میرا کوئی نہیں اللہ تیرے سوا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
میرا کوئی نہیں اللہ تیرے سوا
……محمد نواز باذوق،بالاکوٹ
ایک بزرگ اپنے متعلقین سے فرمارہے تھے:”جفا نہ کیا کرو!،جفا کہتے ہیں بے وفائی کو۔ ایک صاحب نے پوچھا: حضور !بے وفائی سے کیا مراد ہے؟ فرمانے لگے بے وفائی تین طرح کی ہوتی ہے۔
(1) اللہ تعالیٰ سے بے وفائی
(2) مخلوق ِ خدا سے بے وفائی
(3) اپنے آپ سے بے وفائی
پھر وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ، وہی رزق اور باقی نعمتیں دیتا ہے اگر اس کا کھا کر کسی دوسرے کو اس کا شریک ٹھہرائیں گے تو یہ اللہ تعالی سے بے وفائی ہو گی۔
لوگوں کو تکلیف پہچانا، مخلوق کے ساتھ بے وفائی ہے،احکم الحاکمین کے حکموں کو توڑنا ، گناہ کرنا اپنے آپ کے ساتھ بے وفائی ہےاس لیے کہ اس طرح سے انسان اپنے آپ کو جہنم میں لے جانے کے قابل بنادیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ انسان گناہ سے بچے تو ان تین طرح کی بے وفائیوں سے بچ جاتا ہے۔ اب گناہ کیا ہیں؟ یہ الگ اور بہت وسیع عنوان ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں حق تلفی کرنا کلہم گناہ ہے۔ کلہم کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، گناہ ہی ہوتا ہے۔
جی ہاں! مومن گناہ کو اس طرح سمجھتا ہے جیسے کوئی بچھو ہوتا ہے آپ دیکھتے ہیں بچھو چھوٹا ہو یا بڑا ہر کوئی اس کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے آپ نے کسی ایسے آدمی کو نہیں دیکھا ہوگا جو اپنے ہاتھ میں بچھو پکڑنے کی کوشش کررہا ہوکیونکہ اس میں زہر ہوتا ہے اسی طرح گناہ چھوٹا ہو یا بڑا بہرحال اس میں خدا کی نافرمانی ہوتی ہے۔
ہمارے اسلاف کے نزدیک گناہ آگ کے انگارے کی مانند ہے۔ انگارہ چھوٹا ہو یا بڑا ہاتھ لگانے سے ہاتھ کو جلادیتا ہے بلکہ اگر چھوٹے انگارے سے غفلت برتی جائے تو بسا اوقات بھڑک اٹھتا ہے اور آگ لگا دیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گناہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کل ما نہی عنہ فھو کبیر ہر وہ کام جس سے شریعت نے بچنے کا حکم دیا ہے وہ ”کبیرہ گناہ “ہے۔ بلکہ شیطان انسان کی نگاہ میں گناہ کو ہلکا پھلکا کر کے پیش کرتا ہے یہ اس کا ایک بڑا وار ہے اور گناہ کے بارے میں دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ یہ گناہ تو اکثر کرتے رہتے ہیں یہ تو ہو ہی جاتا ہے اس سے بچنا تو بہت مشکل ہے وہ انسان کی نگاہوں میں گناہوں کو اس لیے چھوٹا کر کے پیش کرتا ہے کہ انسان گناہ کرتا ہی رہے۔
اس لیے فاسق گناہ کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کوئی مکھی بیٹھی تھی اس کو اڑا دیا جب کہ مومن گناہ کو ایسا سمجھتا ہے جیسے سر کے اوپر کوئی پہاڑ رکھ دیا، اور شیطان مومن کو گمراہ کرنے کے لیے کئی مرتبہ گناہ کو مزین کر کے پیش کرتا ہے۔
اب یہاں ہر انسان بڑی آزمائش میں ہوتا ہے ایسے حالات میں بندے کے لیے ضروری ہے کہ حکم خدا کو حکم خدا سمجھے اور اپنے دل میں عظمت الہٰی اتنی بٹھائے کہ حکم خدا کے خلاف اس کے ذہن میں خیال بھی پیدا نہ ہو۔
جب انسان گناہ صغیرہ پر اصرار کرتا رہتا ہے پھر وہ آہستہ آہستہ کبیرہ بن جاتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں ایک قول بہت مشہور تھا اکثر صحابہ گفتگو کے دوران ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے
لا صغیرۃ مع الاصرار ولا کبیرۃ مع الاستغفار
اصرار سے کوئی گناہ صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار سے کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا۔گناہ؛ گناہ ہی ہوتا ہے چھوٹا ہو تب بھی، بڑا ہو تب بھی۔ ہمارے بالاکوٹ کی زبان میں ایک مثال مشہور ہے ”چوری ککھ دی ہووے یا لکھ دی ہووے چوری ہی ہوندی اے“ یعنی چوری ایک روپے کی ہو یا ایک لاکھ کی ،چوری ہی ہوتی ہے۔ گناہ بڑا ہوتا ہے بلکہ چھوٹا بھی اللہ کے ہاں بڑا ہی شمار ہوتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وتحسبونہ ھینا وھو عند اللہ عظیم
تم گناہ کو چھوٹا سمجھتے ہو حالانکہ اللہ کے ہاں وہ بہت بڑی بات ہے۔
گناہ بہت بڑا ہوتا ہے مگر چار چیزیں گناہ سے بھی بڑی ہوتی ہیں :
(1): گناہ کو ہلکا سمجھنا، اگر کوئی بندہ گناہ کا مرتکب ہوجائے اسے چاہیے کہ وہ گناہ کو گناہ تو سمجھے۔ گناہ کو ہلکا سمجھنا یہ گناہ سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔
