دو عظیم احسان۔۔ رمضان اور پاکستان

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
دو عظیم احسان۔۔ رمضان اور پاکستان
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
آج سے 64برس قبل رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی جب اہل اسلام کے لہو سے سیراب ہونے والی آزادی کی کونپل شجرسایہ دار بنی،14اور15اگست کی درمیانی رات میں آل انڈیا ریڈیوپر ’’یہ ریڈیوپاکستان ہے‘‘کی آواز بلند ہوئی۔ مسلمانان ہند کے لیے یہ پرمسرت مژدہ نوید مسیحا سے کم نہ تھا، بیک وقت کئی نعمتیں ظاہر ہوئیں نعمت رمضان نعمت آزادی نعمت پاکستان نعمت شب قدر اور دوسرے دن جمعۃ الوداع کی نعمت۔
پاکستان بنانے میں اہل اسلام نے قربانیوں کی جوداستان رقم کی ہے تاریخ کے اوراق پر ایسے سنہری باب کہیں نہیں ملتے۔ جہاں بچے یتیم ہو رہے ہیں ، خواتین اپنے سہاگ کی بجائے بیوگی کے عصاسے سہارا لے کر چل رہی ہوں بہادر نوجوان جرات وہمت کے مجسمے آزادی وطن کے لیے اپنی جان کو ہتھیلیوں پر لیے میدان میں مسکرارہے ہوں۔
اس آزادی میں میرے اکابر علماء دیوبند نے جو مثالی قیادت کا کردار اداکیاہے۔ صبح قیامت تک پیدا ہونے والا مورخ اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔عوام الناس میں ، خصوصا اہل اسلام میں علماء دیوبند نے آزادی کی وہ روح پھونکی جس کی وجہ سے آج ہم اس ملک میں ’’آزاد‘‘ ہیں ……معاف کیجئے گا………میرا قلم اس آزادی کو قومین کے درمیان لکھنے پر مجبور ہوگیا ہم’’آزاد‘‘ہیں۔
ذرا سنیے ! کیسے آزاد؟…… خدائی احکامات سے، فرامین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے، تعلیمات اولیاء سے، ہمدردی اور ایثار سے، اخوت اورپیار سے، شرعی قوانین سے اور ہر اس چیز سے’’آزاد‘‘ہیں۔ جس پر پابندی اسلام کا لازمی فریضہ ہے۔ جسم’’آزاد‘‘اوردماغ’’ غلام‘‘ ہیں۔ زبان’’آزاد‘‘اور دل غیروں کے ہاتھ کامہرہ…
آپ بتلائیے! کیا اسی ’’آزادی‘‘ کے لیے ہمارے آباء واجداد خاک وخون میں تڑپ گئے؟؟ کیا اسی آزادی کے لیے مائیں اپنے دودھ پیتے بچے قربان کرتی رہیں ؟ ؟اور کیااسی آزادی کے لیے ہم الگ وطن حاصل کرتے رہے؟ ؟……ہونہہ۔تف ہے ایسی آزادی پر! اور ایسے آزاد لوگوں پر جنہوں نے اسلاف کے مدفن بیچ کھائے ہیں۔ ہاں !ہم آزاد اس لیے ہوئے تھے
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ
یہاں پر اسلام کا بول بالا کریں گے، آزدی کے ساتھ عبادات بجا لائیں گے، اخوت ومحبت کی نِیامیں سوارہوکر دل کے ارمان پورے کریں گے۔مگر……
خیر!کوئی بات نہیں …ہم مایوسی کے مرض میں مبتلا نہیں …بلکہ مبتلا شدہ لوگوں کو اس مرض سے چھٹکارا دلاتے ہیں … ہم پورے عزم اور ارادے کے ساتھ اس وقت بھی وطن عزیز میں امن وسلامتی کے لیے ہر وقت سرگرم ہیں اللہ گواہ ہے یہ ملک ہم نے بنایاتھا ہم ہی بچائیں گے۔
انگریز ہم سے بدلہ لینے پر مصر ہے اوراندرون خانہ وہ ہم میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے وہ ہمیں فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلنا چاہتا ہے لیکن ہم اپنے اسلاف کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اسلاف کے دامن سے وابستہ رہیں گے۔ ہاں ! وہ لوگ ضرور اس فرقہ واریت کا شکار ہوں گے جو اکابر امت پر اعتماد نہیں کرتے۔ اعتماد تو کجا! ان پر سب وشتم کرنا اپنا ’’ایمانی فرض ‘‘ سمجھتے ہیں اللہ تعالی ہم سب کو اہل حق کے ساتھ وابستہ ہونے کی توفیق دے۔
دوسری عظیم نعمت رمضان المبارک ہے اس ماہ مقدس میں اہل اسلام کثرت سے پابندی صوم وصلوٰۃ، تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ عمرے کی ادائیگی، صدقہ وخیرات رواداری، مروت، رحمدلی، بھائی چارگی، وغیرہ پر عمل پیراہوتے ہیں۔
اس بار پھر رمضان اپنی برکات کے ساتھ ساتھ آزادی وطن کی یادگاریں لا رہا ہے۔ جہاں ہمیں شکرانِ نعمت کے لیے خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا ہو گا وہاں اس بات کاعزم بھی کرنا ہوگا کہ وطن عزیز کی سا لمیت اور بقاء کے لیے نفاذ اسلام کے لیے ہم ہر وقت مستعد ہیں۔ ان شاء اللہ۔
علم کے مسافر…رواں دواں رواں دواں
