اسلام میں غلامی کا تصور

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اسلام میں غلامی کا تصور
مولانا عبدالرحمٰن سندھی
مذہب اسلام سے چڑ کھانے والوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس کے آفاقی اور ابدی نظام کومشکوک اور ناقابل عمل بنانے میں مصروف ہے اور اہل اسلام کے اذہان و قلوب میں شک کا بیج بو کر انہیں اسلام کے خلاف بہکانے کیلئے کئی طرح کے اعتراضات والزامات اگلتا رہتا ہے۔ ان کے انہی شبہات میں سے اسلام کا ایک ”مسئلہ غلامی “بھی ہے۔
یار لوگوں نے اس مسئلہ کو اٹھا کر اسلام کی روشن جبین کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کی۔ حالانکہ مسئلہ غلامی اسلام کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں بلکہ عرصہ قدیم سے چلا آرہا ہے جس کو اسلام نے ختم نہیں کیا بلکہ باقی رکھا ہے۔ آنے والی چند سطور میں مسئلہ غلامی سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلام کا ایک قاعدہ ہے کہ جن امور میں وہ بلا واسطہ اصلاح کو مشکل پاتاہے ان کو قائم تو ضرور رکھتاہے مگر علی حالہ قائم نہیں رہنے دیتا بلکہ بالواسطہ اصلاح کے ایسے طریقے اختیار کرتاہے جن سے اس کی تمام مضرتیں اور خرابیاں دورہوجاتی ہیں غلامی کےمسئلے میں بھی اسلام نے یہی کیا۔ غلامی کو مٹانا چند وجوہ کی بناپربہت مشکل تھا لہٰذا اس نے صورت کو توباقی رکھا مگر بالواسطہ طریقوں سے اس کو اس طرح بدل دیا کہ وہ ایک شدید اجتماعی مضرت کے بجائے ایک شاندار انسان منفعت بن گئی۔
اسلام سے پہلے تو غلامی کا تصور اس حد تک تھا کہ کسی آزاد کو پکڑ کر غلام بنا دیتے تھے۔ انہیں بیچ دیتے تھے ان کے حقوق کی کوئی پاسداری نہ تھی لیکن جب اسلام کی روشنی دنیا میں آئی تو اس نے آزاد انسان کے بیچنے کو حرام کردیا اور اس کے لیے اسلام میں سخت وعیدیں آئی ہیں: جیسے صحیح بخاری کتاب البیوع میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حدیث قدسی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں کے خلاف میں مدعی بنوں گا اور جس کے خلاف میں مدعی ہوا اس پر میں ہی غالب آؤں گا۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کسی آزاد انسان کو بیچے۔ اسی طرح اسلام نے غلاموں کے حقوق کی اتنی پاسداری کی کہ ان کے کھانے پینے ، رہائش ، لباس تک کا خیال رکھا کہ جو خود کھائیں وہی ان کو کھلائیں جو خود پہنیں وہی ان کو پہنائیں حتیٰ کہ عزت نفس کے بارے میں فرمایا جیسے صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد میں روایت موجود ہے۔ جس نے اپنے غلام کو مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اس غلام کو آزاد کردے۔ اور اگر وہ غلام یا لونڈی غلطی کریں توشریعت کا مزاج یہ ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی غلام دن میں ستر بار بھی غلطی کرے تو انہیں ستر دفعہ معاف کرو۔
کیا کوئی دنیا میں ایسی مثالیں پیش کر سکتا ہے ؟یقیناً کوئی نہیں پیش کرسکتا۔ حقائق پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے تصور غلامی پر اعتراض یا تو بغض اور دشمنی کی وجہ سے ہے یا جواز غلامی کی علت کو نہ جاننے کی وجہ سے ہے۔ اسلام کا غلامی کو باقی رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ابتداء ِاسلام سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی تک قیدیوں کے تبادلے کاکوئی خاص رواج یا دستور نہ تھا۔ بہت کم ہی ایسا ہوتا کہ دو دشمن قومیں یا ملک ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی یا ان کا تبادلہ کرتے۔ لہٰذا جب مسلمانوں کے آدمی دوسری قوموں کے پاس قیدی ہوتے ،تو غلام بنا کر رکھ لیے جاتے تھے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کےلیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ دشمن قوموں کے جو لوگ گرفتار ہو کر آئیں ، انہیں غلام بنا کر رکھ لیں تا ہم جہاں کہیں تبادلہ کا موقعہ آیا ،مسلمانوں نے اسے خوشی خوشی قبول کیا ہے۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری ج 6 ص 176میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ”کہ اگر مسلمانوں کے پاس مشرکین کے قیدی ہوں اور مشرکین کے پاس مسلمانوں کے،اور اپنےاپنے قیدیوں کو چھڑانے پر اتفاق ہو جائے تو اس کا بندوبست کر لیا جائے گا۔“
اسی طرح صحیح مسلم ،ترمذی وغیرہ میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت موجود ہے۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین بنی عقیل کے ایک آدمی کو مسلمانوں کے دوآدمیوں کے بدلہ میں رہا کیا۔ “
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے اسیران جہاد کو غلام بنانے کی صرف اجازت دی ہے اس کاحکم نہیں دیا کہ یہ فرض یا واجب یا مستحب ہو جیسا کہ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں ”قیدیوں کوغلام بناکر رکھنے کی اجازت بھی اس وقت تک ہے جب تک اس کے خلاف دشمنوں سے کوئی معاہدہ نہ ہو اوراگر دشمنوں سے یہ معاہدہ ہوجائے کہ نہ وہ ہمارے قیدیوں کوغلام بنائیں گے نہ ہم ان کے قیدیوں کوتوپھر اس معاہدہ کی پابندی لازمی ہوگی۔ ہمارے زمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں نے ایسا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ لہٰذا جواسلامی ملک اس معاہدے میں شریک ہیں ان کے لیے غلام بنانا اس وقت تک جائز نہیں۔ جب تک یہ معاہدہ قائم ہے۔“
(معارف القرآن: ج 8 ص 27)
اب اگر کوئی پھر بھی کہے کہ اسلام نے غلامی کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کیوں نہیں کیا تو اسے یہ بات سمجھائی جائے گی کہ جب قیدیوں کے تبادلے کا رواج نہ ہو تو غلام بنانے سے بہتر دوسراکوئی راستہ نہیں کیونکہ اگر غلام نہ بنایاجائے توپھر عقلاً صرف تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔
1: یاتو انہیں آزاد چھوڑدیاجائے۔
2: یا قتل کردیاجائے۔
3: یا ہمیشہ کے لیے قیدی بناکر رکھاجائے۔
اور بسااوقات یہ تینوں صورتیں مصلحت کےخلاف ہوتی ہیں۔ آزاد چھوڑ دینے میں بعض مرتبہ یہ خطرہ ہوتاہے کہ دارالحرب میں پہنچ کر وہ مسلمانوں کے لیے دوبارہ عظیم خطرہ بن جائیں گے۔
قتل کرنا اس لیے مناسب نہیں ہوتا کہ بعض قیدی اچھی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں،ان پر محنت کی جاتی ہے تو وہ عظیم نفع بخش بن جاتے ہیں کئی مفسر ، محدث ، فقیہ اور بادشاہ بنتے ہیں۔
