متکلم ِاسلام مولانا محمد الیاس گھمن کادورہ میانمار(برما)

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">متکلم ِاسلام مولانا محمد الیاس گھمن کادورہ میانمار(برما)

مولانا محمد علی
مہتمم مدرسہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ینگون (رنگون)
جنوب مشرقی ایشاء میں واقع ـ’’ میانمار ‘‘ اپنی زرعی حیثیت اور عظیم رقبہ کی وجہ سے مشہور ملک ہے۔۶۷۶۵۵۲ مربع کلو میٹر پر مشتمل یہ ملک ۱۹۸۹ء تک ’’برما‘‘ کے نام سے موسوم رہا۔ ۱۹۸۸ء تک اقتدار سنبھالنے والی فوجی حکومت نے ملک کا نام بدلا اور اب یہ میانمار(Myanmar) کے نام سے مشہور ہے۔میانمار کی ۷۱فیصد آبادی دیہی ہے، جب کہ شہری آبادی میں سے نصف تین بڑے شہروں ینگون، منڈالے،اور مولمین میں رہتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک زرعی ملک ہے۔ تقریبا ً۶۳ فیصد برسرروزگار لوگ فصلوں کی پروسیسنگ سے منسلک ہیں ، جب کہ بارہ فیصد لوگ صنعت میں کام کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل ’’ میانمار ‘‘ دنیا کے چاول برآمد کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ جنگ کے بعد زیر کاشت رقبہ واگزار ہوا لیکن آبادی بڑھنے سے فاضل پیداوار کبھی سابقہ حد کو نہیں پہنچ پائی۔
میانمار کی سرکاری زبان کو ماہر ین لسانیات نے ’’برمی‘‘ کا نام دیا ہے،البتہ حکام اسے’’ میانمار زبان‘‘ کہتے ہیں۔ بہت بڑی اکثریت یہی زبان بولتی ہے، البتہ پڑھے لکھے لوگوں میں انگلش رائج ہے۔
متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ پاکستان کے ایک معروف عالم دین ہیں۔ عقائد ونظریات کے حوالے سے حضرت کی مساعی اندرون و بیرون ملک قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ راقم سمیت میانمار کے جید علماء نے حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ کو دعوت دی کہ ہمارے ہاں قدم رنجہ فرمائیں۔ چنانچہ کمال شفقت کا اظہارفرماتے ہوئے حضرت تشریف لائے۔
پاکستان سے حضرت حفظہ اللہ کی روانگی ۱۴فروری۲۰۱۳ء بوقت۱۱:۵۵بجے رات ہوئی۔ طویل دورانیے کے اس سفر نے حضرت کو ۶:۳۰پر ’’بنکاک ‘‘ائیر پورٹ (تھائلینڈ) پر چھوڑا۔ چند گھنٹے وہاں قیام کے بعد ۱۰ بجے وہاں سے روانہ ہوئے اور ۱:۴۵ پر ینگون پہنچ گئے۔ ینگون ائیر پورٹ پر شائقین عوام وخواص کا ایک جم غفیرمتکلم اسلام حفظہ اللہ کے استقبال کے لیے آ مو جود تھا جن میں مفتی محمد ادریس ، مولانا محمود ناخدا،مولانا محمد نصیر،مولانا جلال الدین،مولانا محمد ابوبکر،مولانا محمد عارف،مولانا محمد جمیل ،راقم الحروف(مو لانامحمد علی ) ، حاجی سلیم صاحب،بھائی حسین احمد اور دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ اپنے دیس میں اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے محبوب ومکرم کو دیکھ کر جو خوشی ہوئی بیان سے باہر ہے۔ محبت والفت کے جذبات کے ساتھ حضرت کا استقبال کیا اور انہیں لے کر مولانا محمود نا خدا کے گھر ’’مغل اسٹریٹ‘‘ پہنچے۔ حضرت کی آمد پر دسترخوان سجا دیا گیا۔ کھانے کے بعد عصر کی نماز ادا کی۔ عصر سے مغرب تک حضرت نے آرام فرمایا۔ مغرب کے بعد پنجابی مسجدینگون (رنگون) میں حضرت حفظہ اللہ نے درس قرآن دیا۔
