صبر و شکر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
میں بات صرف یہ سمجھا رہا تھا کہ عبادات میں بعض عبادات مؤقت ہیں، ان کا وقت متعین ہے مثلاً رمضان کے روزے ہیں ان کا وقت متعین ہے، حج کےایام میں حج کی عبادات کا وقت متعین ہے، ہمارے ذمے اگر قربانی ہے تو اس کا وقت بھی متعین ہے۔ ایک عبادات وہ ہیں جو مؤقت ہیں اور بعض عبادات وہ ہیں کہ جن کا وقت متعین نہیں ہے۔ تو جن عبادات کا وقت متعین ہو ہم اپنی مرضی سے ان اوقات کو آگے اور پیچھے کریں تو یہ مناسب نہیں اور جن عبادات کو شریعت نے وقت مقرر پر متعین نہیں کیا ہم ان کو اپنی طرف سے متعین کریں تو یہ ہمارے لیے مناسب نہیں ہے۔ ہم شریعت کے پابند ہیں، ہم اس میں رد و بدل نہیں کر سکتے۔ تو بعض عبادات مؤقت ہیں اور بعض عبادات غیر مؤقت ہیں۔اس میں ایک اصول اور یاد رکھیں۔
دعا میں ہاتھ اٹھانے کے لیے ایک ضابطہ:
آپ کو پتہ ہے ہمارے ہاں خانقاہی مجلس ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہم علمی مسائل بیان کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم ایسے ذکر کے قائل نہیں ہیں جو علم سے خالی ہو اور ایسے علم کے بھی قائل نہیں جو ذکر سے خالی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ علم اور ذکر ساتھ ساتھ چلنے چاہییں۔ محض علم ہو تو پھر بھی نقصان ہے کہ خشکی آجاتی ہے اور محض ذکر ہو علم نہ تو پھر آدمی اتنا تر ہوتا ہے کہ ضرورت سے بھی زیادہ تر ہو جاتا ہے، پھر اتنا گیلا ہوتا ہے کہ اس میں ٹھنڈ لگتی ہے آدمی برباد ہوجاتا ہے۔ تو علم بھی ہو اور ذکر بھی ہو۔ میں ایک مسئلہ عرض کرنے لگا تھا۔ آپ کو معلوم ہے میں اکثر ضابطے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو بہت ساری باتیں سمجھنی آسان ہوں۔ ہمارے ہاں بہت سارے مسائل چلتے ہیں کہ کبھی کھانا کھاتے ہیں تو لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں، کبھی اذان ہوتی ہے تو اذان کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں، کبھی فرض نماز ہوتی ہے تو لوگ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، ایسا ہی ہورہاہے نا؟ [جی ہاں۔ سامعین] بعض لوگ فرض نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کو تیار نہیں اور بعض اذان کے بعد بھی ہاتھ اٹھانے پر مُصِر ہیں۔ بعضوں کو کہیں: جی! برکت کےلیے دعا کریں اگر ہاتھ اٹھاؤ تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں اور بعض کو ایک چائے کی پیالی پلا دو تو اس کے بعد بھی ہاتھ اٹھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ کس موقع پر ہاتھ اٹھانا چاہیے اور کس موقع پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ الہند حضرت مولانا حسن محموددیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے مایہ ناز شاگرد ہیں۔ تعلیم الاسلام انہی کی کتاب ہے۔ حضرت نے ایک بہت پیارا ضابطہ بیان فرمایاہے۔ عموماً دعاؤں میں ضابطہ یہ ہے کہ جہاں دعا میں الفاظ متعین ہوں وہاں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے، جہاں الفاظ متعین نہ ہوں وہاں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ کتنا پیارا ضابطہ ہے۔ اب دیکھیں آپ ہزار کتابیں مطالعہ کریں تو شائد اس ایک ضابطے پر نہیں پہنچیں گے اور علما کی مجلس میں ایک منٹ میں کتنا بڑا ضابطہ ملتا ہے۔ جہاں الفاظ متعین ہیں وہاں عموماً ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے اور جہاں پر الفاظ متعین نہیں وہاں پر عموماً ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ قواعد کلی نہیں ہوتے قواعد اکثری ہوتے ہیں۔ اب ذرا دیکھیں جب کھانا کھائیں تو کھانے کے بعد دعا کے الفاظ کیا ہیں:
(اَلْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ)،
اب ہاتھ نہیں اٹھاتے اور بیت الخلاء جانے کے الفاظ کیا ہیں۔
(اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ)،
اب ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ، سونے لگیں تو دعا کے الفاظ:
(اَللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيٰی)،
اب ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اذان کے بعد کی دعا کے کلمات کیا ہیں:
(أللهُمَّ ربَّ هذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلاَةِ الْقَائِمَةِ)
الفاظ متعین ہیں اب ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ فرض نماز کے بعد دعا کے الفاظ متعین ہیں کہ یہ دعا مانگے اور یہ نہ مانگے؟ [نہیں۔ سامعین] ہاں بعض الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بھی ہیں لیکن متعین تو نہیں ہیں۔اب آپ چاہیں تو ہاتھ اٹھا لیں۔ قبرستان میں جائیں تو دعا کےلیے ہاتھ اٹھانے کے الفاظ متعین ہیں؟ [نہیں۔ سامعین]الفاظ متعین نہیں ہیں، اٹھا لیے تو ٹھیک نہ اٹھائے تو ٹھیک۔ فرق کیا ہے؟ اگر ایسی جگہ ہاتھ اٹھانے سے خدشہ ہوکہ لوگ سمجھیں گے اہل بدعت کے ساتھ تشبیہ ہے پھر نہ اٹھائیں اور جب ایسی جگہ ہو جہاں تشبہ کا خدشہ نہ ہو تو وہاں ہاتھ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
