تربیت کااثر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تربیت کااثر!
………مفتی محمدمعاویہ اسماعیل
پاپامیں بھی ساتھ آؤں آپ کے؟میں نے ایک ضروری کام سے جانے کیلئے جیسے ہی بائیک اسٹارٹ کی تومیراچارسالہ بیٹاحنظلہ دوڑتاہوامیرے پاس آیااورساتھ جانے پراصرارکرنے لگا،نہیں بیٹامیں ضروری کام سے جارہاہوں آپ کوپھرلے جاؤں گا؟پاپاکیاآپ اکیلے جارہے ہیں؟اس نے پھرسوال داغ دیا،جی بیٹامیں اکیلاہی جا رہا ہوں ،توپھرتوآپ مجھے ضرورلے جائیں،وہ کیوں بھئی؟میں پوچھا،کیوں کہ ہمارے استادکہتے ہیں کہ جہاں بھی جاؤاکیلے نہ جاؤ،آپ بھی اکیلے نہ جائیں میں آپ کے ساتھ آتا ہوں میں اس کی یہ بات سن کرمسکرادیاپربیٹامجھے واپسی پردیرہوجائے گی آپ کو پھر راستے میں بھوک لگے گی تو؟نہیں پاپاجی آپ مجھے ساتھ لے جائیں،میں آپ کو بالکل نہیں کہوں گاکہ مجھے بھوک لگی ہے،اچھاجاؤکوٹ پہن کرآؤسردی ہے، امی امی جی میراکوٹ تولے آئیں اس نے وہیں سے پکارناشروع کردیااس کوخدشہ تھا کہ اس کو کوٹ پہنے کیلئے بھیج کرکہیں میں چلانہ جاؤں بہرحال مجھے مجبورااس کوساتھ لے جانا پڑا، مجھے دوچارکام تھے صبح کانکلا دوپہر ہوگئی بیٹاآپ کیاکھاؤگے،حنظلہ کی بھوک کاسوچ کر میں نے ہی اس سے پوچھاحالانکہ اس نے ابھی تک کچھ بھی کھانے کونہ کہاتھاپاپاجی ! وہ میرے استادجی نے ایک مرتبہ ہمیں کہاتھاکہ بازارکی کوئی بھی چیزنہیں کھانی چاہیے،گھرکی بنی ہوئی چیزیں کھانی چاہیے وہ دراصل پاپاجی یہ جولوگ بازارمیں چیزیں بیچتے ہیں ناان کوصفائی کابالکل بھی لحاظ نہیں ہوتا،گندے ہاتھوں سے چیزیں بناتے ہیں،پھران چیزوں کوڈھک کربھی نہیں رکھتے،یہ ہمیں ہمارے استادجی نے بتایا تھااورپتہ ہے پاپاجی انہوں نے اورکیاکہاتھاہاں!کیاکہاتھاانہوں نے ؟میں نے تجسس کے حال میں اس سے پوچھاپاپاجی ہمارے استادجی بتارہے تھے کہ بازارکے دکانداروں میں سے کافی سارے دکاندار نمازبھی نہیں پڑھتے اوربے نمازی کے ہاتھ کی چیزمیں برکت نہیں ہوتی اوراگر کوئی بازارسے ہی کھانے کاعادی بن جائے تواس بے برکتی کی وجہ سے وہ خودبھی بے نمازی بن جاتاہے،ہے ناپاپاجی اورمیں بڑے غورسے اس کے لیکچرکوسنتارہااوردل ہی دل میں اللہ تعالی کاشکراداکرتارہاکہ اس نے مجھے اس بات کی توفیق دی ہے کہ میں اپنے بچے کوصحیح تربیت کرنے والے استادکے پاس داخل کرا سکا، جب حنظلہ نے کچھ بھی کھانے سے انکارکردیاتواس کی بھوک کالحاظ کرتے ہوئے میں نے کچھ کام جان بوجھ کرچھوڑدیے کہ پھرکسی وقت کرلوں گا،اس کوگھرلے جاتا ہوں،یہ سوچ کرمیں نے بائیک واپس موڑلی،پٹرول بھی ڈلواناتھاقریب میں پٹرول پمپ پرمیں نے جاکردولٹرپٹرول ڈلوایااورپٹرول ڈالنے والے کودوسوررپے نکال کر دیے، اس نے جیسے ہی میرے ہاتھ سے پیسے پکڑنے چاہیے حنظلہ نے اس کے پیسے پکڑنے سے پہلے ہی میرے ہاتھ سے پیسے جھپٹ لیے،اس کی یہ حرکت مجھے کافی ناگوار گزری، میں غصے سے حنظلہ کی طرف دیکھامگراگلے ہی لمحے میری ناگواری اورغصہ حیرت اورخوشی میں بدل گئے جب میں نے حنظلہ کویہ کہتے ہوئے سنا،وہ پٹرول ڈالنے والے کومخاطب ہوکرکہہ رہاتھاانکل ہمارے استادمحترم کہتے ہیں کہ چیزدائیں ہاتھ سے لینی اوردینی چاہیے یہ لیجیے پیسے،یہ کہہ کرحنظلہ نے دائیں ہاتھ سے اس کی طرف پیسے بڑھادیے ،اس نے بھی اب دائیں ہاتھ سے پکڑلیے،اب میں سمجھاکہ جس بات کی طرف میری بالکل توجہ ہی نہیں تھی حنظلہ نے اس بات کرنوٹ کر لیا تھا دراصل پٹرول ڈالنے والے کوجب میں پیسے دینے لگاتووہ مجھ سے الٹے ہاتھ سے پیسے پکڑنے لگاجس کوحنظلہ نوٹ کرلیااوراس کے پیسے پکڑنے سے پہلے پیسے میرے ہاتھ سے جھپٹ لیے،یہ دیکھ کروہ پٹرول ڈالنے والابہت ہی خوش ہوا،سرجی آج تک ایسی بات میں نے کسی سے نہیں سنی، ماشاءاللہ آپ کے بچے کی تربیت اچھی ہورہی ہے، اللہ تعالی اس کی عمرمیں علم وعمل میں اضافہ فرمائے،پٹرول ڈالنے والے نے یہ کہاتومیں نے آمین کہتے ہوئے بائیک آگے بڑھادیابھی ہم گھرسے تھوڑے سے فاصلے پرہی تھے کہ اچانک حنظلہ نے مجھے بائیک روکنے کیلئے کہااس کی بات سن کرمیں حیران ہوگیامگرکچھ کہے بغیرمیں نے بائیک روک لی اوراس کی طرف دیکھنے لگا۔
پاپاجی بائیک ذراواپس موڑنا ،میں نے کچھ کہے بنابائیک واپس موڑلی ، چند گز واپس جاکراس نے بائیک روکنے کیلئے کہا،میں نے بائیک روک دی اوروہ بائیک سے نیچے اترگیا،میں حیران سا اس کودیکھ رہا تھا کہ اب یہ کرتاہے؟
وہ نیچے اترکرسڑک کے درمیان میں چلاگیا،اورجھک کراس نے کوئی چیزاٹھائی میں نے غورسے دیکھاتووہ ایک ٹہنی تھی جس پرکافی خطرناک قسم کے کانٹے تھے،اس نے وہ ٹہنی اٹھاکرسڑک کی دوسری جانب دورکرکے اچھالی دی، اوریہ کہتے ہوئے بائیک پرواپس آگیاپاپاجی ہمارے استادمحترم کہتے ہیں کہ راستے سے تکلیف دہ چیزکوہٹاناسنت اورصدقہ ہے، ہمارے نبی ﷺراستے میں پڑی چیزکودیکھ کر ہٹا دیا کرتے تھے ،تاکہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔
پاپاجی ہوسکتاہے یہ کانٹے کسی کو چبھ جاتے،یاکسی کاگاڑی ان کی وجہ سے پنکچرہوجاتی، میں نے اس لئے اس ٹہنی کوہٹادیایہ کہتے ہوئے وہ بائیک پرآکربیٹھ گیا، اس کی بات سن کرمجھے اس پرٹوٹ کر پیار آیا اور مجھے یقین ہوگیاکہ یہ سب استاد کی تربیت کااثرہے،اورمیں نے عزم کرلیاکہ ان شاءاللہ اس کی تربیت پرمزیدتوجہ دوں گاتاکہ یہ چلتاپھرتاسنت کاپیکربنے کیونکہ استادکی تربیت کے ساتھ ساتھ والدین کابھی بچوں کی تربیت پرتوجہ دیناازحدضروری ہے،ورنہ اکیلے استاد کی تربیت کاخاطر خواہ اثرنہیں ہوتااس عزم کے ساتھ ہی میں نے بائیک گھرکی طرف واپس موڑدی۔