ینگون (رنگون) میانمار کا دارالحکومت ہے اور سب سے بڑا شہر ہے۔ اہم مدارس اوربڑی مساجد اسی شہر میں واقع ہیں اور نامور علماء کرام کے مسکن ہونے کا اعزاز بھی اسی شہر کو حاصل ہے۔درس قرآن کا عنوانــ’’مضامین سورۃ فاتحہ‘‘ تھا۔ حضرت کوچونکہ خدا تعالیٰ نے گوناگوں صفات سے نواز ہے جن میں تفہیم کا ملکہ اپنی مثال آپ ہے،اس کا لطف وہی حضرات بخوبی جانتے ہیں جو آپ کے وعظ ودرس میں شریک رہتے ہیں۔ نماز عشاء کے بعد کھانا حاجی محمد سلیم کے گھر تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ینگون کے معروف ہوٹلMy Flower, Street 29 میں حضرت نے آرام فرمایا۔
۱۶فروری۲۰۱۳ء: دن کا سورج طلوع ہوا تو حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ کے دروس وبیانات کا بھی آغاز ہوا۔آٹھ بجے صبح حضرت حفظہ اللہ راقم الحروف کے مدرسہ عمر بن خطاب (ینگون) میں تشریف لائے اور مشہور محدث و شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ کی تالیف ’’ریاض الصالحین ‘‘ سے علماء و اساتذہ کو درس ِحدیث دیا۔ بعد ازاں علماء کے ساتھ خصوصی نشست بھی ہوئی جس میں عقیدہ کے حوالے سے کئی اہم مباحث سامنے آئیں۔ ۱۰بجے سے ۱۱بجے تک حضرت نے جامعہ عربیہ دارالعلوم ینگون میں بیان فرمایا۔اس موقع پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جامعہ کی حیثیت ینگون کے مدارس میں ــ’’ام المدارس‘‘ کی ہے۔اپنے نظم و نسق، درس و تدریس اور علاقائی اہمیت کے حوالے سے تمام مدارس میں سرفہرست ہے۔جامعہ کے اہتمام کی ذمہ داری عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے خلیفہ مجاز مولانا ہدایت اللہ صاحب کے سپرد ہے۔ موصوف جید عالم دین اور ملنسار انسان ہیں۔ آپ نے حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ کی آمد پر انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا۔
اس کے بعد ایک اور مقامی مدرسہ ’’صادقیہ حفظ القرآن‘‘ میں بھی بیان ہوا جس میں علماء و طلباء نے بھرپور شرکت کی۔ بیانات سے فراغت کے بعد حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ کے دوپہر کے کھانا کا انتظام راقم کے سسرال کے ہاں تھا جو یقیناً ہمارے لیے سعادتِ عظمیٰ سے کم نہ تھا۔
نمازظہر کے بعدجمعیت علماء اسلام کے دفتر میں ’’دورہ تحقیق المسائل‘‘ کے نام سے ایک مختصر کورس کا انعقاد ہوا۔
جمعیت علماء اسلام کا یہ دفتر مولانا محمد کا یوسف صاحب کی زیر نگرانی چل رہا ہے۔ مولانا موصوف جمعیت علماء اسلام میانمار کے نائب صدر ہیں اور نہایت اچھے انسان ہیں۔ ’’دورہ تحقیق المسائل‘‘ میں حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ نے اہل السنۃ والجماعۃ کے نظریات ومسائل کا بادلائل جائزہ لیا۔تقلید ودیگر مسائل جیسے اہم عنوانات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ راقم بلا مبالغہ عرض کرتا ہے کہ ہم نے حضرت موصوف کو خطابت کے میدان میںیگانہ روزگار خطیب ،درس قرآن کے حوالے سے بے بدل مفسر ،درس حدیث کے عنوان پربے مثال محدث اور تدریس وتعلیم کی مسند پر کامیاب مدر س اور خانقاہ کی مسند پر شیخ و مرشد پایا۔بحمد اللہ اتنی ستودہ صفات کی حامل شخصیت سے استفادہ کا جو موقع یہاں کے علماء وعوام خصوصاًراقم کو میسر ہوا، ہم اس پر باری تعالیٰ کے انتہائی مشکور ہیں۔