خیر اصل بات اور سمجھانا چاہتا ہوں یہ تو میری عادت ہے کہ میں درمیان میں ایسے مضامین لاتا ہوں کہ ہمارا علمی ذوق بنے اور مسائل کا ہمیں پتہ ہو اور سنت اور بدعت کا امتیاز ضوابط اور قوانین کے ساتھ ہو جائے اور بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
دو عظیم عبادتیں:
عبادات کی دو قسمیں ہیں۔ بعض عبادات وہ ہیں جن کا وقت متعین ہے اور بعض عبادات وہ ہیں کہ جن کا وقت متعین نہیں ، جن عبادات کا وقت متعین نہیں ہے یعنی ہمہ وقتی عبادات، ا ن میں تمام عبادات کا خلاصہ دو عبادتیں ہیں:
1: شکر
2: صبر
یہ وہ عبادات ہیں کہ جن کا کوئی وقت بھی متعین نہیں ہے اور یہ ہمہ وقتی عبادات ہیں۔ کیونکہ چوبیس گھنٹے میں جو لمحہ بھی انسان پر گزرتا ہے وہ یا تو انسان کے مزاج کے موافق ہوتا ہے یا انسان کے مزاج کے مخالفت ہوتا ہے۔ اگر مزاج کے موافق ہے تو اس پر شکر کرے اور اگر مزاج کے مخالف ہے تو اس پر صبر کرے۔ یہ ایسی عبادت ہے کہ اگر انسان اس پر عمل کر لے تو اللہ کی قسم انسان کی پریشانیاں، انسان کی الجھنیں لمحوں میں ختم ہوجاتی ہیں۔ اگر انسان اس کا تصور کرے کہ اس عمل پر مجھے کیا ملتا ہے تو پریشانیاں خوشیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
ہر لمحہ عبادت کیسے؟
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سنیے! اللہ کے نبی نے کتنی پیاری بات فرمائی ہے۔صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ
(صحیح مسلم: رقم الحدیث2999)
کہ واہ واہ عجیب مسلمان ہے۔(عجباً کا لفظ جیسے ہمارے ہاں خوشخبری ہوتی ہے یعنی مسلمان کےکتنے مزے ہیں) مسلمان کی ہر حالت مسلمان کے لیے بہترہے اور یہ نعمت مسلمان کے علاوہ کسی کو نہیں ملتی۔(وہ نعمت کیا ہے؟مسلمان کی دو ہی حالتیں ہیں) اچھی چیز مل گئی اس نے شکر کیا تو اس کے لیے بہتر ہے اگر اس کو کوئی چیز مل گئی جو نقصان دہ ہے اور اس نے اس پر صبر کیا تویہ اس کے لیے بہتر ہے۔
تو مسلمان کی ہرحالت مسلمان کے لیے بہتر ہی بہتر ہے۔ اگر اللہ پاک کوئی پسندیدہ چیز دے دے تو شکر کرے اور اگر نہ دے تو پھرصبر کرے۔مسلمان کے کتنے مزے ہیں۔ کوئی بندہ سوچ سکتا ہے؟! چوبیس گھنٹے مسلمان کی عبادت میں گزرتے ہیں۔ ہر وقت ہر بندے کوئی نہ کوئی حاجت پیش آتی ہی رہتی ہے۔ اس لیے دعا کریں اللہ پاک ہمیں شکر کی بھی توفیق عطا فرمائیں۔ اللہ پاک صبر کی بھی توفیق عطا فرمائیں۔
اور یہ بات یاد رکھیں حالتیں دونوں قسم کی ہیں ، ہمیں حالت کون سی پسند ہے اور فائدہ کس حالت میں زیادہ ہے؟ میں نے یہ دو باتیں سمجھانی تھیں۔ انسان کا مزاج یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ مجھے میری پسند کی چیزیں ملیں، میرے مزاج کی چیزیں ملیں۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ انسان کو اس کی پسند کی چیزیں ملیں اور انسان اس پر شکر کرے ایسا کم ہوتا ہے اور انسان کو تکالیف ملیں اور انسان اس پر صبر کرے ایسا عموماً زیادہ ہوتا ہے۔
حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کے آخری خلیفہ جو دنیا سے گئے ہیں وہ حضرت مولانا ابرار الحق ہر دوئی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو ہمارے دادا پیر بھی ہیں، کیونکہ ہمارے پیر عارف باللہ حضرت اقدس شاہ حکیم محمداختر رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور ان کے شیخ ہیں حضرت شاہ ابرار الحق ہر دوئی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شیخ ہیں حکیم الامت مجد دالملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ۔ مولانا ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ ہمارے دادا پیر بنتے ہیں اور آپ کے [یعنی سامعین مریدین کے] پرداداپیر بنتے ہیں۔ تو بہت درمیان میں زیادہ واسطے نہیں ہیں، ہمارا بہت قریب کا تعلق ہے۔ حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر قرآن کریم کو دیکھیں اور اپنے معاشرے کو دیکھیں تو لگتا یہ ہے کہ مسلمان کے لیے صبر والی کیفیت بہتر ثابت ہوتی ہے شکر والی کیفیت سے، کیوں؟ اس کو نعمتیں ملیں تو یہ ظالم گناہوں پر خرچ کر دیتا ہے اور اگر خدا نعمتیں روک دے تو اللہ سے مانگتا ہے، صبر بھی کرتا ہے، کُڑھتا بھی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ ہم صبر والی کیفیت میں لگے رہیں لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ شکر کرنے والے کم ہوتے ہیں اور صبر کرنے والے زیادہ۔ کیوں؟ شکر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان صرف زبان سے یہ کہتا رہے: ”اللہ تیرا شکر ہے، اللہ تیرا شکر ہے“ اس کانام شکر نہیں ہے۔ شکر کی حقیقت علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں لکھی ہے کہ شکر کی حقیقت یہ ہوتی ہے:
