اور…… کایا پلٹ گئی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اور…… کایا پلٹ گئی!!
اہلیہ مفتی شبیر احمد حنفی
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے ان کی توبہ کا سبب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا۔
میں ایک سپاہی تھا اور شراب کا رسیا تھا۔ میں نے ایک نفیس باندی خریدی اور وہ میرے دل میں خاص مقام کی مالک بن گئی۔ اس سے میری ایک بچی پیدا ہوئی۔میں اس بچی کو حد سے زیادہ پیار کرتا تھا. جب وہ زمین پر گھسٹ کر چلنے لگی تو میرے دل میں اس کی محبت اور بڑھ گئی۔وہ مجھ سے مانوس ہو گئی اور میں اس کے سامنے جب شراب لا کر رکھتا تو وہ آکر کھینچا تانی کر کے میرے کپڑوں پر شراب بہا دیتی جب اس کی عمر دو سال ہو گئی تو وہ مر گئی میرے دل کو اس کے غم نے بیمار کردیا۔
پندرہ رمضان کو جمعہ کی رات میں شراب کے نشے میں مدہوش تھا میں نے عشاء کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی میں نے خواب میں دیکھا کہ صور پھونکا گیا اور قیامت قائم ہو گئی مردے قبروں سے اٹھائے گئے اور تمم مخلوق جمع ہو گئی میں بھی ان میں تھا. میں نے اپنے پیچھے سے آہٹ سنی مڑ کر دیکھا تو ایک بہت بڑا اژدھا ہے کالے رنگ کا آنکھیں نیلی ہیں منہ کھولے میری طرف دوڑ رہا ہے۔
خوف و دہشت کے مارے میں بھاگا راستے میں ایک صاف ستھرے لباس والے بوڑھے شخص کے پاس سے گزر ہوا میں نے سلام کہا اس نے جواب دیا میں نے کہا بابا مجھے اس اژدہے سے پناہ دو تجھے اللہ پناہ دے گا۔
وہ بوڑھا رونے لگا اور کہا میں کمزور اور ضعیف ہوں اور یہ اژدھا زبردست ہے میرے بس میں نہیں آگے چلو اور بھاگو شاید اللہ تیری نجات کی کوئی صورت بنا دے۔میں آگے بھاگنے لگا اور بلند جگہ پر چڑھ گیا ادھر سے میں نے جہنم کے طبقات کو جھانک کر دیکھا ان کو ہولناکیاں دیکھیں قریب تھا کہ اژدیے کے خوف سے میں ان میں گر جاتا۔مجھے کسی نے آواز دے کر کہا چلو یہاں سے تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو. میں اس کی بات سے مطمئن ہو گیا اور وہاں سے واپس لوٹا تو اژدھا میرے پیچھےتھا میں پھر اسی بابا کے پاس آیا اور کہا بابا میں نےآپ سے درخواست کی کہ اس اژدہے سے میری جان چھڑاؤ آپ نے کچھ نہیں کیا وہ بوڑھا پھر رونے لگا اور کہا میں ناتواں ہوں البتہ تم اس پہاڑ کے پاس جاؤ جہاں مسلمانوں کی امانتیں ہیں اگر تمہاری کوئی امانت ہو تو وہ تمہاری مدد کرے گی. میں ادھر گیا تو دیکھا. چاندی کا ایک گول پہاڑ ہے اور اس میں جگہ جگہ سوراخ اور روشندان ہیں اور پردے لٹکے ہوئے ہیں ہر روشندان پر سونے کے دوپٹے ہیں اور ان میں قبضے یاقوت کے ہیں اور آرائش موتیوں کی. ہر پٹ پر ایک ریشمی پردہ ہے جب میں نے پہاڑ کی طرف نظر دوڑائی تو فوراً اس کی طرف بھاگا اور اژدھا میرے پیچھے تھا جب میں پہاڑ کے قریب پہنچا تو ایک فرشتے نے آواز دی پردے ہٹاو دروازہ کھول دو اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ شائد اس حاجت مند کی یہاں کوئی امانت ہو جو اسے اس کے دشمن سے نجات دلائے.
میں نے دیکھا پردے ہٹ گئے اور دروازے کھل گئے اور ان روشندانوں سے بہت سارے بچے میری طرف جھانکنے لگے ان کے چہرے چاند کی مانند تھے اژدھا بھی میرے نزدیک پہنچ چکا تھا میں حیران رہ گیا ان بچوں میں سے ایک نے چلا کر کہا ابے سب آؤ اس کا دشمن نزدیک آ گیا ہے چنانچہ وہ جوق در جوق کھڑے ہو کر جھانکنے لگے اچانک میری بچی جو مر گئی تھی وہ بھی ان کے ساتھ جھانک رہی ہے جب اس نے مجھے دیکھا تو رونے لگی اور کہا ہائے یہ تو میرا باپ ہے پھر اس نے نور کے جھرمٹ میں تیر کی تیزی کے ساتھ چھلانگ لگائی اور میرے سامنے آ کھڑی ہوئی اس نے اپنا بایاں ہاتھ میری طرف بڑھا کر میرا دایاں ہاتھ پکڑ لیا اور اپبے دائیں ہاتھ کو اژدہے کی طرف بڑھا دیا تو وہ بھاگ گیا۔
پھر اس نے مجھے بیٹھایا اور میری گود میں بیٹھ گئی اور اپنے دائیں ہاتھ سے میری داڑھی پکڑ کر کہا۔
اے ابا جان!
کیا مومنوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے جھک جائیں۔
میں رونے لگا اور کہا اے بیٹی تم لوگ بھی قرآن کو جانتے ہو اس نے کہا ہم تو آپ سے بھی زیادہ قرآن کو جانتے ہیں میں نے کہا اژرھے کے بارے میں تو کچھ بتاؤ جو مجھے ہلاک کرنے کے درپے تھا۔ اس نے کہا وہ تیرا برا عمل ہے جس کو تو نے طاقتور بنایا ہے اور وہ تجھے جہنم کی آگ میں ڈبونا چاہتا ہے۔
میں نے کہا اس بوڑھے کے بارے میں بتاؤ جو راستے میں ملا اس نے کہا وہ تیرا نیک عمل ہے جسے تو نے اتنا کمزور کر دیا کہ اب وہ برے عمل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا اے بیٹی تم اس پہاڑی میں کیا کرتی ہو اس نے کہا ہم سب مسلمانوں کے بچے ہیں ہم یہاں قیامت تک رہیں گے تمہارے انتظار میں ہیں جب تم آؤ گے تو ہم تمہاری سفارش کریں گے۔
مالک بن دینار فرماتے ہیں میں گھبرا کر اٹھا اور صبح کو میں نے شراب چھوڑ دی اور اس کے برتن توڑ ڈالے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کی۔یہ میری توبہ کا سبب ہے۔
معلوم ہوا کہ اولاد اگر بچپن میں فوت ہو جائے تو مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ کی مرضی پر راضی رہنا چاہیے کیونکہ یہی نابالغ اولاد آخرت میں کام آنے والی ہے جیسا کہ اس واقعہ سے سبق ملتا ہے۔