مسئلہ تقلید کے حوالے سے یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ عصر حاضر میںبعض عاقبت نا اندیش لوگ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی تقلید کو شرک وحرام کہنے سے نہیں چو کتے، بلکہ ان کی محنت کا آغاز ہی اسی’’مرحلہ‘‘ سے ہوتا ہے۔ اگر چہ اس پر بے شمار کتب موجود ہے لیکن شرح صدرکے ساتھ جس شخصیت سے یہ مسئلہ سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے متعلق تمام تر قسم کے اشکالات زائل کیے جاسکتے ہیں، اس وقت عالم اسلام میں حضرت متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن حفظہ اللہ سے اہم ہستی شائد ہی کوئی موجود نہیں ’’دورہ تحقیق المسائل‘‘ کے بعد مغرب کی نماز ادا کی ،کھانا بھائی محمد سلیم کے گھر تھا۔ نماز عشاء کے بعد’’ رونق مسجد‘‘میں درس تھا، عنوان درس سورۃ فاتحہ تھا، جس میں علماء و عوام الناس کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس درس قرآن میں حضرت موصوف حفظہ اللہ نے سورۃفاتحہ سے حاصل ہونے والے ان نظریاتی و فقہی نکات کا تذکرہ کیا جو انسان کو مادی محنت کی بجائے اخروی تگ و دو کی جانب راغب کرتے ہیں۔
۱۷فروری ۲۰۱۳ء: صبح ۱۰بجے سے ۱۲ بجے تک ــ’’ رونق اسلام مسجد‘‘میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ ختم نبوت ایک اجماعی عقیدہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی نئے نبی نے پیدا نہیں ہونا ،جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعوی کرے باجماع امت کافر ہے۔ اس اہم و بنیادی عقیدے کے بارے میں عوام کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے ینگون میں پہلی کانفرنس تھی جو حضرت حفظہ اللہ کی آمد کی برکت سے منعقد ہوئی۔حضرت نے اپنے علم لدنی کی بنا ء پر ختم نبوت کے مسئلہ پر ایسے عقلی ونقلی دلائل پیش فرمائے کہ بلا مبالغہ سامعین اور خصوصاًاسٹیج پر بیٹھے علماء کرام انگشت بدنداں تھے۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ یہ علم کسبی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطاء کردہ علم وہبی ہے۔
ظہرانہ مولانا ہدایت اللہ دامت برکاتہم کے گھر تھا۔ نماز وکھانے سے فراغت کے بعد ۳بجے سہ پہر سے ۴:۳۰ تک رونق مسجد میں دورہ تحقیق المسائل منعقد ہوا۔ حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ نے انتہائی آب وتاب اور بادلائل گفتگو کے ساتھ عقائد ونظریات اہل السنۃوالجماعۃپر گفتگو فرمائی۔ آپ نے عصر کی نماز کے بعد شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید حضرت مولاناشمس الضحیٰ دامت برکاتہم سے ملاقات کی۔ حضرت موصوف کا شمار میانمار کے جید علماء میں ہوتا ہے۔ آپ جمعیت علماء اسلام( بر ما) کے امیر ہیں۔ مولاناشمس الضحیٰ سے ملاقات کے بعد حضرت متکلم اسلام بہادر شاہ ظفر کی قبر پر تشریف لے گئے۔ بہادر شاہ ظفر مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ آپ ۱۷۷۵ء میں پیدا ہوئے اور ۱۸۳۷ء میں شاہی تخت پر متمکن ہوئے۔
استعماری قوت نے جو ناروا سلوک آپ کے ساتھ کیا وہ ایک نرم دل رکھنے والے انسان کو آنسو بہا دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ شخص جو بابر، اکبر، شاہ جہان اور عالمگیر کا جانشین تھا ایک بے حقیقت مجرم کی طرح قید کر لیا گیا، غلاموں نے اپنے آقا کو گرفتار کر لیا، جو تجارت کرنے آئے تھے وہ بادشاہ بن بیٹھے اور جس نے تجارت کا پروانہ دیا تھا وہ مجرم قرار پایا، اس کے چار بیٹوں کے سر کاٹ کر بادشاہ کو بھیجے گئے اور پھر ان کی لاشوں کو سولی پر چڑھایا گیا۔ ۱۰ جنوری ۱۸۵۸ء کو ایک فوجی کمیشن کے ظالمانہ فیصلے کے مطابق جلا وطن کر کے ینگون (رنگون) بھیج دیے گئے اور آپ کا انتقال ینگون ہی میں ہوا۔ مرحوم کی قبر پہ موجود کتبہ پر ان کی دل کی آرزو جو ان کی نوک زبان تھی، ان الفاظ میں مرقوم ہے:
یہی حسرت تھی کہ گھر میرا مدینے میں رہے
بنا رنگون میں، ارمان میرے سینے میں رہے
ہے تمنا یہ ظفر کی یا رسول عربی!