الاعتراف بنعمة المنعم مع تعظيمه وتوطين النفس على هذه الطريقة
(التفسیر الکبیر: ج19 ص67)
کہ انسان انعام کرنے والے کی نعمت کا اعتراف اس کی عظمت کےساتھ کرے اور اپنی ذات کو اس طریقہ پر ہمیشہ کار بند رکھے۔
عظمت کے ساتھ اعتراف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اس کی نافرمانی بھی کرے اور گناہ بھی کرے۔ اسے عظمت نہیں کہتے۔ تعظیم کا معنیٰ یہ ہے کہ جس کام کےلیے خدا نے ہاتھ دیا ہے اس پر لگائے، جس کام کے لیے خدا نے آنکھ دی ہے اس پر لگائے۔ ہم کیا کہتے ہیں اللہ تیرا شکر ہے تو نے آنکھ دی ہے لیکن دیکھتے نا محرم عورتیں ہیں، اللہ تیرا شکر ہے تو نے کان دیے ہیں لیکن سنتے اس سے گانے ہیں ،اللہ تیرا شکر ہے تو نے زبان دی ہے لیکن کرتے اس سے غیبت ہیں، اللہ تیرا شکر ہے تو نے صحت دی ہے لیکن کرتے اس سے گناہ ہیں۔ یہ شکر نہیں ہے یہ ناشکری ہے، یہ شکر کے ساتھ مذاق ہے۔ قرآن کریم کا فیصلہ ہے:
وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِي الشَّكُورُ
(سورۃسباء:13)
اللہ فرماتے ہیں شکر کرنے والے بندے بہت کم ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں شکر کامفہوم الگ ہے اور قرآن کریم اور ہمارے اسلاف کے ہاں شکر کا مفہوم بالکل الگ ہے۔ شکر کا معنیٰ یہ ہے کہ انسان کو اللہ پا ک نے اعضاء دیے تو اس سے گناہ نہ کرے، اللہ نے دولت دی تو اس کونیک کام پر لگائے، اللہ نے افراد کاجتھہ دیا ہے اس کو نیک کام پر لگائے، اللہ نے جتنی نعمتیں دی ہیں اگر ان کو نیک کاموں پر لگا دیں تو یہ ہے شکر اور اگر ان کو گناہوں پر لگا دیں تو یہ شکر نہیں ہے، یہ ناشکری ہے۔ اللہ رب العزت کا عجیب فیصلہ ہے:
لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ۔
(سورۃ ابراہیم:7)
اگر اللہ کی نعمتوں پر شکر کرو اللہ نعمتیں بڑھا دیتے ہیں اور اگر انسان ناشکری کرے تو اللہ ان نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔
دعا یہ کریں اللہ ہمیں شکر کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
اللہ سے عافیت مانگیں:
عموماً آدمی جب اللہ سے مانگے تو پھر کونسی دعا مانگے؟ حدیث مبارک میں ہے کہ ام المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! میں اگر لیلۃ القدر کی رات پالوں ، مجھے پتہ چل جائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے۔ تو میں کونسی دعا مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا: عائشہ! تم یہ دعا مانگا کرو:
اللَّهُمَّ إنَّكَ عَفُوٌ تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنّي۔
(جامع الترمذی: رقم الحدیث3513)
اے اللہ! آپ عفو ہیں، آپ عافیت کو پسند کرتے ہیں، میرے مولیٰ میرے ساتھ عافیت والا معاملہ فرما۔
حدیث مبارک میں ہے ایک صحابی رضی اللہ عنہ دعا مانگ رہے ہیں:
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا۔
اللہ تو مجھے صبر کی توفیق عطاء فرما۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ سے دکھ مانگتا ہے؟ اس نے کہا :حضور !نہیں۔ فرمایا: تو صبر مانگتا ہے، ”صبر“ کامعنی ٰ ہے کہ اے اللہ! پہلے مجھے تکلیف دے اور پھر میں تکلیف پر صبرکروں گا۔ تو صبر کی آڑ میں تو خدا سے تکلیف مانگ رہا ہے۔
ہم کمزور ہیں ہمیں اللہ سے مشکلات نہیں مانگنی چاہییں۔ ہمیں اللہ سے نعمتیں مانگنی چاہیے۔ اللہ پاک سے عافیت والا معاملہ مانگنا چاہیے۔ صبر اور شکر ایسی دو عبادتیں ہیں جو ہمہ وقتی اور کل وقتی ہیں، ان کا کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ اللہ مجھے اور آپ کو نعمتیں عطاء فرمائے اوران پر شکر کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر کوئی نعمت تھوڑی سی کم ہو جائے تو اس پھر اللہ صبر کی توفیق عطاء فرمائے۔
انسانی مزاج:
قرآن کریم میں اللہ پاک نے انسانی مزاج بیان فرمایا ہے:
﴿فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ﴾
(سورۃالفجر:15)
انسان کامزاج یہ ہے کہ جب اللہ اس کو نعمتیں دیتے ہیں تو یہ کہتا ہے: واہ واہ مزا آگیا۔ اللہ نے مجھے بہت سےانعام دیے ہیں، اللہ نے اولاد دی ہے ، بہت کچھ خدا نے دیا ہے۔ آگے اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ﴾
(سورۃ الفجر:16)
جب اللہ اس کو امتحان میں ڈالے، رزق میں کچھ تنگی دے دے تو یہ کہتا ہے: خدا نے مجھ کو ذلیل کر کرے رکھ دیاہے۔
