امام سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ المحدثین:
……مفتی شبیر احمد حنفی ﷾
امام سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ
امام ابو لحسن المدائنی سے منقول ہے کہ ایک شخص نے امام سے کہا:
يا أبا محمد اكتريتُ حماراً بنصفِ درهمٍ فأتيتُكَ لِأَسألكَ عن حديث كذا وكذا•
اے ابو محمد! میں نصف درہم میں ایک گدھا کرایہ کر کے تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ فلاں فلاں حدیث کے بارے میں تم سے کچھ سوال کروں!
آنے والے اس شخص نے علم حدیث کو ایک ایسی سستی چیز بتایا کہ اس پر نصف درہم کے خرچ کرنے کو خاصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا۔ حدیث نبوی علی صاحبہا الصلاۃ و السلام کے ساتھ ایسا رویہ رکھنے اور اس کے لیے مال خرچ کرنے کو جب اس شخص نے اس طرزِ عمل سے جتلایا تو اس کا سدِ باب کرنے اور اس شخص کو متنبہ کرنے کو امام نے انتہائی ضروری سمجھا۔ اس لیے اس آنے والے سے مخاطب ہو کر فرمایا:
اِكترْ بالنصفِ وارجِعْ•
(کتاب الاذکیاء لابن الجوزی: ص33)
بقیہ نصف درہم پر پھر گدھا کرایہ پر لے کر واپس لوٹ جاؤ۔
ایک بار امام کے پاس کچھ ایسے لوگ حدیث کا سماع کرنے کے لیے آئے جن کے بارے میں امام کی فراست ایمانی اور دور اندیشی نے پہچان لیا کہ یہ علمِ حدیث کے اہل نہیں ہیں بلکہ حدیث کے نام پر اپنی خواہشات کی تکمیل کے درپے ہیں۔ چنانچہ آپ نے حدیث سنانے سے انکار کر دیا۔ کسی شخص نے کہا:
يا أبا محمد لو حدَّثتَ هؤلاءِ المساكين•
اے ابو محمد!اگر آپ ان مسکینوں کو حدیث سنا دیتے تو بہت ہی اچھا ہوتا۔
امام کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور آپ نے اس شخص کوفرمایا:
ويلك ومنْ يُّعَلِّقُ الدُّرَّ على الخنازيرِ؟!
(تاریخ الثقات للعجلی: ص204)
تیرے لیے ہلاک ہو! خنزیر کے گلے میں موتی کون لٹکاتا ہے؟!
یعنی نا اہل کو قیمتی چیز سپرد نہیں کی جاتی۔
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مایہ ناز قدر دان، عبادت و ریاضت کے عظیم پیکر، علم و عمل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے انسان، فقر و عسرت کے باوجود دامنِ حدیث سے وابستہ یہ شخصیت شیخ الاسلام امام سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ تھے۔ ”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم“ کے زمزموں سے آپ کی مجلس کشتِ زعفران بنی رہتی تھی۔ حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کا تحفظ اور نشر واشاعت آپ کی زندگی کا مقصد بن چکا تھا۔
نام و نسب اور نسبتِ ولاء:
آپ کا نام ”سلیمان بن مہران“، کنیت ”ابو محمد“ اور لقب ”اعمش“ ہے۔
(التاریخ الاوسط للبخاری: ج1 ص186، الثقات لابن حبان: ج4 ص302)
امام اعمش کو ”الکاہلی الاسدی“ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ آپ بنو کاہل کے آزاد کردہ غلام تھے، اس لیے ”الکاہلی“ مشہور ہوئے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص117)
”الکاہل“ سے مراد کاہل بن اسد بن خزیمہ ہے، اس کی طرف نسبت کی وجہ سے آپ کو ”اسدی“ بھی کہا جاتا ہے۔
(تہذیب الکمال: ج4ص218)
آپ کے والد ”مہران“ دیلم کے کسی معرکہ میں گرفتار ہوئے تھے۔ والد کی غلامانہ زندگی کا اثر آپ پر بھی رہا اس لیے آپ بھی بچپن میں غلامانہ زندگی سے دو چار رہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص117، سیر اعلام النبلاء: ج5ص446)
ایک روایت میں آتا ہے کہ بچپن میں آپ غلامی کی زندگی گزار رہے تھے کہ کوفہ کے بنی کاہل کے ایک شخص نے آپ کو خریدااور خرید کر آزاد کر دیا۔
(تہذیب الکمال: ج4ص218، تاریخ بغداد:ج7 ص116)
بہرحال اتنی بات یقینی ہے کہ اعمش ابتداء میں غلام تھے اوراسی غلامی کی نسبت سے آپ ”الکاہلی الاسدی“ کہلائے۔
