اسلام ایک راہ ِ اعتدال

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اسلام ایک راہ ِ اعتدال
مولانامحمد مبشر بدر
اسلام اعتدال وتوازن اور عدل واستقامت کا دین ہے۔ قرآن وسنت میں بہت سی ایسی آیات واحادیث ہیں جو اسلام کی وسطیت اور اس کے افراط وتفریط سے پاک متوازن ومعتدل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ایسی وسطیت جس میں کوئی انحراف وکجی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ حق ہے جو آسمان سے اترا ہے۔ لہذا وہ غلو وتقصیر اور افراط وتفریط سے پاک ہے۔ نہ اس میں انتہا پسندی ہے اور نہ ا ضاعت وبربادی اور نہ سستی ودلیری۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :’’ اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہےتا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔“
(سورۃ البقرة:143)
اور فرمایا: ”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔“ (سورۃ آل عمران:110)
ایک جگہ فرمایا: ”اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بےجا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے۔ یعنی ایسا انسان مغلوب ہو جاتا ہے اور دین پر عمل ترک کر دیتا ہے۔ پس تم سیدھے راستے پر رہو اور رات کے کچھ حصہ کی عبادت سے مدد حاصل کرو۔“
(صحیح بخاری)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عقبہ کی شب، جب آپ اپنی سواری پر تھے فرمایا:میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، تو میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آ جائیں۔ آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے:انہی جیسی کنکریاں مارو۔ پھر آپ نے فرمایا:لوگو! تم دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین کے غلو نے ہی ہلاک وبر باد کردیا۔
ابن جریر طبری فرماتے ہیں: میرے خیال سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان مومنوں کو، دین میں درمیانہ طریقہ اپنانے کی وجہ سے امت وسط سے متصف کیا۔ چنانچہ وہ دین کے بارے میں غلو کرنے والے نہیں۔ان عیسائیوں کے غلو کی طرح، جنہوں نے ترہیب میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلے میں غلو کیا اور وہ حد سے آگے بڑھ گئے اور انہیں الوہیت کا درجہ دے دیا۔ اور نہ ہی وہ تقصیر وکوتا ہی والے ہیں۔ ان یہودیوں کی کوتاہی کی طرح، جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل ڈالا۔ اپنے انبیاء کو قتل کردیا۔ اپنے رب کا انکار کیا۔ لیکن وہ دین میں توسط، واعتدال والے ہیں۔
علامہ شاطبی نے کہا کہ جب آپ شرعی کلیہ پر غور کریں گے تو اسے توسط کا ہی حامل دیکھیں گے۔میانہ روی اور اعتدال پسندی اسلام کے تمام شعبوں میں نمایاں ہے، جیسے شعبۂ اعتقاد میں۔ اسلام اقوام وملل کے بیچ درمیانی مذہب بن کرآیا۔چنانچہ اسلام میں نہ الحاد ہے اور نہ وثنیت(بت پرستی )، بلکہ ربوبیت والوہیت اللہ کے لیے خاص ہے۔
اسی طرح اسلام اسماء وصفات میں تشبیہ وتمثیل اور تحریف وتعطیل کے قائلین کے بیچ درمیانی مذہب ہے۔ قضاء وقدر کے سلسلے میں اسلام کا موقف، قدریہ اور جبریہ کے دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک معتدل موقف ہے اور مسئلہ ایمان کے سلسلے میں یعنی اہل السنت والجماعت کا موقف افراط وتفریط سے پاک ہے۔ وہ عمل کو ایمان کے لیےحسن و جمال قرار دیتے ہیں اور معصیت کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے۔
