امام عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بستان المحدثین
امام عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ
مولانا محمد اکمل حفظہ اللہ
نام ونسب:
نام عامر بن شراحیل، کنیت ابوعمر، لقب شعبی۔ آپ قبیلہ ہمدان سے تعلق رکھتے ہیں۔ [تذکرۃ الحفاظ ج1ص81،سیر اعلام النبلاء ج4ص482]
ولادت باسعادت:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مرکز علم کوفہ میں ہوئی۔
[تاریخ بغداد ج10ص344، تذکرۃ الحفاظ ج1ص81]
شرف تابعیت:
آپ رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ فرماتے ہیں۔
أدركت خمس مائة صحابي
[سیر اعلام النبلاء ج4ص482]
کہ میں نے پانچ سو صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی۔
تحصیل علم:
امام شعبی رحمہ اللہ کی پیدائش اور پرورش ایسے دور اور شہر میں ہوئی جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیرتعداد موجود تھی۔شہر کوفہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم کا مسکن تھا۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے علوم نبوی کی بحر بیکراں شخصیات اور نفوس سے تحصیل علم میں مصروف ہوگئے، آخر کار ان جبال علم کے علوم نے آپ کو امام العصر اور علامۃ التابعین بنا دیا۔
فضل وکمال:
آپ رحمہ اللہ علمی اعتبار سے اپنےزمانے کے امام اور علامہ تھے۔ جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا۔ چنانچہ امام ابواسحاق الحبال فرماتے ہیں کہ شعبی جملہ علوم میں یگانہ عصر تھے۔
[تہذیب التہذیب ج5ص69]
قرآن وحدیث ،فقہ ومغازی،ریاضی وادب اور شاعری میں انہیں یکساں دسترس حاصل تھی۔
شرف روایت:
آپ رحمہ اللہ احادیث نبوی کے جلیل القدر حافظ ہی نہیں بلکہ امام العصر تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت بڑی سعادت اور نعمت یہ عطافرمائی کہ شرف تابعیت کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شاگردی سے بھی مالا مال فرما دیا۔ جن نفوس قدسیہ سے آپ نے روایت حدیث کی ،ان میں سے چند ایک حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں:

1.

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

2.

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

3.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

4.

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

5.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

6.

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ

7.

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ

8.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ

9.

سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ

10.