آپ کا لقب ”اعمش“ ہے اور اسی لقب سے آپ زیادہ مشہور ہیں۔ ”اعمش“ کا مطلب ہے ”کمزور بینائی والا“، آپ کو اعمش اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کی بینائی کمزور تھی۔
تاریخ ومقام ولادت:
آپ کی ولادت 61ھ میں ہوئی۔ امام وکیع بن جراح فرماتے ہیں:
وُلِدَ الْأَعْمَشُ يَوْمَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَذَلِكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فِي الْمُحَرَّمِ سَنَةَ سِتِّينَ•
(الطبقات الکبریٰ:ج6 ص332)
کہ امام اعمش حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی شہادت والے دن یعنی ماہ محرم میں یوم عاشورہ کے دن سن 60 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ممکن ہے یہاں سہوِ کاتب ہوا ہو اور سن 61 کے بجائے سن60 لکھا گیا ہو، اس لیے کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت سن61ھ کو ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ امام ابو اسحاق ذہلی فرماتے ہیں:
ولد عمر بن عبد العزيز، وهشام بن عروة، والزهري وقتادة، والأعمش ليالي قتل الحسين ابن علي، وقتل سنة إحدى وستين•
(تاریخ بغداد:ج7 ص116)
کہ عمر بن عبد العزیز، ہشام بن عروہ، زہری، قتادہ اور اعمش حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت والے دن پیدا ہوئے اور آپ کی شہادت 61 ہجری کو ہوئی۔
یہی بات امام عجلی اور امام ابن حبان نے بھی ذکر کی ہے کہ آپ کی ولادت 61ھ میں ہوئی۔
(تاریخ الثقات للعجلی: ص204، مشاہیر علماء الامصار لابن حبان:ج 1ص179)
اصلاً آپ کا تعلق ”دباوند“ سے تھا۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص139)
یاقوت حموی نے ”دباوند“ کے متعلق لکھا ہے:
و ہو جبل من نواحی الری•
(معجم البلدان: ج2 ص475)
”دباوند“ یہ رئے کے نواح میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آپ اپنی والدہ کے گاؤں طبرستان کے علاقے میں پیدا ہوئے پھر بچپن میں ہی آپ کو کوفہ لے آیا گیا۔ اسی وجہ سے آپ کو ”الكوفی“ کی نسبت سے بھی جانا جاتا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: ج5 ص441)
اہلِ علم کی نظر میں:
امام اعمش نے تحصیل علم میں جس محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس کے نتیجہ میں آپ کندن بن گئے تھے، آسمان دنیا نے دیکھا کہ زبانِ خلق نے آپ کو ”محدث الكوفة“ کے لقب سے نوازا۔
(سیر اعلام النبلاء: ج5ص446)
سلاطین علم و فن آپ کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئے۔ چند حضرات کی آراء درج ذیل ہیں:
[۱]: امام شعبہ بن الحجاج (ت160ھ) فرمایا کرتے تھے:
ما شفاني أحدٌ من الحديث ما شفاني الأعمشُ•
(تاریخ بغداد: ج7 ص120، تہذیب التہذیب:ج3 ص58)
کہ حدیث میں مجھ کو جو تشفی اعمش سے ہوئی وہ کسی اور سے نہیں ہوئی۔
[۲]: سہل بن حلیمہ کہتے ہیں کہ امام سفیان بن عیینہ (ت198 ھ) نے فرمایا:
سبق الأعمش أصحابَه بأربعِ خصالٍ: كان أقرأَهم للقرآنِ، وأحفظَهم للحديثِ، وأعلَمَهم بالفرائضِ، ونسيتُ أنا واحدةً•
(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 1879)
کہ امام اعمش نے اپنے دوستوں کو چار چیزوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے: پہلی کہ وہ ان میں قرآن کے سب سے بڑے قاری تھے، دوسری یہ کہ وہ ان میں حدیث کے سب سے بڑے حافظ تھے،تیسری یہ کہ وہ فرائض (علمِ میراث) کو ان میں سب سے زیادہ جانتے تھے۔ راوی (سہل بن حلیمہ) کہتے ہیں کہ چوتھی چیز جو سفیان بن عیینہ نے کہی تھی میں بھول گیا ہوں۔
[۳]: امام احمد بن حنبل (ت241ھ) سے پوچھا گیا: ابو حصین اور اعمش میں سے کون بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا:
أبو حصين أكبر من الأعمش، والأعمش أحب إلي، الأعمش أعلم بالعلم والقرآن من أبي حصين، وأبو حصين من بني أسد، وكان شيخاً صالحاً•
