فقہ حنفی کی خصوصیات اور مقبولیت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
فقہ حنفی کی خصوصیات اور مقبولیت
مولانا محمد اشفاق ندیم
تاریخ اسلام اس بات کے لئے کافی ثبوت پیش کرتی ہے کہ ہر زمانہ میں مسلمانوں کی اکثریت امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کی دلدادہ رہی ہے۔ بعض نے اس کی وجہ صرف اتنی بیان کی ہے کہ چونکہ اکا بر احناف اسلامی حکومتوں میں مرکزی عہدوں پر فائز رہے بالخصوص امام ابو یوسف رحمہ اللہ قاضی القضاۃ {چیف جسٹس} تھے لہٰذا ان کےاثرو رسوخ کو فقہ حنفی کی مقبولیت میں خاصا دخل ہے۔ بہت سےبیمار ذہن لوگوں نے فقہ حنفی کی مقبولیت سے گھبراکریہ باطل نظریہ قائم کیاہے۔
پہلی بات یہاں یہ قابل غور ہے کہ اکثر مسلمان اور عادل بادشاہ کیوں فقہ حنفی کے قبول کرنے اور اس کی نشرو اشاعت کے لئے کوشاں رہے؟ تاریخی اور زمینی حقائق سے اگر رو گردانی نہ کی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ روز مرہ کے نت نئے مسائل و احکام میں بغیر فقہ حنفی کے ان کو کما حقہ کوئی صحیح حل نظر نہیں آیااس لیے انہوں نے اسی کے دامن میں پناہ لی اوراس کے گرویدہ اور دلدادہ بنے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت اورسلطنت کی ترقئ زمانہ کے ساتھ نئی نئی مشکلات ، وقت کے جدید تقاضوں اور نئے نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن وحدیث کی صحیح روشنی میں حاصل کرنے کا اہل صرف وہی شخص ہوسکتاہے جو قرآن وحدیث اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین اور ائمہ دین رحمہم اللہ کے پیش کردہ اصول وضوابط کے تحت ہر مسئلہ کا حل نکال سکے اور اپنے تفقہ اور اجتہاد سے اس نازک گتھی کو سلجھا سکے اور ملکی حالات اور مسلمانوں کے جدید مسائل سے بھی خاص واقف ہو، اگر نگاہِ بصیرت سے دیکھاجائے تو مسلمان اور عادل بادشاہوں کا فقہ حنفی کو اپنانا محض اس لئے تھا کہ وہ ہرنئے مسئلے کا حل جو قرآن وحدیث کے ظاہری الفاظ میں نظر نہ آتاتھا وہ اس میں یا اس کے قائم کردہ قواعد وضوابط میں پا لیتے تھے اس لئے وہ ان کے گرویدہ رہے۔یہ فقہ حنفی کے جامع اور مانع ہونے کی ایک مستقل دلیل ہے کہ وہ ناسازگار حالات میں بھی ترقی پذیر رہی ہے۔
کانٹوں میں ہے
 
گھرا
 
ہوا
 
چاروں
 
طرف
 
سے

پھول

پھر بھی کِھلا ہوا
 
ہے
 
عجب

خوش مزاج ہے ! ]

