شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الاکابر: آخری قسط
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ
مولانا محمد زکریا پشاوری حفظہ اللہ
موتمر عالم اسلامی مکہ معظمہ میں شرکت1344ھ/1926ء:
جنگ عظیم اول میں شریف مکہ نے جو اس وقت ترکوں کی طرف سے مکہ کا والی تھا،ان سے غداری کی تو انگریزوں نے شریف حسین کو حجاز کی حکومت دے دی۔لیکن رب العزت نے شریف حسین کو غداری کی سزا دی اور سلطان عبدالعزیز آل سعود کو کھڑا کیا۔جس نے شریف مکہ کو شکست دے کر حجاز پر قبضہ کیا اور شریف مکہ کو ترکوں سے غداری کا صلہ مل گیا۔
سلطان عبدالعزیز جب حرمین پر قابض ہوئے تو کچھ ایسے اقدامات کئے جس کی وجہ سے اسلامی دنیا میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ اس بناء پر سلطان نے دیگر اسلامی ممالک سے حالات کے سازگاز بنانے کے لیے رابطے شروع کیے اور ایک اجلاس بلایا جس کو ”موتمر عالم اسلامی“ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ اس اجلاس میں برصغیر پاک وہند سمیت تقریبا تیرہ ممالک نے شرک کی۔سلطان نے ہندوستان کے تین مذہبی جماعتوں سے رابطہ رکھا۔
1: مرکزی مجلس خلافت،2:جمعیت علماء ہند،3:آل انڈیا اہل حدیث جمعیت علماء ہند کے پانچ نمائندوں نے اس اجلاس میں شرکت کی جس میں مفتی ہندمفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ اورشیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ قابل ذکر ہیں۔علامہ صاحب نے اجلاس میں ایک بیان فرمایا جس کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سیاسی زندگی:
علامہ عثمانی رحمہ اللہ جمیعت علماء ہند کے بہت سرگرم رکن تھے اور ہر وقت مسلمانوں کی خوشحالی کی سوچ میں رہتے تھے۔ 1919ء سے لے کر 1944ء تک آپ جمعیت علماء ہند کے رکن رہے لیکن 1945ء میں آپ جمعیت کی رکنیت سے علیحدہ ہوگئے ،علیحدگی کی وجہ سے جمعیۃ العلماء متحدہ قومیت کے حامی تھے اور مولانا عثمانی دو قومی نظریہ کے حامی تھے۔
جمعیت علمائے اسلام کا قیام:
جمعیت علماء ہند متحدہ قومیت کے حامی تھے اورمولانا عثمانی متحدہ قومیت کے مخالف اور دو قومی نظریہ کے حامی تھے اس بناء پر آپ نے جمعیت سے علیحدگی اختیار کرلی اور جمعیت علماء اسلام کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی۔آپ کے ساتھ مولانا ظفر احمد عثمانی ،مولانا ابراہیم اور کئی دوسرے علمائے کرام شامل تھے۔علماء کرام نے علامہ عثمانی کو صدر بنایا گیا اور مولانا ابراہیم کو نائب صدر۔جماعت کا تاسیسی اجلاس اکتوبر1945ء میں کلکتہ میں منعقد ہوا۔اور انہی حضرات کی جدوجہد سے قیام پاکستان عمل میں لایا گیا۔
پاکستان کی پرچم کشائی علامہ عثمانی کے دست مبارک سے:
پاکستان کی پرچم کشائی ایک نہایت مقدس تقریب تھی اس لیے اس کا افتتاح کسی مقدس ہاتھ سے ہوناتھا۔چنانچہ قائد اعظم نے یہ سعادت شیخ الاسلام علامہ عثمانی رحمہ اللہ کے سپرد کی۔مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب ”انوار النظر“ میں لکھتے ہیں:
14اگست1947ء بمطابق27رمضان المبارک1366ھ کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو کراچی میں قائد اعظم نے علامہ عثمانی کو پرچم کشائی کے لیے منتخب کیا اور ڈھاکہ میں وزیراعلیٰ مشرقی پاکستان خواجہ ناظم الدین مرحوم نے احقر[علامہ ظفر احمد عثمانی ]کو منتخب کیا۔پرچم کشائی کے وقت قرآن کی یہ آیات میری زبان پر جاری ہوئی: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا،[ الفتح:1]اور علامہ شبیر احمد عثمانی نے تقریب پرچم کشائی کے وقت یہ آیات تلاوت فرمائی۔
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ؀ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ؀
[آل عمران:26، 27]
کراچی میں تقریب کے وقت قائد اعظم وزیرا عظم پاکستان لیاقت علی،مرکزی کابینہ کے وزراء سردار عبدالرب نشتر اور دیگر عمائدین موجود تھے۔
پاکستان کی آئین سازی میں کردار:
علامہ عثمانی نے پاکستان آکر کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کیااور جب آئین اور ملکی قانون بنانے کا وقت آیا تو علامہ نے بہت مشقت کےساتھ ملک کے لیے اسلامی دفعات پر مشتمل ایک قانون تیار کیا جس کو تاریخ میں ”قرار داد مقاصد“ کے نام سے یاد کیا جاتاہے اور آج بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد انہی قرار داد وں پر قائم ہے۔
وفات حسرت آیات:
جامعہ عباسیہ واقع بہاولپور ایک قدیمی دینی درسگاہ ہے۔ اس کے نظام تعلیم کی کمزوریوں وخرابیوں کو دور کرنے کے لیے آپ ریاست بہاولپور کی وزارت کی درخواست پر بہاولپور تشریف لائے۔8دسمبر1949ء کو آپ بہاولپور تشریف لے گئے 12دسمبر تک آپ بالکل اچھے تھے۔13دسمبر کی شب بخار ہوا اور سینہ میں درد شروع ہوا، لیکن چند گھنٹے بعد آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔آپ کی نعش کراچی لے جائی گئی اور محمد علی روڈ کے قریب آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔مولانا مفتی محمد شفیع دیوبند ی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔
مولانا سید سلیمان ندوی نے آپ کے انتقال پر فرمایا تھا:مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے نادرہ روز گار صاحب کمال صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
Īبقیہ :فقہ المسائلĨ
ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ امام اعظم رحمہ اللہ پر یہ الزام کہ آپ کو حدیث سے کوئی مس نہ تھا، بالکل بے بنیاد اور باطل ہے۔ بلاشبہ آپ اس فن کے شاہسوار اوربلند پایہ فقیہ ہونے کے ساتھ عظیم محدث بھی تھے۔
سوال میں ذکر کردہ کتاب ایک متعصب غیر مقلد کی ہے، جس نے محض عناد سے کام لیتے ہوئے اتنی عظیم شخصیت پر الزام لگایا ہے۔ مندرجہ بالا حقائق اس مصنف کی کذب بیانی کے پردوں کو چاک کرنے کے لیے کافی ہیں۔
و اللہ اعلم بالصواب