تاریخ میں سلطان محمود رحمۃ اللہ علیہ کے دورکے ایک غلام کا واقعہ لکھا ہے۔ ایک بار سلطان محمود نے ہندوستان پر حملہ کیا اور بہت سے ہندو قیدی بنا لیے گئے، جن کو سلطان اپنے ساتھ ”غزنی“ لے آئے۔ ان میں ایک غلام بہت ہوشیار تھا،اس کو آزاد کر کے سلطان نے ہر قسم کے علوم وفنون کی تعلیم دی جب وہ تعلیم سے فارغ ہوا تو اس کو حکومت کے عہدے دیئے گئے حتیٰ کہ رفتہ رفتہ اس کو ایک بڑے ملک کا والی بنایا گیا، جس وقت سلطان نے اس کو تخت پر بٹھلایا اور تاج سر پر رکھا تو وہ غلام رونے لگا ، سلطان نے فرمایا یہ وقت خوشی کا ہے یا غم کا ؟اس نے عرض کیا بادشاہ سلامت اس وقت مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے اور آج اپنی اس قدر ومنزلت کو دیکھ کر رونا آ رہا ہے۔ حضور! میرا بچپن تھا یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان میں آپ کے حملوں کے تذکروں سے ہندو کانپتے تھے اور ان کی عورتیں اپنے بچوں کو آپ کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں جیسا ہوّا سے ڈرایا کرتی ہیں ،میری ماں بھی مجھے اسی طرح آپ کے نام سے ڈرایا کرتی تھیں میں سمجھتا تھا کہ نہ معلوم محمود کیسا ظالم وجابر ہوگا۔ ؟حتیٰ کہ آپ نے خود ہمارے ملک پر حملہ کیا اور اس فوج سے آپ کا مقابلہ ہوا جس میں یہ غلام موجود تھا۔ اس وقت تک میں آپ کے نام سے بھی ڈرتا تھا پھر میں آپ کے ہاتھوں قیدی ہوا تو میری جان ہی نکل گئی کہ بس اب خیر نہیں مگر حضور نے دشمنوں کی روایات کے خلاف میرے ساتھ نیک برتاؤ فرمایا کہ آج میرے سر پر تاج سلطنت رکھا جا رہا ہے۔ تو اس وقت میں خیال کر کے رونے لگا کہ کاش آج میری ماں زندہ ہوتی تو میں اس سے کہتا کہ ”دیکھ یہ وہی محمود ہے جس کو ہوّا بتلایا کرتی تھی۔“
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اس کو قتل کر دیا جاتا تو مخالفین جتنا شور وغل مسئلہ غلامی پر کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اس وقت کرتے کہ دیکھیے کیا سخت حکم ہے کہ قیدیوں کو فوراًقتل کر دیا گیا۔
تیسری صورت کہ انہیں ہمیشہ کے لیے قیدی بناکر آج کل کی طرح کسی الگ تھلگ جزیرے میں ڈال دیا جائے،جیل خانوں میں بند کردیا جائے اور وہاں رکھ کر ان کو روٹی کپڑا دیا جائے یہ صورت گویاکہ آج کل کے بعض متمدن سلطنتوں میں پسندیدہ ہے مگر اس میں چند خرابیاں بھی ہیں۔
ایک یہ کہ اس سے سلطنت پر بڑا بار عظیم پڑتا ہے ،پھر جیل خانے کی حفاظت کےلیے ایک خاص فوج مقرر کرنا پڑتی ہے۔ قیدیوں کی ضروریات کےلیےبہت سے آدمی ملازم رکھے جاتے ہیں ، یہ سارا عملہ بیکار ہو جاتا ہے۔ سلطنت کے کسی اور کام میں نہیں آسکتا قیدیوں ہی کی حفاظت کا ہو کر رہتا ہے۔
پھر تجربہ شاہد ہے کہ جیل خانہ میں رکھ کر آپ چاہے قیدیوں کو کتنی ہی راحت پہنچائیں ان کی ان کو کچھ قدر نہیں ہوتی کیونکہ آزادی سلب ہونے کا دلی صدمہ ان کو اس قدر ہوتا ہے کہ وہ آپ کی ساری خاطر مدارات کو بیکار سمجھتے ہیں تو سلطنت کا اتنا خرچ بھی ہوا اور سب بےسود کہ اس سے دشمن کی دشمنی میں کمی نہ آئے پھر قید خانے میں ہزاروں لاکھوں قیدی ہوتے ہیں وہ سب کے سب علمی اور تمدنی ترقی سے بالکل محروم رہتے ہیں اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے۔
لہٰذا اسلام نے اس کے بجائے یہ حکم دیا کہ جتنے قیدی گرفتار ہوں سب لشکر والوں کو تقسیم کردو اس سے سلطنت بھی بوجھ سے بچ جائے گا ، چونکہ ہر شخص کو اپنے قیدی سے خدمت لینے کا حق بھی ہے وہ اس کو روٹی کپڑا جو کچھ بھی دےگا اس پر گراں نہ ہو گا ،کیونکہ وہ سمجھے گا کہ میں اس سے خدمت بھی لیتا ہوں اور مجھے کما ئی کر کے بھی دیتا ہے۔ پھر چونکہ غلام کو چلنے پھرنے سیر وتفریح کرنے کی آزادی بھی ہوتی ہے ،قید خانے میں بند نہیں ہوتا اس لیے اس کو اپنے آقا پر غصہ نہیں آتا جو جیل خانے کے قیدی کوآتا ہے۔ اس حالت میں اگر آقا نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کا احسان دل میں گھر کر لیتا ہے اور وہ اس کے گھر کو اپنا گھر اور اس کے گھر والوں کو اپنا عزیز سمجھنے لگتا ہے ،یہ سب باتیں ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس صورت میں غلام علمی اور تمدنی ترقی بھی خوب کر سکتا ہے کیونکہ جب آقا غلام میں اتحاد ہو جاتا ہے تو آقا خود چاہتا ہے کہ میرا غلام مہذب اور سنجیدہ طبیعت کا مالک ہو،وہ اس کو تعلیم بھی دلاتا ہے ، صنعت وحرفت بھی سکھاتا ہے چنانچہ اسلام میں صدہا علماء محدث ،مفسر،فقہاء اور بڑے دانشور گذرے ہیں جو اصل میں موالی (آزاد کردہ غلام) تھے۔ غلاموں کے طبقہ نے تمام علوم و فنون میں ترقی حاصل کی بلکہ بعض غلاموں کو بادشاہی بھی نصیب ہوئی ہے۔ بہرحال ہرشخص سوچ سکتاہے کہ ان میں سے بہتر صورت کون سی ہوسکتی ہے۔ بالخصوص جبکہ غلاموں کے حقوق کے بارے میں اسلام کے نظریے کو اپنایا جائے جوانتہائی حسن سلوک والاہے۔
قارئین کرام!اتنی حقوق کی پاسداری کے باوجود پھر بھی اسلام نے ان کو ہمیشہ کےلیے غلامی کے خول میں بند نہیں کیا بلکہ ان کی آزدی کےلیے مختلف مواقع فراہم کیے۔مثلاًغلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب ،حصول آزادی میں غلاموں کے ساتھ مدد کی ترغیب ،مختلف گناہوں کےکفاروں میں غلاموں کی آزادی کا بیان۔ قتل خطا کا کفارہ ، ظہار کا کفارہ،قسم توڑنے کا کفارہ ،روزے کی حالت میں جماع کرنے کا کفارہ ،غلام کو ناحق تھپڑ مارنے کا کفارہ ،اسی طرح ام ولد کی آزادی وغیرہ وغیرہ۔
اب رہی یہ بات کہ اسلام نےغلامی کوقطعاً ممنوع اورختم ہی کیوں نہ کردیا؟ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اسلام نے اسے محض ایک جنگی ضرورت کی حیثیت سے باقی رکھاہے اور یہ ضرورت ایسے موقع پر پیش آسکتی ہے جبکہ ہمارا کسی دشمن سے اسیران جنگ کے تبادلے یافدیے پر رہائی کامعاہدہ نہ ہوسکے اور ہماری حکومت جنگی قیدیوں کوبلافدیہ وبلا مبادلہ چھوڑدینا ملکی مصالح کے خلاف سمجھے۔
چند استثنائی صورتوں اور شاذ مواقع سے قطع نظر کرکے دیکھیں تومعلوم ہوجائےگا کہ دنیا میں اٹھارویں صدی عیسوی تک اسیران جنگ کےتبادلے کا طریقہ رائج نہ تھا اورنہ اس امرکاکوئی امکان تھا کہ مسلمان حکومتیں دشمن کے جنگی قیدیوں کو چھوڑکر اپنے جنگی قیدیوں کو چھڑاسکتیں اوراب اگردنیا میں تبادلہ اسیران جنگ کا طریقہ رائج بھی ہواہے تووہ کسی مذہبی حکم کی بناپر نہیں بلکہ ایک مصلحت کی بناپر ہے۔ جسےکوئی قوم جب چاہے نظراندازکرسکتی ہے۔
آج بھی یہ ناممکن نہیں ہے کہ ہمارا کسی ہٹ دھرم دشمن سے سامنا ہوجائے جوتبادلہ کی تجویز کوٹھکرادے اور ہمارے قیدیوں کوکسی شرط پربھی چھوڑنے کے لیے راضی نہ ہو۔اب آپ سوچیں کہ اگراسلام ہمیں بہرحال جنگی قیدیوں کی رہائی کاپابند کر دیتاتو کیا یہ حکم ہمارےلیے وجہ مصیبت نہ بن جاتا؟ کیاکوئی بھی قوم ہمیشہ ہمیشہ کےلیے اس نقصان کی متحمل ہوسکتی ہے کہ یہ لڑائی میں اس کے آدمی دشمن کے پاس قید ہوتے رہیں اور وہ دشمن کے آدمیوں کو چھوڑتی چلی جائے؟کیاکوئی دشمن بھی ایسا بیوقوف ہوسکتاہے کہ وہ ہم سے اسیروں کے تبادلے کا معاہدہ کرنے پر آمادہ ہوجبکہ اسے یہ اطمینان ہوکہ ہم بہرحال اپنے مذہبی احکام کی بناپر اس کے آدمیوں کوچھوڑنے پر مجبور ہیں؟مندرجہ بالا ساری بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کا مسئلہ اسلام میں انسان دشمنی کے بجائے انسان دوستی پر منحصر ہے۔
رشوت……… مسلم معاشرے میں ایک ناسور!!
