مصافحہ وسلام کے آداب

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
فقہ المسائل
 
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
سوال: مصافحہ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ آیا ایک ہاتھ سے سنت ہے یا دونوں ہاتھوں سے؟ براہ مہربانی تحقیقی جواب دیں۔
جواب: مصافحہ دو ہاتھ سےکرنا سنت ہے۔ نبی علیہ االسلام سے یہی ثابت ہے اور امت کا تعامل بھی اسی پر چلا آ رہا ہے۔ اس حوالے سے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
1: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الصحیح “ میں ایک باب قائم فرمایا ہے:
”باب المصافحۃ“ [مصافحہ کرنے کا باب]اور اس کے تحت حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد نقل کیا ہے:
عَلَّمَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْه
صحیح البخاری جلد2 صفحہ926
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے التحیات سکھائی۔ (التحیات سکھانے کے دوران) میرا ہاتھ نبی علیہ السلام کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے متصل بعد ایک اور باب قائم فرمایا ہے: ”باب الأخذ باليدين“ [دو ہاتھوں سے مصافحہ کا باب] اور اسی حدیث کودوبارہ اس باب میں ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہےکہ مصافحہ دونوں ہاتھ سے کرنا سنت نبوی ہے۔
2: امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی”باب الأخذ باليدين“ میں دو مشہور محدثین کا عمل ذکر فرمایا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ متوارث عمل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چلا آرہا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ
صحیح البخاری جلد2 صفحہ926
ترجمہ:امام حماد بن زید نے حضرت عبد اللہ بن مبارک کو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
یہ ایک فطرتی بات ہے اور اس سے کسی کو انکار بھی نہ ہو گا کہ اگر دو ہاتھ سے مصافحہ کیا جائے تو اس میں مسلمانوں میں محبت و الفت اور تواضع و انکساری کی جو کیفیت پائی جاتی ہے یقینی بات ہے کہ وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی صورت میں نہیں ہوتی۔
لہذا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کی سنت کو فروغ دیا جائے۔
سوال:کیا غیر مسلم کو سلام کرنا اور اس کے سلام کا جواب دینا کیسا ہے؟براہ کرم جواب عنایت فرمائیں؟
جواب:سلام کرنا اسلام کا شعار ہے اور جس کو سلام کیا جارہا ہوتا ہے اس کے حق میں ایک دعا ہے۔ اس لیےغیر مسلم کو السلام علیکم نہ کہا جائے۔ ہاں اگر وہ خود سلام کرتا ہے تو اس کے جواب میں صرف” وعلیکم“ کہا جائے۔ حدیث مبارک میں اسی طرح وارد ہے۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ
صحیح البخاری: باب كيف يرد على أهل الذمة السلام
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہل کتاب تمھیں سلام کہیں تو ان کے جواب میں ”وعلیکم“ کہہ دیا کرو۔
سوال:وہ کون کون سے مواقع میں جہاں سلام کرنا مکروہ ہے؟
جواب:علامہ علاء الدین الحصکفی رحمہ اللہ نے امام صدر الدین الغزی رحمہ اللہ سے نقل فرمایا ہے کہ مندرجہ ذیل مواقع میں سلام کہنا مکروہ ہے :
سلامك مكروه على من ستسمع ومن بعد ما أبدي يسن ويشرع مصل وتال ذاكر ومحدث خطيب ومن يصغي إليهم ويسمع مكرر فقه جالس لقضائه ومن بحثوا في الفقه دعهم لينفعوا مؤذن أيضا أو مقيم مدرس كذا الأجنبيات الفتيات امنع ولعاب شطرنج وشبه بخلقهم ومن هو مع أهل له يتمتع ودع كافرا أيضا ومكشوف عورة ومن هو في حال التغوط أشنع ودع آكلا إلا إذا كنت جائعا وتعلم منه أنه ليس يمنع۔۔۔ كذلك أستاذ مغن مطير فهذا ختام والزيادة تنفع
الدر المحتار: ج2 ص451 تا453
کہ ان لوگوں کوسلام کرنا مکروہ ہے۔نماز پڑھنے والا ،تلاوت کرنے والا،ذکر کرنے والا ،حدیث بیان کرنے والا،خطبہ دینے والا،خطبہ سننے والا،سبق کو دہرانے والا،قاضی جب قضاء کے لیے بیٹھا ہو،فقہ میں بحث مباحثہ کرنے والا،اذان دینے والا،اقامت کہنے والا،درس دینے والا ،جوان اجنبی عورت،شطرنج کھیلنے والا یاان جیسا غیر اخلاقی کھیل کھیلنے والا،مرد جب اپنی بیوی کے ساتھ ہو،کافر ،ننگے بد ن والا ،جو قضا حاجت میں مصروف ہو،جو کھانا کھا رہا ہو، ہاں اگر آپ کو بھوک لگی ہو اور آپ کو معلوم ہو کہ یہ شخص مجھے کھانا دینے سے انکار نہیں کرے گا تو اس شخص کو سلام کر سکتا ہے، اسی طرح گانا گانے والے اورکبوتر اڑانے والے کو بھی سلام کرنا مکروہ ہے۔