فقیہ مدینہ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فقیہ مدینہ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ
مولانا محمد عاطف معاویہ
مختصر تعارف :
تیسری صدی کے مشہور عالم حضرت امام محمد بن سعد رحمہ اللہ المتوفیٰ230ھ نے اپنی مشہور کتاب الطبقات الکبریٰ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بعد فقہاء و مفتیان مدینہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سب سے پہلا نام سیدنا ابن المسیب رحمہ اللہ کا ذکر کیا ہے۔
آپ رحمہ اللہ کی ولادت سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ہوئی آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زیارت کی اور بقول امام ذہبی آپ نے حضرت عمر کے کچھ فرامین بھی سنے حضرت عمر کے علاوہ آپ نے مظلوم مدینہ سیدنا عثمان ذوالنورین ، حضرت زید بن ثابت ،حضرت ابو ہریرہ اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ جیسے کبار صحابہ سے علم حاصل کیا اور اپنے دور میں مخلوق خدا کی علمی پیاس بجھائی۔
علمی و فقہی مقام
1: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قسم اٹھا کر آپ کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ہو واللہ احد اللمفتیین
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص44)
خدا کی قسم وہ جید مفتیان میں سے ہیں۔
جس شخص کے مقام کو عبداللہ بن عمر جیسا صحابی قسم اٹھا کر بیان کرے اس کی علمی سطح کتنی بلند وارفع ہوگی۔
2: حضرت امام ابن سعد؛ امام قدامہ بن موسیٰ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔
کان سعید بن المسیب یفتی واصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احیاء۔
)الطبقا ت الکبریٰ ج2 ص379(
ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب صحابہ کرام کی زندگی میں بھی فتویٰ دیا کرتے تھے۔
3: امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ امام لیث کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
کان سعید بن المسیب یرکع رکعتین ثم یجلس فیجتمع الیہ ابناء اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من المہاجرین والانصار فلا یجترئ احد منہم ان یسئلہ الا ان یبتدئہم بحدیث او بمجیئ سائل فیسئل فیسمعون۔
)الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع ج3 ص81(
ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ دو ر کعت پڑھنے کے بعد علمی مسائل کے لیے بیٹھ جاتے آپ کی مجلس میں مہاجرین وانصار صحابہ کی اولاد بھی اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے جمع ہو جاتیں لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے کوئی آپ سے سوال نہیں کر سکتا تھا ہاں جب آپ خود بات شروع فرماتے یا کوئی باہر سے سائل آتا وہ مسئلہ پوچھتا آپ بتاتے توشرکاء مجلس بھی مستفید ہوتے۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کی اولاد آپ سے جا کر دین کی تعلیم حاصل کرتی تھی۔
چند مسائل:
آپ کے نزدیک نکسیر آنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ،چنانچہ یزید بن عبداللہ بن قسیط لیثی سے روایت ہے :
انہ راٰی سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ رَعَفَ وَهُوَ يُصَلِّي فَأَتَى حُجْرَةَ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَجَعَ فَبَنَى عَلَى مَا قَدْ صَلَّى۔
)موطا امام مالک رقم الحدیث 112باب ما جاء فی الرعاف (
