دور حاضر میں تحقیق اور فکری گمراہی کے اسباب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دور حاضر میں تحقیق اور فکری گمراہی کے اسباب
مولانا محب اللہ جان
آج جس دور سے ہم گزررہے ہیں یہ انتہا ئی پرفتن دورہے۔ گمراہ کن نظریات و افکار چاہے ان کا تعلق عقائد سے ہویااعمال سے، ایمان سے ہو یا اسلام سے، مسائل سے ہو یا احکامات سے، ظاہرسے ہو یا با طن سے ،یہ سب خوب عروج پا رہے ہیں۔بالخصوص” تحقیق“ اور” ریسرچ“ کے نا م پر اٹھنے والے فتنے اسلا می تعلیما ت اور اس کے عقائد و نظریات میں مسلسل رخنہ اندا زی کر رہے ہیں۔ نام نہاد مفسر قرآن ہوں یافرنگی ساختہ اہل حدیث ،قرآن کے نام پر ہو یا سنت کے نام پر ہو، اصلاح اور تزکیہ باطن کے نام سے ہو یا فلاح اور خدمت خلق کے نام سے الغرض ان سب کی محنت کا نچوڑقرآن و سنت کی تشریحات میں قطع برید سے کام لے کر دین کےصحیح اور حقیقی مفہوم کو مسخ کرنا ہے۔ بڑھتے ہوے تحقیق اور ریسرچ کے نام پر ان باطل فتنہ انگیزوں کے مسلسل رخنہ اندازیوں سے ایک طرف جہاں عوام الناس کے اعتقادات بگڑنے شروع ہوئے وہاں دوسری طرف کچھ ہما رے عملی وفکری حلقوں پر بھی اس کے اثرات بد بڑی شدومد سے دیکھنے میں آرہے ہیں۔
کیو نکہ جب یہ بات سامنے آئی کہ فکری گمراہی کا شکار ہونے والے چونکہ اولاً تحقیق اور ریسرچ میں پڑ کرگمراہ ہوئے ہیں لہٰذا اب جوبھی تحقیق اور ریسرچ کا نام لیتا ہے تو ہما رے کچھ نادان دوست گمراہی کاتصور لئے انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ انہیں سوچنا چا ہئے کہ اسلام مذہب ہدایت ہے قرآن کتاب ہدایت ہے احادیث اور سنن مبارکہ پیغام ہدا یت ہیں اس کے مطالعہ اور اس میں غورو خوض سے کوئی کیسے گمراہ ہو سکتاہے؟ البتہ ان نام نہاد محققین کی فکری ، نظریاتی گمراہی کے چند اسباب و عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ ہدایت کی بجائے گمراہی کے انجانے رستے کے راہی بنے ہوئے ہیں۔
جس نے بھی اسلامی تحقیقات کے اصول اور ضوابط کو سامنے رکھ کر تحقیق کے مراحل کو طے کیا ایسے لوگوں کی گمراہی کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔ لہٰذا فکری گمراہی کے ان عوا مل کو سامنے رکھ کر تحقیق اور ریسرچ میں ناکا م ہو نے وا لو ں کے اسباب سے بہت کچھ عبرت کا درس لیا جا سکتا ہے اگرذوق تحقیق رکھنے وا لے احباب فکری گمرا ہی کے ان عوا مل کو سا منے رکھ کرسلسلہ تحقیق کو جاری وساری رکھیں تو وہ کبھی بھی گمراہی اور ضلالت کا شکار نہیں ہو سکتے۔ انشااءللہ العزیز۔
تقلید سے فرار:
