غالب آئی اور اس میں حرارت پیدا ہوئی جس سے ریح تحلیل ہوگئی اور وہ سیدھی کھڑی ہو گئی اور واپس چلی گئی۔
منصور بن نوح جوڑوں کے دردمیں مبتلا ہو گیاجس کے علاج سے اطباء عاجز آگئے اور بادشاہ نے علاج کے لئے محمد بن زکریا رازی کو بلایااس نے ہر چند علاج کیا لیکن کوئی فائد ہ نہ ہوا ایک دن بادشاہ کے پاس آیااور کہا اب تک میں نے جو علاج کیا اس سے کوئی فائد ہ نہیں ہوا اب میں ایک اور علاج کروں گا اور اس میں فلاں گھوڑے اور خچر کی ضرورت ہو گی۔ یہ دونوں تیز رفتاری میں مشہور تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ دونوں ان کے حوالے کردیے جائیں۔ اس نے بادشاہ سے کہا آپ حمام میں بیٹھیں اور وہاں کوئی ملازم اور مصاحب نہیں ہونے چاہییں اور حمام کے باہر یہ دونوں یعنی گھوڑا اور خچر باندھ دیے جائیں۔
پس بادشاہ کو حمام میں بٹھا دیا اور نیم گرم پانی اس پر ڈالا اور شربت جو اس کے لئے تیا ر کیاتھا اسے دیا تاکہ اسے پی لے۔کچھ دیر بعد جب دوا کا اثر اس پرہوگیا تو حکیم محمد رازی بادشاہ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اسے برا کہنا شروع کردیا۔بادشاہ یہ سن کر غصہ میں آیا اور اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ گھٹنوں تک کھڑ ا ہو سکا محمد زکریا نے چاقوں نکال لیا اور زیادہ سخت رویہ اختیار کیا بادشاہ غصہ اور خوف سے کھڑا ہو گیابادشاہ تندرست ہو گیا اور طبیب غائب۔ساتویں روز محمدزکریا نے گھوڑے اور خچر کومعذرت نامے کے ساتھ بادشاہ کے پاس بھجوا دیا گرگان کے بادشاہ قاباس بن دشتم گیر کاایک رشتہ دار نوجوان ایسا بیمار ہوا کہ سارے طبیب عاجز آگئے آخر بو علی سینا کو اس کے علاج کے لیے بلایا گیا بو علی سینا نے مریض کا معائنہ کیااور کہا کہ مجھے ایک شخص کی ضرورت ہے جوگرگان شہر کے تمام محلوں اور مکانوں کے بارے میں معلومات رکھتا ہو چنانچہ ایسے شخص کو بو علی سینا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔
اس نے بیمار کی نبض پہ ہاتھ رکھااور اس شخص سے کہا کہ گرگان کے تمام محلوں کا نام لو! اس نے محلوں کے نام لینا شروع کر دیے یہاں تک کہ وہ اس محلے کے نام پر پہنچ گیاکہ جس کا نام لینے سے مریض کی نبض کی حرکت اورتیز ہو گئی۔ بو علی نے اس محلے کی تمام گھروں کے نام بتا نے کو کہااس نے بتانے شروع کئے ایک ایسے گھرکا نام آیا جس کا نام لینے سے مریض کی نبض کی حرکت تیز ہو گی۔
بو علی نے اس گھر کے تمام نام جاننے والے کو بلا یا اور اس سے گھر کے افراد کے نام پوچھے جب بتانے والا اس نام پر آیاجس کانام لیتے ہی مریض کی نبض اور تیز ہو گئی تو بو علی نے کہا میں نے مرض دریا فت کر لیا۔ اور قابوس کے معتمدین کو بتایاکہ یہ مریض عشق کے مرض میں مبتلا ہے فلاں محلے میں ‘فلاں لڑکی پر عاشق ہے قابوس نے یہ پوچھا تم نے یہ کیسے جانا کہ یہ فلاں لڑکی پر عاشق ہے؟ بوعلی نے بتایاکہ میں نے اس نبض کی حرکت قارورہ کے معائنے سے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ نوجوان علت عشق میں مبتلا ہے سو میں نے اس کے سامنے شہر کے محلوں گھروں میں گھر میں رہنے والوں کے لیے جس محلہ اور گھر کے نام پر اس کی نبض تیز ہو ئی میں نے جان لیا کہ یہ گھر اس کے محبوب کا ہے تاکہ گھر کے افراد کا نام لینے کے سلسلہ میں جب اس کی محبوبہ کانام آیا تواس کی نبض بہت تیز ہو گی یوں اس کی محبوب کانام بھی مجھے معلوم ہو گیا۔ بادشاہ قابوس بہت حیران ہوا اور اس نے بتایا کہ دونوں میرے عزیز ہیں اور آپس میں خالہ ذاد ہیں فوراً ا ن کی شادی کر دی اور بو علی کو بہت انعام دیا۔
آل بویہ علائو الدولہ کا ایک عزیز مالیخولیا میں مبتلا ہو گیااور اس کو وہم ہو گیا کہ وہ گا ئے ہے چنانچہ وہ گا ئے کی طرح آوازیں نکالتاتھا اور کہا کرتا تھا کہ میں گائے ہو ں مجھے ذبح کرو میرے گوشت کے بہترین کباب بنیں گے۔ یہاں تک کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اس طرح کئی دن گزر گئے تمام اطباء اس کا علاج کرنے میں ناکام ہو گئے آخر کار بو علی سینا کو اس کے علا ج کے لیے بلوا یا گیابو علی نے کہا کہ مریض کو خوش خبری دے دو کہ قصاب کا انتظام ہو گیا ہے وہ آرہا ہے اور جلد ہی تمہیں ذبح کرے گا وہ مریض یہ سن کر خوش ہو گیا۔ بو علی ہاتھ میں چھری لے کر قصابوں کی طرح اس کے گھر گیا اور پوچھا کہ گائے کہاں ہے تاکہ میں اسے ذبح کروں ؟ اس جوان نے گائے کی طرح آواز نکالی یعنی میں یہاں ہوں بو علی نے کہا اس کو گھر کے صحن میں لے آؤاس کے ہاتھ پیر باند ھ دو اور زمین پر لیٹا دو۔ مریض نے جب یہ سنا تو دوڑ گھر خود صحن میں آگیا ‘اور دائیں پہلو پر لیٹ گیا اس کے پاؤں ا چھی طرح باندھ دیے گئے بو علی نے اس کے سامنے چھری تیز کی اور قصائی کی طرح اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کے جسم کو ٹٹولا جس طرح قصائی کرتے ہیں پھر کہاکہ یہ کمزور گائے ہے اسے چارہ کھلاؤ کہ یہ موٹی ہو جا ئے۔