نافرمانی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">نافرمانی

………بنت ِمسعود، کراچی
جہاز کے ارد گرد بگلے جیسے سفید بادل کے ٹکڑوں کے منظر نے روح میں تراوٹ بھردی تھی، سورج کی طلائی کرنوں میں نہائے یہ ٹکڑے قدرت کی صنّاعی کا بہترین مظہر تھے۔ میں سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے محویت سے اس حسین منظر میں گم تھی، جب کہ میرے شوہر ہمیشہ کی طرح دوران سفر بھی اپنے دفتر کا باقی ماندہ کام لیپ ٹاپ پر نمٹا رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر اور غافل ان کے دفتری کام میں اس حد تک انہماک پر؛ جہاں میں کبھی زچ ہوتی تو کبھی جھگڑتی مگر آفریں ہے کہ ان صاحب کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ اسی کھینچا تانی اور کش مکش میں بعض اوقات شگوفے بھی کہتے جیسا کہ پچھلے دنوں عیدالاضحیٰ کی چھٹیوں میں بھی وہ مجھے اور بچوں کو بہلا پھسلا کر آفس کا کام کرنے کا کچھ وقت نکال ہی رہے تھے۔
اب چونکہ کام تو ہر وقت اعصاب پر سوار ہی رہتا تھا لہٰذا ایک رات سوتے ہوئے محترم بڑبڑائے”ہاں ہاں کیپری کورن والے نے گائے کی سب سے مناسب قیمت دی ہے اسی کو فائنل کریں گے۔“عید الاضحیٰ میں گائے ،بکروں اور آفس کی فکروں نے مل کر ایک مزیدار جملہ بنوادیا جو ہفتوں مہمانوں کو خوش کرنے کے لیے نقل کیا جاتا رہا۔
”سنیے“اچانک مجھے یاد آیا اتفاق سے یہ موقع بلکہ سنہری موقع ملا ہے کہ جس میں مَیں اپنی ”ماسی“کے متعلق انہیں بتاسکوں۔
”سنائیے“ ہنوز اسکرین پر نظریں جمائے مسکراتے لہجے میں گویا ہوئے۔
ایسے نہیں بہت اہم بات ہے پہلے یہ بند کریں، میرے اٹل مطالبے پر پہلے تو پریشان ہو کرسر کھجلاتے ہوئے بولے :”بند کردوں؟ مگر میں تو ابھیskype پر login ہوں۔ “اچھا چلو! اس کا بھی حل ہے۔ اور پھر 5 منٹ کا اشارہ کر کے عثمان کے لیے اس کی پسندیدہ گیم ڈاؤن لوڈ نگ پر لگا کر میری طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی خود کو جبری فراغت دینے پر میرا دل کلس کر رہ گیا، گویا لیپ ٹاپ سے لمحاتی جدائی بھی بڑی مشکل ہے میں نے کینہ توز نگاہوں سے لیپ ٹاپ کو دیکھا اور سر جھٹک کر اپنی بات کا سرا پکڑا۔
ابھی سردیوں میں جس ماسی نے ہمارے ہاں کپڑے دھوئے تھے کیا آپ کو یاد ہے؟ میرے استفسار پر جواب دیا۔ ہاں ہاں!وہی ماسی ناں جو اپنی دو سال کی بچی بھی لے کر آتی تھی؟ جی وہی پتہ ہے وہ اپنے گاؤں گئی ہوئی تھی تو وہاں سیلاب آگیا، وہ بے چاری اسی مصیبت میں پھنس گئی تھی،جبھی ایک دم غائب ہوئی تھی۔ اف خدایا…… اس قدر برا حال ہے…… پرانے کپڑے پہنے ……ستے ہوئے پیلے زرد چہرے…… جس پر خوف و دہشت جیسے چپک کر رہ گئے ہوں……… بچے صرف بنیان اور نیکروں میں……. اور سب کے جسموں پر موٹے موٹے کریہہ دانے …… سب سے بڑھ کر کہ بے چاری نجانے کیسے سمیٹ سماٹ کر یہاں تک پہنچ گئی تھی۔ بھوک کے مارے سب گویا گرے جارہے تھے میں نے صابرہ سے سب سے پہلے کھانا لگانے کا کہا پھر کھا کر بچے تو بے چارے اتنے تھکے ہوئے تھے کہ وہیں دسترخوان کے پاس پڑ کے سوگئے اور کلثوم نے کہانی سنائی۔
