فقیہ العراق سیدناعلقمہ بن قیس

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ الفقہاء :
…مولانا محمد عاطف معاویہ
فقیہ العراق سیدناعلقمہ بن قیس ﷬
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے چندحضرات فقہاء کے تذکرہ کے بعداب چندمشہور تابعین فقہاء کرام رحمہم اللہ کا تذکرہ شروع کیاجاتاہے جو اپنے زمانے میں فقہ کے امام اور اجتہادی مسائل میں مسلمانوں کا مرجع اور نابغہ روزگار شخصیات تھے۔
آپ پہلی صدی کے مشہورمحدث وفقیہ تھے آپ کی ولادت حضور کے مبارک زمانہ میں ہوچکی تھی مگرآپ کو شرف صحابیت حاصل نہ ہواتاہم آپ نے کبارصحابہ کی زیارت اور ان سے علوم حاصل کرکے تابعی ہونے کی سعادت حاصل کی اور تابعین کی مقدس جماعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم سے آزادی کا پروانہ عطافرمایااور ان کے زمانہ کو خیرالقرون کا زمانہ قراردیا آپ مشہورمحدث وفقیہ امام ابراہیم نخعی کے ماموں اور امام اسود بن یزیدکے چچاتھے۔
(تذکرۃ الحفاظ ج 1 ص 39)
آپ نے حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ کرام سے علوم حاصل کیے مگر آپ کا زیادہ تعلق سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے تھا اس تعلق کو ایک جگہ یوں بیان کیاگیا ابن سعد آپ کے تذکرہ میں نقل فرماتےہیں کہ حضرت ابن مسعود عادات واخلاق میں حضور کے مشابہ تھے اور حضرت علقمہ عادات واخلاق میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مشابہ تھے۔
(الطبقات ج 6 ص 86)
سیدناابن مسعود اورسیدناعلقمہ رضی اللہ عنہما:
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کے آپ نے علم فقہ اور علم تجوید حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حاصل کیاآپ کا شمارابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مخصوص تلامذہ میں ہوتاہے ان کے بارے میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہاں تک فرماتے ہیں:
ما أقرأ شيئا وما أعلم شيئا إلا وعلقمة يقرؤه ويعلمه.
(تذكرة الحفاظ ج 1 ص 39)
یعنی جوعلوم اللہ نے مجھے حضور علیہ السلام کے واسطہ سے دیے وہ سارے مجھ سے علقمہ نے سیکھ لیے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کی عملی تصدیق کتب احادیث ورجال سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو جس طریقہ پرحضور نے تعلیم دی انہوں نے علقمہ کو اسی طریقہ پر پڑھایا چنانچہ تشہدکے متعلق سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عَلَّمَنِي رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْهِ التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنِي السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ۔
یعنی حضور مجھے تشہدقرآن کی سورت کی طرح سکھاتے تھے۔
(بخاری رقم الحدیث 6265باب الاخذ بالیدین)
جب حضرت علقمہ رحمہ اللہ کی باری آئی توامام اسودرحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لقد رأيت عبد الله يعلم علقمة التشهد كما يعلمه السورة من القرآن
(الطبقات ج 6 ص 90)
میں نے اپنے آنکھو ں سے دیکھاکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ علقمہ کوقرآن کی سورت کی طرح تشہدسکھارہےتھے۔
قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیں کہ جس طرح پیغمبرِخداصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگردکوتشہدکی تعلیم دی توصحابی رسول نے بھی اپنے شاگردکواسی طرح تعلیم دی۔ گویاآپ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے وہ تمام علوم حاصل کرلئے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیے تھے آپ اپنے دور میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حقیقی علمی جانشین تھے اس وجہ سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
وقال أبو المثنى رياح إذا رأيت علقمة فلا يضرك أن لا ترى عبدالله۔
(تہذیب التہذیب ج 7 ص 245)
یعنی اگرکسی کو سیدناعلقمہ کی زیارت اور ان سے استفادہ کا موقع مل گیاتو اس کے دل میں یہ افسوس نہیں رہےگاکہ کاش میں ابن مسعودسے استفادہ کرتا۔