فقہ حنفی نے عالم اسلام میں طویل عرصہ تک بطور پبلک لاء نافذ رہی ہے۔ عباسی خلافت اورعثمانی خلافت کے علاوہ جنوبی ایشیا میں مغل حکومت کابھی مدتوں قانون ودستور رہی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اللہ رب العزت نے یہ اعزاز بخشاہے کہ ان کی علمی وفقہی کاوشوں کو امت مسلمہ میں سب سے زیادہ قبولیت حاصل ہوئی اور صدیوں تک کئی حکومتوں کا قانون ودستور رہنے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں میں بھی اس کے پیروکاروں کی اکثریت رہی ہے۔ جو آج بھی اپنا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں اور امت کی بہت بڑی اکثریت فقہی مسائل واحکام میں فقہ حنفی پر عمل کو ترجیح دیتی ہے۔
خلیفہ مامون الرشید کے وزیر اعظم فضیل بن سہل کے پاس ایک درخواست پیش کی گئی کہ فقہ حنفی کو خلافت کا دستور وقانون کے طور پر نافذ کرنے کاحکم منسوخ کیا جائے۔ جس پر وزیر اعظم نے اپنے رفقاء اور دیگر ذمہ دار حضرات سے مشاورت کی انہیں بتایاگیا کہ فقہ حنفی کو بطور قانون ختم کرنے کا جہاں عوامی رد عمل بہت شدید ہوگا۔ وہاں یہ بھی لازمی طور پر سامنےآئے گا کہ جدید مسائل کا حل پیش کرنا مشکل ہو جائے گا ،جس کا سامنا کرنا آپ لوگوں کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ چنانچہ مختلف مشیروں اور وزراء سے مشاورت کے بعد خلیفہ مامون الرشید وزیر اعظم نے فقہ حنفی کے خلاف یہ درخواست مسترد کر دی۔
خصوصیاتِ فقہ حنفی:
1: حضرت امام صاحب رحمہ اللہ کا مقام؛ فقہ میں بہت بلند ہے کہ اکثر محدثین عظام، فقہاءکرام اورجمہورامت ان کے فقہی کمال پر متفق اور ان کی اس خوبی اور کمال میں ان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من اراد الفقہ فہوعیال علی ابی حنیفۃ۔
)الانتقاء لابن عبدالبر: ص 136 (
ترجمہ: فقہ کے حصول کا خواہش مند امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا خوشہ چین ہے۔
نیز فرماتے ہیں:
کان ابو حنیفہ وقولہ فی الفقہ مسلما لہ۔
ترجمہ: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول فقہ میں مسلم ہے۔
) الانتقاء: ص 135(
نیز فرماتے ہیں: جو شخص فقہ کے حصول کا خواہش مند ہو اس کو چاہیے کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں سے استفادہ کرے اس لیے کہ تمام لوگ فقہ میں ان کے خوشہ چین ہیں۔
)تاریخ بغداد: ج 6 ص 346 مناقب موفق مکی: ص 31(
امام دارالہجرۃ امام مالک بن انس رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ[امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ] ایسے باکمال شخص تھے اگر وہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو قوت دلیل سے اس کو ثابت کر سکتے ہیں۔
)الاکمال: ص 625(
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں میں سب سے بڑے فقیہہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں، میں نے ان جیسا فقہ میں کسی کو نہیں دیکھا نیز انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ اور سفیان رحمہم اللہ کے ذریعہ میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں عام لوگوں کی طرح ہوتا۔
)تہذیب التہذیب ج 10 ص 50(
ان حوالہ جات سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کی فقاہت ، علمی برتری اور فوقیت کےگن صرف احناف ہی نہیں گاتے بلکہ مالکیہ ، شوافع اور غیر مقلدین غرض یہ کہ ہر مسلک اور ہر طبقہ کے سرکردہ رہنما ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔چنانچہ
میاں نذیر حسین دھلوی کے حالات میں لکھاہے کہ وہ امام صاحب کے متعلق فرمایاکرتے تھے کہ کیونکہ آپ کا مجتہد ،متبع سنت، متقی اور پرہیز گار ہوناہی آپ کی فضیلت کےلئے کافی ہے اور آیتان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم کی بشارت آپ کے لئے خود قرآن کریم میں موجود ہے۔