اپنی آنکھوں کو ملے، آپ کی چوکھٹ سے نبی
مرحوم کی قبر کے قبلہ جانب سے مشرق کی طرف ان کی مشہور زمانہ نظم ان پر کیے گئے مظالم کا پیغام سنا رہی ہے:
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم نا پائیدار میں
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ نہیں ہے دل داغدا ر میں
بلبل کو ہے چمن سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چا ر دن
دو آرزو میں کٹ گئے ، دو انتظار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
واپسی پر مولانا محمد ابراہیم سورتی اور مولانا محمد سورتی کے گھر کھانے کا پروگرام تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد حضرت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن کا سورتی سنی جامع مسجد میں بیان تھا۔
بیان میں عوام الناس و علماء کرام شریک تھے۔ عنوان ’’مضامین سورۃ فاتحہ ‘‘ تھا۔ سورتی جامع مسجد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے امام و خطیب شیخ محمد حمزہ بن حضرار کوبی المدنی رحمۃ اللہ علیہ پہلے مسجد نبوی کے امام رہے تھے۔ اس مسجد کی انتظامیہ موصوف کو مدینہ سے یہاں لائی تھی۔ ایک عرصہ تک شیخ اس مسجد میں امامت کی خدمات سرانجام دیتے ر ہے اور ۱۵ صفر ۱۳۵۱ھ بمطابق ۲۰ جون ۱۹۳۲ء عالم فانی سے عالم باقی کی طرف کوچ فرما گئے اور دارالعلوم سے متصل قبرستان میں مدفون ہوئے۔
۱۸ فروری ۲۰۱۳ء: حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ کے قیام کا آخری دن تھا۔ صبح کا بیان حضرت نے ینگون کے تبلیغی مرکز’’تیچھا پنے پلی‘‘ میں فرمایا، جس میں عوام کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔’’پلی‘‘ میانمار زبان میں مسجد کو کہتے ہیں اور ’’تیچھاپنے‘‘ آدھی ٹوٹی ہوئی کو۔ اس مسجد کے بارے میں معروف ہے کہ مختلف حکومتوں نے اس کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ جومسجد کا کچھ حصہ شہید کرتاوہ مر جاتا۔ کئی لوگ اسی کشمکش میں لقمہ اجل بنتے رہے تاآنکہ مسجد کا نصف حصہ شہید ہو گیا۔ بعد میں یہ عمل روک دیا گیا۔
یہ مسجد انہی سابقہ واقعات کے پیش نظر ’’تیچھا پنے پلی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ حضرت متکلم اسلام نے ’’تیچھا پنے پلی‘‘ میں بیان فرمانے کے بعد مرکز کے ذمہ داران کے ساتھ ناشتہ کیا، جنہوں نے حضرت متکلم اسلام کی آمد پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور آپ کی عقائد و نظریات کے حوالے سے دردمندانہ کوششوں کو سراہا۔
دوپہر کا کھانا مولانا محمود ناخدا کے گھر تھا، حاجی محمد سلیم، بھائی محمد سلیم،مولانا محمد انس، مولانا محمد نصیر اور راقم بھی ساتھ تھے۔ کھانے کے بعد 12:30 بجے ہم حضرت کے ساتھ ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔حضرت کی واپسی کی اطلاع چونکہ کئی احباب کو تھی،اس لیے ائیر پورٹ پر ہی کئی احباب تشریف لائے جن میں مولانا محمود، مولانا محمد ابراہیم سورتی،مولانا محمد نصیرو دیگر حضرات شامل تھے۔ اشک بار آنکھوں کے ساتھ اپنے محبوب مہمان کو رخصت کیا۔ فلائٹ کا وقت میانمار وقت کے مطابق دن دو بجے تھاچنانچہ وقت مقررہ پر حضرت حفظہ اللہ کا سفر شروع ہوا اور پاکستانی وقت کے مطابق رات ۱۰:۳۰بجے حضرت الشیخ اسلام آباد (پاکستان) پہنچ گئے۔
تحقیق المسائل کورسز میں علماء و طلباء کی تعداد۲۰۰ سے لے کر ۹۰۰ تک رہی اور عوامی اجتماعات میں عوام و خواص کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تین روزہ دورہ میانمار (برما) پورے میانمار میں غیر مقلدیت و سلفیت کے رد اور مسلک اہل السنۃ و الجماعۃ کے تحفظ کے لیے ان شاء اللہ سنگ میل ثابت ہو گا۔
علماء کرام نے مولانا محترم کی خدمات کو سراہا اور آئندہ دورہ کے لیے ستمبر میں دس دن برما آنے کا وعدہ لیا، جو حضرت متکلم اسلام حفظہ اللہ نے کمال شفقت سے اس شرط پر قبول فرما یا کہ پہلے علماء کی ایک جماعت مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ۸۷جنوبی سرگودھاآئے گی جسے علماء برما نے منظور فرما لیا۔