قربانی فارم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قربانی فارم !
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
ذہنی آوارگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب ہر شخص دینی امور میں ”عطائیت“ کرنے لگا ہے۔ عوام الناس کے قریب رہ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ دین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کریم نےدستور زندگی اور ذریعہ نجات بنا کر نازل کیا تھا، اس دین کو لوگ اب اپنی ضرورت سے زائد تصور کرنے لگے ہیں۔
تقریباً ہر شخص اپنے ”فکری انتشار“ اور” غلط رائے زنی“ کے سنگریزے کو ”اجتہاد کا موتی “سمجھ بیٹھا ہے ، دینی احکام پر اپنی عقلی الل ٹپ جمانے کی کوشش میں ہے۔ ”آزاد خیالی“ کو اس قدر اپنا حق سمجھتا ہے کہ دین کے مسلَّمات کو بھی معاشرتی رسوم و رواج کی کسوٹی پر پرکھنے لگا ہے۔ خود ساختہ اخلاقیات کے ایسے دائرے کھینچ رکھے ہیں جہاں غیروں کو خوش رکھنے کی فکر تو ہے مگر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل دکھنے کا غم نہیں۔ اپنی اَنا اور عزتِ نفس کا احساس تو ہے لیکن دوسرے کے احترام کی گنجائش نہیں ،دوسرے کی اصلاح کے درپے تو ہے اپنی تربیت کا پاس نہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے جب نکاح خواں کسی کا نکاح کراتے تو کلمہ طیبہ ، ایمان مجمل اور ایمان مفصل بھی سنتے………بہت تعجب ہوتا تھا کہ ایسا کیوں ہے ؟
مسلمان سے کلمہ شہادت سننے کی ضرورت کیا ہے ؟
ایمان مجمل اور مفصل بھلا کس مسلمان کو نہیں آتی ؟
لیکن اب !
اب تعجب نہیں ہوتا !کیوں ؟
اب اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ، اشرافیہ طبقہ ،مراعات یافتہ طبقہ ، ملکی قوانین پر اثر انداز ہونے والوں کو ،ملک کے داخلی امور کے نگہبانوں کو اور پاکستان کی زبان سمجھے جانے والوں کو” سورۃ اخلاص“ بھی نہیں آتی۔ مقام افسوس ہے !!!
قارئین کرام !آپ کے سامنے ہے کہ آج کا مسلمان محض گوروں اور غیر مسلم اقوام کا نقاَّل اور ان کی تہذیب و کلچر کا قوَّال بن کر رہ گیا ہے ، دین نام کی چیز اس کے ہرشعبہ زندگی سے برابر مٹتی ہی چلی جارہی ہے ، دینی حکم ہو یا دنیاوی معاملہ ، ہر مسئلے کو لوگوں کے مختلف خیالات نے گھیرا ہوا ہے۔
بحیثیت عالم دین ہونے کے ہماری یہ مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ باہمی تشتت ، تفرقہ بازی ، مذہبی دھینگا مشتی کی فضا کو ختم کرکے رواداری ، اتحاد و اتفاق ، اخوت دینی اور ہم آہنگی کا سبق یاد کرائیں۔
ابھی قربانی کے دن قریب آر ہے ہیں۔ اہل اسلام؛ اللہ کریم کے حکم کے مطابق جانوروں کو ذبح کریں گے ،کوئی بکرے کی قربانی کر رہا ہوگا تو کوئی مینڈھے کی۔ اسی طرح بعض لوگ ”اجتماعی قربانی“ میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ گائے ،بھینس کی قربانی ہو یا اونٹ کی …..اس میں شرکاء کی تعداد کتنی ہوتی ہے ؟ اس پر راقم نےدلائل کے ساتھ تفصیلاً لکھ دیا ہے جو چند صفحات بعد آپ پڑھ سکتے ہیں …………یہاں صرف ایک بنیادی اور ضروری بات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ
اجتماعی قربانی کے شرکاء میں سے اگر کسی ایک حصہ دار اور شریک کا عقیدہ و نظریہ درست نہ ہو اتو تمام شرکاء میں سے کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔
