رحمان خدا کا رحیم نبی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رحمان خدا کا رحیم نبی
……… طارق نعمان گڑنگی
آپ ﷺنے عفو و درگذر اور حلم و بردباری کا جو نمونہ پیش کیا ہے اس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی ذات ایک ابر رحمت تھا جو پیہم موسلا دھار بارش کی طرح برستا رہا اور افادہ رحمت میں دوست و دشمن سب برابر کے شریک رہے، دشمنان اسلام جنہوں نے ہر قسم کی اذیت اور تکلیف دی حتی کہ جان کے بھی دشمن بن گئے ان کے ساتھ بھی آپ ﷺ حسن سلوک، سراپا لطف و رحمت اور عفو و درگذر کے پیکر بنے، چنانچہ آپ نے زہر کھلاکر کر مارڈالنے والی یہودیہ عورت کو بھی معاف کردیا، روایت میں ہے کہ خیبر کی ایک یہودیہ زینت بنت حارث نے بھنی ہوئی زہر آلود بکری آپ کی خدمت میں پیش کی آپ اور اصحاب کرام اس سے تناول فرمانے لگے اتنے میں آپ نے سب کو ہاتھ روکنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ گوشت زہر آلود ہے آپ نے اس عورت سے دریافت کیا اس نے اس جرم کا اقرار کرلیا پھر بھی آپ نے اس کو معاف کردیا حالانکہ اس زہر کے اثر سے بعض صحابہ شہید بھی ہوگئے اور آپ کی طبیعت بھی ناساز رہنے لگی۔
سرور کونین ﷺ کے رحم و کرم کا حال یہ تھا کہ آپ کسی سے ذاتی معاملہ میں انتقام نہیں لیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیا۔ (بخاری کتاب الآداب)بلکہ آپ نبی رحمت ﷺ لوگوں کو رحم کی ترغیب و تحریض ان الفاظ میں فرماتے رہے :
الراحمون یرحمہم الرحمن ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء
(ابو داؤد(
رحم کرنے والوں پر اللہ تعالی رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا (اللہ تعالی)تم پر رحم کرے گا۔
قریش مکہ نے وہ کونسا ظلم اور کون سی اذیت تھی جو آپ ﷺ کو نہ دی ہو، مکی زندگی میں شعب ابی طالب کی المناک محصوری، سجدہ کی حالت میں اوجھ ڈالنا، جسم اطہر پر غلاظت پھینکنا، پتھروں کی بارش، راستہ میں کانٹوں کا بچھانا غرض کوئی ایسی اذیت نہیں جو ظالموں نے آپ کو پریشانی میں مبتلا کرنے کے لئے ایجاد نہ کی ہو، آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا اور ہجرت کے بعد بھی ایک لمحہ کے لئے بھی سکون و راحت کی سانس نہ لینے دیا گیا ان سب کے باوجود رحمۃ للعالمین کی رافت و رحمت تو دیکھئے کہ جب فتح مکہ کے دن حرم میں داخل ہوتے ہیں تو وہ لوگ جن کے دن و رات حضور ﷺ اور آپ کے رفقا کے قتل کی سازشوں میں گذرے آپ کے سامنے بے کسی کی تصویر بن کر کھڑے تھے اور زبان حال سے کہہ رہے تھے آپ جیسے محسن کے لئے انتقام لینا روا نہیں، ہمارے ساتھ وہی سلوک کیجئے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا آپ تو سراپا رحمت ہیں آپ نے اپنی زبان مبارک سے معافی کا عام اعلان کردیالاتثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم و ہوارحم الراحمینآج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں اللہ تعالی تمہارا قصور معاف فرمائے وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔
اذھبوا انتم الطلقاء
(حیاۃالصحابہ(
جاؤ تم سب کے سب آزاد ہو۔ان معافی پانے والوں میں سے ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی ہے جس نے آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ سینہ سے نکال کر چبایا، ان کی ناک کان کاٹ کر ہار بنایا، اس وحشی کو بھی معافی ملی جس نے امیر حمزہ کو شہید کر کے ان کی نعش کی بے حرمتی کی۔ قربان جائیے نبی رحمت ﷺ پر کہ انہوں نے ایسے ایسے دشمنان اسلام کو بھی معاف کردیا جس سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے مکہ فتح نہیں کیا بلکہ اپنے اخلاق و کردار اور عفوورحم سے اہل مکہ کے قلوب کو جیت لیا۔
اور ان لوگوں کے ساتھ مزید احسان یہ کیا کہ آپ نے قتل و غارت گری سے صرف پرہیز ہی نہیں کیا بلکہ ان کی جان و مال کی حفاظت بھی اپنے ذمہ لی۔
اسی طرح آپ کی رحمت اتنی عام کہ جس نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کی کوشش کی جب وہ آپ کی گرفت میں آیا تو آپ نے ایسے شقی و بدبخت کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے معافی کا پروانہ دیا۔
بخاری شریف کی حدیث ہے جناب نبی کریم ﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرما تھے اور تلوار درخت کی شاخ میں لٹکادی، عورث بن الحراث آیا تلوار نکال کر نبی ﷺ کو گستاخانہ انداز میں بیدار کیا اور بولا اب تم کو کون بچائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ وہ چکر کھاکر گر پڑا آپ نے تلوار اٹھاکر فرمایا اب تجھے کون بچائے گا؟ وہ حیران رہ گیا فرمایا جاؤمیں بدلہ نہیں لیا کرتا۔ اللہ اللہ کس قدر رحم و عفو ہے کہ جو آپ کا جانی دشمن ہے اس کو بھی بلا معاوضہ و سزا معاف فرمادیا۔