(سؤالات ابن ہانی: 2166)
کہ ابو حصین عمر میں اعمش سے بڑے ہیں، لیکن اعمش مجھے زیادہ محبوب ہیں اس لیے کہ اعمش، ابو حصین کی بنسبت علم اورقرآن کے زیادہ عالم تھے۔ ابو حصین بھی بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے اور صالح شیخ تھے۔
علم حدیث میں خدمات:

امام اعمش کی زندگی کا آغاز اگرچہ غلامی سے ہوا،لیکن آپ میں تحصیل علم کی استعداد فطرتاً ودیعت رکھی گئی تھی۔ امام ذہبی کی ایک روایت کے مطابق آپ کو طبرستان سے کوفہ لایا گیا تھا اس لیے کوفہ ہی میں آپ کی نشوونما ہوئی۔ آگے چل کر کوفہ کی مسندِ علم و حدیث کی زینت بنے،آپ کے علمی اور عملی کمالات پر تمام ارباب سیروطبقات کا اتفاق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر اور حافظ ذہبی نے آپ کو عابد، صاحب السنت، علامۃ الاسلام وشیخ الاسلام کے لقب سے ذکر کیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ: ج1ص116، تہذیب التہذیب:ج3 ص58 و 59)

علم حدیث اوراس کے متعلقہ فنون میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا،ہزاروں حدیثیں سند متن سمیت آپ کے دماغ میں محفوظ تھیں۔ احادیث کے یاد رکھنے اور محدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی برکت تھی کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات کے بڑے عالم آپ ہی ٹھہرے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی احادیث میں کمال یوں حاصل کیا کہ امام قاسم بن عبد الرحمن (ت120ھ) جو آپ کے استاذ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے فرمایا کرتے تھے:
ليس بالكوفة أعلم بحديث ابن مسعود من سليمان الأعمش•
(العلل ومعرفۃ الرجال بروایۃ عبد اللہ: 6016)
کہ کوفہ میں سلیمان الاعمش سے زیادہ حضرت ابن مسعود کی حدیث کا کوئی عالم نہیں۔
امام اعمش اس کمالِ حفظ کا تذکرہ ان الفاظ میں یوں فرمایا کرتے تھے:
كنتُ إذا اجتمعتُ أنا وأبو إسحاق جئنا بحديث عبد الله غضاً•
(طبقات ابن سعد:ج6ص332)
کہ جب میں اور ابو اسحاق جمع ہوتے تو ہم حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی احادیث کو محفوظ کیا کرتے تھے۔
امام اعمش کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا تذکرہ تو ان شاء اللہ ”شرفِ تابعیت“ کے عنوان کے تحت آئے گا لیکن یہاں اتنی بات کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ رحمہ اللہ کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی زیارت کرنا تو محدثین کے ہاں ایک مسلَّم امر ہے، روایت لی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں آراء میں کچھ اختلاف نظر آتا ہے۔ علامہ ذہبی نے ”ذكر رواية الاعمش عن أنس بن مالك“ کے عنوان کے تحت چند روایات ذکر کی ہیں اور ان میں سے بعض کو صالح الاسناد اور بعض صحیح الاسناد کہا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: ج5 ص44۷)
لیکن دیگر اربابِ فن نے ملاقات کا تو اقرار کیا ہے لیکن روایات کے اتصال کی تردید کی ہے بلکہ ”الاعمش عن انس بن مالک“ کے طریق کو ارسال و انقطاع پر محمول کیا ہے۔ چند آراء پیش کی جاتی ہیں:
1: امام علی بن المدینی فرماتے ہیں:
الأعمش لم يسمع من أنس بن مالك إنما رآه رؤية بمكة يصلي خلف المقام فأما طرق الأعمش عن أنس فإنما يرويها عن يزيد الرقاشي عن أنس•
(المراسیل لابن ابی حاتم: 1/82)
کہ امام اعمش نے حضرت انس بن مالک سے کچھ نہیں سنا، انہوں نے محض انہیں مکہ میں مقام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اعمش کے جو طرق حضرت انس سے مروی ہیں وہ انہوں نے یزید الرقاشی کے ذریعے روایت کیے ہیں۔
2: امام ترمذی نے ”الجامع“ میں ( تحت ح3533) یوں فرمایا:
ولا نعرف للأعمش سماعا من أنس إلا أنه رآه ونظر إليه•