علم خدا کی معرفت اور تجلی کانام ہے، اسی کے بل بوتے انسان اور حیوان میں فرق کیاجاسکتاہے اسی کے طفیل انسان شرف ’’مسجودِملائک‘‘کو پالیتاہے اور علم…علم دین…سے دوری انسان کو اولٓئک کالانعام بل ھم اضل کامصداق بنا دیتی ہے۔علم دین میں بنیادی مرکزی اور اساسی اہمیت حاصل ہے عقائد ونظریات کو پھر درجہ بدرجہ مسائل واحکام کو۔ باقی علوم مثلا گرائمر، صرف، نحو، منطق، فلسفہ وغیرہ یہ علوم نبوت کے خادم ہیں ، سارا سال دینی مدارس میں علوم نبوت کی تحصیل کے کوشاں مقتدایان امت مرحومہ علماء کرام مصروف رہتے ہیں …وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحانات کے فوراً بعد مرکز اھل السنت والجماعت87جنوبی سرگودھا میں 12روزہ دورہ تحقیق المسائل (از 9 جولائی تا 21 جولائی 2011) کا انعقادکیا گیا تھا۔ مرکز کے حضرات اساتذہ کرام نے اس سے قبل اس پر طویل مشاورت سے راقم کو اہم امور کی جانب متوجہ کیا جس پر راقم تمام حضرات کا تہ دل سے شکر گزار ہے۔ ملک بھرسے 180کے لگ بھگ علماء کرام مرکز اھل السنۃ والجماعۃ87جنوبی سرگودھا دورہ تحقیق المسائل کے لیے تشریف لائے علاوہ ازیں alittehaad.org،ahnafmedia.comاور دیگر مختلف ویب سائیٹس پر مکمل اسباق براہ راست نشر کیے گئے احناف میڈیا سروس کے ذمہ داران مولانا عابد جمشید، مولانا محمد کلیم اللہ اور ان کے ساتھیوں نے لاہوردفتر احناف میڈیا سروس سے ہی اسے کنٹرول کیا۔ الحمد للہ ملک بھر اور زیادہ تر بیرون ممالک کے پڑھے لکھے افراد اس پروگرام سے براہ راست مستفید ہوتے رہے۔ آخر میں راقم اپنے آنے والے مہمانان گرامی خصوصا حضرات اساتذہ کرام: امیراتحاد اھل السنۃ والجماعۃ پاکستان مولانامنیر احمد منور، مولاناشفیق الرحمن امیر اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ پنجاب، مولاناعبدالشکور حقانی امیر اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ لاہور ڈویژن مولانامحمد رضوان عزیز، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی قائد مولانااللہ وسایا مولانا مفتی شبیر احمد، مولانامحمد اکمل، مولانامحمد عاطف معاویہ اور تمام شرکاء کورس کا شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں عقیدے اور نظریے کی محنت کو ترجیح دی۔
مسئلہ1: رمضان شریف کے روزے ہر مسلمان پر جو مجنون اور نابالغ نہ ہو فرض ہیں جب تک کوئی عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہیں اور اگر کوئی روزہ کی نذر مان لے تو روزہ فرض ہو جاتاہے اور قضا اور کفارے کے روزے بھی فرض ہیں اوراس کے سوا اور سب روزے نفل ہیں رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کوئی گناہ نہیں البتہ عیداور بقر عید سے بعد تین دن روزہ رکھناحرام ہے۔
مسئلہ2: جب سے فجر کی نماز کا وقت آتاہے اس وقت سے لے کر سورج ڈوبنے تک روزے کی نیت سے کھانا اور پینا چھوڑ دے اور مرد سے ہمبستر بھی نہ ہو شریعت میں اس کو ’’روزہ‘‘ کہتے ہیں۔
مسئلہ نمبر3: زبان سے نیت کرنا اور کچھ کہنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب دل میں یہ دھیان ہے کہ آج میرا روزہ ہے اورسارا دن کچھ کھایانہ پیا نہ ہمبسترہوئی تو اس کا روزہ ہوگیا اور اگر کوئی زبان سے بھی کہہ دے کہ یا اللہ میں کل تیرا روزہ رکھوں گی یا عربی میں یہ کہدے کہ’’وبصوم غد نویت‘‘ تو بھی کچھ حرج نہیں یہ بھی بہتر ہے۔
مسئلہ نمبر4: اگر کسی نے دن بھر نہ تو کچھ کھایا نہ پیا صبح سے شام تک بھوکی پیاسی رہی لیکن دل میں روزہ کا ارادہ نہ تھا بلکہ بھوک نہیں لگی یا کسی اور وجہ سے کچھ کھانے پینے کی نوبت نہیں آئی تو اس کا روزہ نہیں ہوا۔ اگر دل میں روزہ کاارادہ کرلیتی تو روزہ ہوجاتا۔
مسئلہ 5: شریعت میں روزہ صبح صادق کے وقت سے شروع ہوتاہے اس لیے جب تک صبح نہ ہو کھانا پینا وغیرہ سب کچھ جائز ہے بعض عورتیں سحری کھاکر نیت کی دعا پڑھ کر لیٹ رہتی ہے اور یہ سمجھتی ہیں کہ اب نیت کرلینے کے بعد کچھ کھانا پینا نہیں چاہیے۔ یہ خیال غلط ہے جب تک صبح نہ ہو کھاپی سکتی ہے چاہے نیت کرچکی ہو یا ابھی نہ کی ہے۔
رمضان شریف کے روزے
مسئلہ1: رمضان شریف کے روزے کی اگر رات سے نیت کرلے تو بھی فرض اداہوجاتاہے اور اگر رات کو روزہ رکھنے کا ارادہ نہ تھا بلکہ صبح ہوگئی تب بھی یہی خیال رہاکہ میں آج کا روزہ نہ رکھوں گی۔ پھر دن چڑھے خیال آگیاکہ فرض چھوڑدینا بری بات ہے اس لیے اب روزہ کی نیت کرلی تب بھی روزہ ہوگیا لیکن اگر صبح کو کچھ کھاپی چکی ہو تو اب نیت نہیں کر سکتی۔
مسئلہ2: اگر کچھ کھایاپیانہ ہو تو دن کو ٹھیک دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے رمضان کے روزے کی نیت کرلینادرست ہے۔
مسئلہ3: رمضان شریف کے روزے میں بس اتنی نیت کرلینا کافی ہے کہ آج میرا روزہ ہے یا رات کو اتنا سوچ لے کہ کل میراروزہ ہے بس اتنی ہی نیت سے بھی رمضان کاروزہ اداہوجائے گا اگر نیت میں خاص یہ بات نہ آئی ہوکہ رمضان کا روزہ ہے یا فرض روزہ ہے تب بھی روزہ ہوجائے گا۔
مسئلہ4: رمضان کے مہینے میں اگر کسی نے یہ نیت کی کہ میں کل نفل کا روزہ رکھوں گی رمضان کا روزہ نہ رکھوں گی بلکہ اس روزہ کی پھر کبھی قضا رکھ لوں گی تب بھی رمضان ہی کا روزہ ہوگااور نفل کانہیں ہوگا۔
