امام اعظم رحمہ اللہ اور الزام ارجاء

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 

g">)

)فقہ المسائل(
امام اعظم رحمہ اللہ اور الزام ارجاء!
متکلم اسلام مولانامحمد الیاس گھمن
سوال:
ایک بات کی تحقیق مطلوب ہے کہ کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ برا تھا؟ یعنی ایک گمراہ فرقے مرجئہ کے عقیدہ فاسدہ کی طرح تھا۔ کیونکہ ہمیں ایک آدمی نے کتاب دی ہے جس میں مصنفِ کتاب محمد یوسف جے پوری نے یہ لکھا ہے: ”ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی مقتدا ہیں فرقہ حنفیہ کے، اکثر اہل علم نے ان کو مرجئہ فرقے میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ ایمان کی تعریف اور اس کی کمی و زیادتی کے بارے میں جو عقیدہ مرجئہ کا ہے انہوں نے بھی بعینہ وہی عقیدہ اپنی تصنیف فقہ اکبر میں درج فرمایا ہے۔ علامہ شہرستانی نے ”کتاب الملل والنحل“ میں بھی رجال المرجئہ میں حسام بن ابی سلیمان اور ابو حنیفہ اور ابو یوسف اور محمد بن حسن وغیرہم کو درج کیا ہے۔ اسی طرح غسان بھی جو فرقہ غسانیہ کا پیشوا ہے ابو حنیفہ کو فرقہ مرجئہ میں شمار کرتا ہے اور………حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام صاحب کو مرجِئہ لکھ دیا۔“
حقیقۃ الفقہ از محمد یوسف: ص 39
براہ مہربانی اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔
محمد عبد اللہ۔ رحیم یار خان
جواب:
اس اعتراض کی تین شقیں ہیں:
1: ایمان کی تعریف اور اس کی کمی زیادتی کے بارے میں جو عقیدہ مرجئہ کا ہے بعینہ وہی عقیدہ امام صاحب نے اپنی ”فقہ اکبر “میں درج فرمایا۔
2: علامہ شہرستانی نے آپ کو رجال المرجئہ میں شمار کیا ہے اور غسان بھی جو فرقہ غسانیہ کا پیشوا ہے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو فرقہ مرجئہ میں شمار کرتا ہے۔
3: حضرت پیران پیر نے بھی امام صاحب کو مرجئہ لکھ دیا۔
ہر شق کا جواب پیش خدمت ہے۔
شق اول کا جواب:
”مرجئہ“کا لفظ ”ارجاء“سے ہے، جس کے لغوی معنیٰ ”موخر کرنا“ہیں، اصطلاحی معنیٰ کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ م۸۵۲ھ لکھتے ہیں:
ومنهم من أراد تأخير القول في الحكم على من أتى الكبائر وترك الفرائض بالنار لأن الإيمان عندهم الإقرار والاعتقاد ولا يضر العمل مع ذلك۔
مقدمہ فتح الباری ص۶۴۶
کہ بعض کے ہاں ”ارجاء“ سے مراد گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور فرائض کے تارک پر ”دخول فی النار“ [آگ میں داخل ہونا] کے حکم کو مؤخر کرنا ہے کیونکہ ان [مرجئہ]کے ہاں ایمان محض اقرار اور اعتقاد کا نام ہے۔ارتکابِ کبیرہ اور ترکِ فرائض ایمان کے ہوتے ہوئے نقصان دہ نہیں۔
سلطان المحدثین ملا علی قاری رحمہ اللہ م۱۰۱۴ھ فرماتے ہیں:
ثم المرجئہ……….ہم طائفۃ قالوا: لایضر مع الایمان ذنب کمالا ینفع مع الکفر طاعۃ فزعموا ان احدا من المسلمین لایعاقب علیٰ شئی من الکبائر۔
شرح فقہ اکبر: ص۷۵
ترجمہ: مرجئہ ایسا فرقہ ہے جس کا اعتقاد یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان دہ نہیں، جیسے کفر کی موجودگی میں طاعت کچھ فائدہ مند نہیں۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے سزا پا ہی نہیں سکتا۔
شیخ الاسلام شیخ محمد زاہد الکوثری رحمہ اللہ م1371ھ فرماتے ہیں۔
واما الارجاء الذی یعد بدعۃ فہو قول من یقول: لاتضر مع الایمان معصیۃ۔
)تانیب الخطیب : ص45(
وہ ارجاء جو بدعت شمار ہوتا ہے وہ اس بات کا اعتقاد کرنا ہے کہ ایمان کے ساتھ گناہ کچھ نقصان دہ نہیں۔