کہ ہم امام اعمش کے حضرت انس سے سماع حدیث کے بارے میں نہیں جانتے، انہوں نے حضرت انس کو صرف دیکھا ہے اور زیارت سے مشرف ہوئے ہیں۔
گویا امام ترمذی کے نزدیک بھی یہ روایت انقطاع پر محمول ہے۔
3: حافظ ابن حجر رقمطراز ہیں:
لم یثبت لہ منہ سماع•
(تہذیب التہذیب: ج3 ص57)
کہ اعمش کا حضرت انس سے سماع ثابت نہیں ہے۔
آپ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث ان کے شاگرد ابو صالح السمان سے روایت کرتے تھے۔ چنانچہ ابو صالح کے متعلق ایک بار فرمایا:
سمعت من أبي صالح ألف حديث•
(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 2910، 5588)
کہ میں نے ابو صالح سے ایک ہزار احادیث سنی ہیں۔
گویا ابو صالح آپ کےسب سے قریبی شیوخ میں سے ہیں جن سے آپ نے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔مزید براں کہ آپ کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بذریعہ ابو صالح کو محدثین نے اصح الاسانید بھی قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبی نے بھی ”الاعمش عن ابی صالح عن ابی ہریرۃ“ کے طریق سے چند روایات ذکر فرمائی ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: ج5 ص449)
تنبیہ:
یہاں ایک اہم امر کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ بعض الناس نے ”الاعمش عن ابی صالح“ کے طریق سے مروی روایت: ”الإمام ضامن“ کو امام سفیان الثوری کے اس مجمل و محتمل قول ”حديث الأعمش عن أبي صالح: الإمام ضامن، لا أراه سمعه من أبي صالح “ (اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث، میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔ بحوالہ تقدمہ الجرح والتعدیل)“ کی وجہ سے ماننے سے انکار کر دیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ امام نووی کے بقول: ”وكقوله من الأعمش عن أبي صالح والأعمش مدلس، والمدلس إذا قال "عن" لا يحتج به الا اذا ثبت السماع من جهة أخري• بحوالہ شرح مسلم)“ اعمش مدلس ہے اور روایت مذکورہ میں صیغہ ”عن“ سے روایت کر رہا ہے، لہذا مذکورہ قاعدہ کے تحت روایت ضعیف ہو گی۔
جوابا ًعرض ہے کہ یہ بات اپنی جگہ کہ خود صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کئی مقامات پر ”الاعمش عن أبى صالح“ کے طریق سے روایات موجود ہیں۔ (دیکھیے؛صحیح البخاری:ح477، 2119، 2672، 4935، 6408 وغیرہ، صحیح مسلم: ح47، 52، 54، 67، 81، 132 وغیرہ) اور بقول امام نووی مدلس کی روایات جو صحیحین میں بصیغہ عن ہوں وہ دوسری جہت سے سماع پر محمول ہوتی ہیں۔
(مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی ج1 ص18)
ہم مزید یہ کہتے ہیں کہ اسی حدیث ”الامام ضامن“ میں دوسرے مقام پر امام اعمش نے خودسماع کی تصریح بھی کردی ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ یہی حدیث اس سند سے نقل کرتے ہیں:
حدثنا أبو أمية قال: حدثنا سريج بن النعمان الجوهري قال: حدثنا هشيم ،عن الأعمش قال: حدثنا أبو صالح ، عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله•
(شرح مشکل الآثار للطحاوی: 5/432، واسنادہ حسن)
اس میں امام اعمش نے بالیقین سماع کی تصریح کر دی ہے۔ لہٰذا بعض الناس کا تدلیس کی وجہ سے روایت کو ضعیف کہنے کا شبہ دور ہو جاتا ہے۔
فنِ حدیث میں جلالت شان:
شب و روزانہی احادیث کی مجالس کو منعقد کرنے اور ہمہ تن اس کی اشاعت میں مصروف رہنے کے بسبب آپ کا شمار ان چھ محدثین میں کیا گیا جن پر روایت حدیث کا مدار سمجھا گیا۔ امام علی بن المدینی (ت234ھ) کا بیان ہے:
حفظ العلمَ على أمةِ محمدٍ صلى الله عليه وسلم ستةٌ؛ عمرُو بنُ دينارٍ بمكةَ والزهريُّ بالمدينةِ وأبو إسحاقَ السبيعيُّ والاعمشُ بالكوفةِ وقتادةُ ويحيى بنُ أبي كثيرٍ بالبصرةِ.