گمراہ کن فتنو ں کے لٹریچر اور ان کی کتب ور سا ئل اور جرا ئد کا غور اور خوض سے مطا لعہ کے بعد سب سے بنیا دی چیز جو ان کی فکری گمرا ہی میں مبتلا ہو نے کی سامنے آئی وہ ”تقلید سے فرار“ ہے۔ تقلیدکی شرعی حقیقت وحیثیت اوراس کی ضرورت واہمیت پر اہل علم نے بہت کچھ لکھا ہے۔یہاں صرف اتنی بات عرض کرنی ہے کہ تحقیق وریسرچ میں فکری گمراہی کا راستہ تب کھلتا ہے جب تقلید کا دامن ہاتھ سے چھو ٹتا ہے۔ در اصل تقلیدیا اعتماد یہ انسان کی جیسے شرعی ضرورت ہے ایسی ہی فطری ضرورت بھی ہے۔ تقلید سے فرار جیسے شریعت سے فرار ہے ایسے ہی فطرت سے بھی فرار ہے اور فطرت سے فرار اور بیزار شخص آخر فطرت پر ایک نہ ایک دن ضرور پلٹتاہے۔ اس دور میں بھی دیکھئے کہ جو تقلید کو شرک و با طل کہتے نہیں تھکتے تھے آج خود انہوں نے بھی تقلید شروع کر لی ہےکیو نکہ یہ ایک فطری چیز تھی جس سے فرار میں سوائے گمراہی اور ضلا لت کے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آیا۔
جولوگ حنفیت کی تقلید کو اسلام کے متوازن و مقا بل مذہب کی تقلید سمجھتا ہے۔ آج انہوں نے بھی تقلید کی اس فطری ضرورت کوعملی طور پرتسلیم کر لیا ہے وہ اس طرح کہ آج جو تحقیقات منظر عام پر آر ہی ہیں ان میں اگروہ کسی حدیث کی صحت کااعلان کرتے ہیں تو دلیل کے طورپرصرف اتنا کہتے ہیں کہ البانی نے اس کو ”صحیح “ قراردیااورجس روایت کے ضعف کا دعویٰ کرتے ہیں تودلیل کے طور پربھی یہی کہتے ہیں کہ موصوف نے اس کو”ضعیف“ قراردیا ہے۔
قارئین کرام! وہ فرقہ جس نے تقلید کو ہدف بنا کر امت مسلمہ کو حنفیت سے بیزار کرنے میں کوئی کسرنہیں چھو ڑی۔ آج خود وہ قرآن و حدیث سے ماورا ء البانی کی تحقیقات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ آخر کسی پر تو اعتماد کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اگراحناف خیر القرون کے نامو ر تا بعی نعمان بن ثابت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتماد کریں تو شرک کہلائے اور اس صدی کے البانی کی تحقیقات پراعتماد کریں تو وہ دین کاقابل اعتبار حصہ۔
میں کسی بھی قسم کی تکلفات کا پابند نہیں اور نہ ہی محض تعصب کا شکار ہو ں بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو مجھے ہر جگہ اورہر فکری گمرا ہی کی بنیا د میں نظر آئی ہے اور تقلید کا یہاں یہ مفہوم صرف اس حد تک کے لئے خاص نہیں ہے جو اکثرلوگ سمجھتے ہیں ، بلکہ میری مراد تقلید سے یہاں سلف صالحین ، فقہائے امت کے دینی ذوق اور ان کے فہم پر اعتماد کرناہے۔ جس وقت فقہا ءاسلام کی سمجھ اور فہم سے انسان گریزا ں ر ہنا شروع ہو جا تا ہے تب پھرصرف ایک ہی گمراہی نہیں بلکہ سینکڑوں گمراہیوں کے لیے اس شخص کو اپنے لپیٹ میں لینابہت آسان ہوجا تا ہے۔ فکری گمراہیو ں کے راہ میں سب سے بڑی رکا وٹ فقہاءاوران پر دینی معا ملات میں اعتماد کرنا ہے تو شیطان اور اس کے مشن کے علمبردار کسی کو گمراہ کر نے کیلئے سب سے پہلے اس کے اعتماد کو مشکوک بناتے ہیں، اس کی عقیدت اور اعتمادکو کمزور کرنے کی کو شش کرتے ہیں تا کہ دیگر فکری گمرا ہیوں کےلئے راستہ آسان ہو جا ئے جب تک انسان فقہاءپر اعتماد کرتا رہتا ہے اور تقلید کے دا من سے وابستہ ر ہتا ہے تب تک گمراہی اس کے گرد بھی نہیں ٹپک سکتی۔ تحقیق اور ریسرچ کے میدان میں سب سے پہلے جس چیز کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی جگہ فقہا ئے امت سے عدم اعتماد کی فضاءنہ بن پا ئے۔ اگر آپ کوکہیں مسئلہ کی وضاحت معلوم نہ ہویا اس کی حقیقت معلوم نہ ہویا آپ کا مطالعہ اور ریسرچ فقہا ءکے مخالف جا رہی ہو تو بجا ئے ایک الگ رخ اور نظریہ اختیا ر کرنے اور ایک الگ شاہراہ پر گامز ن ہونے کے ضروری ہے کہ آپ اہل علم سے رجوع کریں۔ قرآن مقدس نے بھی ہمیں اس کا حکم دے کر عظیم فکری گمراہیوں سے بچنے کاایک بلند اصول سمجھایا ہے۔ کا ش کہ قرآن قرآن کی رٹ لگانے والوں کو قرآن کایہ فلسفہ بھی معلو م ہوجائے کہ
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.
کہ جہاں آپ کی عقل،تحقیق ، ریسرچ ،مطالعہ،علم اورمعلومات جواب دے جائیں وہاں اہل علم سے رجوع کرکے اپنے مسئلہ کا حل تلاش کریں ،نہ کہ جمہور امت سے کٹ کر گمراہی کی تاریک وادی میں جا گھسیں۔کیونکہ جب ایک مسئلہ میں دوری پیدا ہو جا تی ہے تو پھر آہستہ آہستہ عدم اعتماد کی یہ فضاءدل دماغ کے آفاق میں پھیلتی چلی جا تی ہے اور پھر اس انسان کووہ وقت بھی دیکھنا پڑ جا تا ہے کہ وہ فقہا ئے امت سے مکمل طور پر بیزار ہو کرگمراہی کی شاہراہ پر گامزن ہو جا تا ہے اور جمہور کی راہ سے ہٹ ہو کر ہر قسم کی فکری گمراہیوں کیلئے تر نوا لہ بن جا تا ہے۔
عصر حاضر میں جتنے بھی با طل فتنے عروج پار ہے ہیں اور تحقیق اورریسرچ کے نام پر گمراہی کے تاریک غار میں داخل ہو رہے ہیں ان کی گمراہی میں سب سے بنیادی سبب جس کو فقہا ئے اسلام سے بیزاری یا ”تقلید سے فرار“ کے نا م سے مو سوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ انسان پہلے تقلید اور اعتماد سے بیزار ہو تا ہے پھر سینکڑوں گمراہیوں کا شکار ہو جا تا ہے تو بالکل بجا ہوگا۔
ناقص رائے پر اصرار :
فکری و نظریا تی گمراہی کا دوسرا سبب جہاں انسان ہدا یت کی بجائے گمراہی کا شکار ہو جا تا ہے وہ اپنی ناقص رائے پر ٹکا رہنا ہے انسان کی فطرت ہےکہ جب وہ کسی نتیجہ پر ایک جدوجہد کے بعد پہنچتا ہے تو پھر اس نتیجہ کو قربان ہو نے نہیں دیتا اوربسا اوقات یہی چیز اس کی فکری گمراہی کا سبب بن جا تی ہے۔ تحقیق اور ریسرچ میں آج تک جتنے لوگ بھی گمراہ ہوئے ان کی گمراہی میں یہ سبب بھی نما یاں نظر آتاہے کہ وہ اپنی ناقص رائے پر حددرجہ اڑے رہتے ہیں اور اس کے علا وہ دوسری رائے سننے کےلئے تیار نہیں ہوتے اور ان کا یہ مزاج بن جاتا ہے کہ دین کو اصل حقائق کے سا تھ سمجھا ہی اسی نے ہے۔