(2): گناہ کر کے خوش ہونا ،ہمارے معاشرے میں یہ صفت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔مثلاً عورتیں کہتی ہیں: دیکھا میں نے اسے جلانے کے لیے بات کی تھی۔ اب اس جملے سے اس کا مقصد دوسرے کا دل دکھانا ہے اور یہ ایذائے مسلم ہے جو کہ گناہ ہے اور یہ گناہ پر خوش ہونے والی بات ہے اس طرح کے بے شمار گناہ عورتوں کی فطرت میں ہوتے ہیں ،مثلا ً:غیبت، شکوہ، شکایت، حسد، کینہ، طعنہ زنی اور تنقید وغیرہ۔
حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی میں ہوں، مسلمان وہ ہے جو نہ کسی کو زبان سے تکلیف دے اور نہ ہی ہاتھ سے۔
(3): گناہ پر اصرار کرنا، یعنی ایک گناہ کو باربار کرنا بہت محض گناہ کرنے سے بڑا جرم ہے۔
(4): گناہ پر فخر کرنا، گناہ پر اترانا اور فخر کرنا بھی محض گناہ سے زیادہ بڑا جرم ہے۔
آج گناہ کو گناہ ہی سمجھنے کی وجہ سے معاشرے میں یا پوری دنیا میں زوال کے بادل منڈلارہے ہیں ہر طرف خرابی ہی خرابی ہے۔ فقیہہ ابو لیث ثمر قندی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”تنبیہہ الغافلین“ میں فرماتے ہیں: گناہ کرنے سے دس خرابیاں پیدا ہوتی ہیں:
(1): اس شخص سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں۔
(2): وہ شیطان کو خوش کرتا ہے۔
(3): وہ جہنم کے قریب ہوجاتا ہے۔
(4): وہ جنت سے دور ہوجاتا ہے۔
(5): وہ اپنے نفس کے ساتھ بے وفائی کرتا ہے گویا اس نے اس کو آگ میں پڑنے کے قابل بنادیا۔
(6): وہ اپنے نفس کو ناپاک کرتا ہے ہر گناہ باطن نجاست کی مانند جس طرح ظاہر نجاست پانی سے دھلتی ہے اسی طرح گناہ کی نجاست توبہ سے دھلتی ہے۔
(7): وہ اپنی نگرانی پر معمور فرشتوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔
(8): نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں غمگین کرتا ہے ، ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارے اعمال اجمالی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیے جاتے ہیں۔
(9): وہ باقی مخلوق کے ساتھ خیانت کرتا ہے اس لیے کہ گناہ کے صدور سے اترنے والی برکتیں بسا اوقات رک جاتی ہیں، مثلاً بارش وغیرہ رک جاتی ہے باقی مخلوق بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔
(10): انسان جہاں گناہ کرتا ہے زمین کے اس ٹکڑے کو اپنے خلاف گواہ بنالیتا ہے قران کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
یومئذ تحدث اخبارہا بان ربک اوحیٰ لہا
اس دن کہہ دے گی (زمین) اپنی باتیں اس لیے کہ تیرے رب نے حکم بھیجا ہے اس کو۔
اس دن انسان کی زبان بند ہو جائے گی زمین کا وہ حصہ جہاں گناہ کیا ہوگا وہ بھی اس کے خلاف گواہی دے گا گناہ میں شمار جسم کے کے ہر ہر اعضاء بولیں گے اور انسان جہنم میں جانے کا حقدار بن جائے گا۔ گویا کہ اس نفس کی بے وفائی کی وجہ سے انسان آگ میں جلے گا۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان خوشی میں خدا کو بھول جاتا ہے دنیا میں مگن ہوجاتا ہے اللہ تعالی سے بے وفائی کرجاتا ہے پھر جب اللہ تعالی کی طرف سے پکڑ آتی ہے تو منہ کھل کر آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے پھر اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتا ہے استغفار کرتا ہے اپنے کیے پر ندامت ہوتی ہے مگر اللہ رب العزت علیم بذات الصدور ہیں دلوں کے بھید جانتے ہیں اگر یہ تو بہ یا استغفار اخلاص پر مبنی ہے اس کے ساتھ رحمت والا معاملہ فرماتے ہیں اگر اس توبہ کے اندر اخلاص نہیں یا استغفار کے اندر ندامت نہیں تو پھر یہ توبہ اور ندامت کسی کام کی نہیں۔ استغفار ندامت کے بغیر بے فائدہ ہے بلکہ کئی کام ایسے ہیں جو بے فائدہ ہیں:
(1): انسان یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کا میرے دل میں بہت خوف ہے مگر وہ گناہوں کو نہ چھوڑے یہ خوف بے فائدہ ہے۔
(2): انسان یہ سمجھے مجھے اللہ تعالیٰ سے بہت امیدیں ہیں مگر وہ عمل کرنے کی کوشش نہ کرے یہ امید بے فائدہ ہے۔
(3): آدمی اللہ تعالی سے دعا تو مانگے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ پر حسن ظن نہ ہو یہ دعا بے فائدہ ہے۔
(4): اصلاح باطن کے بغیر ظاہر بے فائدہ ہے۔
(5): اخلاص کے بغیر عمل بے فائدہ ہے۔
ہے عمل لازم تکمیل تمنا کے