اسی قسم کا ایک واقعہ روایت میں یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی لخت جگر حضرت زینب مکہ سے مدینہ ہودج میں سوار ہوکر جارہی تھیں ہبار نے ان کو نیزہ مارا وہ ہودج سے گر گئیں حمل بھی ساقط ہوگیا اور بالآخر یہی ان کی موت کا سبب بنا، اس کے باوجود ہبار نے عفو کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے معاف فرمادیا۔ یہ رحمت مجسم حضرت محمد ﷺ کے حلم، رافت و رحمت، عفو و درگذر کا اچھوتا نمونہ ہے۔ طائف کے سفر میں بچوں اور اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگادیا گیا راستہ پر کانٹے بچھائے گئے، جسم اطہر پر پتھر برسائے گئے اور آپ کو لہو لہان کیا گیا، غیرت حق جوش میں آئی اہل طائف کو ان کی گستاخی پر پہاڑوں کی چکی میں ریزہ ریزہ کردینا چاہتی تھی لیکن نبی رحمت اپنی تمام تکالیف و مصائب کو بھول کر اہل طائف کو ہلاکت سے بچالیتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں۔
بل ارجو ان یخرج اللہ عزو جل من اصلابہم من یعبد اللہ عزو جل لایشرک بہ شیئا
(صحیح ا لبخاری)
(میں ان کی ہلاکت نہیں چاہتا)بلکہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا فرمائے جو ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہوں اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔
جنگ احد میں کفار و مشرکین نے دانت توڑا، سر پھوڑا، آپ ایک غار میں گر پڑے صحابہ نے عرض کیا آپ ان پر بددعا فرمائیے آپ ﷺ نے جوابا فرمایا میں دنیا کے لئے لعنت کرنے والا نہیں بلکہ مجھے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والا اور رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
انی لم ابعث لعانا و لکن بعثت داعیا و رحم
(صحیح مسلم(
اتنے ہی پر آپ نے بس نہیں فرمایا بلکہ مزید ان کے لئے ہدایت کی دعا فرمائی۔ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ مجھے نہیں پہچانتی۔
اللھم اھد قومی فانھم لایعلمون.
امام الانبیا فخر موجودات حضرت محمد ﷺ نے منافقوں کے ساتھ بھی رافت و رحمت اور احسان کا معاملہ فرمایا چنانچہ روایت میں ہے کہ جب منافقوں کا سرغنہ عبد اللہ ابن ابی بن سلول کا انتقال ہوا جس نے آپ ﷺ کو اذیت دینے اور رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اس کے بیٹے نے آنحضرت ﷺ سے تجہیز و تکفین کے لئے قمیص مانگی آپ نے اپنی قمیص دے دی۔آپ نے ایسے افراد کے ساتھ حسن سلوک، بے انتہا رحم و کرم اور عفو و درگذر کا معاملہ فرمایا جو آپ ﷺ کے صحابہ کرام کے قتل کے درپے تھے، حدیبیہ کے میدان میں جب حضور اقدس ﷺ مسلمانوں کے ساتھ نماز صبح ادا فرمارہے تھے ستر آدمی چپکے سے کوہ تیغم سے اترے تاکہ مسلمانوں کو بحالت نماز قتل کردیں یہ سب لوگ گرفتار کرلئے گئے نبی رحمت نے ان تمام لوگوں کو بلا فدیہ آزاد فرمادیا۔مذکورہ بالا واقعات اور آپ ﷺ کے اخلاق و کردار سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام دہشت گرد مذہب نہیں ہے بلکہ یہ امن و آشتی، اخوت و بھائی چارگی، رحمت و شفقت اور ہمدردی و غمگساری کا پیغامبر ہے اوراس کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی دنیا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔
حضرت محمد مصطفی ﷺ پورے عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے، آپ ﷺ فقیروں، کمزوروں سے بے حد محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے ان پر آپ کی محبت و شفقت کا عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ نے دعا مانگی اے اللہ قیامت کے دن مسکینوں کی جماعت کے ساتھ مجھے اٹھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے اے اللہ مجھے مسکینوں کی حالت میں زندہ رکھ اور اسی حالت میں موت دے اور قیامت کے دن اسی کی جماعت کے ساتھ اٹھا۔
اس حدیث سے مسکینوں کی عظمت و اہمیت واضح ہوتی ہے۔ آپ غریبوں کے خیر خواہ ، یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ ہمدردی آپ ﷺ کا طرہ امتیاز تھا، آپ ﷺ نے فقرا و مساکین کی عظمت اور شان و شوکت کو ایسا احسان کیا کہ قلیل عرصہ میں سوسائٹی کے نظام میں حیرت انگیز انقلاب آگیا۔ آپ نے مسکینوں کو جنت کی بشارت دی، چنانچہ روایت میں ہے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور فقرا کے ساتھ بیٹھ گئے اور ان کو جنت کی بشارت سنائی۔نبی رحمت ﷺ نے کبھی کسی فقیر کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا اور نہ ہی اس کی تحقیر و تذلیل کو گوارا فرمایا۔