سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء:
سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
نام ونسب
ابوعبد اللہ جابر بن عبد اللہ بن عمرو الانصاری
آپ کا شمار ان انصار صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے بیعت عقبہ میں شرکت کی۔ آپ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ خود بھی صحابی ہیں اور ان کے والد بھی صحابی ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ایک رات پچیس مرتبہ دعا فرمائی تھی۔ نیز آپ کا شمار ان خوش نصیب صحابہ میں ہوتا ہے جو محدث بھی تھے اور فقیہ بھی یعنی الفاظ پیغمبرکے محافظ بھی تھے اور مراد پیغمبر بھی سمجھتے تھے۔
علمی واجتہادی مقام
امام ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کئی نمایاں اوصاف ذکر فرمائے ہیں ۔
الامام، الفقیہ، مفتی المدینہ فی زمانہ
تذکرۃ الحفاظ ج1ص35
یعنی آپ وقت کے امام وفقیہ اور اپنے دور میں مدینہ منورہ کے مفتی تھے آپ نے علم کا بہت بڑا حصہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سے حاصل کیا جس کی بدولت آپ کمال درجہ قوت اجتہاد کے مالک تھے۔آیات قرآنیہ سے مسائل کا استنباط ،نصوص متعارضہ میں فرمان پیغمبر کے معنیٰ کی تعیین وغیرہ جیسی خصوصیات کے حامل تھے۔
ذوق مجتہد:
مجتہد نہ تو خود قرآن کی مخالفت کرتا ہے نہ ہی کسی اور کی طرف سے کی جانے والی مخالفت کو برداشت کرتا ہے بسا اوقات ایک کام بظاہر آیت کے خلاف ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ شریعت کے مطابق ہوتا ہے جس کو ہر بندہ نہیں سمجھ سکتا مثلاًانسان کی موت کب اور کہاں آئے گی؟ اس کا علم صرف اللہ کوہے، لیکن اگر خدا کا کوئی ولی اپنی موت کے متعلق پہلے بتادے تو اس کو قرآن کے خلاف نہیں کہیں گے بلکہ یہ ولی کی کرامت ہوگی۔ اس کی مثال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی ملتی ہے۔ حضرت جابر اپنے والد کی شہادت کے متعلق فرماتے ہیں۔
لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَا أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا فَأَصْبَحْنَا فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ۔
صحیح البخاری: باب هل يخرج الميت من القبر واللحد لعلۃ
کہ غزوہ احد کے موقع پر میرے والد نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا اس جنگ میں صحابہ میں سے سب سے پہلے مجھے شہید کیا جائے گااس کے بعد والد محترم نے کچھ وصیت کی اور جنگ میں شریک ہوگئے جب جنگ ہوئی تو سب سے پہلے شہید میرے والد محترم تھے۔
اب اس کو قرآن کے خلاف نہیں کہیں گے اگر قرآن کے خلاف ہوتا تو حضرت جابر اس پر خاموشی اختیا ر نہ فرماتے۔
مرادپیغمبر کی تعیین
ہمارے ملک میں کچھ لوگوں کا نظریہ ہے کہ مقتدی اگر امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ فرقہ بطور دلیل صحیح بخاری کی یہ حدیث پیش کرتاہے:لا صلوۃ لمن یقراء بفاتحۃ الکتاب۔ کہ جو بھی سورت فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ جبکہ صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ اس حدیث کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ حکم منفرد کو ہے نہ کہ مقتدی کو۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں۔
قال جا بر بن عبد اللہ اذا کا ن وحدہ
جا مع التر مذی:ج:1:ص:71باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں: [یہ حدیث] اکیلے آدمی کے لیے ہے۔
یعنی اگر آدمی امام کی اقتداء میں نماز ادا کرہاہو تو قرات کرنی کی ضرورت نہیں بلکہ امام کی قرات ہی کافی ہے یہی نظریہ حضرت جابر کا تھا چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ ایک حدیث نقل کرتے ہیں :
قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم : مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ .وقال الامام البو صیری صحیح علی شرط الشیخین
اتحاف الخیرہ المھرۃ للبوصیری ج:2 ،ص216 حدیث نمبر 1832
ترجمہ: جو شخص امام کے پیچھے ہو تو امام کی قرات اس( مقتدی) کی قرات ہوگی۔
حضرت جابر کے علاوہ کئی اور حضرات نے بھی حدیث: لا صلوۃ لمن یقراء بفاتحۃ الکتاب کو منفرد کے متعلق قرار دیا ہے۔ مثلاً
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فر ما یا کہ یہ حکم اکیلے آد می کیلئے ہے۔
موطا امام مالک بحوا لہ احسن الکلام :ج:2:ص:39
امام سفیا ن بن عیینہ جو اس حد یث کے راوی ہیں ،فر ماتے ہیں: لمن یصلی وحدہ [اس حدیث کا حکم اکیلے آدمی کے لیے ہے]
تفسیر سفیان بن عیینہ :ص:202 ، ابوداود :ج:1:ص:126
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیںاذا کا ن وحدہ [اس حدیث کا حکم اکیلے آدمی کیلیے ہے]
ترمذی :ج:1::ص71 باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام
امام ابن عبد البر فر ماتے ہیں ۔
عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل۔۔۔۔ خاص وواقع علی من صلی وحدہ او کا ن اماماً
التمہید لا بن عبد البر :ج:4:ص:448،449 ،الاستذکار :ج:1:ص:470
ترجمہ:حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث خاص ہے اور اس کا حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا پھر امام ہو۔
تراویح بیس رکعت
عن جابر بن عبد الله قال خرج النبي صلى الله عليه و سلم ذات ليلة في رمضان فصلى الناس أربعة وعشرين ركعة وأوتر بثلاثة
تاريخ جرجان للسہمی ص317
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں ایک رات تشریف لائے اورلوگوں کوچار(فرض)بیس رکعت(تراویح) اورتین وترپڑھائے۔
وفات حسرت آیات
74یا78ہجری کو حدیث وفقہ کا یہ حسین امتزاج دار فانی سے دار البقاء کی طرف منتقل ہوگیا وفات کے وقت عمر مبارک 94سال تھی اور آپ تقریباًمدینہ منورہ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں۔