مسئلہ 5: پچھلے رمضان کا روزہ قضاہوگیا تھا اور پورا سال گذرگیا اب تک اس کی قضا نہیں رکھی پھر جب رمضان کا مہینہ آگیا تو اسی قضا کی نیت سے روزہ رکھا تب بھی اِسی رمضان ہی کا روزہ ہو گا اور قضا کا روزہ نہ ہوگا قضا کا روزہ رمضان کے بعد رکھے۔
مسئلہ 6: کسی نے نذر مانی تھی کہ اگر میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اللہ تعالیٰ کے لیے دوروزے یاایک روزہ رکھوں گی پھر جب رمضان کا مہینہ آیا تواس نے اسی نذر کے روزے رکھنے کی نیت کی رمضان کے روزے کی نیت نہیں کی تب بھی رمضان ہی کا روزہ ہوگانذر کا نہیں۔ نذر کے روزے رمضان کے بعد پھر رکھے سب کا خلاصہ یہ ہواکہ رمضان کے مہینے میں جب کسی روزے کی نیت کرے گی رمضان ہی کا روزہ ہوگا اور کوئی روزہ صحیح نہ ہوگا۔
مسئلہ7: شعبان کی انتیسویں تاریخ کو اگر رمضان شریف کا چاند نکل آئے تو صبح کو روزہ رکھو اور اگر نہ نکلے یا آسمان پرابر ہواور چاند نہ دکھائی دے تو صبح کو جب تک یہ شبہ رہے کہ رمضان شروع ہوا یا نہیں ، روزہ نہ رکھو۔بلکہ شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کرو۔
مسئلہ8: انتیسویں تاریخ ابرآلود (بادل یا گرد وغیرہ) کی وجہ سے رمضان شریف کا چاند نہیں دکھائی دیا تو صبح کو نفلی روزہ بھی نہ رکھو ہاں اگر ایسا اتفاق ہوجائے کہ ہمیشہ پیراور جمعرات یا کسی اور مقرر دن کا روزہ رکھاکرتی تھی اور کل وہی دن ہے تو نفل کی نیت سے صبح کو روزہ رکھ لینابہتر ہے پھر اگر کہیں سے چاند کی خبر آگئی تو اسی نفل روزے سے رمضان کا فرض ادا ہوگیا اب اس کی قضانہ رکھے۔
مسئلہ9: بادل کی وجہ سے انتیس تاریخ کو رمضان کا چاند نہیں دکھائی دیا تودوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے تک کچھ نہ کھائیں نہ پئیں۔ اگر کہیں سے خبرآجائے تو اب روزہ کی نیت کرلو اور اگر خبر نہ آئے تو کھائیں پئیں۔
مسئلہ 10: انتیسویں تاریخ کو چاند نہیں نکلا تو یہ خیال نہ کرو کہ کل کا دن رمضان کا تو ہے نہیں میرے ذمہ جوپچھلے سال کا ایک روزہ ذمہ میں ہے اس کی قضاہی رکھ لوں یاکوئی نذرمانی تھی اس کاروزہ رکھ لوں اس دن قضا کاروزہ اورکفارہ کا روزہ اور نذر کاروزہ رکھنا بھی مکروہ ہے کوئی روزہ نہیں رکھنا چاہیے اگر قضا یا نذرکاروزہ رکھ لیاپھر کہیں سے چاند کی خبر آگئی تو بھی رمضان ہی کا روزہ ادا ہوگا۔ قضااور نذر کا روزہ پھر سے رکھے اور اگر خبر نہیں آئی تو جس روزہ کی نیت کی تھی وہی ادا ہو گیا۔
قضاکے روزے
مسئلہ 1: جو روزے کسی وجہ سے جاتے رہے ہوں رمضان کے بعد بہت جلدان کی قضا رکھ لیں دیر نہ کریں۔ بلا وجہ قضا رکھنے میں د یر کرناگناہ ہے۔
مسئلہ2: روزے کی قضا میں دن تاریخ مقرر کرکے قضا کی نیت کرنا کہ فلاں تاریخ کے روزے کی قضارکھتی ہوں یہ ضروری نہیں بلکہ جتنے روزے قضاہوں اتنے ہی روزے رکھ لینے چاہییں البتہ اگر دو سال رمضان کے کچھ کچھ روزے قضا ہوگئے اس لیے دونوں سال کے روزے کی قضا رکھنا ہے تو سال کا مقررکرنا ضروری ہے یعنی اس طرح نیت کرے کہ فلاں سال کے روزوں کی قضا رکھتی ہوں۔
مسئلہ3: قضا روزے میں رات سے نیت کرنا ضروری ہے اگر صبح ہوجانے کے بعد نیت کی تو قضا صحیح نہیں ہوئی بلکہ وہ نفلی روزہ ہوگیا قضا کا روزہ پھر سے رکھے۔
مسئلہ4: کفارے کے روزے کابھی یہی حکم ہے کہ رات سے نیت کرنی چاہیے اگرصبح ہونے کے بعد نیت کی تو کفارہ کا روزہ صحیح نہیں ہوا۔
مسئلہ5: جتنے روزے قضاہوگئے ہیں چاہے سب کو مسلسل رکھ لے چاہے تھوڑے تھوڑے کرکے رکھے دونوں باتیں درست ہیں۔
مسئلہ 6: اگررمضان کے روزے ابھی قضا نہیں رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب اِس رمضان کے ادا روزے رکھے اور عید کے بعد قضا رکھے لیکن اتنی دیر کرنا بُری بات ہے۔
مسئلہ7: رمضان کے مہینے میں دن کو بے ہوش ہوگئی اور ایک دن سے زیادہ بے ہوش رہی تو بے ہوشی ہونے کے دن کے علاوہ جتنے دن بے ہوش رہی اتنے دنوں کی قضا رکھے۔جس دن بے ہوش ہوئی اس ایک دن کی قضاء واجب نہیں ہے کیونکہ اس دن کا روزہ بوجہ نیت کے درست ہوگیا۔ ہاں ! اگر اس دن روزہ سے نہ تھی یا اس دن حلق میں کوئی دوا ڈالی گئی اور وہ حلق سے اتر گئی تو اس دن کی قضاء بھی واجب ہے۔
مسئلہ8: اگر رات کو بے ہوش ہوئی ہو تب بھی جس رات کو بے ہوش ہوئی اس ایک دن کی قضاء واجب نہیں ہے باقی اور جتنے دن بے ہوش رہی سب کی قضا واجب ہے ہاں اگر اس رات کو صبح کا روزہ رکھنے کی نیت نہ تھی یا صبح کوکوئی دوا حلق میں ڈالی گئی تو اس دن کا روزہ بھی قضارکھے۔
مسئلہ 9: اگر سارے رمضان بھر بے ہوشی رہے تب بھی قضاء رکھنا چاہیے یہ نہ سمجھے کہ سب روزے معاف ہوگئے البتہ اگر جنون ہوگیا اور پورے رمضان بھر دیوانی رہی تو اس رمضان کے کسی روزے کی قضا واجب نہیں اور اگر رمضان شریف کے مہینے میں کسی دن جنون جاتارہا اور عقل ٹھکانے ہوگئی تو اب سے روزے رکھنے شروع کرے اور جتنے روزے جنون میں گئے ان کی قضا بھی رکھے۔