) الحیات بعد الممات: ص 593(
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امت کی اکثریت نے جس طرح امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علم ودیانت پر اعتماد کرکے ان کی خوشہ چینی کی ہے وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین رحمہم اللہ کے بعد اور کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ علم و عرفان اور حدیث وفقہ کی کئی نامور شخصیات کے ہوتے ہوئے جس طرح تشنگی علم بجھانے کے لئے پروانے ان کےاور ان کی فقہ کے گرد جمع ہوئے ہیں وہ انہی کا خاصا ہے 2:
لوکان العلم عندالثریا لذہب بہ رجل من فارس او قال من ابناء فارس حتی یتناولہ۔
) مسلم شریف: ج 2 ص 312(
ترجمہ: اگر دین ثریا کے پاس بھی ہو تو یقینا فارسی النسل ایک شخص اس کو حاصل کرلےگا۔
چنانچہ امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اقول قد بشر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالامام ابی حنیفۃ رحمہ اللہ فی الحدیث الذی اخرجہ ابو نعیم فی الحلیۃ۔
)تبییض الصحیفۃ: ص 3(
امام سیوطی رحمہ اللہ کے مایہ ناز تلمیذ امام ابن حجر مکی شافعی رحمہ اللہ بھی یہی بات لکھتے ہیں:حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بشارت اور فضیلت کے لئے یہ ایک صحیح اور قابل اعتماد اصل[حدیث ] ہے{پھر فرمایا}امام سیوطی رحمہ اللہ کے بعض شاگر فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد شیخ نے جزم اور یقین کے ساتھ جویہ فرمایا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی اس حدیث سے مراد ہیں یہ بالکل واضح اور ظاہر بات ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ )الخیرات الحسان: ص 13(
ان صریح حوالوں سے معلوم ہواکہ امام صاحب رحمہ اللہ اس حدیث کے اولین مصداق ہیں اس لئے بھی ان کی فقہ کو برتری اور فوقیت حاصل رہی ہے۔
3: امام صاحب رحمہ اللہ کی فقہ اس لئےمقبول رہی ہے کہ اس کے اصول وضوابط شوریٰ کے ذریعے طے ہوتے رہے ہیں، چنانچہ کوفہ کے اندر کتاب وسنت کی روشنی میں قوانین کو بنایا جاتاتھا اور نئے پیش آنے والے مسائل کے حل کے لئے ایک مجلس شوریٰ قائم تھی، جو امام صاحب رحمہ اللہ کی نگرانی اور سرپرستی میں مسائل پر غور وفکر کرتی تھی، یہ ایک بالکل واضح حقیقت ہے کہ اجتماعی کوشش، انفرادی کوشش سے بہر حال اعلیٰ اور افضل ہوتی ہے اور اس طریقے سے جو مسائل حل کئے جاتے ہیں ظاہر بات ہے ان میں خطاء اور غلطی نسبتاً بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ طریقہ بھی معصوم عن الخطاء کا درجہ اور مقام تو حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ ہے یہ بھی اجتہاد۔ لیکن غلطی کا احتمال اس میں بہرحال کم رہتاہے اور شوریٰ کا مستحسن اور مفید ہونا خود قرآن کریم سے ثابت ہے وامرہم شوریٰ بینہم اور احادیث مبارکہ اور خلفاء راشدین کے عمل اور دیگر دلائل شرعیہ سے بالکل واضح ہے جس کا کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔
امام صاحب رحمہ اللہ نے مجلس شوریٰ قائم کی تھی اُس میں وقت کے چوٹی کے فقیہہ، محدث،اہل الرائے اور قیاس دان حضرات تھے جو آزادی رائے کے ساتھ مسائل میں اپنی رائے پیش کرتے تھے۔
چنانچہ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ تحریر فرماتےہیں: اصحاب ابی حنیفہ جوان کے ساتھ مسائل میں مذاکرہ کیا کرتے تھے، امام ابویوسف، زفر،داود، اسدبن عمرو، عافیہ، قاسم بن معن، علی بن مسہر، مندل بن علی، حبان بن علی رحمہم اللہ،اور جب کسی مسئلہ پر بحث کرتے اور عافیہ موجود نہ ہوتے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے کہ عافیہ کے آنے تک بحث کو ختم کرو جب عافیہ تشریف لاتے اور ان کے رائے کے ساتھ متفق ہوجاتے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے اب اس مسئلہ کو لکھ لو اور اگر عافیہ متفق نہ ہوتے تو امام صاحب فرماتے یہ مسئلہ مت لکھو۔ حتیٰ کہ اگر کسی کا مجلس کے عمومی موقف سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس رائے کو الگ طور پر اس کے نام کے ساتھ درج کیا جاتاتھا۔