محققین کی ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ فرقہ مرجئہ ضالہ (گمراہ) کا عقیدہ ایمان کے بارے میں یہ ہے کہ ایمان محض اقرار لسانی اور اعتقاد (معرفت)کا نام ہے، اقرار واعتقاد کے ہوتے ہوئے اگر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا جائے یا فرائض کو چھوڑا جائے تو کچھ پروا نہیں، ان گناہوں اورمعاصی پر سزا ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ عقیدہ اہل السنت والجماعت کے مسلمہ عقائد کے خلاف ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کا رد اپنی کتاب ”فقہ اکبر“ میں صراحت سے کیا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں
ولا نقول ان حسناتنا مقبولۃ وسیئاتنا مغفورۃ کقول المرجئۃ ولکن نقول المسئلۃ مبینۃ مفصلۃ من عمل حسنۃ بشرائطہا خالیۃ عن العیوب المفسدۃ والمعانی المبطلۃ ولم یبطلہا حتی خرج من الدنیا فان اللہ تعالیٰ لایضیعہا بل یقبلہا منہ ویثیبہ علیہا۔
الفقہ الاکبر مع الشرح: ص77،78
ترجمہ: ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے (کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر کوئی سزا نہیں) بلکہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام اس کی شرطوں کے ساتھ کرے، اور وہ کام تمام مفاسد سے خالی ہو، اور اس کام کو باطل نہ کیا ہو، اور وہ شخص دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کےعمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کو قبول کرکے اس پر ثواب عطا فرمائے گا۔
فقہ اکبر کی اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ ایمان کے متعلق مرجئہ کا جو عقیدہ ہے امام صاحب نہ صرف اس سے بری ہیں بلکہ اس کا پرزور رد بھی فرماتے ہیں۔
رہا ایمان کی تعریف اور اس میں کمی وزیادتی کا مسئلہ تو اس بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اعتقاد یہ ہے کہ ایمان معرفت،تصدیق قلبی اور اقرارِ لسانی کا نام ہے، اعمال ظاہریہ ایمانِ مطلق کے اجزاء اصلیہ میں داخل نہیں بلکہ مکمّلِ ایمان ہیں، یعنی ان کی کمی وزیادتی کی وجہ سے نفسِ ایمان کم یا زیادہ نہیں ہوتا، ہاں البتہ کمالِ ایمان کم وزیادہ ہوتا رہتا ہے یعنی اس میں شدت وضعف آتا رہتا ہے۔چنانچہ فقہ اکبر میں فرماتے ہیں
والایمان ہو الاقرار والتصدیق وایمان اہل السماء والارض لایزید ولاینقص
۔)الفقہ الاکبر مع الشرح: ص85،87(
ترجمہ: ایمان؛ اقرار (لسانی) اور تصدیق (قلبی) کا نام ہے،آسمان وزمین والوں کا ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ۔
اور کتاب الوصیۃ میں فرماتے ہیں۔
الایمان۔۔۔۔اقرار باللسان وتصدیق بالجنان ومعرفۃ بالقلب۔
)ص27(
ترجمہ:ایمان؛ اقرار لسانی، تصدیق و معرفت قلبی کا نام ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن وسنت میں ایمان کا تعلق قلب سے بیان کیا گیا ہے۔
1: وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ۔
)النحل: (106
ترجمہ: اور اس کا دل ایمان پر مطمئن رہے۔
2: وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ۔
)الحجرات:(14
ترجمہ: ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔
3: أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ۔
)المجادلۃ:(22
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمایا۔
4: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک جنگ کے موقع پر ایک آدمی کو قتل کردیا جس نے لاالہ الااللہ کہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ اس نے تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔
افلاشققت عن قلبہ حتی تعلم اقالہا ام لا؟
)صحیح مسلم ج1ص67، 68باب تحریم قتل الکافر بعد قولہ لاالہ الا اللہ(
