شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ الاکابر:
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ
مولانا محمد زکریا پشاوری حفظہ اللہ
خاندانی پس ِمنظر:
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے والد محترم کا نام مولانا فضل الرحمن عثمانی تھا۔مولانا فضل الرحمن عثمانی جید عالم دین تھے اور ان کا شمار دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں ہوتا ہے۔آپ مولانا مملوک علی رحمہ اللہ سے مستفیض تھے۔جید عالم دین ہونے کے علاوہ فارسی اور اردو کے بلند پایہ شاعر تھے۔1857ء میں بریلی میں انسپکٹر مدارس تھے،1325ء بمطابق1907ء میں انتقال کیا۔
مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمہ اللہ نے تین نکاح کیے۔پہلی بیوی سے اولاد نہ ہوئی،دوسری اور تیسری بیوی سے اولاد ہوئی۔دوسری بیوی سے مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی مفتی دارالعلوم دیوبند ،مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم دار العلوم دیوبند اور حافظ خلیل الرحمن عثمانی پیدا ہوئے۔مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تیسری بیوی سے تھے۔
ولادت با سعادت:
آپ10محرم الحرام 1305ھ بمطابق ستمبر 1887ء بجنورمیں پیدا ہوئے۔ان دنوں آپ کے والد محترم بجنور میں انسپکٹر مدارس تھے۔
آغاز تعلیم وچند اساتذہ:
آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا۔اس وقت آپ کی عمر سات سال تھی۔آپ نے جن اساتذہ سے علوم حاصل کیے ان کے نام درج ذیل ہیں۔
حافظ محمد عظیم دیوبندی،حافظ نامدار خان،مفتی منظور احمد،شیخ الہند مولانا محمود حسن
مولانا غلام رسول خان ،مولانا حکیم محمد حسن چاند پوری،مولانا مفتی عزیز الرحمان عثمانی
مولانا حافظ محمد احمد نانوتوی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین
تکمیل تعلیم:
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ ربیع الثانی1319ھ بمطابق1902ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئےء اور 1325ھ بمطابق1907ء میں دارالعلوم سے سند فراغت حاصل کی۔
تدریس:
فراغت تعلیم کے بعد آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور مدرسہ فتح پور دہلی میں آپ کا تقرر بحیثیت صدر مدرس ہوا۔اس مدرسہ میں آپ نے 1328ھ /190ء تک تدریس فرمائی۔
دارالعلوم دیوبند میں آمد:
شوال 1328ھ/1910ء میں علامہ عثمانی رحمہ اللہ کو دارالعلوم دیوبند بلایا گیا اور حدیث کی مشہور کتاب ”صحیح مسلم“ پڑھانے پر مامور کیا گیا۔دارالعلوم دیوبند میں آپ نے1346ھ/1928ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔
دارالعلوم دیوبند سے علیحدگی:
مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے۔ آپ اپنے دور کے بلند پایہ عالم دین اور محدث تھے۔ دارالعلوم کی انتظامیہ کمیٹی سے بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر اختلاف پیدا ہوگئے جس کی بناء پر آپ نے دارالعلوم سے استعفیٰ دے دیا۔حضرت مولانا سیدانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے ساتھ مولانا عزیز الرحمن عثمانی اور مولا شبیر احمد عثمانی بھی دارالعلوم سے مستعفی ہوگئے۔
جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تدریس:
مولانا سیدمحمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوکر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل(سورت)تشریف لے گئے اور وہاں جامعہ اسلامیہ کے صدر مدرس مقرر ہوئے۔مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ بھی ہمراہ ڈابھیل چلے گئے اور وہاں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔حضرت شاہ صاحب نے 3صفر1352ھ مطابق 29مئی1933ء کو دیوبند میں انتقال کیا۔تو ان کے بعد علامہ عثمانی رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے صدر مدرس مقرر ہوئے اور تقریباً دو سال تک آپ جامعہ کے صدر مدرس رہے۔
دارالعلوم دیوبند واپسی:
1354ھ/1935ء میں حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی دارالعلوم دیوبند تشریف لائے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی تحریر پر آپ دوبارہ دارالعلوم واپس آگئے۔ آپ کو دارالعلوم کا مہتمم مقرر کیاگیا۔اس منصب پر آپ رحمہ اللہ 1362ھ/1944تک فائز رہے۔اور اس دوران جامعہ ڈابھیل سے بھی تعلق رہا۔
تلامذہ:
مولانا عثمانی رحمہ اللہ کی زندگی کا بیشتر حصہ درس وتدریس میں گزرا۔آپ کے تلامذہ کی تعداد زیادہ ہے، لیکن ہم یہاں صرف مشہور تلامذہ کے نام درج کرتے ہیں جو اپنے دور میں علم وفضل کے اعتبار سے یگانہ روزگار تھے:
مولانا سید مناظر احسن گیلانی،مولانا حبیب الرحمان اعظمی،مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی ،مولانا محمد یوسف بنوری ،مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی رحمہم اللہ۔
تصانیف:
علامہ عثمانی رحمہ اللہ بلند پایہ خطیب اور یگانہ روزگار مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ نامور مصنف بھی تھے۔علامہ سید سلمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر شستہ ہوتی تھی۔آپ کی تصانیف میں علم الکلام ،العقل والنقل،اعجاز القرآن،حجاب شرعی،الشہاب الثاقب،حواشی بر ترجمہ حضرت شیخ الہند،
فتح الملہم شرح مسلم(عربی) اور فضل الباری شرح صحیح بخاری(اردو)شامل ہیں۔
فتح الملہم شرح صحیح مسلم:
مولانا عثمانی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں صحیح مسلم کا درس دیتے رہے۔صحیح مسلم سے آپ کو بے حد شغف تھا۔چنانچہ آپ نے
Īبقیہ ص ۴۱ پرĨ