اللہ ابتلاء دیتے ہیں کبھی رزق دے کے، کبھی ابتلا ء ہوتا ہے رزق لےکے۔ انسانی مزاج کیا ہے؟ اگر تھوڑی سی رزق میں وسعت آگئی تو خوشیاں مناتا ہے، تھوڑی سی رزق میں تنگی آگئی تو پھر اللہ پہ الزام لگاتا ہے حالانکہ انسان کو ہر حال میں اللہ پہ راضی رہنا چاہے۔
یہ بھی رحمت خداوندی ہے:
میں ابھی جب امارات کے سفر پہ تھا تو ایک ایسے ساتھی سے ملاقات ہوئی جو کچھ بدل گیا تھا ، غیر مقلدیت کی طرف چلا گیا تھا۔ ہمارے احباب جو جماعت سے وابستہ تھے ابو ظہبی میں تو انہوں نے کیا کہ اس سے تھوڑی سی بات کرنی ہے۔ خیر ہم چلے گئے اس نے کچھ شبہات پیش کئے۔ ا ن میں ایک سوال ایسا کیا جس سے میں سمجھتاہوں کہ وہ غیر مقلدیت سے بھی تھوڑا سا آگے بڑھ گیا تھا، پہلی سیڑھی سے اب وہ دوسری سیڑھی پر چڑھنے والا تھا۔ اس نے کہا: ”مولانا صاحب! یہ بتائیں ہم ایک چیز اللہ سے مانگتے ہیں، مانگتے بھی خلوصِ دل سے ہیں، اللہ اس کو دینے پر قادر بھی ہے پھر بھی اللہ نہیں دیتے ، تو یہ زیادتی ہے کہ نہیں؟ ہم اللہ سے چیز مانگتے ہیں اور خلوص سے مانگتے ہیں اور رو رو کے مانگتے ہیں، اللہ دینے پر قادر بھی ہے، اللہ دے تو کوئی نقصان بھی نہیں ہے، ہماری ضرورت بھی ہے تو پھر بھی ہمیں اللہ نہیں دے رہے ہیں تو دیکھو یہ تو زیادتی ہے نا۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ہم مانگنا چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وہ چیز دے دیتے ہیں، جب ضرورت تھی تو نہیں دیا اور جب ضرورت نہیں ہے تو اب دے دیا۔ یہ عجیب بات ہے۔“ میں نے کہا: آپ کو زیادتی اس لیے نظر آرہی ہے آپ نے اللہ کو انسانوں کی طرح سمجھا ہے۔ میں نے کہا: یہ بتائیں کہ اگر آپ کا بیٹاہو اور اس کے جسم پہ پھوڑے نکلے ہوں خون کے فساد اور خرابی کی وجہ سے اور وہ آپ سے کہے کہ ”ابو! مجھے دو رس گلے دو، میں نے کھانے ہیں۔“ بتائیں آپ کھلائیں گے؟ کہتا ہے: نہیں۔ میں نے کہا: آپ کھلا نہیں سکتے؟ کہتا ہے: کھلا سکتے ہیں۔ میں نے کہا: بچے کو ضرورت بھی ہے، مانگ بھی رہاہے تو کھلا دو نا۔ اس نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: کیوں نہیں کھلاتے؟ کہتا ہے: اس لیے کہ اس بچے کو نہیں پتا بلکہ مجھے پتا ہے کہ اس کو جب میں رس گلے اور مٹھائیاں کھلاؤں گا تو اس کا خون مزید خراب ہوگا اور پھوڑے مزید بگڑیں گے، اس کو نہیں پتا مجھے پتا ہے۔ میں نے کہا: جس طرح اسے نہیں پتا آپ کو پتا ہے اس طرح آپ کو نہیں پتا اللہ کو پتا ہوتا ہے کہ اس بندے کے اندر کون سا پھوڑا ہے اور اس کی منہ مانگی نعمت دی تو اس کا بڑا نقصان ہوگا۔ میں نے کہا: اللہ کو پتا ہے آپ کو نہیں پتا، اللہ کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کون سی بیماری ہے اور میں نے یہ چیز دی تو اس کا نقصان کیا ہونا ہے۔ میں نے کہا: جب اسی بچے کے پھوڑے ٹھیک ہوجاتے ہیں توڈاکٹر اس کا خون چیک کرکے کہتا ہے کہ ”اب یہ ٹھیک ہے“، تو وہ نہ مانگے پھر بھی آپ کہتے ہو: بیٹا! آپ کےلیے مٹھائی لایا ہوں۔ وہ کہتا ہے: ابو! پرسوں مانگی تھی تو آپ نے نہیں دی تھی، آج خود لے کر آئے ہیں، آپ کیسے باپ ہیں؟! تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ اس نے کہا کہ میں یہی کہوں گا کہ بیٹا! پہلے تو بیمار تھا اب تو ٹھیک ہے اس لیے کھلاتا ہوں۔
میں نے کہا: ”بالکل اسی طرح جب آپ اللہ سے مانگتے ہیں اور اللہ رب العزت اپنی حکمت اور علم کی وجہ سے اس وقت عطا نہیں فرماتے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ چیز اس بندے کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، بندے کے اندر جو بیماری ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اس کے بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے اللہ وہ چیز عطا نہیں فرماتے ہیں اور جب وہ بیماری ختم ہو جاتی ہے تو اللہ وہ چیز عطا فرماتے ہیں۔“
میں نے کہا: ”جب آپ سمجھتے ہیں کہ اس چیز کی ضرورت نہیں لیکن اللہ دے دیتے ہیں تو اس وقت اللہ بھی یہی معاملہ فرماتے ہیں کہ جب یہ چیز تیرے نقصان میں تھی میں نے نہیں دی، اب تیرا فائدہ ہے اس لیے میں دے رہا ہوں۔ تو جتنا اعتماد بیٹا اپنے باپ پر کرتا ہے اتنا ہی خدا پہ اعتماد کیا ہوتا تو کبھی الجھن نہ ہوتی۔“ اس طرح کے دوچار اس نے اور سوال بھی کیے۔ اللہ گواہ ہے ان جوابات سے اس کی تشفی ہوئی۔ الحمد للہ۔
اس نے کہا جی! میں ایک عرصے سے بہت سارے سوال کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نےکہا: بھئی! مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان سے سوال نہیں کرتے جنہوں نے جواب دینے ہوتے ہیں، آپ ان سے سوال کرتے ہیں جنہوں نے جواب نہیں دینے ہوتے۔ ان کاکام اور ہوتا ہے اور ہمارا کام اور ہوتا ہے۔
رضا بالقضاء کے فوائد:
