نماز جنازہ کے متعلق چند مسائل

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
فقہ المسائل
نماز جنازہ کے متعلق چند مسائل
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
سوال:
[1] جنازہ پڑھتے وقت زیادہ تر لوگ اپنا جوتا اتار دیتے ہیں جبکہ
[2] کئی حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو جوتے پہن کر نماز پڑھتے ہیں
یا [3] اتار تو لیتے ہیں لیکن پاؤں ان پر ہی رکھ لیتے ہیں۔ کیا اس طرح سے نماز ادا کرنا درست ہے؟
جواب:
1: جوتے اتار کر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے بشرطیکہ جس جگہ کھڑے ہوں وہ جگہ پاک ہو۔
[الدر المختار: باب صلاۃ الجنازۃ، ج3 ص122]
2: اس میں یہ دیکھ لیا جائے کہ اگر جوتے کا اوپر والا، اندرونی اور نچلا حصہ اور جس جگہ پر کھڑے ہیں، پاک ہے تو اس صورت میں نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں، اور اگر (مذکورہ جگہیں)ناپاک ہوں تو انہیں پہن کر نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتے۔
[کذا فی امداد الاحکام: فصل فی الصلوۃ علی المیت، ج1 ص832]
3: اگر جوتا اتار کر اس پر کھڑے ہوں تو اس صورت میں جوتے کے اوپر والے حصہ کا پاک ہونا ضروری ہے، نچلے حصہ کا پاک ہونا ضروری نہیں۔عالمگیری میں ہے:
وَلَوْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ وَقَامَ عَلَيْهِمَا جَازَ سَوَاءٌ كان ما يَلِي الْأَرْضَ منه نَجِسًا أو طَاهِرًا إذَا كان ما يَلِي الْقَدَمَ طَاهِرًا
الفتاویٰ العالمکیریۃ: کتاب الصلاۃ؛ الفصل الثانی، ج1 ص69
ترجمہ: اگر نمازی نے اپنے جوتے اتار دیے اور ان پر کھڑا ہو جائے تو یہ جائز ہے، چاہے جوتے کا نچلا حصہ جو زمین سے متصل ہے نجس ہو یا پاک ہو بشرطیکہ جوتے کا وہ حصہ جوپاؤں کے ساتھ ملا ہوا ہے پاک ہو۔
سوال:
کیا غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت نجاشی کا جنازہ غائبانہ پڑھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ا س وقت مدینہ میں تھے اور حضرت نجاشی حبشہ میں تھے۔
جواب:
نماز جنازہ کے لیے میت کا سامنے موجود ہوناضروری ہے،غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ در مختار میں ہے:
وَشَرْطُهَا أَيْضًا حُضُورُهُ
[الدر المختار؛ باب صلاۃ الجنازۃ؛ ج3 ص123]
ترجمہ: جنازہ کی صحت کی شرط یہ بھی ہے کہ جنازہ حاضر ہو (یعنی سامنے ہو)۔
حضرت نجاشی رحمہ اللہ کا نماز جنازہ غائبانہ نہ تھا بلکہ ان کی میت معجزۃً آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کر دی گئی تھی۔ چنانچہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رُفِعَتْ لَہٗ جَنَازَتُہٗ کَمَاکُشِفَ لَہٗ عَنْ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ حِیْنَ سَألَتْہُ قُرَیْشٌ عَنْ صِفَتِہٖ۔
(التمہید لابن عبدالبر ج3 ص138 تحت رقم 145)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت نجاشی کا جنازہ لایا گیا تھا جس طرح جب قریش نے بیت المقدس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو بیت المقدس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کےسامنے ہے۔
[صحیح ابن حبان ص 872رقم 3102،التمہید لابن عبدالبر ج3 ص 140]
