پمن کی دادی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پمن کی دادی
……صائمہ علی
وہ ایک ایسی ہستی تھی جو اپنے چہروں کی لکیروں میں بہت دکھ بھری ایک داستان چھپا کے بیٹھی تھی جو مجھے ہر رشتے سے عزیز تھی، بہت بلند ہمت اورمضبوط ارادہ والی صبر و رضا کا پیکر تھی۔ مگر وہ اب میرے پاس نہیں۔ جب اس کی زندگی میں ازدواجی دور شروع ہوا تو وہ ایک باوفا اور دکھ سکھ میں شریک خدمت گار بیوی کے روپ میں میرے دادا جی کے گھر میں بسنے لگی۔ گھر کا سکون اور راحت اسی خاتون کی مرہون منت تھا ،مہمان نواز ی میں اپنی مثال نہیں رکھتی تھی ، اڑوس پڑوس کی خبر گیری اس کا امتیازی وصف تھا۔ نماز کی بہت پابند اور قرآن کریم کی کثرت کے ساتھ تلاوت کیا کرتی ، گھریلو کام کاج میں صبح سے شام تک مگن رہتی ، گھر میں ترتیب سے رکھی اشیاء اس کے حسنِ ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ اللہ تعالی نے تھوڑے عرصے بعد ان کی گود ہری کر دی ، اب مصروفیات میں بچوں کی نگہداشت اور ان کی تربیت بھی شامل ہوگئی ، دو بیٹیاں اور تین بیٹے یکے بعد دیگرے ان کے آنگن میں کھل اٹھے۔
ان کو اپنے حوصلے اور ہمت سے پالا تھا،عورت زاد ہو کر غربت ، فقر اور زمانے کی تلخیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ لیکن صبر و شکر کا دامن نہیں چھوڑا۔ دو کپڑوں میں اپنی زندگی کا ایک حصہ بِتا دیا۔ کبھی اپنی زبان اور دل و دماغ کو خدا کی ناشکری جیسے مہلک مرض کا شکار نہیں ہونے دیا اور اپنے اللہ اور قرآن سے واسطہ جوڑے رکھا۔ خدا نے بھی اس پر مہربانی کی حد کر دی وہ دعا مانگتی گئی اللہ کریم اسے نوازتا گیا۔
بیٹوں کے سروں پر سہرے سجائے ، ان کی سیجیں سجائی، بیٹیوں کے ہاتھ بھی پیلے کیے اپنی اولاد کو زمانے میں عزت سے جینا سکھایا ، معاشرے میں دین داری ، دنیا داری ، رواداری ،امور خانہ داری ، اخلاق اور مروت سے آشنا کیا۔ زمانے کی تلخیوں سے لڑنا سکھایا ، جب بیٹیاں بھی اپنے اپنے گھروں کو چل دیں اور بیٹے بھی ازدواجی بندھن میں بندھ گئے ، گھر میں میری دادی ماں کی بہورانیاں آئیں اور پورے گھریلو نظام کو دادی کے بوڑھے کندھوں سے اتار کر اپنی تحویل میں لے لیا تو میری دادی نے گھر کے ایک کونے میں اپنی زندگی کی شامیں گزارنا شروع کر دیں۔
اب اس کی زندگی کی نحیف سانسیں دکھ کا دریا موڑ رہی تھی ،وہ ایک زمانے کی منجھی ہوئی خاتون تھی ، وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھی ، مجھے ہر بات ایک استاد کی طرح سمجھاتی تھی ،مجھے پیار سے پمن کہتی۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اور میری دادی نےچار سال ایک کمرے میں ایک ساتھ گزارے۔ دن کمرے میں اور رات صحن میں، وہ ایک ماں تھی جس کی ممتا اپنی اولاد کے لیے تڑپتی کہ وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کریں۔ اس نے پھر بھی اپنی اولاد کے لئے دعا ئیں مانگیں، ماں جو تھی، رب نے اس کی دعا سنی اور اس کی اولاد کو اللہ نے ہر نعمت دی اور ان پر خوشی کے دن آئے۔
اللہ کی طرف سےایک امتحان ابھی بھی باقی تھا ان کو کینسر جیسا مہلک اور جان لیوا مرض لاحق ہو گیا میں دادی کو سہارا دے کر کھانا کھلاتی وہ رات کا انتظار کر تی کہ میری اولاد میرے پاس آئے مگر روز ان کو اس انتظار میں نیند آجاتی،نیند تو روز آتی مگر اولاد کبھی کبھی۔ ایک دن مجھے کہا پمن بیٹی! مجھے اٹھاؤ! پھر فورا کہا لٹا دو ان کا سر میری گود میں تھا ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں اور ان کی زندگی میں سکون آرہا تھا اور ان کی زبان سےکلمہ بلند ہو رہا تھا اللہ نے ان کو بلا لیا اور میری دادی میری دنیا تاریک کر کے اپنی آخرت روشن کرکے چل بسی۔