دینی مدارس کے انوار سے جگمگاتا برِّ صغیر

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
دینی مدارس کے انوار سے جگمگاتا برِّ صغیر
مولانا محمد مبشر بدر
مدارسِ اسلامیہ کو اسلام کے قلعے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اسلامی تعلیمات نسل در نسل منتقل کرنے کے اہم مراکز ہیں، انہی مدارس کے ذریعے اسلام کا شجر ِسایہ دار اپنی تمام تر شاخوں سمیت سرسبز و شاداب رہتا ہے، انہیں مدارس سے عقائد ، عبادات،معاملات، اخلاقیات اور معاشرت کا علم حاصل ہوتا ہے، مدارس امن کے گہوارے اور معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کا اہم اور مؤثر ذریعہ ہیں۔ روئے زمیں پر مدارسِ اسلامیہ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی اسلام کی تاریخ ، اپنی اصل میں مدرسہ کسی عمارت اور بلڈنگ کا نام نہیں بلکہ ایک استاذ اور شاگرد کے وجود کا نام ہے، جہاں استاذ و شاگرد تعلیمِ دین کے لیے مل بیٹھیں وہی جگہ مدرسہ کہلاتی ہے۔
اس مضمون میں انگریزی قبضے سے قبل برصغیر کی قدیم دینی درسگاہوں سے متعلق اجمالاً اہم معلومات فراہم کی جائیں گی ، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ جہاں عالمِ اسلام کے دیگر ممالک میں اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے مدارس کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا گیا وہاں برِّ صغیر بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہا۔یہاں بھی بڑے بڑے اور مشہور مدارس کی داغ بیل ڈالی گئی جو ایک عرصہ تک لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے سیراب کرتے رہے۔ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کے مدارس کی تاریخ پر کوئی ٹھوس معلومات منضبط نہیں کی گئیں، بلکہ قدیم تاریخِ ہند میں زیادہ تر بادشاہوں کی سوانح عمریاں ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ ان کی فتوحات ، ملکی و جنگی کارنامے جو اس زمانہ کے سب سے زیادہ قابلِ توجّہ واقعات تھے تفصیل و بسط کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں۔اس بنا پر اوراقِ تاریخ بھی جنگی صفحات بن گئے جہاں شمشیر و سناں کے شورمیں درس و تعلیم کی کمزور آوازیں دب کر رہ گئیں۔
قدیم زمانہ میں درس و تعلیم کے لیے الگ سے مستقل عمارتیں نہیں تھیں بلکہ اس کام کے لیے زیادہ تر مساجد سے کام لیا جاتا تھا جہاں باقاعدہ کلاسیں لگائی جاتیں اور لوگ ان مبارک حلقوں میں حصولِ تعلیم کے لیے شرکت کرتے تھے۔اسی وجہ سے آپ ہند کی قدیم مساجد میں دیکھیں گے جہاں صحن مسجد کے ارد گرد کمروں کی قطاریں آج بھی نظر آئیں گی،یہ دراصل طلباء کے درس و قیام کے لیے تعمیر کیے جاتے تھے ،جہاں دور دراز سے آئے مسافر طلباء قیام کرتے تھے۔ہندوستان کے قدیم اسلامی شہروں میں قدم قدم پر آپ کو وسیع و شاندار مساجد ملیں گی ، دلی، آگرہ ، لاہور ،ملتان ، گجرات، احمد آباد، جونپور، حیدرآباد دکن وغیرہ قدیم اسلامی دارالسلطنتوں میں جو عظیم مساجد تعمیر ہوئیں تھیں، جو اب تک باقی ہیں ان کی موجودہ صورت و ہیئت دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان کا اکثر حصہ تعلیمِ دین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
قدیم خانقاہیں بھی عموماً تعلیم و تربیت کا اہم مرکز سمجھی جاتی تھیں ، جہاں صرف مجاہدۂ نفس و وظائف کو ہی عبادت نہیں سمجھاجاتا تھا ، بلکہ تزکیۂ نفوس کی تعلیم دی جاتی اور احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونے کابھی درس دیا جاتاتھا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد پہلی صدی ہجری میں ہوگئی تھی لیکن اس کا اثر پورے ہند پر نہیں تھا، بلکہ ہند کے بعض اطراف میں اسلام کی کرنیں ضرور جگمگانے لگیں۔صحیح معنیٰ میں اسلامی حکومت کے قدم ۳۹۰ ؁ھ میں سلطان محمود غزنوی کی مجاہدانہ جدّوجہد کی بدولت جمے، سلطان محمود علم دوست اور علماء کا قدر دان بادشاہ تھا، جس کے دربار میں علماء ، ادباء ، حکماء اور شعراء کا ہجوم رہتا، اسے اپنے حدودِ حکومت میں مدارس قائم کرنے کا بیحد شوق تھا، تاریخِ فرشتہ میں ہے:۴۰۹؁ھ میں سلطان محمود غزنوی فتحِ قنوج کے بعد غزنی تشریف لائے اور وہاں جامع مسجد و مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس بادشاہ کا یہ عالم ہو اس کی رعایا میں اس کے ذوق کا کس قدر اثر ہوگا۔ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ اسی ذوق کا ہی اثر تھا کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا جال پھیل گیاجس کو قاسم فرشتہؒ نے تاریخ میں بیان کیا ہے جس سے یہی بات مستفاد ہوتی ہے کہ ہندوستان میں مدارس دینیہ کا قیام محمود غزنوی اور ان کے امراء کے توسّط سے داخل ہوا پھر تدریجاً سارے ملک میں مروج ہوگیااور ہندوستان سے باہر بھی یہی نظام رائج تھا۔سلطان کے بعد زمامِ حکومت ان کے بیٹے شہاب الدین مسعود کے ہاتھ میں آئی ، جو علم پرور شخص تھا جس نے علم کی ترویج کے لیے اپنی سلطنت میں بہت زیادہ مساجد و مدارس تعمیر کروائے۔چنانچہ مورخ فرشتہ لکھتا ہے :’’انہوں نے اپنے مقبوضہ ممالک میں اپنی سلطنت کے اوائل میں اتنے مساجد و مدارس کی بنیاد ڈالی کہ زبان ان کے شمار سے عاجز اور قاصر ہے‘‘
جب حکومت ِہند خاندانِ غوری میں منتقل ہوئی تو مصنف تاج المآثر کے بیان کے مطابق سلطان شہاب الدین غوری نے ۵۸۷؁ھ میں اجمیر فتح کیا جہاں انہوں نے متعدد مدارس قائم کیے جو ہندوستان کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتے ہیں۔ ۶۰۷؁ھ میں جب شمس الدین التمش تخت نشین ہوا تو اس نے بھی دہلی میں متعدد مدارس تعمیر کروائے جسے قطب الدین ایبک نے لاہور کے بعد ہندوستان کا دارالسلطنت قرار دے دیا تھا ، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کا مشہور و معروف مدرسہ ٔ معزّیٰ اسی عہد کی یادگار ہے، جس کے مدرس مولانا بدرالدین اسحاق بخاری تھے جو علومِ عقلیہ و نقلیہ میں اپنے وقت کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔اسی عہد میں دہلی میں ایک اور مشہور و کبیر مدرسہ کا پتہ چلتا ہے ، جو مدرسہ ناصریہ کے نام سے موسوم تھا، جو کہ ناصر الدنیا والدّین شہزادہ محمود بن سلطان شمس الدین التمش کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔طبقاتِ ناصری کے مصنف سراج الدین عفیف اس مدرسہ کے مہتمم اور نگران تھے۔مدرسہ فیروز شاہی کے نام سے ایک اور عظیم الشان مدرسے کا تاریخ میں ذکر ہے جو دہلی کا سب سے مشہور اور اپنے عہد کا زبردست مدرسہ تھا ، جسے فیروز شاہ نے فیروز آباد دہلی میں ۷۵۳؁ھ میں قائم کیا تھا۔ ضیاء برنی نے اس کی تعریف میں صفحات سیاہ کیے ہیں، لکھتا ہے:’’یہ مدرسہ اپنی شان و شوکت ، خوبیٔ عمارت و موقع اور حسن انتظام و تعلیم کے لحاظ سے تمام مدارسِ ہند میں سب سے بہتر اور عمدہ ہے ، مصارف کے لیے شاہی وظائف مقرر ہیں۔‘‘
مدرسہ سے متصل مسجد تھی، مولانا جلال الدین رومی اس میں مدرس دینیات تھے۔اس کے علاوہ دہلی میں درج ذیل مشہور اور عظیم الشان مدارس موجود تھے۔ مدرسہ بالابند آب سیری ، یہ مدرسہ ایک شاہی عمارت میں واقع تھا، جس کے حسن کا کوئی عمارت مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔مدرسہ خیرالمنازل جسےعہدِ اکبری میں ماہم بیگم نے ۹۶۹؁ھ میں پرانے قلعہ کے پاس مغربی دروازے کے مقابل تعمیر کرایا تھا۔ دلی کی جامع مسجد کے جنوبی رخ پر دارالبقاء کے نام سے ایک عظیم الشان مدرسہ قائم تھا ، جس کی بنیاد اندازاً ۱۰۶۰؁ھ میں رکھی گئی۔ دلی کا سب سے آخر الذکر اور مشہور مدرسہ شاہ عبدالرحیم دہلوی والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہما الرحمۃ کا ہے۔ اسی مدرسہ کی آغوش میں شاہ ولی اللہ ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی ، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی ، شاہ اسمٰعیل ، شاہ اسحاق ، شاہ عبدالقادر وغیرہ جید کبار اہلِ علم پڑھ کر جواں ہوئے ہیں، یہی وہ عظیم مدرسہ ہے جہاں سے پورے ہند میں حدیث کے چشمے پھیلے۔
علامہ مقریزی نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب الخُطط‘‘میں لکھا ہے’’چودہویں صدی عیسوی میں محمد تغلق کے دور میں صرف دہلی شہر میں ایک ہزار مدرسے تھے۔‘‘کیپٹن ہیلیگزن ہملٹن مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے دور میں ۱۶۹۹؁ء میں اس خطے میں آئے تھے، انہوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا۔ ’’ صرف ٹھٹھہ شہر میں مختلف علوم و فنون کے چار سو مدارس تھے۔ ‘‘ کیئر ہارڈی نے میکس پولر کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ ’’ انگریزوں کی علمداری سے قبل بنگال میں اسّی ہزار مدرسے موجود تھے، تقریباً ہر چار سو افراد کے لیے ایک مدرسہ تھا۔‘‘