میں سمجھا یہ رہا تھا کہ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی ہونا چاہیے۔ نابالغ چھوٹا سا بچہ ہے، فوت ہوگیا، ماں بھی رو رہی ہے، باپ بھی رو رہا ہے، کوئی صبر کر رہا ہے اور کوئی بے صبرا ہے اور بعض اس پر روتے ہیں کہ بیس سال بعد خدا نےبیٹادیاہے اور دو دن بعد خدا نے واپس لےلیا ہے۔ اب بظاہر بندہ سمجھتا ہے کہ اللہ نےمیرے ساتھ معاملہ اچھا نہیں کیا لیکن اگر اس کی حقیقت پہ غور کر لیا ہوتا تو اللہ کی قسم ہم تصور نہیں کر سکتےکہ اللہ نے بیٹا دیا اور نابالغ واپس لے کر خدا نے کتنا کرم کیا ہے، ہمیں اندازہ نہیں ہے۔ جو ہمیں سمجھ آتا ہے ہم وہ تو بتا سکتے ہیں اور جو سمجھ نہیں آتا وہ ہم کیسے سمجھائیں؟! جتنا ہمارے علم میں ہے اور اکابر نے لکھاہے وہ تو ہم بتا سکتے ہیں اس سے بڑھ کر کیسے بات کریں!! میں اس پر صرف ایک دو باتیں عرض کرتا ہوں کہ دیکھیں اس میں فوائد کتنے ہیں کہ بندہ سوچ ہی نہیں سکتا۔ فائدہ کتنا ہے میں زیادہ تو نہیں البتہ ان میں سے صرف ایک دو عرض کروں گا۔
پہلا فائدہ؛ جنت کا سفارشی:
ہر بندے کی خواہش ہوتی ہے کہ میں جب دنیا سے جاؤں تو مجھے اللہ جنت عطاء فرمائیں، ہر کسی کی خواہش ہوتی ہےاور ہر کوئی سمجھتاہے کہ میرے اعمال اس قابل نہیں ہیں کہ میں جنت میں جاؤں، ہم جنت کی امید بھی رکھتے ہیں اور ایسے اعمال بھی نہیں ہیں کہ ہمیں توقع ہو کہ ہم جنت میں جائیں گے، بس اللہ کے کرم کی امید ہوتی ہے اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں ہوتا اور یہ بچہ جو خدا نے بیس سال کے بعد دیا ہے اور دو دن بعد واپس لے لیا ہےتو اس کی سفارش کی گارنٹی خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر نابالغ اولاد؛ بیٹا یا بیٹی فوت ہوا تو اپنے والدین کی سفارش کرے گا، اللہ ان کی سفارش قبول فرمائیں گے کہ ماں اور باپ دونوں کو جنت میں لے کر جائے گا۔
(جامع الترمذی: رقم 1062)
دیکھیں یہ کتنی بڑی سفارش ہے آپ کی جو اللہ نے اپنے پاس محفوظ کر دی ہے۔ یہ سفارش ہے کہ نہیں؟ [سفارش ہے۔ سامعین]
ہمارے ہاں بہت سے لوگ ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے انشورنس کرائی ہے، گاڑی کی کرائی ہے ، اپنے جسم کی کرائی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں حلال حرام کی بحث نہیں کر رہا۔ میں اس پر بات کر رہا ہوں کہ جب ان سے پوچھیں کہ انشورنس کیوں کرائی ہے؟ تو کہتے ہیں: اس لیے کہ مشکل وقت میں کام آئے گی۔ کسی نے پیسہ خوب کمایا ہے اور کما کر بینک کو دے دیا ہے۔ پوچھیں: بھائی!پیسہ کمایا ہے تو بینک کو کیوں دیا ہے، تیرے خون پسینے کی کمائی ہے تو نہ دے نا، تو وہ کہتا ہے: مولانا صاحب! اس لیے دیا ہے کہ جب خدانخواستہ حادثہ پیش آجائے نا تو بینک والے اتنا اتنا دیں گے۔اس لیے خوشی سے دے دیاہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے چھوٹا سابیٹا لیا ہے اور مستقل تیرے لیے جنت کا فیصلہ کر دیا ہے۔ [سبحان اللہ۔ سامعین]
دوسرا فائدہ؛ہمیشہ کا ساتھ:
اچھا اگلی بات……… جب بیٹا چھوٹا ہو اور ہو بھی والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو اس سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ بیٹا ہمیشہ ہمارے سامنے رہے، بعض والدین تو یہ باتیں کہتے ہیں کہ بیٹا اسی وقت بیٹا ہوتا ہے جب چھوٹا ہو، جب بڑا ہوجائے پھر بیٹا ہے ہی نہیں، اس لیے کہ اگر لڑکا ہے تو اپنا مکان بنائے گا، اپنے کام میں لگے گا اور اگر بیٹی ہے تو اس کی شادی ہو جائے گی اور وہ اپنے خاوند کے پاس رہے گی۔ پھر تو بیٹی کسی کی ہے اور بیٹا ہے تو کسی کا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ماں اور باپ کے دس بچے ہیں، تو بیٹے تو اپنے کام میں لگ گئے، بیٹی اپنے خاوند کے گھر چلی گئی۔ اب ماں بھی اکیلی ہے باپ بھی اکیلا ہے، دونوں باباجی اور بوڑھی ماں اکیلے بیٹھے ہیں، نہ پاس بیٹی ہے نہ پاس بیٹا ہے ، دس تھے اور اب دس میں کوئی بھی نہیں ہے۔ اب کتنی حسرت ہے کہ ہمارے پاس تو کوئی بیٹا ہوتا۔ اگر بڑا بیٹا ہے اور مسلمان ہے اور جنت میں چلا گیا تو اس کی جنت الگ ہے اور باپ کی جنت الگ ہے اور جو نابالغ بچہ ہے یہ جنت میں لے کر جائےگا اور ہمیشہ باپ کے ساتھ رہے گا۔ اب ایمان سے بتاؤ یہ چھوٹا سابیٹا خدا نے لے کر کرم کیا ہے یاظلم کیا ہے؟ [کرم کیا ہے۔سامعین]اب اگر یہ چیزیں بندے کے ذہن میں ہوں تو بندے کا حوصلہ کتنا بڑھ جاتا ہے۔
احساس:
اچھا ایک بات میں اور کہتا ہوں۔ ہمارے معاشرے کے حوالے سے کتنی عجیب چیز ہے، ہمارے ہاں سرگودھا کےمولانا ثناء اللہ صاحب ہیں ،یہ جامعہ نعمانیہ بھاگٹوالا کے استاذ ہیں، وہاں پڑھاتے ہیں، سرگودھا کے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا فوت ہوگیا غالباً دس یا بیس دن کا تھا تو میں ا ن کے پاس تعزیت کے لیے گیا۔ مجھے وہ کہنے لگے: مولانا! چھوٹابیٹا فوت ہوا مجھے اس پہ ایک بات سمجھ میں آئی۔ میں نے کہا: وہ کیا؟ کہنے لگے: پہلے کسی کا چھوٹا بچہ فوت ہوتا تھا اور وہ روتا توہم کہتے کہ چھوٹا سا بچہ تھا، اللہ نے لے لیا،چھوٹاسا تھا اللہ نے لےلیا تو رونا کیسا؟! جب میرا دس دن کا گیا ہے تو مجھے اب پتہ چلا کہ جب چھوٹا جائے تو کتنا دکھ ہوتا ہے۔ جب تک چھوٹا نہیں گیا تھا تو مجھے اس دکھ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
اب میں ایک جملہ کہتا ہوں ذرا آپ سمجھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت سے کتنا پیار ہے اس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین نابالغ بیٹے تھے، خدا نے تینوں لےلئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نہیں، دو نہیں، تین بیٹے گئے ہیں۔ اب بتاؤ! جب کسی کا نابالغ جاتا ہوگا تو اس کو کتنا دکھ ہوتا ہے اس کا احساس جتنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ہمیں تو نہیں ہو سکتانا۔ اللہ پاک تکویناً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے معاملات میں گزارتے ہیں کہ پیغمبر کا کلیجہ پہلے امت کی شفقت سے بھرا ہوتا ہے مزید بھر کے ابلنا شروع ہوجا تاہے۔
شکر اور صبر یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ مسلمان کےتو ہر حال میں مزے ہی مزے ہیں، اگر اچھی نعمت ملتی ہے تو اس پر شکر کرتا ہے اور مزاج کے خلاف ہوجائے تو اس پر صبر کرتا ہے۔
(صحیح مسلم: رقم الحدیث2999)
تقدیرِ خیر و تقدیرِ شر کا مطلب:
اس سے ایک چھوٹا سا مسئلہ اور سمجھ لیں۔ ہمارے ہاں ایمانیات میں سے چھٹی چیز ہے”ایمان بالقدر“ یعنی تقدیر۔ اور تقدیر کے بارے میں ہم دو لفظ بولتے ہیں۔ [1]: تقدیر بالخیر [2]: تقدیر بالشر
ایک اچھی تقدیر ہے اور ایک بری تقدیر ہے۔ اچھی تقدیر اور بری تقدیر کا مطلب کیا ہے؟ ذرا اس کو سمجھنا۔ ایک شخص نے کسی کو قتل کیا اس کے خلاف ایف آئی آر کٹی، یہ گرفتار ہوا، عدالت میں چلا گیا، جج نے سزائے موت دے دی۔
بتاؤ! جج نے غلط کیا یا ٹھیک کیا؟ [ٹھیک کیا۔سامعین]
قاتل کو سزا ملنی چاہیے نا؟ [ملنی چاہیے۔سامعین]
یہ فیصلہ عدل کا ہے نا، ظلم کا تو نہیں ہے؟ [نہیں ہے۔سامعین]
لیکن جس باپ کے بیٹے کو جج نے سزائے موت دی ہے آپ اس باپ کو جاکر مبارک باد دے سکتے ہیں کہ ”آپ کو مبارک ہو جو سزا بنتی تھی عدالت نے وہ دی ہے، آپ کو مبارک ہو۔“ فیصلہ بے شک ٹھیک ہے لیکن مبارک نہیں دیتے بلکہ افسوس کرتے ہیں۔ بھائی! جب فیصلہ ٹھیک ہے تو پھر افسوس کا مطلب کیا ہے؟ اس سے سمجھیں کہ تقدیر خیر کیا ہوتی ہے اور تقدیر شر کیا ہوتی ہے؟ یہ جو جج کا فیصلہ ہے اگرچہ قانونِ عدل کے عین مطابق ہے، یہ قاتل اسی کا مستحق تھا لیکن یہ فیصلہ وہ ہے جو مزاجِ انسانی کے خلاف ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ جج کا یہ فیصلہ تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے طبیعت کے موافق نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح نا بالغ بچہ فوت ہوا اللہ کا فیصلہ بالکل بجا ہے لیکن ہماری طبیعت اس پر پریشان ہے۔ تو اللہ رب العزت کے وہ فیصلے جو ہمارے مزاج کے بالکل موافق ہوتے ہیں یہ بھی برحق ہیں اور وہ فیصلے جو انسانی مزاج کےمخالف ہوتے ہیں یہ بھی برحق ہیں، جو انسان کی طبیعت کےموافق ہو اس کو ”تقدیر ِخیر“ کہتے ہیں اور مزاج کےمخالف ہو اس کو ”تقدیرِ شر“ کہتے ہیں۔”تقدیر خیر“ ہو اس پر شکر ہے اور ”تقدیر شر“ ہو اس پر صبر ہے۔ اللہ کا ہر فیصلہ ایسا ہے کہ اس میں خیر ہی خیر ہے۔
ایک عجیب نکتہ:
سورۃ رحمٰن میں بعض ایسی آیات بھی ہیں کہ جن آیات میں اللہ رب العزت جہنم کی بات فرما رہے ہیں اور ساتھ فرماتے ہیں:
﴿فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾
پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
﴿فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ؁فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾
کہ جب آسمان پھٹ جائے گا اور لال چمڑے کی طرح سرخ گلاب بن جائے گا۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
﴿يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ؁ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾
مجرمین کو ان کی علامتوں سے پہچانا جائےگا اور ان کو پیشانی اور پاؤں سے پکڑ ا جائےگا۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
جن لوگوں نے قرآن پر اعتراض کیا ہے ان لوگوں نے اس آیت پر بھی اعتراض کیا ہے کہ یہ کون سی نعمت ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ ”تم جہنمی ہو، تمہیں جہنم میں پھینک دیا جائےگا“ اور ساتھ کہا جا رہا ہے:
﴿فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾
کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
کہتے ہیں کہ یہ بھی خدا کاکلام ہے؟ سنایا جا رہا ہے ”ڈر“ اور کہتے ہیں ”فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ“۔ ہمارے استاذ محترم امام اہل السنت شیخ التفسیرو الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ سے اس سوال کا جواب میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ میں اکثر احباب سے کہتا ہوں کہ چھوٹے بچوں کو علماء کی مجلس میں بٹھایا کرو، بات سمجھ میں نہ آئے تو بھی بٹھایا کرو، ابھی تو انہیں سمجھ میں نہیں آرہی لیکن جب بڑے ہوں گے تو پھر باتیں سمجھ آئیں گی کہ ہم فلاں شیخ کی مجلس میں تھے فلاں بات انہوں نے فرمائی تھی، پھر بندے کو مزہ آتا ہے۔ بچپن کا زماہ سمجھنے کا نہیں ہوتا، پچپن کا زمانہ یاد کرنے کا ہوتا ہے او ر بڑے ہو کر سمجھنے کا زمانہ ہوتا ہے۔
بڑے ہو کر سمجھ لیں:
شاید میں نے آپ کو ایک واقعہ سنایا تھا کہ میں گجرات کے علاقے میں تھا تو وہاں حفظ کا مدرسہ ہے، میں اس مدرسہ میں گیا تو مہتمم صاحب نے فرمایا کہ ان بچوں کو نصیحت فرماد یں، میں نے ان بچوں میں یہ مسئلہ سمجھانا شروع کیا کہ اللہ کہاں پر ہے؟ اس طرح میں نے آدھا گھنٹہ لگایا، سوال جواب سمجھائے۔ جب بیان سے فارغ ہوئے تو دعا ہوئی، بچے چلے گئے تو مجھے مہتمم صاحب فرمانے لگے: مولانا! ان بچوں کو آپ کا بیان سمجھ میں نہیں آیا، ایسا بیان ان چھوٹے بچوں میں کرنے کا کیا فائدہ ہے جو ان کو سمجھ ہی نہ آئے۔ میں نے کہا: ان کو واپس بلائیں، بچے واپس آئے۔ مہتمم صاحب خوش ہوئے کہ مولانا صاحب پر میری نصیحت نے اثر کیاہے۔ جب بچے واپس آئے تو میں نے ایک بچے کو کھڑا کیا، میں نے پوچھا آپ نے کتنے پارے حفظ کئے ہیں؟ اس نے آٹھ یادس کہا ،مجھے اب یاد نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ مثلاً آخری دس میں سے سورۃ یٰسین پڑھو، اس نے سورۃ یٰسین کا پہلا رکوع پڑھا، میں نے کہا اس کا ترجمہ کرو۔ کہنے لگا: مجھے تو نہیں آتا۔ میں کہا: اس کی تفسیرکرو۔ کہنے لگا: مجھے تو نہیں آتی۔ میں نے کہا: قاری صاحب جب اس بچے کو قرآن سمجھ نہیں آرہا تو آپ کیوں پڑھا تے ہیں؟ قاری صاحب نے کہا: اب پڑھ لیں، یاد کرلیں، بڑے ہوکر سمجھ لیں گے۔ میں نے کہا: میرا بیان یاد کر لیں، بڑے ہو کر سمجھ جائیں گے۔ تو بچپن میں باتیں یاد کروا دو، آدمی بڑا ہوتا ہے تو پھر باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔
تذکرہ امام اہل السنت:
حفظ کے دور میں ہم امام اہلسنت کے درس میں صبح بیٹھتے تھے۔ اب وہ باتیں یاد آتی ہیں تو ظاہر ہے ایک عجیب لطف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے اپنے کانوں سے گکھڑ منڈی میں اس سوال کا جواب سنا اور شیخ بہت بڑے تھے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ”امام اہل السنت“ اسی لیے تھے کہ انہوں نے ہر موضوع پر کتاب لکھی ہے،اس لیے تھے کہ انہوں نے کئی سال بخاری شریف پڑھائی ہے یا اس لیے تھے کہ قرآن مجید کی تفسیر اتنے سال پڑھائی ہے، یہ ایک پہلو ہے، سارے پہلو ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ میں حضرت کےپاس ڈیڑھ سال تک ٹھہرا ہوں، گھر میں میرا آنا جانا تھا۔ اللہ گواہ ہے میں بتا نہیں سکتا کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کتنےبڑے انسان تھے۔ میں واقعات سارے بتاؤں گا تو بات لمبی ہو جائے گی، میں ایک دو واقعات پیش کرتا ہوں جو میں نے خود سنے ہیں یا دیکھے ہیں۔
تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی:
فجر کی نماز کےلیے حضرت شیخ تشریف لائے، وضوء مسجد میں کیا اور سنتیں پڑھیں اور نماز پڑھا دی۔ نماز کے بعد درسِ قرآن دیا تو حضرت شیخ فرمانے لگے کہ آج خلاف معمول میں نے مسجد میں وضوء کیا، سنتیں پڑھیں اور نماز پڑھادی اور درس دیا ہے اس لیے کہ آپ کو تعجب ہوگا حالانکہ میں وضو گھر سے کرکے آتا ہوں۔ فرمانے لگے وجہ یہ ہے میں سفر پرتھا اور آج سفر سے پہنچا آیا ہوں تو سیدھا مسجد میں آیا، وضو کیا اور میں نے نماز پڑھا دی اور درس دے رہا ہوں، آج سفر کیوجہ سے میری تہجد بھی رہ گئی ہے، فلاں وظیفہ بھی رہ گیا ہے…… ورنہ میں معمولات کا اتنا پکا آدمی ہوں کہ میں دارالعلوم دیوبند میں پڑھتا تھا، ایک دن رات کو دیر تک مطالعہ کرنے کی وجہ سے صبح آنکھ نہ کھلی، جب اٹھا تو فجر کی جماعت کھڑی ہوگئی، میں نے سنت پڑھی اور فرضوں میں شامل ہوا اور ایک رکعت مجھ سے رہ گئی تو مجھے سلام پھیرنے کےبعد شیخ العرب و العجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے بلا کر مجھے فرمایا: بیٹا سرفراز! آج تیری ایک رکعت کیوں رہ گئی ہے؟ بس اتنا فرمایا اور اس فرمانے کا اثر یہ ہے کہ 36 سال گزر گئے ہیں میں نے استاذ کی ڈانٹ کے بعد تکبیر اولیٰ بھی نہیں جانے دی۔ اب یہ حالات تو ہرکسی کو نہیں پتا نا، ہم سمجھتے ہیں کہ کتابیں بہت لکھی ہیں اسی لیے ”اما م اہل السنت“ہیں۔