نذر کے روزے
مسئلہ1: جب کوئی روزہ کی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا واجب ہے اگر نہ رکھے گی تو گناہ گار ہو گی۔
مسئلہ2: نذر دو طرح کی ہے: ایک تو یہ کہ دن تاریخ مقرر کرکے نذر مانی کہ’’ یا اللہ! اگر آج فلاں کام ہوجائے تو کل ہی تیرا روزہ رکھوں گی۔‘‘ یا یوں کہاکہ ’’یا اللہ! میری فلاں مراد پوری ہو جائے تو پرسوں جمعہ کے دن روزہ رکھوں گی۔‘‘ ایسی نذر میں اگر رات سے روزہ کی نیت کرے تو بھی درست ہے اگر اگر رات سے نیت نہ کی تو دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے پہلے نیت کرلے یہ بھی درست ہے نذراداہوجائے گی۔
مسئلہ3: جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی نذر مانی اور جب جمعہ آیاتو بس اتنی نیت کرلی کہ آج میرا روزہ ہے یہ مقرر نہیں کیا کہ یہ نذر کا روزہ ہے یاکہ نفل کی نیت کرلی تب بھی نذر کا روزہ ادا ہو گاالبتہ اس جمعہ کو قضا کا روزہ ہوجائے گانذر کا روزہ پھر رکھے۔
مسئلہ4: دوسری نذریہ ہے کہ دن تاریخ مقررکرکے نذرنہیں مانی بس اتنا ہی کہا:’’یااللہ! اگر میرا فلاں کام ہوجائے تو ایک روزہ رکھوں گی یا کسی کا نام نہیں لیا ویسے ہی کہہ دیاکہ پانچ روزے رکھوں گی ایسی نذرمیں رات سے نیت کرنا شرط ہے۔ اگر صبح ہوجانے کے بعد نیت کی تو نذر کا روزہ نہیں ہوابلکہ وہ روزہ نفل ہوگیا۔
نفل کے روزے
مسئلہ1: نفل روزے کی نیت اگر یہ مقرر کرکے کرے کہ میں نفل کا روزہ رکھتی ہوں تو بھی صحیح ہے اور اگر فقط اتنی نیت کرے کہ میں روزہ رکھتی ہوں تب بھی صحیح ہے۔
مسئلہ2: دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے تک نفل کی نیت کرلینادرست ہے اگر دس بجے دن تک مثلاً روزے رکھنے کا ارادہ نہ تھا لیکن ابھی تک کچھ کھایاپیا نہیں پھر دل میں آگیا اور روزہ رکھ لیا تو بھی درست ہے۔
مسئلہ3: رمضان شریف کے مہینے کے سوا جس دن چاہے نفل کا روزہ رکھے جتنے زیادہ رکھے گی زیادہ ثواب پائے گی۔ البتہ عید الفطرکے دن اور بقر عید کی دسویں گیارہویں بارہویں اور تیرہویں ؛ سال بھر میں فقط پانچ دن روزے رکھنے حرام ہیں اس کے سوا سب روزے درست ہیں۔
مسئلہ4: اگر کوئی عید کے دن روزہ رکھنے کی منت مانے تب بھی اس دن کا روزہ درست نہیں اس کے بدلے کسی اور دن رکھ لے۔
مسئلہ5: اگر کسی نے یہ منت مانی کہ میں پورے سال کے روزے رکھوں گی سال میں کسی دن کا روزہ بھی نہ چھوڑونگی تب بھی یہ پانچ روزے نہ رکھے باقی سب رکھ لے پھر ان پانچ روزوں کی قضا رکھ لے۔
مسئلہ 6: نفل کا روزہ نیت کرنے سے واجب ہوجاتاہے سواگر صبح صادق سے پہلے یہ نیت کی کہ آج میرا روزہ ہے پھر اس کے بعد توڑ دیا تو اب اس کی قضا رکھے۔
مسئلہ7: کسی نے رات کوارادہ کیاکہ میں کل روزہ رکھوں گی لیکن پھر صبح صادق ہونے سے پہلے ارادہ بدل گیا اور روزہ نہیں رکھا توقضا واجب نہیں۔
مسئلہ8: شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ رکھنا درست نہیں اگر اس کی اجازت کے بغیرروزہ رکھ لیا تواس کے توڑوانے سے توڑ دینا درست ہے پھر جب وہ کہے تب اس کی قضا رکھے۔
مسئلہ9: کسی کے گھر مہمان گئی یاکسی نے دعوت کردی اور کھانانہ کھانے سے اس کا جی بُرا ہو گا دل شکنی ہوگی تو اس کی خاطر سے نفل روزہ توڑدینا درست ہے اور مہمان کی خاطر سے گھر والی کو بھی توڑ دینا درست ہے۔
مسئلہ10: کسی نے عید کے دن نفل روزہ رکھ لیا اور نیت کرلی تب بھی توڑدے اور اس کی قضارکھنا بھی واجب نہیں۔
مسئلہ11: محرم کی دسویں تاریخ کوروزہ رکھنا مستحب ہے حدیث شریف میں آیاہے کہ جو کوئی یہ روزہ رکھے اس کے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کاروزہ رکھنا بھی مستحب ہے صرف دسویں کو روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
مسئلہ12: اس طرح بقر عید کی نویں تاریخ کو روزہ رکھنے کابھی ثواب ہے اس سے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اگر شروع چاند سے نویں تک برابر روزے رکھے تو بہت ہی بہترہے۔
مسئلہ13: شب برأت کی پندرہویں اورشوال کے چھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھی اور نفلوں سے زیادہ ثواب ہے۔
مسئلہ14: اگر ہر مہینے کی تیرہویں ، چودہویں اورپندرہویں تین دن روزہ رکھ لیاکرے تو گویا اس نے سال بھر مسلسل روزے رکھے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تین روزے رکھا کرتے تھے ایسے ہی ہرپیراورجمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اگر کوئی ہمت کرے تو اس کا بھی بہت ثواب ہے۔
کن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا/ ٹوٹ جاتاہے اور قضایا کفارہ لازم آتاہے؟
