سید القراء سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 

تذکرۃ الفقہاء(

سید القراء سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
مولانا محمد عاطف معاویہ ﷾
نام ونسب:
ابوالمنذر ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زید بن معاویہ الانصاری الخزرجی آپ کی کنیت ابو المنذر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔
)اسد الغابہ ج1ص89(
فضائل ومناقب:
جن خوش نصیب صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور مبارک میں قرآن کو جمع کیا حضرت ابی ان میں سر فہرست ہیں۔ چنانچہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعَةٌ كُلُّهُمْ مِنْ الْأَنْصَارِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَبُو زَيْدٍ۔
)صحیح البخاری: رقم الحدیث 5003(
ترجمہ: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں کس نے قرآن مجید کو جمع کیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا:چار آدمیوں نے اور وہ سارے کے سارے انصار میں سے تھے یعنی ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید رضی اللہ عنہم اجمعین۔
خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا۔
)صحیح البخاری: رقم الحدیث 3808(
حضور علیہ السلام کی ایک طویل حدیث ہے جس میں آپ نے مختلف صحابہ کی مختلف نمایاں صفات کو بیان فرمایا۔ اس میں حضرت ابی بن کعب کے تذکرے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
وأقرؤهم لكتاب الله أبي بن كعب۔
)جامع الترمذی: رقم الحدیث(3791
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی کو فرمایا۔
إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ { لَمْ يَكُنْ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ } قَالَ وَسَمَّانِي قَالَ نَعَمْ فَبَكَى
)صحیح البخاری: رقم الحدیث 3809(
ترجمہ: مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمھیں سورت ﴿لَمْ يَكُنْ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ﴾ سناؤں۔ حضرت اُبیّ نے عرض کیا: کیا اللہ نے میرا نام لیا ہے، فرمایا: ہاں۔ تو حضرت اُبیّ رو پڑے۔
آپ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے شاگرد تھے جن میں سیدنا عمر ،سیدناابوایوب انصاری،سیدنا عبادہ بن صامت ،سیدنا سہل بن سعد،سیدنا ابوموسیٰ ،سیدنا ابن عباس ،سیدنا ابوہریرہ،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم وغیرہم شامل ہیں۔)
تہذیب التہذیب ج1ص177،الاصابہ ج1ص20(
مقام فقہ واجتہاد:
آپ چند ایسے خوش نصیب فقہاء صحابہ میں سے ہیں جو حضور علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعدہ مسروق فی الستۃ من اصحاب الفتیا۔
)الاصابہ ج1ص20 (
کہ مشہور تابعی حضرت مسروق رحمہ اللہ ان صحابہ میں شمار کیا کرتے تھے جو فتویٰ دیا کرتے تھے۔
امام ابن اثیر رحمہ اللہ نے یہی نقل کیا ہے۔
کان اصحاب القضاء من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ستۃ عمر وعلی وعبداللہ وابی وزید ابو موسیٰ
)اسد الغابہ ج1ص90(
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو چھ صحابہ فتویٰ دیا کرتے تھے وہ چھے تھے یعنی حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہم۔
ان چھ صحابہ کرام میں پہلا نام حضرت عمر کا ہے مگر سیدنا ابی کی فقاہت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود حضرت عمر بھی بسا اوقات مسائل کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ امت کو ان کی فقاہت کا احساس دلایا جاسکے۔
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص18،الاصابہ ج1ص20(
تراویح کے متعلق آپ کا اجتہاد:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی تین راتوں میں تراویح پڑھائی اور مسلسل نہ پڑھانے کی وجہ بیان فرمائی۔
خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ۔
)بخاری ومسلم(
فرضیت کے ڈر سے میں نے جماعت نہیں کرائی کہ امت تنگی میں مبتلانہ ہو۔
لیکن حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے تراویح کی جماعت کو باقی رکھا۔ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، تراویح کی جماعت کو دیکھ کر فرمایا۔
مَا هَؤُلاَء فَقِيلَ هَؤُلاَءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَأُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّى وَهُمْ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ فَقَالَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم أَصَابُوا وَنِعْمَ مَا صَنَعُوا۔
)سنن ابی داؤد: رقم الحدیث 1379(
ترجمہ: یہ لوگ کیاکررہے ہیں؟ توکہاگیاکہ ان لوگوں کوقرآن یاد نہیں ہے ابی بن کعب نمازپڑھ رہے ہیں اوریہ ان کی اقتداء میں نماز اداکررہےہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاانہوں نے اچھا کیااورصحیح کیا۔
چونکہ آپ علیہ السلام نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد کی تصویب فرمادی، اس لئے اب تراویح کی جتنی رکعات حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے ملیں گی وہ بھی گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید شدہ ہوں گی۔
روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں بیس رکعات ہی پڑھایا کرتے تھے۔ چنانچہ عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں۔
كَانَ أُبَيّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ"
)مصنف ا بن ابی شیبہ رقم الحدیث 7766(
ترجمہ:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کوبیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب تمام لوگوں کوحضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں باجماعت تراویح پڑھنے کا حکم دیا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں بھی بیس رکعت تراویح پڑھائی۔ خود آپ ہی سے مروی ہے۔
عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ عُمَرَ اَمَرَ اُبَیًّا اَنْ یُّصَلِّیَ بِالنَّاسِ فِیْ رَمْضَانَ فَقَالَ اِنَّ النَّاسَ یَصُوْمُوْنَ النَّھَارَوَ لَایُحْسِنُوْنَ اَنْ یَّقْرَأُ وْا فَلَوْقَرَأتَ الْقُرْآنَ عَلَیْھِمْ بِاللَّیْلِ فَقَالَ: یَااَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ! ہٰذَا شَیْیٌٔ لَمْ یَکُنْ۔ فَقَالَ؛ قَدْعَلِمْتُ وَلٰکِنَّہٗ اَحْسَنُ۔ فَصَلّٰی بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً۔
(مسند أحمد بن منيع بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ ج2 ص424)
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز (تراویح) پڑھاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لوگ دن کوروزہ رکھتے ہیں اور(رات) قرأت(قرآن)اچھی نہیں کرتے۔ توقرآن مجید کی رات کو تلاوت کرے تو اچھاہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اے امیر المومنین !یہ تلاوت کا طریقہ پہلے نہیں تھا۔ ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں جانتا ہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے ‘‘تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی۔
حضرت حسن بصری سے بھی یہی مروی ہے کہ
ان عمر بن الخطاب جمع الناس علی ابی بن کعب فی قیام رمضان فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔
(سنن ابی داؤد ج1ص211 باب القنوت فی الوتر)
ترجمہ:حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کوحضرت ابی بن کعب کی امامت پر جمع فرمایا۔وہ لوگوں کوبیس رکعات نماز تراویح پڑھاتے تھے۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ پورا مہینہ باجماعت بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت ہے، یہی بات حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔
وفات حسرت آیات:
آپ کی وفات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آج مسلمانوں کا سردار دنیا سے رخصت ہو گیا۔
)تذکرۃ الحفاظ: ج1ص18(