غریب آدمی جس نے آٹھ دس ہزار روپے اکٹھے کر کے قربانی کے جانور میں حصہ ڈالا ہو اور شرکاء میں سے کسی کے غلط نظریے کے باعث اس کی قربانی بھی نہ ہو، بہت قابل افسوس امر ااور دکھ کی بات ہے۔
ہمارے پاس بہت سارے لوگ فون کر کے ، بذریعہ انٹر نیٹ ،خطوط اور براہ راست سوال کرتے ہیں کہ قربانی کے شرکاء کی تسلی کیسے کی جائے ؟ آیا ان کا عقیدہ درست ہے یا نہیں ؟اگرغلط عقائد و نظریات والا شخص ہماری قربانی میں حصہ دار بنتا ہے تو ہماری بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
عوام الناس کی اس پریشانی کا آسان حل ہم نے یہ نکالا کہ” قربانی فارم“ ترتیب دیاجائے۔ جس میں بنیادی عقائد و نظریات کو نمبر وار لکھ لیا جائے۔ اس میں عقیدہ توحید ، ختمِ نبوت ، خلافتِ راشدہ ، عدالتِ صحابہ ، ائمہ اربعہ کی فقاہت اور ان کے متبعین مقلدین کا برحق ہونا، اکابر دیوبند کو متبع سنت سمجھنا اور عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار موجود ہو ، مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس پڑھا جانے والا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سماعت فرماتے ہیں۔ دور سے پڑھا جانے والا درود ملائکہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
اگر تمام شرکاء سے اس فارم کو پر کرا لیا جائے اس سے جہاں اپنی تسلی ہوگی وہاں پر غلط نظریات والے خود بخود الگ ہوجائیں گے اور آپ کی قربانی درست ہوجائے گی۔ عوامی سہولت کے پیش نظر ہم اس کو الگ بھی شائع کر رہے ہیں ، انٹر نیٹ پر بھیupload کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ گھر گھر تک ہمارا یہ کام پہنچ جائے ہماری طرف سے ہر عام و خاص کو اس کے شائع کرنے کی کھلی اجازت ہے وہ اس فارم کو اپنے اپنے علاقے میں بغیر کسی ردوبدل کے شائع کر کے تقسیم کریں۔
اگر کوئی شخص اس میں کسی طرح کی بھی ترمیم کرتا ہے تو اس فارم کی نسبت ہماری طرف نہ کی جائے۔ اب ملاحظہ فرمائیں :
قربانی فارم
اجتماعی قربانی میں حصہ دار شرکاء اس فارم کو پر کریں۔
میں …………ولد ………اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ
1: اللہ تعالیٰ کو ذات ، صفات ، اور افعال میں وحدہ لاشریک لہ مانتا ہوں اور ہر قسم کے کفر وشرک سے بری ہوں۔
2: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کے مدعی نبوت کو کافر سمجھتا ہوں۔
3: حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت یافتہ اور معیار حق اور جنتی مانتا ہوں۔
4: ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ ،امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کو امت کے عظیم فقہاء اور برحق مانتا ہوں اور ان کے پیش کردہ مسائل پر عمل کرنے والوں کو ہدایت یافتہ مانتا ہوں۔
5: اکابر علماء دیوبند کو سچا مومن اور متبع سنت مانتا ہوں اور ان کے تمام عقائد کو سچا مانتا ہوں۔
6: اپنے پیارے اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ والی اپنی قبر میں روح کے تعلق کے ساتھ زندہ مانتا ہوں اور اس بات کا عقیدہ رکھتا ہوں کہ روضہ مبارکہ پر پڑھا جانے والا درود شریف آپ خود سنتے ہیں اور دور سے پڑھا جانے والا درود آپ کی خدمت میں ملائکہ پیش کرتے ہیں۔
7: سنت پر عمل کرنے کوذریعہ نجات اور بدعت کو گمراہی جانتا ہوں۔
حصہ دار نمبر دستخط