گزشتہ دور میں کسی کو بھی یہ سعادت میسر نہ آئی جبکہ یہ نظریہ سو فیصد غیر اسلا می اور غیر شرعی ہے کیو نکہ ہمیشہ ہر دور میں ایک جماعت کاحق پر قائم رہنا اس امت کی خصوصیات میں سے ہے۔ الغرض کہ انسان کے ذہن پر مختلف اوقات میں مختلف ادوار میں مختلف ارتقائی نظریات کا ورود رہتا ہے اور اس کا ذہن مختلف مرا حل طے کرتا ہے۔انسان کا تجربہ ،مطالعہ اورمشاہدہ بڑھتا ہے ،تو بہت سے ذہنی نتا ئج بھی اس کے سا تھ بدلتے رہتے ہیں۔دنیابھرمیں جتنے بھی ذہین ترین انسان یا مختلف علوم و فنون کے ماہرین گزرے ان کی داستا نوں کے مطا لعہ میں یہ چیز بہت واشگا ف ملتی ہے بلکہ کون امام غزا لی کو نہیں جا نتا ؟ان کے علوم و فنون سے امت آج تک مستفید ہو رہی ہے خود وہ فرما تے ہیں کہ مجھے جب بھی کسی نئے مسئلہ کا علم ہو تا ہے تو مجھ پر میری عقل کا قصور واضح ہو جاتاہے۔ ہمیشہ انسان کم چیزوں کو جانتا ہے اکثر کو نہیں جا نتا۔ اگر انسان ساری عمر بھی اکثر اوقات مطالعہ کتب ہی میں مستغرق رہے پھربھی اس کو بہت تھو ڑاملتا ہے اس لئے ذوق تحقیق رکھنے وا لے اہل فکر ہمیشہ اس چیز کا خیال رکھیں، ہو سکتا ہے کہ اس نے جو مطالعہ کیا ہے یاایک مسئلہ پڑھا ہے اس کو سمجھنے میں اس کی عقل و فہم نے ٹھوکر کھائی ہو۔ایسی صورتحال میں جمہور کی رائے کو اختیار کرنا ہی دا نشمندی ہے اور گمراہی سے بچنے کا واحد حل بھی ہے۔ اللہ کریم کا قا نون ہے: فوق کل ذی علم علیم کہ ہر جا ننے وا لے کے اوپر ایک جا ننے والا ہو تا ہے۔ ذوق تحقیق رکھنے والے اصحاب کو ہمیشہ یہ مد نظر رکھ کر چلنا چا ہئے کہ ایک انسان کی سمجھ و فہم سے کئی انسانوں کی سوچ و فہم زیا دہ ہو تی ہے اور پھر بالخصوص فقہائے دین اور علمائے امت کی سوچ وفہم۔ لہٰذا اپنی وہ رائے جو اجماع یا نصوص قطعیہ اور براہین واضحہ کے خلاف ہواس رائے کو قربان کر نا ہی کمال ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ شریعت مقدسہ نے انسان کی رائے کا احترام کیا ہے مگر شریعت نے رائے کے ردو قبول کے معیار بھی قائم کیے ہیں اگر انسان کی رائے اس معیار کے مطا بق ہو تو قابل صد احترام وگرنہ وہ رائے ہرگز قبول نہیں کی جا ئے گی۔ کیو نکہ یوں تو ہرانسان تحقیق کا اعلان کرکے دین میں رائے زنی شروع کرکے ا سے بازیچئہ اطفال بنا دے گا۔ اگر ہر محقق قرآن وسنت کی رو شنی میں بتلا ئے ہوئے ان معیاروں کو سامنے رکھ کر اپنی ناقص رائے پر خصوصاً جب کہ وہ نصوص اور ان معیاروں پرپورا نہ اترے اصرار اختیار کرکے تفردات کا شکار نہ ہو تو یہ شخص کبھی بھی تحقیق میں فکری گمرا ہی شکار نہیں ہو سکتا۔