عاق نامہ…… شریعت کی نظر میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عاق نامہ…… شریعت کی نظر میں!! )1(
مولانا عبدالرحمٰن سندھی
گہما گہمی کے اس تیز ترین دور میں ہر شخص دوسروں سے بے پرواہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ مغرب کی چند سائنسی ایجادات سے ہمارا مسلم معاشرہ اس قدر مرعوب دکھائی دیتا ہے کہ مت پوچھیے۔ احساس کمتری کی دلدل میں برابر دھنستا جا رہا ہے اور لکیر کا فقیر بنے مغرب کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ خدا خیر فرمائے۔
قارئین کرام !ہمارے مسلم معاشرے میں جس طرح دیگر برائیاں پنپتی جا رہی ہیں اسی طرح غیر مسلم اقوام سے متاثر ہوکر ایک عجیب رسم بد یہ بھی چل نکلی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر اپنی اولاد کو حق میراث سے محروم کردینے کا عمل ”عاق نامہ “ رواج پاتا جا رہا ہے۔ آئے دن اخبارات کے کلاسیفائیڈ صفحات پر اس طرح کے اعلانات کی بھرمار ہوتی ہے” میں اپنے فلاں بیٹے کو بوجہ نافرمانی عاق کرتا ہوں۔ “ وغیرہ وغیرہ
پہلے بھی کئی بار یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اسلام محض چند عبادات کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل دستور حیات ہے اورکامل نظام زندگی۔ اس لیے جہاں اسلام حقوق اللہ کی بات کرتا ہے وہاں حقوق العباد کو بھی نظر انداز نہیں کرتا بلکہ قرآنی مطالعے کے طالب علم اس اسلوب سے بخوبی واقف ہیں کہ قرآن حقوق اللہ پر زور کم دیتا ہے جبکہ حقوق العباد پر زیادہ۔
انہی میں سے والدین کےحقوق بیان کرتے ہوئے ایک جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وقضیٰ ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھرھما وقل لھما قولا کریما۔ واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمہما کما ربیٰنی صغیرا۔
)سورۃ بنی اسرائیل آیت 23، 24(
ترجمہ : آپ کا رب حکم دیتا ہے کہ صرف اسی کی ہی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ان [ والدین ] میں سے جب کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہو۔ اور ان کو ہاں اور ہونہہ نہ کرو اور جب بھی ان سے بات کرو تو نرم لہجے میں کرو۔ اور ان کے سامنے کمال تواضع اختیار کرتے ہوئے اپنے کندھوں کو جھکائے رکھو اور ان کے لیے اپنے رب سے یوں دعا مانگا کرو اے رب ان دونوں پر رحمت فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔
عن ابی امامۃ رضی اللہ عنہ ان رجلا قال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما حق الوالدین علی ولدھما ؟ قال ھما جنتک او نارک۔
) ابن ماجہ ص 260(
ترجمہ : صحابی رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا اے اللہ کے رسول !اولاد پر والدین کے کیا حقوق ہیں۔ آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ وہ [ والدین ] یا تو تیری جنت ہیں یا پھر جہنم۔
یعنی اگر ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے گا تو اس سے اللہ راضی ہوگا اور یہ تیرے لیے جنت میں جانے کا سبب بنے گااور اگر ان کی حق تلفی کرے گا ، نافرمانی کرے گا تو اس سے اللہ ناراض ہوں گے اور یہی تیرے لیے جہنم میں جانے کا سبب ہوگا۔
اس لیے والدین کی رضا میں رب کی رضا ہے اور جس نے والدین کو ناراض کیا اس نے رب تعالیٰ کو ناراض کیا۔ ………)جاری ہے (