ترجمہ:کیا تونے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے تلوار کے ڈر سے پڑھا ہے یا نہیں؟
اسی طرح اعمال کی کمی وزیادتی کی وجہ سے کمالِ ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے یعنی آدمی نیک یا فاسق شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ امام صاحب فرماتے ہیں:
المضیّع للعمل لم یکن مضیّعا للایمان۔۔۔او لست تقول: مومن ظالم، ومومن مذنب، ومومن مخطئی، ومومن عاص، ومومن جائر۔۔۔ومن اصاب الایمان وضیّع شیئا من الفرائض کان مومنا مذنباً۔
)الرسالۃ الی عثمان البتی للامام ابی حنیفہ ص(38
ترجمہ: اعمال کو ضائع کرنے والا ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہوتا۔ کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ مومن ظالم،مومن گنہگار،مومن خطا کار،مومن عاصی، اس لیے جو شخص ایمان لایا اور کچھ فرائض ضائع کر دیے تو یہ مومن گنہگار ہوگا۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ م۱۰۱۴ھ شرح فقہ اکبر میں ایمان کی کمی وزیادتی کے بارے میں امام صاحب کا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فمعناہ انہ یزید باعتبار اعمالہ الحسنۃ حتیٰ یدخل صاحبہ الجنۃ دخولا اوّلیا،وینقص بارتکاب اعمالہ السئیۃ حتیٰ یدخل صاحبہ النار اوّلا، ثم یدخل الجنۃ بایمانہ آخرا کما ہو مقتضی اہل السنۃ والجماعۃ۔
)ص88(
ترجمہ: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ایمان اعمال حسنہ کے اعتبار سے بڑھتا ہے یہاں تک کہ اعمال صالحہ کرنے والا دخول اوّلی کے اعتبار سے جنت میں داخل ہوگا اور ایمان اعمال سئیہ کرنے سے کم ہوتا ہے یہاں تک کہ مرتکبِ گناہ پہلے تو آگ میں داخل ہوگا، پھر آخر کار اپنے ایمان کی وجہ سے جنت میں جائے گا، جیسا کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے۔
لیکن فرقہ مرجئہ ضالہ کا ایمان کی تعریف اور کمی وزیادتی کے بارے میں جو مؤقف ہے وہ امام صاحب کے مؤقف سے بالکل جدا ہے۔علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ م1304ھ فرماتے ہیں۔
ان المرجئة يكتفون في الايمان بمعرفة الله ونحوه ويجعلون ما سوى الايمان من الطاعات وما سوى الكفر من المعاصي غير مضرة ولا نافعة۔
)الرفع والتکمیل: ص(360
ترجمہ: فرقہ مرجئہ والے ایمان کے بارے میں اللہ کی معرفت وغیرہ پر اکتفاء کرتے ہیں اور ایمان کے علاوہ جتنی بھی طاعات ہیں اور کفر کے علاوہ جتنے معاصی ہیں، سب کو نہ نقصان دہ سمجھتے ہیں نہ نفع مند۔
امام عبدالقاہر البغدادی م429ھ فرقہ مرجئہ کے پیرو غسان مرجئی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
قال انه يزيد ولا ينقص۔۔ وزعم غسان هذا فى كتابه ان قوله فى هذا الكتاب كقول أبى حنيفة فيه وهذا غلط منه عليه لأن أبا حنيفة قال إن الايمان هو المعرفة والاقرار بالله تعالٰى وبرسله وبما جاء من الله تعالى ورسله فى الجملة دون التفصيل وانه لا يزيد ولا ينقص …۔ وغسان قد قال بأنه يزيد ولا ينقص۔
) الفرق بين الفرق: ص(188
ترجمہ: غسان مرجئی کہتا ہے کہ ایمان بڑھتا تو ہے کم نہیں ہوتا۔ اس غسان نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اس کا یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کی طرح ہے، لیکن امام صاحب کے بارے میں اس کی یہ بات غلط ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تو یہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت،اللہ اور رسول کے اقرار اور ان چیزوں کے اجمالی اقرار کا نام ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئی ہیں بغیرتفصیل کے، اور یہ نفسِ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ، لیکن غسان مرجئی کہتا تھا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے، کم نہیں ہوتا۔