علمی مقام ومرتبہ:
حضرت امام ذہبی نے اپنی معروف کتاب تذکرۃ الحفاظ میں صحابہ کرام کے بعدجب تابعین کا تذکرہ کیاتوسب سے پہلے تابعین میں سے انتخاب حضرت علقمہ کا فرمایا اس سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ کا علمی مقام کتنا بلندتھا۔امام ذہبی نے ان کو ”فقیہ العراق“ بھی قراردیاہے۔علم تفسیرہویاحدیث یاعلم فقہ آپ کا نام تمام علوم میں ایک نمایاں حیثیت رکھتاہےآپ کی زیادہ شہرت علم فقہ میں ہے حضرت علقمہ کوفہ میں حضرت ابن مسعودکے علمی جانشین تھے ان کے علم کایہ مقام تھاکہ بسا اوقات اصحاب پیغمبربھی فقہی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے۔
چنانچہ قابوس بن ابی ظبیان نے اپنے والدابو ظبیان سے پوچھا"
لأي شيء كنت تدع الصحابة وتأتي علقمة؟ قال: أدركت ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وهم يسألون علقمة ويستفتونه
۔ (تذکرۃ الحفاظ ج 1 ص 39)
کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں حضرت علقمہ رحمہ اللہ سے مسائل کیوں پوچھتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیاتم میری بات کرتے ہومیں نے توصحابہ کو دیکھاکہ وہ حضرت علقمہ سے مسائل پوچھتےتھے۔
چندفقہی مسائل اور سیدناعلقمہ بن قیس:
قارئین کرام !مندرجہ بالا سطور میں آپ نے سیدنا علقمہ بن قیس رحمہ اللہ کا علمی مقام اور تفقہ فی الدین سمجھ لیاہوگا کہ اللہ کریم نے ان کو کس قدر بلند رتبہ عطا فرمایا تھا۔ اب ذیل میں چند فقہی مسائل کے بارے میں ہم ان کے موقف اور نظریات کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔
1:مسئلہ تین رکعات وتر:
اہل سنت والجماعت احناف کے ہاں وترتین رکعات ہیں احادیث مرفوعہ وموقوفہ میں تین رکعات وترکا ثبوت موجودہے اس معاملہ میں سیدنا علقمہ بھی وتر کو تین رکعات قراردیتے ہیں آپ کا فرمان ہے۔
الْوِتْرُ ثَلاَثٌ
(مصنف ابن ابی شیبۃ رقم الحدیث 6900 ج 2 ص 264)
2: مسئلہ ترک قراۃ خلف الامام :
اگرآدمی امام کے پیچھے نمازپڑھے توامام کی قرأت مقتدی کی طرف سے بھی کافی ہوجاتی ہے مقتدی کوامام کے پیچھےقرأت کرنے کی ضرورت نہیں حضرت علقمہ بھی امام کے پیچھے قرأت کے قائل نہ تھے۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما قرء علقمۃ بن قیس قط فیما یجھر فیہ ولا فیما لا یجھر فیہ ولا فی الرکعتین الاخریین ام القرآ ن ولا غیرھا خلف الامام۔
)کتاب الآثار بروایت امام محمد ج1ص163(
حضرت علقمہ نے سری اورجہری نمازکی کسی بھی رکعت میں امام کے پیچھےسورۃ فاتحہ یادوسری سورت کبھی نہیں پڑھی۔
آپ صرف ترک قرآت خلف الامام کے قائل ہی نہ تھےبلکہ قرآت کرنے والے کے متعلق یہاں تک فرماتےجوامام کے پیچھے قرآت کرےاس کے منہ میں مٹی یا انگارے ڈالنامجھےپسندہے۔
3:مسئلہ ترک رفع یدین:
آپ اپنے استادحضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی طرح صرف شروع نمازمیں رفع یدین کرتےتھے۔چنانچہ حضرت علقمہ اور حضرت اسود رحمہما اللہ کے متعلق روایات میں آتاہے :
أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إذَا افْتَتَحَا ، ثُمَّ لاَ يَعُودَانِ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ رقم الحدیث 2468 ج 1 ص 237)
دونوں تکبیر تحریمہ کی رفع یدین کے علاوہ کوئی رفع یدین نہیں کرتےتھے۔
4:مسجد میں دوسری جماعت کا مسئلہ:
جس مسجدکا امام مقتدی مقررہوں وہاں دوسری نماز کرانادرست نہیں حضرت علقمہ کا موقف بھی یہی تھاچنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے آپ کےساتھ حضرت علقمہ اور حضرت اسودبھی تھے مگر مسجد میں جماعت ہوچکی تھی یہ حضرات وہاں دوسری جماعت کرانے کی بجائے گھر میں گئےابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کو نماز پڑھائی۔
(مصنف عبدالرزاق ج2ص409رقم الحدیث 3883)
اگر دوسری جماعت کرانا جائز ہوتا تو یہ تین فقیہ اسی مسجد میں جماعت کرادیتے۔
وفات:
امام ذہبی کے قول کے مطابق آپ 62ھ میں خالق حقیقی سے جاملے۔
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص39(