نیزمحققین نے اس بات کی تصریح بھی کی ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت تھی۔
[التمہید لابن عبدالبر ج3ص137,138،معالم السنن للخطابی ج1 ص 270 ]
لہذا غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو نماز اہل السنۃ و الجماعۃ از راقم۔
سوال:
نماز جنازہ ہو رہا تھا، ایک آدمی ایسے وقت میں پہنچا کہ امام دو یا تین تکبیرات کہہ چکا تھا۔تو اب یہ شخص اپنی نماز کیسے پوری کرے؟
جواب:
آنے والے شخص کو چاہیے کہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے۔ امام جب تکبیر کہے تو یہ بھی تکبیر کہہ کر شریک ہو جائے۔ چوتھی تکبیر کے بعد امام جب سلام پھیرے تو یہ شخص اپنی باقی ماند تکبیرات پوری کر لے۔فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
وإذا جاء رَجُلٌ وقد كَبَّرَ الْإِمَامُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولٰى ولم يَكُنْ حَاضِرًا انْتَظَرَهُ حتى يُكَبِّرَ الثَّانِيَةَ وَيُكَبِّرَ معه فإذا فَرَغَ الْإِمَامُ كَبَّرَ الْمَسْبُوقُ التَّكْبِيرَةَ التي فَاتَتْهُ قبل أَنْ تُرْفَعَ الْجِنَازَةُ
[الفتاویٰ العالمکیریۃ: الْبَابُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ في الْجَنَائِز]
یعنی اگر کوئی شخص ایسے وقت میں آیا کہ امام پہلی تکبیر کہہ چکا تھا اور یہ اس وقت حاضر نہیں تھا تو اسے چاہیے کہ انتظار کرے یہاں تک کہ امام دوسری تکبیر کہے۔ امام جب جنازہ سے فارغ ہو جائے تو یہ مسبوق جنازہ اٹھائے جانے سے قبل اپنی فوت شدہ تکبیرات پوری کر لے۔
اگر شریک ہوتے وقت اسے علم ہو کہ یہ کون سی تکبیر ہے تو اسی تکبیر والی دعا پڑھے اور اگر اسے علم نہ ہو تو پہلی تکبیر والی دعا پڑھے یعنی پہلے ثناء، پھر درود شریف اور پھر دعا۔چنانچہ رد المحتار میں نور الایضاح مع الشرح کے حوالے سے ہے:
أَنَّ الْمَسْبُوقَ يُوَافِقُ إمَامَهُ فِي دُعَائِهِ لَوْ عَلِمَهُ بِسِمَاعِهِ ا هـ۔۔بِأَنْ لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ فِي التَّكْبِيرَةِ الثَّانِيَةِ أَوْ الثَّالِثَةِ مَثَلًا يَأْتِي بِهِ مُرَتَّبًا : أَيْ بِالثَّنَاءِ ثُمَّ الصَّلَاةِ ثُمَّ الدُّعَاءِ تَأَمَّلْ
[الدر المختار: باب صلاۃ الجنازۃ، ج3 ص136]
یعنی اگر مسبوق کو اپنے امام کی تکبیرات کا علم ہو تو اسی کے مطابق دعاکرے (یعنی مثلاً اگر امام دوسری تکبیر میں ہے تو یہ درود شریف پڑھے وغیرہ) اور اگر اس کا علم نہ ہو کہ امام دوسری رکعت میں ہے یا تیسری میں تو مسبوق کو (تکبیرات کی دعاؤں میں) ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے یعنی پہلے ثناء، پھر درود شریف اور پھر دعا۔
فوت شدہ تکبیریں کہنے میں اگر خوف ہو کہ جنازہ اٹھا لیا جائے گا تو فقط تکبیریں کہے، ان میں دعا نہ پڑھے ورنہ دعا بھی پڑھ لے۔در مختار میں ہے:
ثُمَّ يُكَبِّرَانِ مَا فَاتَهُمَا بَعْدَ الْفَرَاغِ نَسَقًا بِلَا دُعَاءٍ إنْ خَشِيَا رَفْعَ الْمَيِّتِ عَلَى الْأَعْنَاقِ .
[الدر المختار: باب صلاۃ الجنازۃ، ج3 ص136]
یعنی مسبوق (جس کی امام کے ساتھ ایک یا زائد تکبیرات رہ گئی ہوں) اور حاضر (جس نے امام کے ساتھ ایک سے زائد تکبیریں پائی ہوں) کو اگر اس بات کو خوف ہو کہ میت کو اٹھا لیا جائے گا تو وہ فوت شدہ تکبیریں پے در پے کہہ دیں اور ان میں کچھ نہ پڑھیں۔