امام عبدالقاہر بغدادی رحمہ اللہ کی اس وضاحت اور امام صاحب کے مذکورہ مؤقف ودلائل سے معلوم ہوا کہ ایمان کی تعریف وکمی زیادتی کے بارے میں آپ کا نظریہ مرجئہ ضالہ کے نظریہ کے خلاف ہے۔مؤلف حقیقۃ الفقہ کا ان دونوں کو ”بعینہ“ کے لفظ سے ایک شمار کرنا محض اتہام والزام ہے۔
شق ثانی کا جواب:
جیسا کہ واضح ہوچکا ہے کہ امام صاحب کا مؤقف ایمان کے بارے میں یہ ہے کہ ایمان معرفت،تصدیقِ قلبی اور اقرارِ لسانی کا نام ہے، اعمالِ ظاہرہ نفسِ ایمان کے اجزاء نہیں، البتہ مکمّلِ ایمان ضرور ہیں۔
محدثین حضرات کا اس بارے میں مؤقف یہ ہے کہ اعمال ایمان کی جزء ہیں، لیکن اگر کوئی شخص ترکِ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے تو محدثین کے نزدیک یہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔چنانچہ محدث عصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
فاکثر المحدثین الی ان الایمان مرکب من الاعمال۔۔ واِن جعلوا الاعمال اجزاء لکن لابحیث ینعدم الکل بانعدامہا بل یبقی الایمان مع انتفائہا
)فیض الباری: ج1ص54(
ترجمہ:اکثر محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ ایمان اعمال سے مرکب ہے۔انہوں نے اعمال کو اگرچہ ایمان جزء قرار دیا ہے لیکن اس حیثیت سے نہیں کہ اگر اعمال نہ ہوں تو ایمان ختم ہوجائے بلکہ ایمان اعمال کے نہ ہونے کے باوجود باقی رہتا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایمان کی تعریف میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور محدثین حضرات کے درمیان اختلاف محض لفظی ہے، کیونکہ دونوں کے مؤقف کا حاصل یہ ہے کہ اعمال کے ترک کرنے کی وجہ سے انسان ایمان سے خارج نہیں ہوتا، البتہ فاسق وفاجر ضرور ہوتا ہے۔ محققین حضرات نے اس اختلاف کے محض لفظی ہونے کی تصریح فرمائی ہے:
ملا علی قاری رحمہ اللہ م1014ھ
شرح الفقہ الاکبر: ص87
مولانا محمد انور شاہ کشمیری ﷫م1352ھ
فیض الباری: ج1ص54
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ م1417ھ
التعلیق علی قواعد فی علوم الحدیث ص239
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اس مؤقف کے دیگر فقہاء ومحدثین چونکہ اعمال کو ایمان سے الگ چیز مانتے ہیں، اس لیے بعض محدثین کی طرف سے انہیں لغۃً مرجئہ (موخر کرنے والے) کہا گیا ہے، لیکن اس معنیٰ میں ہرگز نہیں جس معنیٰ میں فرقہ ضالہ مرجئہ ہیں۔چنانچہ امام جمال الدین بن یوسف المزی رحمہ اللہ م۷۴۲ھ امام ابراہیم بن طہمان الخراسانی المکی کے حالات میں لکھتے ہیں۔
وقال أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروي سمعت سفيان بن عيينة يقول ما قدم علينا خراساني أفضل من أبي رجاء عبد الله بن واقد الهروي، قلت له: فإبراهيم بن طهمان؟ قال كان ذاك مرجئا، قال أبو الصلت: لم يكن إرجاؤهم هذا المذهب الخبيث أن الإيمان قول بلا عمل وأن ترك العمل لا يضر بالإيمان بل كان إرجاؤهم أنهم يرجون لأهل الكبائر الغفران ردا على الخوارج وغيرهم الذين يكفرون الناس بالذنوب۔
)تہذیب الکمال للمزی ج1ص(253
ترجمہ: ابوالصلت عبدالسلام بن صالح الہروی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے سفیان بن عیینہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارے پاس ابورجاء عبداللہ بن واقد الہروی سے بہتر کوئی خراسانی نہیں آیا۔ تو میں نے عرض کیا: ابراہیم بن طہمان کے بارے میں کیا رائے ہے؟فرمایا: وہ مرجئہ تھے۔ابوالصلت فرماتے ہیں کہ ان حضرات کا مرجئہ ہونا اس خبیث مذہب کی بنیاد پر نہ تھا کہ ایمان صرف قول کا نام ہے عمل کے بغیر اور ترکِ عمل ایمان کے لیے مضر نہیں، بلکہ ان کا مرجئہ ہونا اس معنیٰ میں تھا کہ یہ حضرات خوارج کے عقیدہ کے خلاف اہلِ کبائر کے لیے مغفرت کی امید رکھتے تھے، کیونکہ خوارج یہ کہتے تھے کہ لوگ گناہ کی وجہ سے کافر ہوجاتے ہیں اور (یہ حضرات اہل کبیرہ کے لیے) مغفرت کی امید رکھتے اور گناہ کی وجہ سے انہیں کافر قرار نہ دیتے تھے۔