(تہذیب التہذیب: ج3 ص58)
کہ امت محمدیہ علی صاحبہا السلام کے دینی نفع کے لیے چھ آدمیوں نے (خاص طور پر)علم (حدیث) کو حفظ کیا ہے؛ امام عمرو بن دینار نے مکہ میں، امام زہری نے مدینہ میں، ابو اسحاق السبیعی اور امام اعمش نے کوفہ میں، امام قتادہ اور امام یحیٰ بن کثیر نے بصرہ میں۔
مالی اعتبار سے امام اعمش خستہ حالی کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن علم حدیث کی وجہ سے کئی امراء اور مالدار لوگ آپ کی مجلس کے گداگر نظر آتے تھے۔ امام عیسی بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی (ت187 ھ) کا بیان ہے:
ما رأينا في زماننا مثل الأعمش، ولا الطبقة الذين كانوا قبلنا، ما رأينا الأغنياء والسلاطين في مجلس قط أحقر منهم في مجلس الأعمش وهو محتاج إلى درهم•
(حلیۃ الاولیاء: ج5 ص55، وتاریخ بغداد: ج7 ص118)
کہ ہم نے اپنے زمانے اور ہمارے قبل والے زمانے میں امام اعمش کا مثل نہیں دیکھا۔ اعمش کے فقر واحتیاج کے باوجود ہم نے ان کی مجلس سے زیادہ امراء اور سلاطین کو کسی اور کی مجلس میں حقیر نہیں پایا۔
شیوخ و تلامذہ:
آپ کے شیوخ حدیث کی تعداد بہت زیادہ ہے، چند ناموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے:زيد بن وهب، ابو وائل، ابو عمرو الشیبانی، قيس ابن ابی حازم، اسماعیل بن رجاء، ابو صخرة جامع بن شداد، ابو ظبیان بن جندب، خیثمہ بن عبدالرحمن الجعفی، سعيد بن عبیدہ، ابو حازم الاشجعی، سلیمان بن مسہر، طلحہ بن مصرف، ابو سفیان طلحۃ بن نافع، عامر الشعبی، ابراهیم النخعی، عبد الله ابن مرة، عبد العزيز بن رفیع، عبد الملك بن عمیر، عدی بن ثابت، عمارة بن عمیر، عمارة ابن القعقاع، مجاہد بن جبر، ابو الضحى، منذر الثوری، ہلال بن يساف وغیرہ۔
(تہذیب التہذیب: ج 3ص57)
آپ کےسرچشمۂ علم سے جن تشنگانِ علم نے فائدہ اُٹھایا ان کی صحیح تعداد تونہیں بتائی جاسکتی۔ اہلِ تذکرہ نے بھی کچھ نام گنائے ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (ت852ھ) چند ائمہ کے نام لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:
وخلائق• (تہذيب التہذیب:ج 3ص57)
کہ اس کے علاوہ جو آپ کے تلامذہ بہت زیادہ ہیں۔
چند تلامذہ کے نام یہ ہیں: حكم بن عتیبہ، وزبید الیامی، ابو اسحاق السبیعی(یہ امام اعمش کے شیوخ میں سے ہیں)،سلیمان التیمی، سہیل بن ابو صالح (یہ آپ کے ہم عصر بھی تھے)،محمد بن واسع، ابو حنیفہ نعمان بن ثابت، شعبہ بن الحجاج،سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابراہیم ابن طہمان، جرير بن حازم، ابو اسحاق الفزاری، اسرائيل، زائدة، ابو بكر بن عياش، شيبان النحوی، عبد الله بن ادريس، عبد اللہ بن المبارك، ابن نمیر، الخریبی، عیسٰى بن يونس، فضیل بن عياض، محمد بن عبدالرحمن الطفاوی، ہشیم، ابو شہاب الحناط وغیرہ۔
