کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
جدید مسائل
مفتی رئیس احمد
کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم
کریڈٹ کارڈ آج کل دنیا میں بہت کثرت سے پھیل گیا ہے۔ پاکستان میں تو ابھی تک اتناعام رواج نہیں ہے لیکن دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک اور مغربی ملکوں میں ساری خریداری کریڈٹ کارڈ پر ہو رہی ہے۔
کریڈٹ کارڈ کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
وجہ اس کی یہ ہے کہ چوری ڈاکے بہت ہونے لگے ہیں اگر کوئی آدمی گھر سے نکلے اور اسے لمبی چوڑی خریداری کرنی ہو۔ اور اگر وہ جیب میں بہت سارے پیسے ڈال کر لے جائے تو خطرہ ہے کہ ڈاکہ پڑ جائے کوئی چھین کر لے جائے خاص طور پر اگر کہیں سفر پر جا رہا ہو تو ہر وقت اپنے پاس بڑی رقم لے کر پھر نے میں بہت خطرات ہیں اس لیے اس کا ایک یہ طریقہ نکالا کہ بینک ایک کارڈ جاری کرتا ہے جس کو کریڈٹ کارڈ کہتے ہیں۔ بینک کہتا ہے ہم سے کوئی بھی شخص یہ کارڈ وصول کر سکتا ہے کریڈٹ کارڈ کی ایک سالانہ قیمت ہوتی ہے مثلاً تقریباً ایکسپریس بینک نے ایک کارڈ ایشو کیا اور یہ کہا کہ جو شخص بھی مجھے سالانہ 75 ڈالر دے گا میں اس کو کارڈ دے دوں گا۔
اس کارڈ کا حاصل یہ ہے کہ جس بینک نے وہ کارڈ جاری کیا ہےاس کا دنیا بھر کے بڑے بڑے تاجروں سے رابطہ ہے۔ اس نے سارے تاجروں سے یہ کہہ رکھا ہے کہ جو شخص بھی میرا جاری کیا ہوا کارڈ لے آئے وہ جتنا سامان خریدے اس کا بل بنا کر مجھے بھیج دینا میں اس کی ادائیگی کروں گا اس ادائیگی کے بعد جو کچھ میں نے ادائیگی کی ہے اس کا بل اس کارڈ والے آدمی کے پاس مہینہ کے آخر میں اس کے گھر بھیج دوں گا۔
فرض کریں میں نے امریکن ایکسپریس سے کارڈ لیا اور کچھ خریداری دبئی میں کی کچھ سعودی عرب میں کی ، کچھ لندن میں کی کچھ امریکہ میں کی۔ 15 ،20 ہزار کی خریداری کر لی جس دکان پر بھی گیا اسے کارڈ دکھایا اور خریداری کر لی ، اس دکاندار نے پیسے نہیں لیے اور کارڈ کا نمبر لکھ کر اپنے پاس رکھ لیا اور بل بنا کر ایک کاپی اپنے پاس رکھ لی ایک مجھے دے دی اور امریکن ایکسپریس بینک کو دے دی ، بینک کوجب وہ بل ملیں گے تو جہاں جہاں سے بھی بل آئیں گے وہ ان تاجروں کو ادائیگی کرتا رہے گا کہ آپ نے اتنے کا بل بھیجا تھا یہ پیسے لے لو ، غرض وہ اس کو ادا کر دے گا اور مہینے کے آخر میں میرے پاس بل آجائے گا۔ کہ مہینے کہ فلاں تاریخ کو دبئی فلاں دکان پر خریداری کی تھی سعودی عرب فلاں وقت یہ خریداری کی تھی۔ امریکہ میں یہ کی تھی اور انگلیڈ میں یہ کی تھی اس کے مجموعی اتنے پیسے ہوئے اب مہینے کہ ختم پر وہ ساری رقم لے جا کر امریکہ ایکسپریس بینک میں جمع کرادوں گا یہ طریقہ کریڈٹ کارڈ کا ہوتا ہے۔
کارڈ جاری کرنے والا کا نفع :
اس میں ایک تو سالانہ فیس ہوتی ہے جو کارڈ خریدنے والے سے لی جاتی ہے مثلاً امریکن ایکسپریس بینک کے سال کے 75 ڈالر ہیں۔ دوسرا جو کارڈ جاری کرنے والے کا اصل ذریعہ آمدنی ہوتا ہے۔
آمدنی کا پہلا طریقہ :
وہ آمدنی یہ ہے کہ جتنے تاجر کارڈ پر سامان فروخت کرتے ہیں اور بل بھیجتے ہیں ان سے وہ فیصد کمیشن وصول کرتا ہے۔ فرض کریں میں نے لندن جانے کے لیے پی آئی اے سے ٹکٹ خریدا پی آئی اے نے مجھے کریڈٹ کارڈ پر ٹکٹ جاری کر دیا اور اس نے مثلاً ایک لاکھ روپے کا بل بنایا اب وہ ایک لاکھ کا بل امریکن ایکسپریس بینک کو جو یہ بھیجے گا اس میں سے چار فیصد کٹوتی کرے گا۔ ایک لاکھ کے بجائے 96 ہزار اس کو دے گا تو% 4 فیصد اس کی آمدنی ہے۔
آمدنی کا دوسرا طریقہ:
یہ ہوتا ہے کہ کریڈٹ کارڈ استعمال کرکے سامان خریدنے والے کے پاس جب بل بھیجا جاتا ہے تو اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ آپ ہمیں 30 دن کے اندر اندریہ بل ادا کردیں اگر 30 دن کے اندر ادا کردیا تو ان سے کوئی اضافی رقم وصول نہیں کی جائے گی۔ جتنے کا بل ہے اتنا ہی ادا کرنا ہوگا لیکن اگر ادئیگی میں 30 دن سے تاخیر کر دی تو وہ اس پر سود لگا دیتے ہیں۔ تو یہ آمدنی کا ایک طریقہ سود بھی ہے۔
آمدنی کا تیسرا طریقہ:
یہ ہے کہ ہمارا جو معاملہ امریکن ایکسپریس بینک سے ہوتا ہے وہ کسی ایک کرنسی میں ہوتا ہے مثلا پاکستانی روپے میں یعنی ہم جو ادائیگی کریں گے وہ پاکستانی روپے میں کریں گے حالانکہ ہم نے دبئی میں درہم میں خریداری کی ہے سعودی عرب میں ریال میں کی ہے لندن میں پاؤنڈ اور امریکہ میں ڈالر میں کی ہے اور اس کے پاس جو بل پہنچے وہ الگ الگ کرنسیوں میں پہنچے۔ امریکہ والے نے ڈالر کا بل بھیجا ، انگلینڈ والوں نے پاؤنڈ کا بل بھیجا ، دبئی والوں نے درہم کا بل بھیجا اور سعودیہ والوں نے ریا ل کا بل بھیجا اُس نے ادائیگی بھی انہی کرنسیوں میں کی کسی کو درہم ادا کیے کسی کو ریال اور کسی کو پاؤنڈ وغیرہ۔ لیکن ہم سےوہ پاکستانی کرنسی وصول کرے گا۔ جب وہ ڈالر کو یا سعودی عرب کے ریال کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرے گا اس تبدیل کرنے میں اپنا تھوڑاسا نفع رکھ لے گا۔ یہ تیسرا ذریعہ آمدنی ہے۔
…………….جاری ہے