بتا رہی تھی کہ اس کے شوہر نے جب آکر بتایا کہ اعلان ہوگیا ہے بستی چھوڑنے کا ،جلدی چلو !تو وہ ضرورت کی اہم چیزیں اٹھانے لگی یہ دیکھ کر اس کا شوہر چیخ اٹھا کہ باہر پانی دِکھ رہا ہے بس حواس باختہ گرتے پڑتے سوا مہینے کا چھوٹا بچہ لے کر بھاگی۔ کہنے لگی :باجی !باہر آکر جو دیکھا تو لگتا تھا کہ اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا ہو۔ پانی کے غضبناک ریلے اور منہ زور لہریں بڑے بڑے درخت جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک رہے تھے، عمارتیں نمک کی طرح گھلی جارہی تھیں۔ اپنی آنکھوں سے چیخیں مارتے بچے اور بوڑھے دیکھے، لہریں انہیں اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی تھیں اور وہ دم توڑ رہے تھے، بڑی بڑی مچھلیاں سن سن دائیں بائیں گزر رہی تھیں۔ سمندری خوفناک کیڑے تو کیڑے سمندری سانپ بھی تیرتے آرہے تھے، یہاں تک کہ پرانے دفن شدہ مردوں کی لاشیں اوپر آکر ہمارے ارد گرد تیر رہی تھیں خوف اور دہشت کی شاید کوئی چیز نہ بچی ہو جو ہم نے نہ دیکھی ہو بس ایک بات ذہن میں تھی کہ اللہ بس جان بچالے۔دل یہ سوچ سوچ کہ کانپ رہا تھا کہ میرا ایک بھی بچہ نہ رہا تو کیا ہوگا؟
میں نے پوچھا: کھانے پینے کا کیا ہوتا تھا؟
کہنے لگی: کبھی امدادی ٹیمیں دینے آتیں کبھی ہیلی کاپٹر سے پھینکتے خشک ڈبل روٹیاں یا چاول لوگ اس قدر بھوکے ہوچکے تھے کہ لانے والوں پر ایک دم ہلہ بول دیتے جس سے بعض دفعہ کھانا بھی ضائع ہوجاتا اور وہ ڈر کر پھینک جاتے اور پانی بھی کبھی بوتلیں مل جاتیں اور کبھی …………
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ میں نے گھبرا کر پوچھا کہ ہاں کلثوم بتاؤ ناں !اگر نہ ملیں تو کیا وہی سیلاب کا پانی پی لیتے تھے؟ سوال پوچھتے ہوئے میرا جی متلا گیا وہ نظر چرا کر بولی پھر کیا کرتے باجی زندہ رہنے کے لیے کچھ تو کرنا تھاناں۔
لیکن یہ ساری تکلیفیں ایک طرف اوروہ اذیت بھری خبر ایک طر ف۔ کہنے لگی امدادی ٹیمیں آئیں اور جہاں جہاں خشک زمین تھی وہاں کیمپ لگا کر ہمیں منتقل کرنے لگیں، دو تین دن ہی گزر تھے کہ خشک ہوتے آنسو پھر ابل پڑے چُور چُور جسم والے لوگ جب پیٹ بھر کر سوئے تو؛ دو تین راتیں تو محسوس بھی نہ ہوا ، مگر پھر سب چونکنا شروع ہوئے، کھانے میں نشہ ملا کر دیا جاتا تھا اور راتوں رات لڑکیا ں اور عورتیں غائب ہوجاتیں۔
یہ بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے !!!!!کون تھے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب دیکھنے کے باوجود اتنی ڈھٹائی سے ایسا شرمناک کھیل کھیل رہے تھے؟ میرے سوال پر میرے شوہر نے ایک سرد آہ بھری۔