مسئلہ1: اگرروزہ دار بھول کر کچھ کھا لے یا پی لے یا بھولے سے خاوند سے ہمبستر ہوجائے تو اس کا روزہ نہیں گیا۔اگر بھول کر پیٹ بھرکر بھی کھاپی لے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔اگر بھول کرکئی دفعہ کھاپی لیا تب بھی روزہ نہیں گیا۔
مسئلہ 2: ایک شخص کو بھول کر کچھ کھاتے پیتے دیکھاتواگروہ اس قدرطاقت ور ہے کہ روزہ سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی تو روزہ یاددلادینا واجب ہے اور اگر کوئی ناطاقت ہوکہ روزہ سے تکلیف ہوتی ہے تو اس کو یادنہ دلاوے کھانے دیوے۔
مسئلہ3: حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا خود بخوددھواں چلا گیا یا گرد وغبار چلاگیا تو روزہ نہیں گیا البتہ اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتارہا۔
مسئلہ4: لوبان (ایک قسم کی گوند جو آگ پر رکھنے سے خوشبو دیتا ہے )وغیرہ کوئی دھونی سلگائی پھر اس کو اپنے پاس رکھ کر سونگھا تو روزہ جاتارہا اسی طرح حقہ پینے سے بھی روزہ جاتارہتاہے البتہ اس دھوئیں کے سوا عطر کیوڑہ گلاب پھول اورخوشبو سونگھنا جس میں دھواں نہ ہو درست ہے۔
مسئلہ5: دانتوں میں گوشت کا ریشہ اٹکا ہواتھایا کوئی اور چیز تھی اس کو خلال سے نکال کرکھاگئی لیکن منہ سے باہر نہیں نکالاآپ ہی آپ حلق میں چلی گئی تو دیکھو اگر چنے سے کم ہے تب تو روزہ نہیں گیا اور اگر چنے کے برابر اس سے زیادہ ہے تو جاتارہا البتہ اگر منہ سے باہر نکال لیا تھا پھر اس کے بعد نگل گئی تو ہرحال میں روزہ ٹوٹ گیا چاہے وہ چیز چنے کے برابر ہویا اس سے بھی کم ہودونوں کاایک حکم ہے۔
مسئلہ6: تھوک نگلنے سے روزہ نہیں جاتاچاہے جتنا ہو۔
مسئلہ7: اگرپان کھا کر خوب کلی غرغرہ کرکے منہ صاف کرلیا لیکن تھوک کی سرخی نہیں گئی تواس کا کچھ حرج نہیں روزہ ہوگیا۔
مسئلہ8: ناک کو اتنے زورسے سُٹَرک لیاکہ حلق میں چلی گئی تو روزہ نہیں ٹوٹا اسی طرح منہ کی رال سُٹَرک کر نگل جانے سے روزہ نہیں جاتا۔
مسئلہ9: منہ میں پان دباکرسوگئی اور صبح ہوجانے کے بعد آنکھ کھلی تو روزہ نہیں ہوا قضا رکھے اور کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ10: کلی کرتے وقت حلق میں پانی چلاگیا اور روزہ یادتھا توروزہ جاتارہاقضا واجب ہے کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ11: آپ ہی قے ہوگئی تو روزہ نہیں گیا چاہے تھوڑی سی قے ہوئی یا زیادہ۔ البتہ اگر اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کے تھی تو روزہ جاتارہا اور اگر اس سے تھوڑی ہو تو خود کرنے سے بھی نہیں گیا۔
مسئلہ12: تھوڑی سی قے آئی پھر آپ ہی آپ حلق میں لوٹ گئی تب بھی روزہ نہیں ٹوٹاالبتہ اگر قصدا لوٹالیاتو روزہ ٹوٹ جاتا۔
مسئلہ13: کسی نے کنکری یا لوہے کا ٹکڑا وغیرہ کوئی ایسی چیز کھالی جس کو نہیں کھایاکرتے اور نہ اس کو کوئی بطور دواکے کھاتاہے تواس کا روزہ جاتارہا لیکن اس پرکفارہ واجب نہیں اور اگر ایسی چیز کھالی یا پی لی جس کو لوگ کھایاکرتے ہیں یاکوئی ایسی چیز ہے کہ یوں تونہیں کھاتے لیکن بطور دوا کے ضرورت کے وقت کھاتے ہیں تو بھی روزہ جاتارہااور قضا وکفارہ دونوں واجب ہیں۔
مسئلہ14: روزے کے توڑنے سے کفارہ جب ہی لازم آتاہے جب کہ رمضان شریف میں روزہ توڑ ڈالے رمضان شریف کے سوا اور کسی روزے کے توڑنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا چاہے جس طرح توڑے اگرچہ وہ روزہ رمضان کی قضا ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ اگر اس روزہ کی نیت رات سے نہ کی ہو یا روزہ توڑنے کے بعد اسی دن حیض آگیا ہو تواس کے کو توڑنے سے کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ15: کسی نے روزہ میں ناس لیا( ہلاس یانسوار کو ناک میں چڑھایا) یا …حقنہ کرالیا اور پینے کی دوا نہیں پی تب بھی ر وزہ جاتارہا لیکن صرف قضا واجب ہے اور کفارہ واجب نہیں اور اگر کان میں پانی (یا دوا…از ناقل )ڈالا تو روزہ نہیں گیا۔
مسئلہ16: منہ سے خون نکلتاہے اس کوتھوک کے ساتھ نگل گئی تو روزہ ٹوٹ گیا البتہ اگر خون تھوک سے کم ہو اور خون کامزہ حلق میں معلوم نہ ہوتوروزہ نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ17: اگر زبان سے کوئی چیز چکھ کر تھوک دی تو روزہ نہیں ٹوٹا لیکن خواہ مخواہ ایسا کرنا مکروہ ہے ہاں ! اگر کسی کا شوہر بڑا بدمزاج ہو اور یہ ڈرہوکہ ا گر سالن میں نمک وغیرہ درست نہ ہوا تو ناک میں دم کردے گااس کو نمک چکھ لینا درست ہے اور مکروہ نہیں۔
مسئلہ18: کسی چیز کو اپنے منہ سے چباکرچھوٹے بچے کو کھلانامکروہ ہے البتہ اگر اس کی ضرورت پڑے اورمجبوری وناچاری ہوجائے تو مکروہ نہیں۔
مسئلہ19: کوئلہ چباکردانت مانجھنا اورمنجن (ٹوتھ پیسٹ )سے دانت مانجھنامکروہ ہے اور اگراس میں سے کچھ حلق میں اترجائے توروزہ جاتارہے گا اور مسواک سے دانت صاف کرنا درست ہے چاہے سوکھی مسواک ہو یا تازی اسی وقت کی توڑی ہوئی اگر نیم کی مسواک ہے اور اس کا کڑوا پن منہ میں معلوم ہوتاہے تب بھی مکروہ نہیں۔