ترجمہ : عبداللہ بن قسیط کہتے ہیں حضرت سعید بن مسیب نماز پڑھ رہے تھے تو آپ کو نکسیر آ گئی آپ فورا ً ام المو منین سیدہ ام سلمہ کے حجرہ میں تشریف لے گئے وضو کیا اور واپس آکر جو نماز باقی تھی اس کو مکمل فرمایا۔
2: حضرت ابن مسیب کے نزدیک باجماعت نماز میں امام کے پیچھے خاموش رہنا چاہیے امام کے پیچھے قرات کرنے کی ضرورت نہیں آپ کا فرمان ہے :انصت للامام
) مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص377(
ترجمہ: امام کے پیچھے خاموش رہو۔
3: انسان زندگی گذارنے میں اسباب کا محتاج ہے تندرستی و صحت کے لیے بیماری کو ختم کرنے والی ادویات استعمال کرتا ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ادویات کا استعمال شرک ہے سوال کیا جائے کہ کیوں؟ تو جواب دیا جاتا ہے کہ قرآن میں ہے واذا مرضت فھو یشفین کہ میں جب بیمار ہوتا ہوں تو اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے قرآن کہتا ہے اللہ شفا دیتاہے تم ادویات استعمال کرکے شرک کرتے ہو؟ تو اسے جوابا کہا جائے گا کہ شفاء تو اللہ ہی دیتا ہے یہ ادویات اسباب کے درجہ میں ہیں اب اگر کوئی حلال چیز سے بنی ہوئی دوائی استعمال کرے تو وہ جائز ہے اور اگر حرام چیز سے بنی ہو تو وہ حرام ہے، اب اگر کوئی کہے کہ دوائی لینا جائز نہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے دلیل پوچھی جائے تو وہ احادیث پڑھے جن میں حرام اشیاء سے بنی ادویات منع ہیں تو اسے کہا جائے گا دوائی لینا منع نہیں بلکہ وہ اجزاء منع ہیں جن حرام اجزاء سے یہ مرکب ہے اگر اجزاء ٹھیک ہوں تو دوائی لینا جائز ہے۔
یہی حکم تعویذ کا ہے نہ تو کوئی اسے فرض کہتا ہے نہ واجب اور پھر جائز بھی ہر تعویذ کو نہیں کہتے بلکہ اس کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ جو تعویذات قرآنی آیتوں اور اسماء حسنٰی اور دوسرے ثابت شدہ اوراد پر مشتمل ہو ں ان کو تعویذ بنا کر باندھنا اور لٹکانا جائز ہے اور جس تعویذ میں شرکیہ الفاظ لکھے ہوں تو ان کو تعویذ بنا کر باندھنا اور لٹکانا ناجائز ہے۔
کیونکہ اس مسئلہ پر احادیث دوطرح کی ہیں جواز کی بھی اور عدم جواز کی بھی اس لئے ہم نے یہ موقف اختیا ر کیا کہ جن احادیث میں تعویذات' دم وغیرہ کی ممانعت آئی ہے یا ان کو شرک کہا گیا ہے۔ تو علماء‌اسلام‌نےاباحت کے دلائل کے پیش نظر ان کو ایسی صورتوں پر محمول کیا ہے کہ ان میں شرکیہ الفاظ ہوں یا غیر اللہ سے مدد لی گئ‌ہویا ایسے کلمات پر مشتمل ہوں جن کا معنیٰ معلوم نہ ہو یاپھر جادو کی قسم سے ہوں یا ان عملیات کو مستقل طور پر مؤ‌ثر بالذات سمجھا گیا ہو وغیرہ لہٰذا وہ عملیات جو ایسے امور اور فسادعقیدے سے مبرا ہوں وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہیں بلکہ وہ جائز ہیں‌۔
ابو عصمہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب سے سوال کیا کہ تعویذ کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ جب چمڑے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں،جائز ہے۔
)مصنف ابن ابی شیبہ ج7ص396 مَنْ رخَّصَ فِي تعلِيقِ التَّعَاوِيذِ(
نافع نے یحییٰ سعید سے دم اور تعویذ لٹکانے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ حضرت سعید بن مسیب تعویذ لکھ کر لٹکاتے تھے اور اس میں کو ئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
)السنن الکبریٰ للبیھقی ج9ص351باب التمائم(
وفات
آپ کی وفات کس سن میں ہوئی حضرت امام ذھبی رحمہ اللہ نے اس کے متعلق کئی اقوال نقل فرمائے ہیں اور فرمایا راجح قول کے مطابق سنہ 94 ھ میں ہوئی۔