اور ایسا ارجاء بدعت نہیں بلکہ عین اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کے موافق ہے۔علامہ زاہد بن الحسن الکوثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
فإرجاء العمل من أن يكون من أركان الإيمان الأصلية هو السنة ، وأما الإرجاء الذي يعد بدعة ، فهو قول من يقول: لا تضر مع الإيمان معصية۔
)تانیب الخطیب: ص(45
ترجمہ: ”ارجاءِ عمل“ یعنی عمل کو ایمان کے ارکان اصلیہ سے مؤخر شمار کرنا ارجاءِ سنت ہے اور وہ ارجاء جو بدعت شمار ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بندہ یہ کہے کہ ایمان کے ساتھ گناہ کرنا کچھ نقصان دہ نہیں۔
علامہ شہرستانی رحمہ اللہ کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو رجال المرجئہ میں شمار کرنے کی حقیقت بالکل واضح ہے کہ آپ رحمہ اللہ کا شمار مرجئہ اہل السنۃ میں کرتے ہیں، جو عین سنت ہے، نہ کہ مرجئہ ضالہ میں جو ایک بدعتی فرقہ ہے۔چنانچہ رجال المرجئہ کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
وهؤلاء كلهم أئمة الحديث لم يكفروا أصحاب الكبائر بالكبيرة ولم يحكموا بتخليدهم في النار خلافا للخوارج والقدرية۔
)الملل والنحل: ص(169
ترجمہ: یہ تمام کے تمام (بشمول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) ائمہ حدیث تھے،گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر قرار نہ دیتے تھے اور خلود فی النار کا حکم بھی نہ لگاتے تھے، بخلاف خوارج اور قدریہ کے(کہ وہ ایسا کرتے تھے)
اگر یہ حضرات مرجئہ ضالہ میں سے ہوتے تو ان کا بھی وہی عقیدہ بیان فرماتے جو مرجئہ ضالہ کا ہے اور انہیں ”ائمۃ الحدیث“ کا لقب ہرگز نہ دیتے۔نیز علامہ شہرستانی رحمہ اللہ نے بھی انہی رجال مرجئہ میں چند اور نام بھی گنوائے ہیں جو بخاری ومسلم و غیرہ کے راوی ہیں۔
سعید بن جبیر
صحاح ستہ
طلق بن حبیب
ادب المفرد للبخاری،مسلم اور سنن اربعہ
عمرو بن مرہ
صحاح ستہ
محارب بن دثار
صحاح ستہ
ذر بن عبداللہ
صحاح ستہ
معترض نے امام صاحب کا نام تو لیا لیکن ان حضرات کا تذکرہ تک نہ کیا کیونکہ ان کا تذکرہ کرتے تو اعتراض خود بخود رفع ہوجاتا اور یہ حقیقت کھل جاتی کہ یہ مرجئہ ضالہ میں سے نہیں، بلکہ مرجئہ سنیہ میں سے ہیں۔
معترض کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ غسان مرجئی امام صاحب کو مرجئہ شمار کرتا تھا۔اس کے لیے علامہ شہرستانی رحمہ اللہ کی عبارت نقل کردینا کافی و وافی ہے۔چنانچہ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ومن العجيب أن غسان كان يحكي عن أبي حنيفة رحمه الله مثل مذهبه ويعده من المرجئة ولعله كذب كذلك عليه لعمري كان يقال لأبي حنيفة وأصحابه مرجئة السنة۔
)الملل والنحل: ص(164
ترجمہ:اور عجیب بات یہ ہے کہ غسان مرجئی امام صاحب کی طرف منسوب کرکے اپنا باطل مذہب بیان کرتا تھا اور امام صاحب کو مرجئہ شمار کرتا تھا، اور یہ امام صاحب پر اس کا جھوٹ ہے۔ میری زندگی کی قسم! امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب کو ”مرجئہ السنۃ“ کہا جاتا ہے۔
یہی بات علامہ عبدالقاہر بغدادی رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔
)الفرق بین الفرق: ص(188