مسئلہ20: کسی نے بھولے سے کچھ کھالیا اوریوں سمجھی کہ میراروزہ ٹوٹ گیا اس وجہ سے پھر قصدا ًکچھ کھالیاتواب روزہ جاتارہا فقط قضاواجب ہے کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ21: اگر کسی کو قے آگئی اور وہ سمجھی کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا اس گمان پر پھر قصداً کھا لیا اور روزہ توڑدیاتوبھی قضاواجب ہے کفارہ واجب نہیں۔
مسئلہ22: اگرسرمہ لگایا یاتیل ڈالاپھرسمجھی کہ میراروزہ ٹوٹ گیا اور پھر قصداً کھا لیا تو قضا اورکفار ہ دونوں واجب ہیں۔
مسئلہ23: رمضان کے مہینے میں اگر کسی کا روزہ اتفاقاٹوٹ گیا توروزہ ٹوٹنے کے بعد بھی دن میں کچھ کھانا پینا درست نہیں ہے سارے دن روزہ داروں کی طرح رہناواجب ہے۔
سحری اور افطاری
مسئلہ1: سحری کھاناسنت ہے اگر بھوک نہ ہو اور کھانا نہ کھائے تو کم سے کم دوتین چھوہارے ہی کھالے یا کوئی اور چیز تھوڑی بہت کھالے کچھ نہ سہی تو تھوڑا ساپانی ہی پی لے۔
مسئلہ2: اگر کسی نے سحری نہ کھائی اور اٹھ کر ایک آدھ پان کھالیا تو بھی سحری کھانے کا ثواب مل گیا۔
مسئلہ3: سحری میں جہانتک ہوسکے دیر کرکے کھانابہتر ہے لیکن اتنی دیر نہ کرے کہ صبح ہونے لگے اور روزہ میں شبہ پڑجائے۔
مسئلہ4: اگرسحری بڑی جلدی کھالی مگر اس کے بعد پان تمباکو چائے پانی دیر تک کھاتی پیتی رہی جب صبح ہونے میں تھوڑی دیر رہ گئی تب کلی کرڈالی تب بھی ثواب مل گیا۔
مسئلہ5: اگررات کو سحری کھانے کے لیے آنکھ نہ کھلی سب کے سب سوگئے تو بے سحری کھائے صبح کا روزہ رکھوسحری چھوٹ جانے سے ر وزہ چھوڑدینا بڑی کم ہمتی کی بات اور بڑا گناہ ہے۔
مسئلہ6: جب تک صبح نہ ہو اور فجر کا وقت نہ آئے …تب تک سحری کھانا درست ہے اس کے بعددرست نہیں۔ (آج کل رمضان المبارک میں مساجد وغیرہ میں سحری کے ختم ہونے کا وقت بھی بتلایا جاتا ہے لہذا جونہی سحری ختم ہونے کا کہا جائے تو فوراً کھانا پینا بند کردیں ورنہ روزہ نہیں ہوگا بعض خواتین اور مرد اس اعلان کے بعد بھی کھاتے رہتے ہیں اور فجر کی اذان تک کھانے پینے پر لگے رہتے ہیں یاد رکھیں یہ روزہ ہر گز نہیں ہوگا اور سارا دن بھوکا پیاسا رہنا کوئی فائدہ نہیں دے گا اور ذمہ میں روزے باقی رہیں گے اور رمضان کی مبارک گھڑیوں سے بھی محرومیت ہوگی بلکہ جیسے ایک روایت میں ہے کہ اگر ساری زندگی بھی روزہ رکھا جائے تو بھی رمضان کے روزے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے بہت پرہیز کریں کہ جونہی مسجد وغیرہ سے سحری ختم ہونے کا کہا جائے فورا کھانا پینا بند کردیں اور نماز فجر کی تیاری شروع کردیں …از ناقل
مسئلہ7: کسی کی آنکھ دیر میں کھلی اور یہ خیال ہواکہ ابھی رات باقی ہے اس گمان پر سحری کھا لی پھر معلوم ہواکہ صبح ہوجانے کے بعد سحری کھائی تھی تو روزہ نہیں ہواقضا رکھے اور کفارہ واجب نہیں لیکن پھر بھی کچھ کھائے پئے نہیں روزہ داروں کی طرح رہے۔ اسی طرح اگر سورج ڈوبنے کے گمان سے روزہ کھول لیا پھر سورج نکل آیا تو روز ہ جاتارہااس کی قضا کرے کفارہ واجب نہیں اور اب جب تک سورج نہ ڈوب جائے کچھ کھاناپینا درست نہیں۔
مسئلہ8: اگر اتنی دیر ہوگئی کہ صبح ہوجانے کا شبہ پڑگیا تو اب کچھ کھانامکروہ ہے اور اگر ایسے وقت کچھ کھالیا یا پانی پی لیا تو گناہ ہے پھر اگر معلوم ہوگیا کہ اس وقت صبح ہوگئی تھی تو اس روزہ کی قضا رکھے اور اگر کچھ نہ معلوم ہو شبہ ہی شبہ رہ جائے تو قضا رکھنا واجب نہیں ہے لیکن احتیاط کی بات یہ ہے کہ اس کی قضا رکھ لے۔
مسئلہ9: مستحب یہ ہے کہ جب سورج یقینا ڈوب جائے تو تب روزہ کھول ڈالے دیر کرکے روزہ کھولنا مکروہ ہے۔
مسئلہ10: بادل والے دن ذرادیر کرکے روزہ افطار کریں جب خوب یقین ہو جائے کہ سورج ڈوب گیا ہو گاتب افطار کرو۔
مسئلہ11: چھوہارے سے روزہ کھولنا بہتر ہے یااورکوئی میٹھی چیز ہواس سے افطار کرے وہ بھی نہ ہوتوپانی سے افطارکرے بعض خواتین اور بعض مرد نمک سے افطارکرتے ہیں اور اس میں ثواب سمجھتے ہیں یہ غلط عقیدہ ہے۔
مسئلہ12: جب تک سورج کے ڈوبنے میں شبہ رہے تب تک افطار کرنا جائز نہیں۔
کن وجوہ سے روزہ توڑدینا جائز ہے؟
مسئلہ1: اچانک ایسی بیمارپڑگئی کہ اگر روزہ نہ توڑا تو جان چلی جائے گی یا بیماری بہت بڑھ جائے گی تو روزہ توڑدینا درست ہے جیسے اچانک پیٹ میں ایسا درد اٹھا کہ بیتاب ہوگئی یاسانپ نے کاٹ لیا تو دوا پی لیا اور روزہ توڑدینا درست ہے ایسے ہی اگر ایسی پیاس لگی کہ مرجانے کا پورا قوی امکان تو بھی روزہ توڑ ڈالنا درست ہے۔
مسئلہ2: حاملہ عورت کوکوئی ایسی بات پیش آگئی جس سے اپنی جان کا یابچے کی جان جانے کا ڈر ہے توروزہ توڑڈالنا درست ہے۔