اسلام نے ہر اس ذریعہ اکتساب کو منع اور حرام قرار دیا ہے جس میں کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ کمایاجائے۔انہیں حرام ذرائع میں سے ایک نہایت قبیح ذریعہ اکتساب رشوت ہے، جو شریعت کی نظر میں انتہائی جرم ہے اور یہ جرم آج ہمارے معاشرے میں ناسور کی مانند پھیل چکا ہے، جس کا سد باب مسلمان معاشرے کے لئے ضروری ہے۔
وہ مال ہے جو حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لیے دی جائے۔رشوت کہلاتا ہے۔ قرآن حکیم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانے کو منع فرمایاہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:”اے ایمان والوآ پس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نا کھاوٴ۔“
ابن جریر نے حضرت جابر سے نقل فرمایا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :امراء کو ہدیہ دینا خیانت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً رشوت لینے دینے کو منع فرمایاہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے ارشاد نبوی نقل کیا ہے: لعن الله الراشی والمرتشی والرائش الذی یمشی بینہما”الله تعالی نے رشوت کھانے اور کھلانے والے اور جودونوں کے درمیان معاملہ طے کراتا ہے، ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔“
امام احمدفرماتے ہیں: امور سلطنت سے متعلقہ کسی کام کا جو شخص ذمہ دار ہو گا،اس کیلیےکسی قسم کا تحفہ قبول کرنے میں ہر گز اجازت نہیں دوں گا۔ہاں اس منصب پر فائز ہونے سے قبل جس کسی سے اس کا تعلق ہوگا اس سے تحفہ قبول کرنا مستثنی ہو گا
رشوت دینے کی چند ممکنہ صورتیں:
1: حصول منصب کے لیے رشوت دینا۔درحقیقت کوئی منصب اور ذمہ داری نااہل کے حوالے کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کی بربادی سے تعبیرکیا ہے، اورامانت کو برباد کرنا حرام ہے۔
2: ادارے کی جانب سے رہائش کے حصول کے لیے رشوت دینا،خصوصاًجب کہ یہ ابھی اس کا استحقاق نہ رکھتا ہو۔
3: ملازمت برقراررکھنے کے لیے رشوت دینا۔
4: غیر حق دارکو رشوت لے کر نوکری دینا۔
5: کسٹم ڈیوٹی سے بچنے کے لیے رشوت دینا۔
6: سرکاری بلوں میں کٹوتی کے لیے رشوت دینا۔
7: کسی ادارے کا کوئی ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا۔
8: گاڑی والے کا پولیس کو رشوت دینا۔
9: ایک شہرسے دوسرے شہر مال لے جانے پر رشوت دینا۔
مندرجہ بالاتمام صورتوں میں اپنے مقصد کے حصول کے لئے اگر کوئی کہیں رشوت دے رہا ہے تو اس کی توبہ و استغفار کے ذریعے برأت کی کچھ گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن لینے والابہر صورت گنہگار ہوگا۔
دواء ساز کمپنی کا ڈاکٹر کو رشوت دینا:
یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ طب اور ڈاکٹری ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ڈاکٹرکا مریض کی مصلحت اورخیرخواہی کو مدنظر رکھنا شرعی اور اخلاقی تقاضا ہے، اس کی بناء پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملے کی ہر وہ صورت جو مریض کی مصلحت اور فائدے کے خلاف ہویا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشے یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت یا بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہو ،وہ درست نہیں،لہٰذااگر ڈاکٹر محض اپنے مالی فائدے یا کسی قسم کی ذاتی منفعت ہی کو ملحوظ رکھتاہے اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرف نظر کرتے ہوئے علاج تجویز کرتاہے تو یہ دیانت کے خلاف ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹرگناہ گار ہو گا اور اگر صورتحال ایسی نہیں تو پھر ڈاکٹر گناہ گا ر نہیں ہوگا۔
اگر ڈاکٹر مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے کسی مخصوص کمپنی کی دوائی مریض کولکھ کر دیتا ہے اور پھر اس کے بدلے دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹرکو جو کمیشن ،یا تحائف و غیرہ کی صورت میں دیگر مراعات ملتی ہیں،ڈاکٹرکے لیے ان کا لینا جائزہے،لیکن چند شرائط کے ساتھ:
1: محض کمیشن، تحائف اور مراعات وسہولیات حاصل کرنے کی خاطر ڈاکٹر غیر معیاری وغیر ضروری ادویات تجویز نہ کرے۔
2: کسی دوسری کمپنی کی دوائی مریض کے لیے زیادہ مفیدہونے کے باوجود خاص اس کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کرے۔
3: دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹرکودیئے جانے والے کمیشن ،تحفہ تحائف اور مراعات کا خرچہ ادویات مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں۔
4: کمیشن،تحفہ اور مراعات کی ادائیگی کا خرچہ وصول کرنے کے لیے ادویات کے معیار میں کمی نہ کریں۔
اگر ڈاکٹر،مریض کو کسی مخصوص کمپنی کی دوائی لکھ کردیتے وقت ان شرائط کا لحاظ نہ رکھتا ہو تو دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے کمیشن،تحفہ تحائف یا دیگر مراعات وسہولیات کالیناڈاکٹر کے لیے جائز نہیں،یہ رشوت ہیں اور ناجائز ہیں۔
ہسپتال ولیبارٹری والوں کا ڈاکٹر کو رشوت دینا:
بسااوقات ڈاکٹرکسی مریض کو علاج کے لیے کسی پرائیوٹ ہسپتال بھیجتا ہے اور کبھی ٹیسٹ وغیرہ کے لیے کسی مخصوص لیباٹری یاالٹراساوٴنڈیاسی ٹی اسکین والے کے پاس بھیجتا ہے اوریہ لوگ اس کے بدلے ڈاکٹر کو کمیشن،تحفہ تحائف اور دیگر مراعات دیتے ہیں،اس صورت میں ڈاکٹر کا کسی مریض کو مخصوص لیباٹری یا ہسپتال کی طرف بھیجنا چند شرائط کے ساتھ جائزہے:
1: ڈاکٹراپنے فہم و تجربہ کی روشنی میں ان کی طرف بھیجنامریض کے لیے زیادہ مفید اورزیادہ تسلی بخش سمجھتا ہو۔
2: انہی سے علاج یا ٹیسٹ کرانے پر مریض کو مجبور نہ کیاجاتا ہو۔
3: کمیشن فیصد کے اعتبارسے یا متعین رقم کی صورت میں طے نہ ہو۔
4: کمیشن ادا کرنے کی وجہ سے لیباٹری یا ہسپتال والے مریض سے علاج اور ٹیسٹ کے سلسلہ میں کسی قسم کا دھوکہ نہ کرتے ہوں۔
5: اس کمیشن کی ادائیگی کا بوجھ ریٹ بڑھاکر مریض پر نہ ڈالا جائے ،بلکہ کمیشن دینے والے اپنے حاصل شدہ نفع سے کمیشن اداکریں۔
6: مریض کو بلا وجہ اور ضرورت سے زائد ٹیسٹ نہ دیئے جائیں۔
اگر ڈاکٹر مریض کو مخصوص ہسپتال یا لیبارٹری کی طرف بھیجتے وقت ان درج بالاشرائط کا لحاظ نہ رکھتا ہوتو پھر ڈاکٹر کے لیے اس پر کمیشن،تحفہ تحائف یا دیگرمراعات وسہولیات وصول کرنااور لیباٹری یا ہسپتال والوں کا یہ چیزیں ڈاکٹرکو دینا جائزنہیں،یہ رشوت ہیں اورناجائزہیں۔
)بشکریہ ماہنامہ بینات ، کراچی(