بتائیے ناں اشعر !کیا کوئی مسلمان اتنا بھی گر سکتا ہے؟ میں نے پھر سوال کیا یہ در اصل امدادی ٹیموں میں گھس کے جانے والی کالی بھیڑیں تھیں اور کوئی ضروری نہیں کہ وہ واقعی مسلمان ہی ہوں ایسے لوگ تو درحقیقت لا مذہب ہتے ہیں ان کا دین ایمان صرف پیسہ ہوتا ہے صرف پیسہ۔
میں سوچنے لگی کہ واقعی مسلمان کے لیے تو یہ سننا ہی کافی ہوتا ہوگا اسی سے اتنی عبرت حاصل ہورہی ہے کجا یہ کہ جنہوں نے خود یہ خونیں مناظر دیکھے ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مسلمانوں کے اعمال اس حد تک خراب ہوچکے ہیں اور نافرمانی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کہیں سیلاب تو کہیں زلزلے کی صورت میں تنبیہ آتی ہے کہ سنبھل جاؤ، اب بھی وقت ہے۔
میں انہی سوچوں میں ہی گم تھی کہ ایئر ہوسٹس نے بیلٹس باندھنے کی ہدایت کی کیونکہ جہاز لینڈ کرنے کا وقت آچکا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی ہمارا پر تپاک استقبال ہوا ، اس کے بعد میرے میاں تو اپنی والدہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئے اور ممتا سے سیراب ہونے لگے، عثمان نے جو اپنے بابا کو لاڈ اٹھواتے دیکھا تو چپکے سے چھیڑا۔ ماماز بوائے، در اصل اشعر؛ عثمان کو اس کی بچگانہ ضدوں کہ ماما کے ہاتھ سے کھانا ہے، ماما کے ساتھ سونا ہے، پر ماماز بوائے کہہ کر چھیڑتے ہیں لہذا یہی وہ مناسب وقت تھا کہ وہ اپنا بدلہ لیتا ،سب باپ بیٹا کی کہانی سن کر ہنسنے لگے۔
شادی کے کچھ مہینوں بعد ہی اشعر کا تبادلہ ابراڈ ہوگیا تھا اسی لیے مجھے بھی جانا پڑا، عید بقر عید کے علاوہ یہ پہلا موقع تھا جس میں ہم پاکستان آئے تھے اور یہ موقع میرے جیٹھ کے بیٹے کی شادی کی صورت تھا۔
میری شادی کے بعد یہ میرے سسرال میں آنے والی پہلی شادی تھی، میں بہت پُر جوش تھی، رات کے کھانے کے بعد عثمان تو چونکہ بچہ تھا قانون فطرت پر چلنے والا، لہذا سوگیا جب کہ ہم سب بھابھیوں اور نندوں نے لاؤنج میں ڈیرا ڈال لیا۔ دیور چونکہ میرے شرعی پردے کی وجہ سے اس محفل میں شریک نہیں ہوسکتے تھے لہٰذا وہ اشعر کے ہمراہ کمرے میں جمع ہوگئے۔
خواتین کا پہلا انٹرسٹ سجنا ،نورنا ٹھہرا۔ لہٰذا اب سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے سے ہم شادی کے موقع پر پہنے جانے والے ملبوسات دکھا دکھا کر آپس میں رائے لے رہی تھیں، تم اپنی شادی کا شرارہ کیوں نہیں پہن رہی ؟ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے ؟یہ جملہ یقینی طور پر میری ساس کا تھا، ہماری ساس نے تو ہمیں پہلے بچے کی پیدائش تک ہر جگہ نتھ تک پہنوائی تھی سب مسکرائے۔
امی مگر اب شرارہ پہن کر میں لگوں گی کیسی؟اتنی موٹی ہوگئی ہوں سب کہیں گے کہ پانڈہ آرہا ہے۔اشعر نے اندر داخل ہوتے ہوئے میری بات مکمل کی اور ایک قہقہہ لگایا۔ لو خوامخواہ میری ساس برا مان گئیں ایسی صحت تو شادی کے بعد ہر بیاہتا کی ہونی چاہیے، ہمارے ہاں تو فخر کیا جاتا ہے کہ سسرال کا پانی لگ گیا روپ گنا جاتا ہے۔ اشعر نے کشن پر اوندھے ہو کہ باقاعدہ بد ہضمی کی (بات ہضم نہ ہونے کی) ایکٹنگ شروع کردی۔ آہم۔ آہم۔ تم چپکے رہو اب کے انہوں نے براہ راست گھر کا۔