لیے

ورنہ رنگین خیالات سے کیا

ہوتا ہے

بے عمل دل ہو تو جذبات سے

کیا ہوتا ہے

دھرتی بنجر ہو تو برسات سے

کیا ہوتا ہے

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توبۃالنصوح یہ ہے کہ تم گناہ سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سے اتنی ہی نفرت کرنے لگو کہ جس قدر تم کو اس سے پہلے اس گناہ کے کرنے کی رغبت تھی۔
تفسیر مظہری میں ہے:توبۃ النصوح چار چیزوں کا مجموعہ ہے:

زبان سے استغفار

اسباب گناہ کو چھوڑنا یعنی فاسق فاجر لوگوں سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہوجانا۔

اپنے دل کو حسد کینہ وغیرہ سے خالی کرے ،کیونکہ سینے میں کینہ اور حسد بھرا ہوا ہو یا انتقام نفرت دشمنی بھری ہوتی ہو تو اس توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔

موت کی تیاری میں لگ جائے۔
جس بندے نے یہ کام کر لیے وہ سمجھ لے کہ اللہ نے مجھے توبۃالنصوح کی توفیق عطا فرمادی وہ مجھ سے راضی ہوگیا۔
میں تیرے سامنے جھک

رہا ہوں اے خدا

میرا کوئی نہیں اللہ تیرے

سوا