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
[سیر اعلام النبلاء ج4ص483،تذکرۃ الحفاظ ج1ص82]
وسعت علم کی وجہ:
امام ابوالحسن مدینی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (الحکمۃ)میں بیان کیا ہےکہ کسی نے امام شعبی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ نے اتنا وسیع علم کیسے حاصل کیا ؟فرمایا ۔
بنفى الاغتمام والسير في البلاد وصبر كصبر الجماد وبكور كبكور الغراب ،
[تذکرۃ الحفاظ ج1ص82،سیر اعلام النبلاء ج4ص483]
اپنے موجودہ علم پہ بےاعتمادی، گدھوں کی طاقت برداشت کرنے ،جمادات کی طرح صبر اور کوے کی طرح گھر سے سویرے نکلنے کی بدولت حاصل ہوا ہے۔
آپ کا اپنا بیان ہے۔
ما سمعت منذ عشرين سنة من رجل يحدث بحديث الا وانا اعلم به منه ،
[سیر اعلام النبلاء ج4ص485]
کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی کہ اس سے بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں۔
مراسیل امام شعبی رحمہ اللہ:
علامہ شعبی کی مرسل روایت کس درجے کی ہے؟ اس کے متعلق علامہ ذہبی رحمہ اللہ امام احمد بن عبداللہ العجلی کا فرمان نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علامہ شعبی کی مرسل احادیث صحیح ہوتی ہیں، آپ صحیح کے علاوہ کسی حدیث مرسل کو بیان نہیں کرتے ہیں۔
[سیر اعلام النبلاء ج4ص485،تذکرۃ الحفاظ ج1ص82]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے امام نخعی کی مراسیل سے امام شعبی کی مراسیل زیادہ پسند ہیں۔
[قواعد فی علوم الحدیث للمحدث ظفر احمد العثمانی]
علامہ شعبی رحمہ اللہ ائمہ کی نظر میں:
امام مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ما رأيت أحدا اعلم من الشعبی
[سیر اعلام النبلاء ج4ص484،تذکرۃ الحفاظ ج1ص83]
کہ میں نے امام شعبی رحمہ اللہ سے زیادہ جاننے والا نہیں دیکھا۔
امام ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علماء الناس ثلاثة، ابن عباس في زمانه، والشعبي في زمانه، والثوري في زمانه
[سیر اعلام النبلاء ج4ص484]
کہ کامل عالم تین ہیں؛ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے زمانے میں،امام شعبی رحمہ اللہ اپنے زمانے میں اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اپنے زمانے میں۔
امام عاصم بن سلیمان فرماتے ہیں۔
ما رأيت أحدا اعلم بحديث أهل الكوفة والبصرة والحجاز من الشعبي.
[سیر اعلام النبلاء ج4ص485]
کہ میں نے کوفہ،بصرہ اور حجاز کے مرکزوں کے محدثین کی احادیث کا جاننے والا ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔
امام ابن ابی لیلیٰ امام شعبی اور ابراہیم نخعی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
كان إبراهيم صاحب قياس، والشعبي صاحب آثار ،
[سیر اعلام النبلاء ج4ص486،تذکرۃ الحفاظ ج1ص83]
کہ امام شعبی محدث ہیں اور ابراہیم نخعی مجتہد ہیں۔
امام صلت بن بہرام کہتے ہیں کہ میں کوئی ایسا آدمی نہیں جانتا جو شعبی جتنا وسیع علم رکھتاہو۔
امام عاصم احول کہتے ہیں: شعبی حسن بصری سے علم حدیث زیادہ رکھتے تھے۔
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس دور کے علماء چار ہیں:مدینہ میں سعید بن مسیب،کوفہ میں عامر بن شراحیل شعبی،بصرہ میں حسن بصری اور شام میں مکحول۔
[تاریخ بغداد ج10ص168]
قوت حافظہ:
آپ رحمہ اللہ کو جس قدر تحصیل علم کا شوق تھا اس قدر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حافظہ بھی عطا فرمایا تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس سے جتنا بڑا اور عظمت والا کام لینا چاہتے ہیں اتنی استعداد وصلاحیت سے بھی مالا مال کردیتے ہیں۔چونکہ آپ سے علم حدیث کا کام لینا تھا تو آپ کو بھی بہت ساری صلاحیتوں اور انعامات سے نوازا ،خصوصاً قوت حافظہ سے۔ چنانچہ آپ کا اپنا بیان ہے۔
ما كتبت سوداء في بيضاء الى يومى هذا، ولا حدثني رجل بحديث قط الا حفظته ولا أحببت أن يعيده علي
[تذکرۃ الحفاظ ج1ص85]
کہ میں نے آج تک کاغذ پر کچھ نہیں لکھا، جب کوئی شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تو مجھے حفظ ہوجاتی تھی،مجھے کبھی ضرورت محسوس نہیں ہو ئی کہ وہ اسے میرے سامنے دوبارہ پڑھے۔
روایتِ حدیث میں احتیاط:
آپ رحمہ اللہ قوتِ حافظہ اور وسعتِ علم کے باوجود روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے اور زیادہ روایت کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ امام مجالد علامہ شعبی سے بیان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: صلحائے امت زیادہ احادیث بیان کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔
[تذکرۃ الحفاظ ج1ص84]
روایت بالمعنیٰ کے قائل تھے:
آپ رحمہ اللہ اتنے محتاط ہونے کے باوجود روایت بالمعنیٰ کو خلاف احتیاط نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ امام ابن عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ شعبی حدیثیں بالمعنیٰ روایت کرتے تھے۔(یعنی الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے)
[ابن سعد ج6ص174]
حلقہ درس:
علامہ کو اللہ تعالیٰ نے علمی اعتبار سے بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ آپ کا حلقہ درس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں قائم ہوگیا تھا۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ کا بیان ہے۔
قدمت الكوفة وللشعبي حلقة عظيمة، والصحابة يومئذ كثير
[سیر اعلام النبلاء ج4ص485،تذکرۃ الحفاظ ج1ص85]
کہ میں جس زمانے میں کوفہ آیا، اس وقت امام شعبی کا بہت بڑا حلقہ درس قائم تھا، حالانکہ اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی تعداد موجودتھی۔
دیگرعلوم میں امام شعبی کا مقام:
علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم پر بھی امام شعبی کو دسترس حاصل تھی۔قرآن مجید کے اتنے زبردست قاری تھے کہ ”زعیم القراء“ کہلاتے تھے۔
[تذکرۃ الحفاظ ج1ص73]
فقہ میں مقام:
آپ رحمہ اللہ کو اگرچہ جملہ علوم وفنون میں بلند مقام حاصل تھا لیکن فقہ میں ایک امتیازی شان رکھتے تھے۔ چنانچہ امام ابومجلز فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی سے بڑا فقیہ کوئی نہیں دیکھا،سعید بن مسیب،طاؤس،عطاء،حسن بصری اور محمد بن سیرین بھی ان کے مقابلہ کے نہیں تھے۔
امام ابو حصین کہتے ہیں میں نے امام شعبی سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔
[تذکرۃ الحفاظ ج1ص83]
آپ کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو علوم نبوی کے حقیقی وارث تھے ،کی موجودگی میں مسند افتاء پر بیٹھ گئے تھے۔چنانچہ امام ابوبکر الہذلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:
امام شعبی رحمہ اللہ کے دامن سے وابستہ رہو،میں نے دیکھا کہ وہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے۔
[سیر اعلام النبلاء ج4ص484]
امام شعبی رحمہ اللہ اور علمِ مغازی:
آپ رحمہ اللہ دوسرے علوم کی طرح مغازی[جنگ کے حالات]کے بھی ممتاز عالم تھے۔ عبدالملک بن عمیر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق فرماتے ہیں۔
مرابن عمر بالشعبي وهو يقرأ المغازي، فقال: كأن هذا كان شاهدا معنا، ولهو أحفظ لهامني وأعلم،
[سیر اعلام النبلاء ج4ص485،تذکرۃ الحفاظ ج1ص83]
کہ ایک مرتبہ امام شعبی مغاز(یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے جنگی کارنامے) بیان کر رہے تھے ،ادھر سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا گزر ہوا تو انہوں نے سن کر فرمایا: میں ان لوگوں کے ساتھ خود جنگوں میں شریک رہا ہوں، لیکن یہ(شعبی)ان واقعات کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
شاعری:
آپ رحمہ اللہ شعر وشاعری میں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ شعرائے قدیم کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ ان کا اپنا دعویٰ تھا کہ میں نے سب سے کم شعر وشاعری کا علم حاصل کیا لیکن پھر بھی اگر میں چاہوں تو مسلسل ایک مہینہ تک اشعار سنا سکتاہوں اور کوئی شعر مکرر نہ ہونے پائے گا۔
[تاریخ بغداد ج10ص169]
چند مشہور تلامذہ:
آپ رحمہ اللہ کے تلامذہ کی فہرست کافی طویل ہے۔ چند ایک کے اسماء گرامی پیش خدمت ہیں:
امام مکحول شامی،عطاء بن سائب،ابن ابی لیلیٰ،اعمش ،امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ وغیرہ
[سیر اعلام النبلاء ج4ص483،تذکرۃ الحفاظ ج1ص82]
وفات:
آپ رحمہ اللہ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔
۱: 109ھ، ۲: 106ھ، ۳: 103ھ
[سیر اعلام النبلاء ج4ص492]
۴: 104ھ۔
[طبقات الحفاظ ج2ص40،تہذیب التہذیب ج3ص341]
جب علامہ شعبی کے دنیا فانی کو چھوڑنے کی افسوسناک خبر حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کو پہنچی تو ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے:
آپ بڑےعلم والے تھے اور اسلام میں عظیم مقام پر فائز تھے۔
[تاریخ دمشق: عامر بن شراحيل الشعبي الكوفي رقم الترجمہ: 3047]