(تہذیب التہذیب: ج 3ص57 ، عقود الجمان: ص73)
تعدیل و توثیق:
ائمہ جرح وتعدیل سے آپ کی تعدیل و توثیق ثابت ہے۔ چند حضرات کی آراء پیشِ خدمت ہیں:
 امام ہشیم بن بشیر(ت183 ھ) :ما رأيت بالكوفة أحدا … أجود حديثا من الأعمش • میں نے کوفہ میں اعمش سے بڑا حدیث کا ماہر نہیں دیکھا۔
(حلیہ الاولیاء: ج5 ص58)
 امام ابوبكر بن عياش (ت194ھ)
كنا نسمي الأعمش سيد المحدثين•
(الکامل لابن عدی: ج1 ص62)
ہم اعمش کو ”سید المحدثین“ یعنی محدثین کا سردار کہتے تھے۔
 امام يحيٰ بن معين (ت233ھ):سليمان بن مهران الاعمش ثقة. سلیمان بن مہران اعمش ثقہ تھے۔
(الجرح و التعدیل: ج4139)
 امام احمد بن حنبل (ت241 ھ):آپ سے پوچھا گیا کہ ابو صالح سے روایت کرنے میں سہیل اور اعمش میں سے کون آپ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ نے فرمایا:”الأعمش أحب إلينا“ کہ اعمش ہمیں زیادہ پسند ہے۔
(العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 3288)
 امام محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی (ت242 ھ)
ليس فِي المحدثين احد أثبت من الأعمش•
(تاریخ بغداد: ج7 ص121)
محدثین میں اعمش سے زیادہ اثبت کوئی نہیں۔
 امام محمد بن اسماعیل البخاری (ت256 ھ)
آپ نے اپنی”الصحیح“کئی مقامات پر امام اعمش سے روایت لی ہے۔
 امام مسلم بن الحجاج (ت261 ھ)
آپ نے اپنی”الصحیح“کئی مقامات پر امام اعمش سے روایت لی ہے۔
 امام ابو الحسن عجلی (ت261ھ):
ثقة كوفي وكان محدث أهل الكوفة•
(تاریخ الثقات للعجلی: ص204)
اعمش ثقہ تھے اور کوفہ والوں کے محدث تھے۔
 امام ابو حفص عمرو بن علی الفلاس (ت249 ھ)
كان الأعمش يسمى المصحف من صدقه•
(تاریخ بغداد:ج7ص120)
اعمش کو اپنی صداقت کی وجہ سے ”مصحف“ کہا جاتا تھا۔
 امام ابو زرعہ رازی (ت264 ھ): سليمان الاعمش امام.اعمش امام تھے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص139)
 امام ابو حاتم الرازی (ت277ھ): الاعمش ثقة يحتج بحديثه اعمش ثقہ تھے، آپ کی روایات قابل حجت ہیں۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص139)
 امام نسائی (ت303ھ): ثقة ثبت. اعمش ثقہ اور ثبت تھے۔
(تہذیب الکمال للمزی: ج4 ص423)
 علامہ شمس الدین ذہبی (ت748 ھ):
الإمام شيخ الإسلام شيخ المقرئين والمحدثين أبو محمد الأسدي الكاهلي مولاهم الكوفي الحافظ•
(سیر اعلام النبلاء:ج5ص441)
امام، شیخ الاسلام، قارئیوں اور محدثین کے شیخ، ابو محمد الاسدی الکاہلی ان کے آزاد کردہ غلام، الکوفی، الحافظ۔
 حافظ ابن حجر (ت852ھ):ثقة حافظاعمش ثقہ اور حدیث میں حافظ تھے۔
(تقریب التہذیب: 2615)
(جاری ہے……)