عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر 1:
……الشیخ محمد نواز الحذیفی ﷾

Error! Hyperlink reference not valid.

عربی خطبۂِ جمعہ مقامی زبان میں…علمی وتحقیقی تجزیہ
عربی میں خطبہ جمعہ کم از کم سنت مؤکدہ ہے، وگرنہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کبھی بھی اس کو ترک نہ فرمانے کی وجہ سے اس کا وجوب ظاہر ہے کیونکہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ہمیشہ خطبہ جمعہ عربی میں منقول ہے۔
لہٰذا خطبۂ جمعہ میں سنت متوارثہ یہ ہے کہ وہ عربی زبان میں ہو، عربی کے علاوہ عجمی زبان میں خطبہ جمعہ یا عربی کے ساتھ عجمی زبان میں اس کا ترجمہ جائز نہیں، بلکہ یہ عمل مکروہ تحریمی اور بدعت ہے۔
یاد رہے کہ اس سے مراد وہ خطبہ ہے جس کے فوراً بعد جمعہ کی نماز اداکی جاتی ہے اس سے مراد وہ وعظ نہیں جو کہ عربی خطبہ سے پہلے کیا جاتا ہے اس وعظ کا ثبوت الگ طور پر موجود ہے۔
عربی خطبہ سے پہلے وعظ کا ثبوت:
چنانچہ امام اہل السنت شیخ الحدیث مولانا سرفرازخان صفدر رحمہ اللہ اس وعظ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ”جمعہ کے خطبہ سے پہلے تقریر کا متعدد حضرات صحابہ کرام سے ثبوت ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے تقریر فرمایا کرتے تھے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتے تھے، جب امام خطبہ دینے کیلیے آتا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی تقریر موقوف کردیتے تھے۔ “
) مستدرک ج1ص108، و ج3ص512 قال الحاکم والذہبی صحیح (
ابو الزاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن بسر جمعہ کے دن خطبہ سے قبل وعظ کیا کرتے تھے ،جب خطیب خطبہ دینے کے لیے آتا تو وہ وعظ بند کردیتے تھے
)حاکم ج1 ص288 وقالا صحیح (
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کی کہ میں جمعہ کے دن تقریر کیا کروں گا اور اس میں متعدد نصیحت آمیز واقعات بیان کروں گا ،پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کیا لیکن حضرت تمیم داری کے اصرار پر انہوں نے اجازت دے دی کہ تم جمعہ کے دن اس سے قبل کہ میں خطبہ کے لیے آؤں تقریر کرسکتے ہو۔
)اصابہ فی تذکرۃ الصحابہ ج1ص184، راہ سنت ص301 (
خطبہ جمعہ سے مقصود ذکر اللہ ہے:
جب عربی خطبہ سے پہلے وعظ کا ثبوت الگ طور پر موجود ہے تو اس کو عربی خطبہ کے ساتھ خلط ملط کرنا درست نہیں کیونکہ عربی خطبہ جمعہ کی حقیقت اور اس سے مقصود ذکر اللہ ہے۔ باقی سب چیزیں مثلاً اس میں درود شریف پڑھنا ،مسلمانوں کے لیے دعا مانگنا ،قران کریم کی تلاوت کرنا اور وعظ و نصیحت کرنا سب سنت ہیں، ان پر خطبہ جمعہ کا اطلاق اگر کہیں ہوا ہے تو وہ مجازاً ہے۔
خطبہ جمعہ کے ذکر اللہ ہونے کا ثبوت:
قران کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
یا ایھا الذین آمنوا اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔
)سورۃ جمعہ پارہ28 آیت9(
”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے اذان کہی جائے تو تم فوراً اللہ کے ذکر کی طرف چل پڑا کرو اور خریدو فروخت کو چھوڑ دیا کرو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو۔ “
جمہور مفسرین کے ہاں اس آیت میں ذکر للہ سے مراد خطبہ جمعہ ہے کچھ مفسرین کی عبارا ت ملاحظہ فرمائیں:
1: شیخ ابو منصورماتریدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ذکر یجب الاستماع الیہ والسعی الیہ فدل ھذا علی فرضیۃ الجمعۃ ولما چبت ان المعنیٰ من قولہ (الی ذکر اللہ) ان المراد باذکر الخطبۃ ثم امر بترک البیع للسعی الی ھذا الذکر والاستماع لہ ثبت ان الاکلام فی وقت الخطبۃ مکروہ وفی وقت خروج الامام الی الخطبۃ مکروہ ایضا لان البیع فی ذالک الوقت مکروہ، والبیع کلم فیدل علی کراہیۃ کل کلام فیدل علی صحۃ مذہب ابی حنیفۃ رحمہ اللہ فی انہ یلزم السکوت اذا خرج الامام حتی یفرغ من الصلاۃ۔