مسئلہ3: کھاناپکانے کی وجہ سے بے حد پیاس لگ آئی اور اتنی بیتابی ہوگئی کہ اب جان کا خوف ہے توروزہ کھول ڈالنا درست ہے لیکن اگر خود اس نے قصداًاتنا کام کیاجس سے ایسی حالت ہوگئی تو گناہ گارہوگی۔
کن وجوہ سے روزہ نہ رکھناجائز ہے؟
مسئلہ1: اگر ایسی بیماری ہے کہ روزہ نقصان کرتاہے اور یہ ڈر ہے کہ اگر روزہ رکھے گی تو بیماری بڑھ جائے گی یا دیر میں اچھی ہوگی یا جان جاتی رہے گی تو روزہ نہ رکھے جب اچھی ہوجائے تو اس کی قضا رکھ لے لیکن فقط اپنا دل سے ایسا خیال کرلینے سے روزہ چھوڑ دینا درست نہیں ہے بلکہ جب کوئی مسلمان د یندار طبیب کہہ دے کہ روزہ تم کو نقصان کرے گا تب چھوڑنا چاہیے۔
مسئلہ2: اگرحکیم یاڈاکٹر کافرہے یاشرع کاپابند نہیں ہے تواس کی بات کا اعتبارنہیں ہے فقط اس کے کہنے سے روزہ نہ چھوڑے۔
مسئلہ3: اگر حکیم نے تو کچھ کہانہیں لیکن خود اپنا تجربہ ہے اور کچھ ایسی نشانیاں معلوم ہوئیں جن کی وجہ سے دل گواہی دیتاہے کہ روزہ نقصان کرے گا تب بھی روزہ نہ رکھے اور اگر خود تجربہ کار نہ ہواور اس بیماری کا کچھ حال معلوم نہ ہو فقط خیال کا اعتبار نہیں اگر دیندار حکیم (ڈاکٹر )کے بغیر بتائے اور بغیر تجربے کے اپنے خیال ہی خیال پر رمضان کا روزہ توڑے گی تو کفارہ دینا پڑے گا اور اگر روزہ نہ رکھے گی تو گناہ گار ہو گی۔
مسئلہ4: اگر بیماری سے اچھی ہوگئی لیکن ابھی ضعف باقی ہے اوریہ غالب گمان ہے کہ اگر روزہ رکھا تو پھر بیمار ہوجائے گی تب بھی ر وزہ نہ رکھنا جائزہے۔
مسئلہ5: اگرکوئی سفر میں ہوتواس کے لیے بھی درست ہے کہ روزہ نہ رکھے پھر کبھی اس کی قضا رکھ لے اورسفر کے معنے وہی ہیں جس کا نماز کے بیان میں ذکر ہو چکا ہے
( یعنی 77 کلو میڑ …سفر شرعی …از ناقل ]
مسئلہ6: سفر میں اگر روزے سے کوئی تکلیف نہ ہو جیسے ریل پر سوارہے اور یہ خیال ہے کہ شام تک گھر پہنچ جائوں گی یا اپنے ساتھ سب راحت وآرام کاسامان موجود ہے تو ایسے وقت سفر میں بھی روزہ رکھ لینا بہتر ہے اور اگر روزہ نہ رکھے تب بھی کوئی گناہ نہیں ہاں رمضان شریف کے روزے کی جو فضیلت ہے ا س سے محروم رہے گی اورا گر راستہ میں ر وزہ کی وجہ سے تکلیف اورپریشانی ہو تو ایسے وقت روزہ نہ رکھنابہترہے۔
مسئلہ7: اگربیماری سے اچھی نہیں ہوئی اسی میں مرگئی یا ابھی گھر نہیں پہنچی سفر ہی میں مرگئی تو جتنے روزے بیماری یاسفر کی وجہ سے چھوٹے ہیں آخرت میں ان مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ قضارکھنے کی مہلت ابھی اس کو نہیں ملی تھی۔
مسئلہ8: اگربیماری میں دس روزے گئے تھے پھر پانچ دن اچھی رہی لیکن قضا روزے نہیں رکھے توپانچ روزے تو معاف فقط پانچ روزوں کی قضا نہ رکھنے پر پکڑی جائے گی اور اگر پورے دس دن اچھی رہی تو پورے دسوں دن کی پکڑ ہوگی اس لیے ضروری ہے کہ جتنے روزوں کا مواخذہ اس پر ہونے والاہے اتنے دنوں کا فدیہ دینے کے لیے وصیت کر جائے جب کہ اس کے پاس مال ہو۔
مسئلہ9: اسی طرح اگرسفر میں روزے چھوڑ دیے تھے پھر گھر پہنچنے کے بعدمرگئی تو جتنے دن گھر میں رہی ہے فقط اتنے دن کی پکڑ ہوگی اس کو بھی چاہیے کہ فدیہ کی وصیت کرجائے۔اگر روزے گھر رہنے کی مدت سے زیادہ چھوٹے ہوں توان کا مواخذہ نہیں ہے۔
مسئلہ10: اگرراستہ میں پندرہ دن رہنے کی نیت سے ٹھہرگئی تواب روزہ چھوڑنا درست نہیں کیونکہ شریعت میں اب وہ مسافر نہیں رہی، البتہ اگر پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہوتوروزہ نہ رکھنا درست ہے۔
مسئلہ11: حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو جب اپنی جان کا یابچہ کی جان کا ڈر ہو تو روزہ نہ رکھے پھر کبھی قضارکھ لے لیکن اگر اپناشوہر مالدارہے کہ کوئی اَنَّا(بچوں کو دودھ پلانے والی )رکھ کر دودھ پلواسکتاہے تو دودھ پلانے کی وجہ سے ماں کو روزہ چھوڑنا درست نہیں ہے۔البتہ اگر وہ ایسا بچہ کہ سوائے اپنی ماں کے کسی اور کا دودھ نہیں پیتا تو ایسے وقت ماں کو روزہ نہ رکھنادرست ہے۔
مسئلہ12: کسی اَنَّا(بچوں کو دودھ پلانے والی )نے دودھ پلانے کی نوکری کی پھر رمضان آ گیا اور روزہ سے بچہ کی جان کا ڈر ہے تواَنَّاکوبھی روزہ نہ رکھنادرست ہے۔
مسئلہ15: اسی طرح اگر کوئی دن کو مسلمان ہوئی یادن کو جوان ہوئی تواب دن بھر کچھ کھانا پینا درست نہیں ا گر کچھ کھالیاتواس روزہ کی قضا رکھنا بھی نئی مسلمان اور نئی جوان کے ذمے واجب نہیں ہے۔
مسئلہ16: سفر میں روزہ نہ رکھنے کا ارادہ تھا لیکن دوپہرسے ایک گھنٹہ پہلے ہی اپنے گھر پہنچ گئی یا ایسے وقت میں پندرہ دن رہنے کی نیت سے کہیں رہ پڑی اور اب تک کچھ کھایاپیا نہیں ہے تو اب روزہ کی نیت کر لینا درست ہے۔
فدیہ اور اس کے احکام کیا ہیں ؟