عظیم میزبان:
میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے مشائخ کو دیکھا ہے، اساتذہ کو بھی دیکھا ہے لیکن حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے بڑھ کر میں نے اپنی زندگی میں اتنا اچھا میزبان نہیں دیکھا۔ آپ حیران ہوں گےکہ اس کا مطلب کیا ہے؟! میں نے حضرت شیخ کی وہ عمر دیکھی ہے جب حضرت بیمار تھے اور بعض دفعہ گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہوتا تھا، مثلاً اتفاقاً بیٹا باہر چلا گیا یا اس قسم کا کوئی مسئلہ ہوتا۔ خیر یہ واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا، میں خود حضرت کی خدمت میں گیا، دروازے پر دستک دی اندر سے حضرت کی بہو نے پوچھا: جی کون؟ میں نے بتایا: محمد الیاس سرگودھا سے۔ تو انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اب حضرت کا جو گھر ہے اس کا ایک مین گیٹ ہے۔ آگے گیلری ہے ، اس میں دائیں طرف بیٹھک کا دروازہ ہے اور آگے گھر ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ سیدھا اندر آئیں۔ جو چھوٹی سی گیلری ہے اس میں دائیں طرف دروازہ ہے اس میں چلے جائیں۔ اب گھر والے پیچھے چلے گئے۔ ہم بیٹھک میں داخل ہوئے تو حضرت شیخ صاحب بیٹھے ہیں۔ ہم بیٹھ گئے۔حضرت شیخ کے پانچ سوال پکے ہوتے تھے؛ کیا نام ہے؟ کہاں سے آئے ہو؟ شادی کی ہے؟ کتنے بچے ہیں؟ کیا کرتے ہو؟ یہ پانچ سوال پکے ہوتے تھے۔خیر جب سوال کر لیے،ہم نے عیادت کی، تھوڑی دیر بیٹھے۔ اس وقت وہاں ایک بیل [گھنٹی] ہوتی تھی، حضرت نے گھنٹی دی، گھر والے سمجھ گئے کہ حضرت کیا چاہتے ہیں۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ یہ پردے کے نیچے دیکھو یہ جوس پڑا ہےنکال لو۔ دیکھیں! گھر والے آئے جوس رکھ دیا اور خود پیچھے چلے گئے۔ خیر ہم نے جوس اٹھایا اور پی لیا۔ فرمایا: ڈبے یہیں رکھ دو۔ ہم نے حضرت سے اجازت چاہی اور واپس آگئے۔ یعنی گھر میں ایک مرد بھی نہیں ہے، آنے والے مہمان کا پتہ بھی نہیں کہ کون ہے؟ اس کے باوجود بھی شیخ اپنی حیثیت کے مطابق اکرام ضرور فرماتے تھے اور کبھی بغیر اکرام کے واپس نہیں جانے دیتے تھے۔ اب ہم سمجھتے ہیں ”امام اہل السنت“ اس لیے ہیں کہ کتابیں بہت لکھی ہیں۔
قدر کیجیے:
تو میں گزارش کر رہا تھا کہ حضرت شیخ نے اس کا جواب دیا، فرمانے لگے: نعمت یہ نہیں ہے کہ جہنم میں ڈال دیا جائےگا، نعمت یہ نہیں ہے کہ علامات سے پہنچانا جائےگا کہ یہ جہنمی ہے بلکہ نعمت یہ ہے کہ اللہ پاک نے بتادیا ہے کہ اگر یہ عمل کیا تو جنت ملے گی اور یہ عمل نہ کیا تو جہنم۔ ” فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ “ تو اللہ کی نعمت کی قدر کرو کہ خدا نے تمہیں بتادیا ہے۔
میرے مرشد کا ذوق:
حضرت حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کو اپنے لفظوں میں یوں فرماتے تھے، ہر ایک کااپنا ذوق ہوتا ہے، حضرت فرماتے کہ دنیا میں کوئی بھی ممتحن کبھی پرچہ آؤٹ نہیں کرتا۔ پرچہ آؤٹ کرے تو یہ بہت بڑا جرم تصور ہوتا ہے، اللہ اتنے کریم ہیں کہ پرچہ پہلے ہی آؤٹ کر دیا کہ قبر میں یہ کچھ پوچھیں گے یہ تم نے جواب دینا ہے۔ کوئی ممتحن پہلے سوال اور جواب بھی بتاتا ہے؟ [نہیں۔ سامعین] اللہ پاک نے سوال بھی بتا دئیے اور جواب بھی بتادئیے۔ اب ”فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ“ کہ تم خدا کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
اللہ ہمیں ہرحال میں اللہ پر خوش رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ وعدہ بھی کریں ارادہ بھی کریں کہ اللہ ہمارے گزشتہ گناہوں کو معاف فرمادے ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں آئندہ نہیں کریں گے۔ اللہ سے بار بار توبہ کریں اللہ کریم ہےرحیم بھی بہت ہیں اور جب سزا دیتے پھر سخت بھی بہت ہیں۔ قرآن کریم میں ہے ان کو بتاؤ میں غفور بھی ہوں اور یہ بھی بتاؤ میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے میں گناہ معاف بھی کرتا ہوں میں توبہ قبول بھی کرتا ہوں اور میں سزا بھی بڑی سخت دیتا ہوں اللہ دونوں باتیں ساتھ ساتھ فرماتے ہیں۔ اللہ نے اتنی کھول کر بات فرمائی ہے نا یہ سن لو کب ہے دیکھو گناہ کیا توبہ کرلی اس کےبعد اب میں غفورالرحیم ہوں کیا مطلب؟ تم نے گناہ کیا توبہ کی میرے ذمہ تمہیں معاف کرنا تو نہیں ہے نا لیکن میراکرم ہے میں اب بھی تمہیں معاف کرتاہوں۔ فرمایا جو آدمی نادانی میں گناہ کر لے پھرتوبہ کرے ان کو بتاؤ کہ میں معاف کر دیتا ہوں لیکن میری توبہ کا مذاق نہ اڑاؤ۔