)تاریخ بغداد:ج 10 ص 226 (
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت امام صاحب رحمہ اللہ فقہ کے مسائل میں اپنے شاگردوں کا شعور بیدار کرنے اور ان کی مخفی قوتوں کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے اور امام صاحب رحمہ اللہ صرف اپنی رائے سے مسئلہ نہیں لکھواتے تھے اور نہ ہی اپنی انفرادی رائے کا کسی کو پابند کرتے تھےبلکہ موجود حضرات کی خوب بحث ومباحثہ کے بعد جب آخری رائے قائم ہوجاتی تو اس کو اصول اور قوانین کی کتابوں میں درج کروادیتے جس کو آج ہم اپنی تعبیر میں املاء کرانا کہتے ہیں۔
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اس مجلس کے سامنے ایک اہم مسئلہ درپیش ہوا فخاضو فیہا ثلاثۃ ایام بالغداۃ والعشی تو ارکان مجلس تین دن تک صبح وشام اس میں غور وخوض کرتے رہے۔
) مناقب موفق: ج 2 ص 54(
اور یہ مجلس شوریٰ جب تک مسئلہ کا حل تلاش نہ کرلیتی اس کو ملتوی نہیں کرتی تھی۔اذا وقعت لہم مسئلۃ بیدیہ حتی یضیئونہا۔)مناقب کردری: ج 2 ص 3(
جب اس مجلس کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو اس پر خوب دلائل کے ساتھ بحث کرتےیہاں تک کہ بالآخر اس کی تہہ تک پہنچ کر اس کو روشن کرلیتے۔ اس طرز عمل سے امام صاحب رحمہ اللہ نے جو مسائل طے اور حل کیے ان کی تعداد میں متعدد روایات ہیں اختصاراً ہم ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی عبارت نقل کردیتے ہیں: امام صاحب رحمہ اللہ نے 83000 ہزار مسائل حل فرمائے ان میں سے 38000 ہزار عبادات کے متعلق اور باقی معاملات کے متعلق تھے۔
) ذیل الجواہر: ج 2 ص 472(
4: امام صاحب رحمہ اللہ اور ان کے رفقائے کارنے امت مسلمہ کی ضروریات کو محسوس کرکے اس کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کیاتھا اور قرآن وسنت کی روشنی میں زمانے کی ضروریات کے لحاظ سے یہ پہلی باقاعدہ قانون سازی تھی، جس نے نہ صرف اس کی ضرورت کو پورا کیا بلکہ قیامت تک امت مسلمہ اس سے راہ نمائی حاصل کرتی رہے گی۔ امام صاحب رحمہ اللہ نے اپنے رفقائے کار اور شاگردوں کے ساتھ مل کراتنے مسائل مرتب کیے کہ زندگی کا کوئی گوشہ مرتب شدہ قوانین سےخالی نہ رہا۔جبکہ امام ابویوسف نے خلیفہ ہارون الرشید کی فرمائش پر ”کتاب الخراج“ کے نام سے سلطنت کا پہلادستور تحریر کیا جو باقاعدہ نافذہوا۔
کتاب الخراج اگرچہ اپنے عنوان کے اعتبارسے شعبہ مالیات سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس میں زندگی کے دیگر شعبوں مثلاً انتظام وسیاست، حاکم ورعیت کے باہمی حقوق ومعاملات اور غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا بھی احاطہ کیا گیا ہے اس لئے وہ اس دور کے ایک مکمل دستور کی حیثیت رکھتی ہے جو عباسی خلافت کادستور رہی۔
5: فقہ حنفی میں عقل ودانش کا استعمال متوازن کیا گیا اور وحی اور عقل کے درمیان فطری توازن کو قائم رکھتے ہوئے عقل وقیاس سے بھر پور استفادہ کیا گیاہے۔ عقل اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اسے اگر وحی کی راہ نمائی میں حدود کے اندر استعمال کیا جائے تو یہ اس کی قدردانی اور شکر گزاری ہے، جس کا فقہ میں پوری طرح اہتمام کیا گیاہے اور اس وجہ سے زیادہ تر اصحاب عقل ودانش کی ترجیح ہمیشہ فقہ حنفی رہی ہے۔ ان خصوصیات کا تقاضایہ ہے کہ فقہ حنفی کے اصولوں اور خدمات کو اجاگر کیا جائے اس لئے کہ ماضی کی طرح آج اور مستقبل میں جو ہماری اہم ضروریات ہیں ان میں فقہ حنفی ہی بہتر طور پرکردار ادا کرسکتی ہے۔