اچھا سب چھوڑیں پہلے یہ بتائیں کہ وہاں پردے کا انتظام ہوگا ناں؟ متوقع اندیشے کے پیش نظر میں نے پوچھا۔ ہاں ہاں! کیوں نہیں ،ندیم ہے تو تمہارا بھتیجا مگر ہم نے اسے بچپن سے پالا ہے وہ ہماری بات نہیں ٹالتا اور اس کی دلہن بھی۔ اتنی بات ضرور ہے کہ ہماری بات ہمیشہ مانتی ہیں، ان کی وضاحت پر میں مطمئن ہوگئی۔
چلیں! اچھا ہے۔ اصل میں نیر بھابھی اور ان کے میکے والے ماڈرن ہیں اسی لیے پوچھ رہی تھی۔ اب دیکھیں ناں وہاں میرے علاوہ اور بھی بہت سی قریبی رشتے دار خواتین پردہ کرتی ہیں، میری بات سمجھ کر میری نند نے سر ہلایا۔ بھابھی امی نے بات تو کی تھی اگر ندیم بھائی دوبارہ آئے تو ٹھیک ورنہ خاص طور پر فون پر یاد کرادیں گے میں اس پر بالکل مطمئن ہوگئی۔
رات سوتے ہوئے ہی دیر تک منصوبے بناتی رہی کہ کیا پہنا جائے؟ میک اپ کہاں سے کرایا جائے؟ اور حسین تر کیسے لگا جائے؟ گھر کی شادی ہو اور افراتفری نہ ہو ،یہ ہو نہیں سکتا۔ صبح سے فیشل بلیج یہاں تک کہ آخری دن بھی کوئی ایک میچنگ جیولری کے لیے روری تھیں ،لہٰذا شارٹ نوٹس پر ایک مختصر شاپنگ ٹرپ ہی ضروری ہوا، اسی آپا دھاپی میں مَیں نے پھر یاد دلایا کہ پردے کا تو پوچھیں! تحقیق پر معلوم ہواتو گویا ارمانوں پر اَو س پڑی، حسب توقع مخلوط تقریب تھی، میں نے کہا :زور ڈالیں کہ اب بھی علیحدہ ہوسکتا ہے، آڈر دے دیں۔ جواب ملا :بہت بڑے ہال میں (مہنگی) تقریب ہے اس لیے نہیں ہوسکتا۔ اس عذر لنگ پر میں بھنا گئی، ساری تیاری اور جوش و خروش دھرا کا دھرا رہ گیا اوپر سے سسرال والوں کا اصرار وہاں تو زور چلا نہیں اور یہاں سارا زور صَرف۔ بری بات ہوگی سب محسوس کریں گے ،تم ایک طرف پردہ کر کے بیٹھ جانا، اچھا ہم جائیں گے نہیں تو بری بات ہوگی اور وہ جو ہمارا باہر سے آنے کا بھی خیال نہیں کررہیں، کیا تھا جو علیحدہ انتظام کرلیتے، میں کلس کر رہ گئی۔
کونے میں بیٹھنے کی بات نہیں ،وہاں صرف مخلوط تقریب نہیں بلکہ جو گانا یا میوزک بھی ہوسکتا ہے، ان کی روایات دیکھ کر میں نے خدشے کا اظہار کیا۔
نہیں نہیں! وہ سب مہندی مایوں پر ہوگیا ،اب تو ہال میں یہ نہیں ہوگا۔ چلی چلو یار! قریبی رشتہ داری ہے اب کے اشعر بیچ میں آئے)چلو بھئ ان کی کسر رہ گئی تھی( قصہ مختصر! ان سب یقین دہانیوں کے ساتھ ہم میرج ہال جا پہنچے۔
پردے والی تمام خواتین جو اس وقت صلہ رحمی کرنے یہاں آئی تھیں، خود ہی بے چاریوں نے ایک نسبتاً کم روشنی والا کونہ ڈھونڈا اور بیٹھ گئیں۔ جب تک دلہن بی بی آئیں ان گناہ گار آنکھوں نے وہ مناظر دکھائے گویا کوئی انڈین مووی چل رہی ہو ملبوسات خاص طور پر لگتا تھا کہ خاص ہندوستان سے امپورٹ کرائے گئے ہیں ہم تو سمجھے کہ اسی پر بس ہوگی۔ مگر نہیں جناب اصل غوغا تو اس وقت ہوا جب دلہن آئی ،یکایک سارے ہال کی بتیاں گل ہوگئیں اور اسپاٹ لائٹ میں دلہن ڈولی سے اتری ، دھیمے دھیمے میوزک میں دولہا میاں نے آگے بڑھ کر انہیں باہوں سے تھاما اور باقاعدہ دونوں ریمپ پر ڈانس کرتے آگے بڑھے۔ دلہن میں روایتی شرم و حیا تو رہی ایک طرف وہ تو ہالی وڈ کی اداکارہ بلکہ ماہر رقاصہ بنی ڈانس کے اسٹپس لے رہی تھیں۔ مزید مووی والے کی آوازیں اب دونوں قریب کھڑے ہوجائیں جی۔ آپ ان کا کاندھے پر ہاتھ رکھیں جی اب آنکھوں میں دیکھیں دونوں ایک دوسرے کی۔
دلہن کی دولہا کے ساتھ ریمپ ماڈلنگ ختم ہونے کے ساتھ امید تھی کہ بدتمیزی کا طوفان تھم جائے لیکن۔۔۔۔ نہیں صاحب ابھی کچھ اور پھلجھڑیاں بھی تھیں۔ دلہن والوں کے استقبال کے لیے خود دلہن کی اماں بہنیں نہایت مشاقی سے لچکنے مٹکنے لگیں نہ جھجک نہ شرم۔ ہو بھی کیوں آخر کو سب اپنے ہی تو تھے۔ ؟
شادی سے واپسی پر وہ رات میری یہی سوچتے کٹی۔ ہم پوچھتے ہیں یہ زلزلے یہ سیلاب یہ آفتیں ہم مسلمانوں پر کیوں نازل ہوتی ہیں؟ وہ خدا جو ہمیں اولاد جیسی نعمت دیتا ہے ،اسے پروان چڑھاتا ہے، کڑیل جوان بناتا ہے ،مناسب وقت پر جوڑ کا رشتہ دیتا ہے، اسی کے عطا کئے مذہب میں سے ایک حکم کی ادائیگی میں وہ حکم جو ایک نعمت بھی ہے (شادی) ایسی نافرمانی۔۔۔ ایسی نافرمانی کیا ہمیں زیب دیتی ہے۔
لیکن افسوس آج کا مسلمان طاؤس و رباب آخر کو سر پشت ڈالے میڈیا کے ذریعے باطل کے شکنجے اور جال میں پوری طرح گرفتار ہوگیا ہے، وہ سوچتا نہیں کہ ان کفار کو آخر ایسی کیا ہمدردی ہے کہ ہمیں بذریعہ کیبل دو دوسو روپے فیس میں تمام چینلز مل رہے ہیں ،جب کہ وہ ممالک آج بھی اپنے یہاں کے شہریوں کو بھاری ادائیگی پر ایک چینل کا خریدار بناتے ہیں اور وہ مجبورا پورا مہینہ اسی چینل کو دیکھتے ہیں۔
ہم مسلمان ایک بار بھی نہیں سوچتے کہ وہ ملک جہاں آٹا،دال ،چینی، چاول اور بنیادی ضروریات انسان کی قوت خرید سے باہر ہورہی ہیں ،آخر کیا بات ہے جو برائی کو پھیلانے والے اداروں نے اپنی ماہانہ آمدنی کو بڑھانے کا فیصلہ نہیں کیا۔
جب رات سونے سے پہلے بے حیائی کے مناظر دیکھے جائیں اور صبح اٹھتے ہوئے ذکر الہٰی چھوڑ کر دن کا آغاز گانے بجانے سے کیا جائے، تو ایک دن یہی ہوگا یہی ہوگا کہ مائیں جوان بچوں کے سامنے ناچیں گی اور جوان بھائی بہنوں کو ٹھمکے لگانے پر خود داد دیں گے۔
پھر جب ایسا ہوگا تو سیلابوں کو آنے سے کون روکے گا؟ زمین پر پے در پے زلزلے اور طوفان کیوں نہیں آئیں گے؟ خدا کے قہر و غضب کو دعوت دے کر ہم خود کو کیسے بچا پائیں گے ؟اور۔۔۔ کب تک صلہ رحمی کے نام پر رشتہ داروں کے خوف سے ان کے کھلے عام منکر پر ہم نکیر کرنے کے بجائے ان کی تقریبات میں شریک ہو کر خود کو یہ دھوکہ دیتے رہیں گے کہ خدا غفور رحیم ہے معاف کردے گا۔
خدا را سوچیے اور توبہ کریں قبل اس کے کہ سورج مغرب سے نکلے اور توبہ کا در بند ہوجائے یا روح شہ رگ تک جا پہنچے اور معافی مانگنے کا کوئی فائدہ نہ رہے۔