فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 8: تصوف سے متعلق[ب]
فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ
……… متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ﷾
تصوف کی ضرورت :
تصحیح عقائد اور اعمال ظاہرہ کے ساتھ جب تک اصلاح باطن نہ ہو اس وقت تک انسان گمراہی سے نہیں بچ سکتا چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مناصب نبوت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم اٰیٰتہ و یزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان یہ فرمایا کہ انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر آیات تلاوت کرتا ہے ان کا تزکیہ )دل کی صفائی (کرتا ہے اور انہیں تعلیم کتاب وحکمت سے سرفراز فرماتا ہے۔
یہاں تزکیہ سے مراد ”اصلاحِ باطن“ ہے جسے عرف ِعام میں ”تصوف “کہا جاتا ہے۔ تو معلوم یہ ہوا کہ تصوف کی ضرورت اس قدر شدید ہے کہ اسے اللہ رب العزت نے مناصب نبوت میں سے قرار دیا۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کے مبارک گوشوں سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حدیث مبارک میں ہے :
صحیح بخاری کا حوالہ :
عَنْ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ـ يَقُولُ:۔۔۔۔۔۔۔ أَلا وَإِنَّ فِى الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلا وَهِى الْقَلْبُ
) صحیح بخاری رقم الحدیث 50(
حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے خود رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرمایا کرتے تھے ……. انسانی جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جب تک وہ صحیح رہتا ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے اور وہ لوتھڑا دل ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء بدن میں سے ہر عضو کو خاص مقصد کے لیے تخلیق فرمایا ہے جب تک وہ عضو صحیح سالم ہوگا تو ٹھیک کام کرے گا اور اگر کسی عضو میں کوئی مرض لاحق ہوجائے تو وہ صحیح کام نہیں کرتا۔ مثلاً ہاتھ ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے پکڑنے کی قوت دی ہے اگر ہاتھ صحیح طور پر نہ پکڑے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کو کوئی مرض لاحق ہوگیا ہے۔
اسی طرح آنکھ کو دیکھنے کے لیے پیدا کیا اگر آنکھ کو صحیح نہ دکھائی دے تو یہ اس کا مرض شمار ہوتا ہے۔
زبان کو بولنے کے لیے پیدا فرمایا اب اگر وہ بول نہ سکے یا غلط بولے تو یہ اس میں مرض ہے۔ الغرض تمام اعضائے بدنیہ کو خاص مقاصد کے لیے تخلیق کیا گیا جب تک وہ خراب نہ تو فائدہ مند ہے ورنہ ضرر رساں ہیں۔ اسی طرح یہ بات سمجھ لیجیے کہ دل بھی انسانی جسم کا عضو ہے بلکہ رئیس الاعضا ہے۔
اس کا مقصد اللہ کی محبت اطاعت اور عبادت ہے اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ پر گامزن رہنا ہے ، اخلاق حمیدہ سے مزین ہونا ہے۔ اگر یہ اسی طرح چلتا رہے تو سارا جسم ٹھیک چلتا رہے گا اور اگر اس میں خلل آجائے یا کوئی مرض لاحق ہوجائے۔ [ یہاں مراد روحانی امراض ہیں ] اس لیے صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ
فلو عرف العبد كل شيء ولم يعرف ربه فكأنه لم يعرف شيئاً.
اگر بندے نے ہر شے سےتو واقفیت حاصل کر لی لیکن اس نے اپنے رب کو نہیں پہچانا تو گویا اس نے کسی شے کو نہیں جانا۔ اس طرح اگر کسی شخص کو تمام دنیاوی لذات اور شہوات میسر ہوں لیکن اللہ کی محبت اور معرفت حاصل نہ ہو، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا یہ لذات اور شہوات اس کے لیے باعث عذاب ہیں۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف دل کے امراض کیا ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ یہ امراض دو قسموں کے ہیں۔
نمبر 1:اتباع الوساوس والشبہات والشکوک :
یعنی دل وساوس شیطانیہ اور شبہات و شکوک میں مبتلا ہو جائے بسا اوقات اس سے ایمان جانے کا بھی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے
نمبر 2:اتباع الشہوات المحرمۃ :
یعنی حرام اور ناجائز شہوات میں مبتلا ہوجانا۔
صوفیاء کرام دونوں امراض قلبیہ کو علاج کرتے ہیں۔ غلط عقائد اور نظریات سے بچا کر صحیح عقائد کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ناجائز اور حرام شہوات نفسانیہ سے ہٹا کر انسان کے دل کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں ثابت قدم اور فراوانی میں شاکر ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے انسان میں فراست و بصیرت پیدا ہوتی ہے۔
…………) جاری ہے(