وقت کی قدرو قیمت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
وقت کی قدرو قیمت
مولانا طارق خلیل ، کراچی
چونکہ ہم وقت کی بروقت قدر نہیں کرتے اس لیے ہم پر وقت آن پڑا ہے وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے جس کا درست استعمال انسان کی ترقی اور اس کے عروج کا سبب بنتا ہے ،یہ ایسی نعمت ہے جو ہر ایک کو یکساں طور پر ملتی ہے لیکن انسانوں کے درجات کا تفاوت ہماری اس بات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس نے اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے اپنے اس قیمتی سرمایہ کو کسی درست جگہ پر لگایا تو اس کے بہتر نتائج کو بھی دیکھتا ہے۔ اپنے اس قیمتی سرمایہ کو محفوظ کرتے ہوئے کام میں لائیے، فضول گپوں کے ہانکنے سے اور لایعنی مشاغل میں مصروف ہوکر اسے ضائع نہ کریں، ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ پھر اس کا حاصل کرنا دنیا کی پوری دولت دے کر بھی نہیں ہو سکتا اسی زندگی پر آخرت کا دار و مدار ہے لیکن افسوس ہم سب سے زیادہ بے پرواہی اس کے ضائع کرنے ہی میں کرتے ہیں۔
وقت کا ضیاع خود کشی ہے جو کہ حسی طور پر تو نظر نہیں آتی ہے لیکن معنوی طور پر اس کے اثرات زندگی پر بہت زیادہ پڑجاتے ہیں ناکامی اور نامرادی کا سبب یہی چیز بنتی ہے۔انسان اپنی زندگی میں بہت سی چیزوں سے دھوکہ کھا جاتا ہے جس میں سے ایک بہت بڑا دھوکہ لفظ ”کل“ کا ہے۔
عقل مند شخص کے یہاں کل کا لفظ کہیں نہیں ملتا یہ تو محض بچوں کا بہلاوا ہے کہ فلاں کھلونا تم کو کل دیا جائے گا، یہ لفظ ایسے لوگوں کے استعمال میں ہوتا ہے جو صبح سے شام تک خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں اور شام سے صبح تک خواب دیکھتے ہیں لفظ کل نالائق کاہلوں کی جائے پناہ ہے۔
جو کام وقت پر آسانی سے کیا جاسکتا ہے وہ ہفتوں اور مہینوں تک پڑا رہنے سے وبال جان ہوجاتا ہے کسی کام سے غفلت روز بروز اس سے کم ہمتی بڑھاتی رہتی ہے۔ ہر صبح ہمارے پاس وقت کی صورت میں نئی نئی نعمتیں لاتی ہیں لیکن وقت ضائع کرتے رہنے سے ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے کھوئی دولت محنت اور کفایت شعاری سے پھر حاصل ہوسکتی ہے کھویا ہوا علم مطالعہ سے حاصل ہوسکتا ہے کھوئی ہوئی تندرستی دوا سے واپس آسکتی ہے لیکن کھویا ہوا وقت لاکھ کوششوں سے بھی دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
وہ عظیم ہستیاں جن کو اس دنیا سے گزرے ہوئے صدیاں بیت گئی، لیکن وہ اپنے علم و عمل کے بدولت آج بھی زندہ ہیں ان کا نام نامی ہماری زبان پر آتے ہی ہمارا جسم سراپا ادب ہوجاتا ہے یہ سب ان کی اس محنت کا ثمر ہے جو انہوں نے اپنے قیمتی سرمایہ یعنی وقت کے ایک ایک لمحہ کو محفوظ کرتے ہوئے اسے کام میں لیا۔
تاریخ میں جتنی علمی شخصیات گزری ہیں، جنہوں نے عظیم تصنیفی کارنامے انجام دیے ہیں ان کی وقت کی پابندی نظام الاوقات ضرب المثل ہے اور یہی ان کا کارناموں کا بنیادی راز ہے۔ اس کا کچھ اندازہ ذیل کے واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔
چند لوگ امام الاولیاء حضرت معروف کرخی ﷫ہ کے پاس بیٹھے جب مجلس انہوں نے طویل کی اور کافی دیر تک نہیں اٹھے تو حضرت معروف کرخی رحمہ اللہ ان سے فرمانے لگے ان ملک الشمس لایفتر عن سوقہا فمتی تریدون القیام نظام شمسی چلانے والا فرشتہ تھکا نہیں۔ اس کی گردش جاری اور وقت گزررہا ہے آپ لوگوں کے اٹھنے کا کب ارادہ ہے؟
مجدالدین ابن تیمیہ کے متعلق علامہ رجب رحمہ اللہ نےمیں ان کے متعلق لکھا ہے: وہ عمر عزیز کا کوئی لمحہ ضائع ہونے نہیں دیتے تھے ،زندگی کی ایک ایک گھڑی کو کسی مفید مصرف میں لگانے کا اس قدر اہتمام تھا کہ کبھی کسی کام کے لیے جاتے تو اپنے کسی شاگرد سے کہتے تم کتاب بلند آواز سے پڑھو تاکہ میں بھی سن سکوں اور وقت ضائع نہ ہو۔ بعض کے متعلق یہ بھی لکھا ہے: لکھتے لکھتے جب ان کا قلم گھس جاتا تو قلم کا قط لگاتے ہوئے ذکر شروع کردیتے تاکہ یہ وقت صرف قط ہی لگانے میں ضائع نہ ہو۔
یہی وہ اہم راز ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگیوں میں اتنے عظیم علمی کارنامے سر انجام دیے آج عقلیں حیران و سرگردان ہیں اس مختصرف سی زندگی میں جس میں انسان کے ساتھ بشری تقاضے بھی ہر وقت ساتھ لگے رہتے ہیں لیکن باوجود اس کے پھر بھی ایسی ایسی تصنیفات لکھی ایک کتاب کئی کئی جلدوں میں ہے۔
ان حضرات کی زندگی صرف ان تصنیفی ہی کاموں ہی میں نہیں گزری سوانح نگار مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ شب و روز سینکڑوں نوافل ان کا معمول تھا، آخر شب میں بیداری کی پابندی تھی مختصر مدت میں قرآن شریف کا ختم معمولات زندگی کا حصہ تھا رشہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام تھا، طلبہ عوام کے لیے علمی مشغلہ کا مستقل انتظام تھا۔
یہ بات بھی نہیں کہ ان کی عمریں طویل تھی، اکثر کی زندگیاں وہی ساٹھ ستر کے کے درمیان تھی جس کی پیشن گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے متعلق فرمائی تھی۔
اعمار امتی بین الستین الی السبعین واقلہم من یجوز ذلک۔
میری امت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہوں گی بہت کم لوگ اس سے آگے بڑھیں گے۔
سچی بات تو یہی ہے کہ وقت بڑی قدر کی چیز ہے ہماری سب سے اہم پونجی جس کو بچا بچا کر استعمال کرنا چاہیے وقت ہے ہماری کے ذمہ کام تو بہت ہیں لیکن بے پرواہی اور غفلت نے اسے مطمئن کررکھا ہے۔