مسئلہ1: جس کو اتنا بڑھاپاہوگیاہوکہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی یا اتنی بیمار ہے کہ اب اچھے ہونے کی امید نہیں نہ روزے رکھنے کی طاقت ہے تو وہ روزے نہ رکھے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کوصدقہ فطر کے برابرغلہ دے دے یاصبح شام پیٹ بھرکے اس کو کھلادے شریعت میں اس کو ’’فدیہ‘‘ کہتے ہیں اوراگرغلہ کے بدلے اسی قدرغلہ کی قیمت دے دے تب بھی درست ہے۔
مسئلہ2: وہ فدیہ کا غلہ اگر تھورے تھوڑے کرکے کئی مسکینوں کو بانٹ دے توبھی صحیح ہے۔
مسئلہ3: پھر اگر کبھی طاقت آگئی یابیماری سے اچھی ہوگئی تو سب روزے قضارکھنے پڑیں گے اور جو فدیہ دیا ہے اس کا ثواب الگ ملے گا۔
مسئلہ4: کسی کے ذمہ کئی روزے قضاتھے اور مرتے وقت وصیت گرگئی کہ میرے روزوں کے بدلے فدیہ دے دینا تو اس کے مال میں سے اس کا ولی فدیہ دے دے اور کفن دفن اور قرض اداکرکے جتنا مال بچے اس کی ایک تہائی میں سے اگر سب فدیہ نکل آوے تو دینا واجب ہوگا۔
مسئلہ5: اگراس نے وصیت نہیں کی مگر ولی نے اپنے مال میں سے فدیہ دے دیا تب بھی خدا سے امید رکھے کہ شاید قبول کرلے اوراب روزوں کا مواخذہ نہ کرے اور بغیر وصیت کئے خود مردے کے مال میں سے فدیہ دینا جائز نہیں ہے اس طرح اگر تہائی مال سے فدیہ زیادہ ہوجائے تو باوجود وصیت کے بھی زیادہ دینا بغیر رضا مندی سب وارثوں کے جائز نہیں ہاں !اگر سب وارث خوش دلی سے راضی ہوجائیں تو دونوں صورتوں میں فدیہ دینا درست ہے لیکن نابالغ وارث کی اجازت کاشریعت میں کچھ اعتبار نہیں۔ بالغ وارث اپنا حصہ جدا کر کے اس میں سے دے دیں تو درست ہے۔
مسئلہ6: اگر کسی کی نمازیں قضاہوگئی ہوں اور وصیت کرکے مرگئی کہ میری نمازوں کے بدلے میں فدیہ دے دینا اس کابھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ7: ہروقت کی نماز کا اتنا ہی فدیہ ہے جتنا ایک روزے کا فدیہ ہے اس حساب سے دن رات کے پانچ فرض اور ایک وتر چھ نمازوں کی طرف سے ایک چھٹانگ کم پونے گیارہ سیردے مگر احتیاطاً پورے بارہ سیردے۔(قیمت کا اندازہ اپنے اپنے علاقے کے اعتبار سے لگائیں کیونکہ ہر علاقے میں نرخ متفاوت ہوتے ہیں مزید اپنے علاقے کے علماء اور مفتیان کرام سے اس مسئلہ کو خوب سمجھ لے …از ناقل
مسئلہ8: کسی کے ذمے زکوۃ باقی ہے ابھی ادانہیں کی تووصیت کرجانے سے اس کا بھی ادا کر دینا وارثوں پر واجب ہے، اگر وصیت نہیں کی اور وارثوں نے اپنی خوشی سے دے دی تو زکوۃ ادانہیں ہوئی۔
مسئلہ9: اگرولی مردے کی طرف سے قضاء روزے رکھ لے یا اس کی طرف سے قضا نمازیں پڑھ لے تو یہ درست نہیں یعنی اس کے ذمہ سے نہ اتریں گی۔
مسئلہ10: بغیر کسی وجہ کے رمضان کا روزہ چھوڑدینادرست نہیں اور بڑاگناہ ہے یہ نہ سمجھے کہ اس کے بدلے ایک روزہ قضا رکھ لوں گی کیونکہ حدیث شریف میں آیاہے کہ رمضان کے ایک روزے کے بدلے میں اگر سال بھر برابر روزے رکھتی رہے تب بھی اتنا ثواب نہ ملے گا جتنا رمضان میں ایک روزے کا ثواب ملتاہے۔
مسئلہ11: اگر کسی نے شامت اعمال سے روزہ نہ رکھا تواور لوگوں کے سامنے کچھ کھائے نہ پیے نہ یہ ظاہر کرے کہ آج میرا روزہ نہیں ہے اس لیے کہ گناہ کرکے اس کو ظاہر کرنا بھی گناہ ہے۔ اگر سب سے کہہ دے گی تو دہراگناہ ہوگا ایک تو روزہ نہ رکھنے کا دووسرا گناہ ظاہر کرنے کا۔ یہ جو مشہور ہے کہ ’’خدا کی چوری نہیں تو بندے کی کیاچوری؟‘‘یہ غلط بات ہے بلکہ جوکسی عذر سے روزہ نہ رکھے اس کو بھی مناسب ہے کہ سب کے روبرونہ کھائے۔
مسئلہ12: جب لڑکایالڑکی روزہ رکھنے کے لائق ہوجائیں تو ان کو بھی روزہ کاحکم کریں اور جب دس برس کی عمر ہوجائیں تو مارکرروزہ رکھوائیں اگر سارے روزے نہ رکھ سکے تو جتنے رکھ سکے رکھوائیں۔
مسئلہ13: اگرنابالغ لڑکالڑکی روزہ رکھ کرتوڑڈالے تواس کی قضانہ رکھوائیں البتہ اگر نماز کی نیت کرکے توڑدے تواس کو دوبارہ پڑھوائیں۔
اعتکاف کیسے کیا جائے؟
رمضان شریف کی بیسویں تاریخ کے دن سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے رمضان کی انتیس یاتیس تاریخ یعنی جس دن عید کا چاند نظر آئے اس تاریخ کے سورج غروب ہونے تک اپنے گھر میں جہاں نماز پڑھنے کے لیے جگہ مقرر کر رکھی ہو اس جگہ پر پابندی سے جم کر بیٹھے اس کو ’’اعتکاف ‘‘کہتے ہیں اس کا بڑا ثواب ہے اگر اعتکاف شروع کرے تو فقط پیشا ب پاخانہ یا کھانے پینے کی ناچاری سے تووہاں سے اٹھنا درست ہے اور اگر کوئی کھانا پانی دینے والا ہو تو اس کے لیے بھی نہ اٹھے۔ہروقت اسی جگہ رہے اور وہیں سوے اور بہتر یہ ہے کہ بیکار نہ رہے قرآن پڑھتی رہے نفلیں اور تسبیحات جوتوفیق ہو اس میں لگی رہے اور اگر حیض یا نفاس آجاوے تو اعتکاف چھوڑ دے اس میں درست نہیں اور اعتکاف میں مرد سے ہمبستر ہونا لپٹنا چمٹنا بھی درست نہیں۔