اسی طرح گنہگار کو کامل الایمان نہیں سمجھتے،بلکہ وہ اپنے ایمان کے سبب مومن ہوگا،مگر گناہ کبیرہ کے سبب فاسق ہوگا۔نبوت وولایت اور صحابیت کے سلسلے میں بھی توسط ہے، ان لوگوں کی طرح غلو نہیں جنہوں نے نبیوں اور ولیوں کو رب بنا لیا۔ اور نہ ان یہودیوں کی طرح جنہوں نے نبیوں او رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں قتل کیا۔اہل اسلام درمیانی راہ اپناتے ہوئے اللہ کے تمام رسولوں اور پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کتابوں پر بھی۔ اس کے ولیوں سے محبت کرتے اور آپ کے تمام صحا بہ رضی اللہ عنہم سے خوش رہتے ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
قارئین !ایک اور میدان بھی ہے، جہاں اس امت کی اعتدال پسندی واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ اور وہ ہے عبادت اور فطری تقاضوں کی پاسداری کا میدان ، روحانی تجرد ،اور مادی ارتکا زمیں غلو کیے بغیر روح اور بدن کے بیچ نادر رشتے کی بقاء کا مسئلہ، چنانچہ یہاں نہ تو رہبانیت ہے اور نہ ہی صرف مادیت ،بلکہ فرمان حق تعالیٰ کی روشنی میں ایک ربط وسلیقگی ، اور اعتدال ومیانہ روی ہے:قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے:”اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول۔“
(سورۃالقصص: 77)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون کے تبتل (بغیر شادی شدہ زندگی گزارنے کی حالت)کی تردید کی اور اس آدمی کی نکیر کی ، جس نے دنیا کی پاکیزہ چیزوں کو اپنے لیے حرام کرلیا، فرمایا: ” میں تو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے لیے تقویٰ شعار ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا ہوں۔نماز بھی پڑھتا ہوں اور رات میں سوتا بھی ہوں۔ ساتھ ہی بیویوں سے ہمبستری بھی کرتا ہوں۔“
(بخاری ومسلم)
اور مسلم وغیرہ میں ہے:” غلو کرنے والے ہلاک ہوئے۔“ اور یہ بھی:”یہ دین آسان ہے اس لیے اس میں نرمی وآسانی سے داخل ہوجاؤ اور جو دین میں بےجا سختی کرےگا تو دین اس پر غالب آجائےگا۔“
اور انفاق وخرچ کرنے کے سلسلے میں میانہ روی اس فرمان الہٰی سے واضح ہے: ”اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔“
(سورۃ الفرقان:67)
حقوق ومعاملات میں بھی دین کی اعتدال روی نمایاں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”تمہارے اوپر تمہارے نفس کا حق ہے۔ تمہارے گھروالوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حقدار کا حق ادا کرو۔“
(مسند أحمد وصحیح مسلم)
کچھ اور اہم شعبے ہیں جن میں اس امت کی اعتدال پسندی نمایاں ہے۔ ان کا تعلق تشریع تحلیل وتحریم ،منہج فکر ونظر اور طریق استدلال سے ہے۔ ان شعبوں میں شریعت اسلامیہ نے افراط وتفریط کے بیچ میانہ روی اختیار کی۔ تحلیل وتحریم کے فیصلے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے”إن الحکم إلا للہ“فیصلے کا اختیار صرف اللہ کے لیے ہے۔”ألا لہ الخلق والأمر“اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق اور حاکم ہونا۔
(قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ)
(سورۃ الأعراف:32)
”آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟“ منہج فکر ونظر اور استنباط میں اسلام نے حصول معرفت کے مصادر میں موازنہ کر کے صحیح منقول اور صریح معقول کے بیچ موافقت پیدا کی ہے۔ قواعد وضوابط سے رہنمائی اور شریعت کے اسرار اور رموز کی حکمت میں توافق کا راستہ اپنایا ہے۔ مصالح ومنافع اور خرابی ونقصان کے درمیان موازنہ کیا ہے۔
ان کے علاوہ متعدد مقامات ہیں جہاں اسلام ہمیں راہِ اعتدال پرکھڑا نظر آتا ہےاور اپنے پیروان کو بھی اسی راہ چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں : ’’افراط میں پڑنا آسان ہے اور تفریط کی طرف مائل ہونا بھی سہل ہے پر اپنے آپ کو اعتدال پر قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔“اللہ تعالیٰ ہمیں افراط و تفریط سے بچائے۔ آمین