خطاکاروں کے لیے تسلی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خزائن السنن:
خطاکاروں کے لیے تسلی
مفتی شبیر احمد حنفی
انسان سے اگر کوئی خطا ہو جائے تو اسے توبہ کرنی چاہیے۔ اس خطا ہونے میں بندہ کے لیے کتنا سامان تسلی موجود ہے؟ اسے عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے ایک ملفوظ میں بیان فرمایا۔ افادہ عام کے لیے ہدیہ قارئین ہے۔
ایک صاحب سے غلطی ہوئی تھی تو ان کی تسلی کے لیے عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا:
آج میں ایک راز بتاؤں گا کہ کبھی کبھی بعض بےوقوفیاں جو ہوجاتی ہیں، اس میں کیا راز ہے؟بےوقوفی کرنا تو خطاہے لیکن استغفار اور توبہ کرکے اپنی خطاؤں کو بھول جاؤ ورنہ شیطان مایوس کرتاہے،ناامید کرتا ہےکہ تم تو بڑے خطاکار ہو،ہم خطاؤں کو یاد کرنے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن پاک میں اعلان فرمایا کہ ہم کو یاد کرو۔ گناہوں کو یاد کرنے کے لیے تم کوپیدا نہیں کیا گیا۔ایک دفعہ گناہ سے توبہ کرلو،توبہ کرکے معافی مانگ کر بس سمجھو کہ تمہارے گناہوں کو ہم نے قبر میں دفن کردیا اور دفن کرنے کے بعد مردہ اکھاڑا نہیں جاتا۔میرے شیخ نے فرمایا تھا کہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرکے پھر اللہ کی یاد میں لگ جاؤ،اس کا ایک راز بتاتا ہوں اور وہ راز صاحب قونیہ،صاحب مثنوی کی زبان سے بتاؤں گاجو یہاں میرے قریب مدفون ہیں۔فرماتے ہیں ؎
اے بسا زر راسیہ تابش کنند
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو!کبھی سونے کو سیاب تاب کرتے ہیں، کالا کالا رنگ لگا دیتے ہیں کیونکہ چمکتے ہوئے سونے کو نظر لگ جائے گی اور ڈاکو، چور اس کو اٹھا لے جائیں گے۔انسان کا نفس خود چور،ڈاکو ہے۔ اگر ہر وقت نیکیاں ہوں، کبھی خطا نہ ہو اور کوئی بےوقوفی نہ ہوجائے تو اس کو خود اپنی نظر لگ جائے گی کہ ہم بہت ہی اہم ہیں، لہذا خطا مت کرو، بےوقوفی اور حماقت مت کرو لیکن ہونا اور ہے،کرنا اور ہے۔اگر ہوجائے تو اللہ سے استغفار اور توبہ کرلو اور سمجھ لو کہ اللہ نے ہم کو بچا لیا کہ ہم اپنی نظر سے گر گئے، اپنی نگاہوں سے گرگئے کہ پڑھ لکھ کر بھی ہم ایسے بےوقوف ہیں۔لہذا عالم غیب سے تکویناً کبھی سونے کو سیاہ تاب کردیا جاتاہے کیوں؟ ؎
تاشود ایمن زتاراج وگزند
تاکہ وہ ڈاکوؤں سے اور چوروں سے محفوظ کردیا جائے۔لہذا کبھی کوئی بےوقوفی ہوجائے تو ندامت کے ساتھ اپنے اللہ سے معافی مانگ کر سمجھ لو کہ ہم نالائق ہیں۔مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ؎آں چنیں کردم کہ از من می سزید
ہم سے وہی نالائقی ہوئی جس کے ہم لائق تھے، جو کچھ ہم سے گناہ ہوا ہم اسی کے لائق تھے۔نالائق سے تو نالائقی ہی ہوگی،جو ہم سے ہوگئی اور کتنی زیادہ نالائقی ہوئی کہ ؎تا چنیں سیل سیاہی در رسید
یہاں تک کہ گناہوں کے اندھیرے ہم پر چھا گئے لیکن اب آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔مکہ کے کافروں نے کہا تھا کہ اب تو مکہ فتح ہوگیا ہے، اب آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے بدلہ نہیں لیں گے، وہی معاملہ کریں گے جو بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔تو جب آپ کے نبی کے یہ اخلاق ہیں تو آپ کے اخلاق کیسے ہوں گے؟ لہذا مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
اے خدا آں کن کہ از تو می سزد
اے خدا! آپ ہم نالائقوں کے ساتھ وہ معاملہ کیجیے جس کے آپ اہل ہیں،آپ لائق ہیں۔ اس لیے آپ کے لائق معاف کردینا، خطاؤں کو بخش دینا ہے۔ اے خدا! وہ معاملہ ہمارے ساتھ کیجیے جس کے آپ لائق ہیں۔کیا مولانا کے یہ علوم معمولی ہیں، مولانا فرماتے ہیں کہ ؎
من نہ جویم زیں سپس راہ اثیر
میں پہلے اللہ کا راستہ ہرگز نہیں ڈھونڈوں گا پہلے کیا کروں گا۔ ؎
پیر جویم پیر جویم پیر پیر
ایک مصرع میں چار دفعہ پیر کا نام لیا کہ ہم اللہ کو ڈھونڈنے کے لیے پہلے خود سے نہیں نکل پڑیں گے۔جن کے ذریعہ خدا ملتاہے پہلے ان کو ڈھونڈیں گے یعنی اللہ والوں کو، مرشد کو اور پیر کو ڈھونڈیں گے۔یہ صاحب قونیہ نے، مولانا رومی نے ہم کو ہدایت دی کہ جن کے ذریعہ سے اللہ ملتاہے پہلے ان کو ڈھونڈیں گے۔آپ بتائیے پہلے رہبر کو تلاش کرتے ہیں یا پہلے منزل کو ڈھونڈتے ہیں؟!آپ قونیہ میں جہاں جہاں جارہے ہو پہلے صائم[رہبر کا نام]کو ڈھونڈتے ہو یا نہیں؟رہبر کو تلاش کرتے ہو کہ بھئی! کدھر کو چلیں؟ تو معلوم ہوا کہ منزل سے پہلے رہبر کو تلاش کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ سے پہلے اللہ والوں کو تلاش کرو۔
[مواہب ربانیہ ص153تا156]