شق ثالث کا جواب:
اکابر علماء کرام نے اس کی تحقیق کرتے ہوئے یہ بات فرمائی ہے کہ حنفیہ کا ذکر فرق ضالہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے نہیں کیا، بلکہ کسی متعصب نے محض بغض وعناد کی وجہ سے بعد میں یہاں لکھ دیا ہے۔چنانچہ شیخ عبدالغنی النابلسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”الرد المتین علی منتقض العارف محی الدین“ میں فرماتے ہیں:
تلک العبارۃ مدسوسۃ مکذوبۃ علی الشیخ۔
بحوالہ الرفع والتکمیل:ص۳۸۱
ترجمہ:یہ عبارت حضرت شیخ رحمہ اللہ کے کلام میں داخل کی گئی ہے، حضرت شیخ رحمہ اللہ پر محض جھوٹ بولا گیا ہے۔[فی الواقع حضرت کے کلام میں نہیں ہے]
علامہ الہند عبدالحکیم بن شمس الدین الفاضل سیالکوٹی ” غنیۃ الطالبین“ کے فارسی ترجمہ میں رقمطراز ہیں:
بداں کہ ذکر حنفیہ در فرق مرجئہ وگفتن کہ ایمان نزد ایشاں معرفت است واقرار خلاف مذہب ایں طائفہ است کہ درکتب مقرر است وشاید این را بعض مبتدعان بہ بغض ایں فرقہ داخل کردہ اند ایں را در کلام شیخ۔
)غنیۃ الطالبین مترجم فارسی ص(230
ترجمہ:جان لیجیے کہ مرجئہ کے فرقوں میں ”حنفیہ“ کا ذکر کرنا اور یہ کہنا کہ ایمان ان کے ہاں محض معرفت اور اقرار کا نام ہے،یہ اس گروہ[حنفیہ]کے اعتقاد کے خلاف ہے، جیسا کہ ان کی کتب میں درج ہے۔لگتا یہی ہے کہ یہ عبارت کسی بدعتی نے جو اس گروہ حنفیہ سے بعض رکھتا ہے، شیخ کے کلام میں داخل کردی ہے۔
بالفرض اگر یہ عبارت الحاقی نہ بھی ہو تب بھی مؤلف حقیقۃ الفقہ کا یہ جملہ:” حضرت پیران پیر رحمہ اللہ نے بھی امام صاحب کو مرجئہ لکھ دیا“
حضرت شیخ پر نرا بہتان ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت شیخ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو فرقہ مرجئہ ضالہ میں داخل نہیں کیا، بلکہ ان لوگوں کو مرجئہ کہا جو فروعات میں اپنی نسبت امام صاحب کی طرف کرکے خود کو ”حنفی“ کہلاتے اور عقائد میں امام صاحب کے مخالف تھے،جیسا کہ غسان مرجئی وغیرہ۔ لہذا حضرت شیخ کے کلام واما الحنفیۃ فہم بعض اصحاب ابی حنیفۃ۔
غنیۃ الطالبین ص(230
میں ان ”بعض اصحاب ابی حنیفۃ“ سے یہی لوگ مراد ہیں۔عمدۃ المتاخرین حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ م1304ھ فرماتے ہیں:
مفاد عبارة الغنية ان الحنفية الذين هم فرع من فروع المرجئة الضالة اصحاب ابي حنيفة الذين يقولون ان الايمان هو المعرفة والاقرار بالله ورسوله وهذا لا ينطبق الا على الغسانية فيكون هو المراد من الحنفية لما عرفت سابقا ان غسان الكوفي كان يحكي مذهبه الخبيث عن ابي حنيفة ويعده كنفسه من المرجئة۔
) الرفع والتكمیل: ص۳۸۷(
ترجمہ: غنیۃ الطالبین کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ ”حنفیہ“ جو مرجئہ ضالہ کی ایک قسم ہے،اس سے مراد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے وہ پیروکار ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان فقط معرفت اور اقرار باللہ ورسولہ کا نام ہے اور یہ صرف فرقہ ”غسانیہ“ پر صادق آتا ہے، اور یہاں حنفیہ سے مراد یہی فرقہ غسانیہ ہے(نہ کہ امام صاحب اور ان کے دیگر پیروکار)کیونکہ آپ پہلے جان چکے ہیں کہ غسان کوفی اپنا خبیث عقیدہ امام صاحب کی طرف منسوب کرکے بیان کرتا تھا اور امام صاحب کو بھی اپنی طرح مرجئہ شمار کرتا تھا۔واضح رہے کہ آپ کی ذکر کردہ کتاب ایک گمراہ ومتعصب مصنف کی ہے جو فقہ و فقہاء سے عداوت میں تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے مطالعہ سے اجتناب کیجیے، صحیح العقیدہ علماء سے رابطہ رکھیے اور اہل االسنۃ و الجماعۃ مصنفین و محققین کی کتب کا مطالعہ کیجیے۔