لاہور کی وزیر خان مسجد جو مدرسہ کام بھی دیتی تھی آج تک اپنی علمی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہند کے مشہور شہر فتح پور کا ایک مشہور مدرسہ ابوالفضل آج بھی اپنی پوری تب و تاب کے ساتھ قائم ہے جو شاہی محل کی عمارتوں کے بالکل قریب ہے۔جہانگیر کی علم دوستی سے کون ناواقف ہے؟ جس نے ہندوستان کے قدیم خستہ و غیر آباد مدارس کو جو پرندوں اور جانوروں کا مسکن بنے ہوئے تھے طلباء و علماء سے بھر دیا۔ امروہہ شہر کے قریب ایک مشہور مقام جو دارانگر کے نام سے موسوم ہے اس میں ایک مشہور مدرسہ مدرسہ دارانگر کہلاتا ہے، جسے نجیب الدولہ نے قائم کیا تھا ، اس جامعہ سے بہت سےطلباء نے کسبِ فیض کیا اس مدرسہ میں خصوصیت کے ساتھ فرنگی محل کے اکثر فارغ التحصیل اشخاص تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
رامپور کے مدرسہ عالیہ جو اب تک قائم ہے ، نواب فیض اللہ خان نے مولانا بحر العلوم کو رامپور بلا کر اس مدرسہ کا صدر مدرس بنا دیا ، ہندوستان کے مشہور عالم ملّا حسن بھی اسی مدرسہ میں عرصہ تک مدرّس رہے۔اودھ کے مدارس میں مدرسہ سہالی ، مدرسہ شاہ پیر محمد کاٹیلہ اور لکھنؤکا عظیم الشان مدرسہ فرنگی محل جس کا نام درسی کتابوں میں آج بھی لکھا ہوا موجود ہے۔دکّن کے مدارس میں مدرسۂ بدر ، مدرسہ گلبرگہ مدرسہ آثار شریف ، مدرسہ بغداد (احمد نگر)، مدرسہ خاندیس ، مدرسہ دولت آباد۔ ملتان کے مدارس میں سے مدرسہ فیروزی ، مدرسہ ملتان ایسے عظیم مدارس تعلیم دین کے لیے ہندوستان میں علم کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔
یہ ان چند مدارس کا مختصر تذکرہ ہے جو انگریزی تسلط سے قبل برصغیر میں علم و عرفان کے نور سے لوگوں کے سینے منور کررہے تھے۔انہی مدارس کا فیض تھا کہ یہاں تعلیم عام تھی ، لوگوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ، جاگیر داروں نے فروغِ دین کے لیے اپنی جاگیریں مدارس کے نام الاٹ کرارکھی تھیں تاکہ مدارس پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑے اور تعلیم میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔علماء و مدرسین کے وظائف حکومت نے مقرر کررکھے تھے جس کی وجہ سے وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر تعلیم و تعلّم کے فریضے کو بخوبی انجام دیتے تھے۔انہی مدارس کی برکت سے لوگوں میں دینی جذبہ و شعور پیدا ہوا اور یہاں کےعام لوگوں کا اخلاق و کردار اعلیٰ اقدار کا حامل تھا ، جو دیگر اقوام کے لیے ایک بہترین نمونۂ عمل تھا ، اس کا اعتراف خود یورپی مؤرخین نے کیا ہے۔ چنانچہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں انگریز سفیر تھامس کرو یہاں آئے۔ وہ ہندوستان کی تہذیب و تمدّن کو دیکھ کر دنگ رہ گئے، انہوں نے کہا:
’’یہاں ہر شخص میں مہمان نوازی اور خیرات کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ صنفِ نازک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس کی عزت ، عصمت اور عفت کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہ ایسے اوصاف ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم اس قوم کو غیر مہذب اور غیر متمدّن نہیں کہہ سکتے اور ایسی صفات کی موجودگی میں ہندوستان کو یورپی اقوام سے کسی طرح کم تر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر ہندوستان اور انگلستان کے درمیان تہذیب و تمدّن کی تجارت کی جائے تو مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان سے تمدّن کی جو کچھ درآمد انگلستان میں ہوگی اس سے انگریزوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔‘‘
اس بیان سے اس نظریئے کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ برصغیر انگریز کی آمد سے قبل جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھااور یہاں کوئی تعلیمی و تربیتی نظام موجود نہیں تھا۔حالانکہ یہاں کی اخلاقی و علمی اقدار پوری روئے زمیں پر نایاب تو نہیں کم یاب ضرور تھے۔