)تفسیر تاویلات اہل السنۃ ج10 ص13 ناشر دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان (
ذکر کی طرف کان لگانا اور اس کے لیے فورا چلے جانا واجب ہے، لہذا یہ جمعہ کی فرضیت پر دلیل ہے، اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالی کے ارشاد (الیٰ ذکر اللہ) کے معنی یہ ہیں کہ اس ذکر سے مراد خطبہ ہے پھر خرید و فروخت کو چھوڑ کر اس ذکر کی طرف فورا چلے آنے اور اس کی طرف کان لگانے کا حکم ثابت کرتا ہے اس بات کو کہ کلام خطبہ کے وقت میں اور خطبہ کے لیے امام کے نکلنے کے وقت میں بھی مکروہ ہے ، اس لیے کہ اس وقت میں خرید و فروخت مکروہ ہے اور خرید و فروخت بھی کلام ہے لہٰذا یہ ہر کلام کے مکروہ ہونے پر دلیل ہے، اور اس میں امام اعظم ابو حنیفہ کے موقف کے صحیح ہونے پر بھی دلیل ہے، کہ جب امام خطبہ کے لیے نکل آئےتو اس کے نماز سے فارغ ہونے تک خاموش رہنا لازم ہے۔
2: امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ویدل ان المراد بالذکرہٰہنا الخطبۃ ان الخطبۃ ھی التی یلی النداء وقد امر بالسعی الیہ فدل ان المرادالخطبۃ۔
)احکام القرآن ج5ص338، 339(
کیونکہ اور حدیث دلیل ہے اس بات پر کہ یہاں ذکر سے مراد خطبہ ہے خطبہ ہی اذان سے ملا ہوا ہوتا ہے اور اسی کی طرف فورا ًچلے آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ ذکر سے خطبہ کے مراد ہونے پر دلیل ہے۔
3: علامہ ابو الحسن علی بن محمد الکیاالہراسی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قولہ (فاسعوا الی ذکر اللہ) یحتمل ان یرید بہ الصلاۃ ویحتمل الخطبۃ وھو عموم فیہما وانہا ثبت وجوبہما بدلیل آخر غیر ھذا اللفظ۔
)احکام القرآن للکیاالہراسی (
اللہ تعالیٰ کے ارشاد فاسعوا الی ذکر اللہ میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد نماز ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد خطبہ ہو اور یہ آیت ان دونوں میں عام ہے اور یقینا ًان دونوں کا وجوب اس لفظ کے علاوہ اور دلیل سے بھی ثابت ہے۔
4: علامہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی المتوفیٰ 671ھ فرماتے ہیں:
ان المراد بالذکر الصلاۃ فالخطبۃ من الصلاۃ واعبد یکون ذاکرا للہ بفعلہ کما یکون مسبحا للہ بفعلہ۔
)تفسیر قرطبی ج18ص107 (
ذکر سے مراد نماز ہے اور خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے اور بندہ بالفعل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ہوگا جیسا کہ بالفعل اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والا ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
والدلیل علی وجوبہا انہا تحرم البیع ولولا وجوبہا ما حرمتہ لان المستحب لا یحرم المباح .
)تفسیر قرطبی ج18 ص107(
اور خطبہ جمعہ کے واجب ہونے پر دلیل خرید و فروخت کا حرام ہونا ہے اگر خطبہ جمعہ واجب نہ ہوتا تو وہ خرید وفروخت کو حرام نہ کرتا اس لیے کہ مستحب چیز مباح کو حرام نہیں کرتی۔
5: علامہ محمد بن احمد بن جزی الکلبی الاندلسی المتوفیٰ 741ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وذکر اللہ یراد بہ الخطبۃ والصلاۃ .
)التسہیل لعلوم التنزیل ج2ص374(
اور اللہ کے ذکر سے مراد خطبہ اور نماز ہے۔
6: علامہ احمد بن اسماعیل بن عثمان الکورانی شہاب الدین الشافعی ثم الحنفی المتوفیٰ 893ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والمراد بذکر اللہ الخطبۃ۔
)غایۃ الامانی فی تفسیر الکلام الربانی ج1ص162(
آیت میں ذکر اللہ سے مراد خطبہ ہے۔
7: تفسیر بیضاوی ج5ص202 میں لکھا ہے:
والی ذکر الخطبۃ وقیل الصلاۃ والامر بالسعی الیہا یدل علی وجوبہا وذروا البیع واترکوا المعاملۃ ذالک ای السعی الی ذکر اللہ خیر لکم من المعاملۃ فان نفع الاخرۃ خیر وابقی .
فورا ًچلے ذکر اللہ کی طرف یعنی خطبہ کی طرف اور کہا گیا ہے نماز کی طرف اور خطبہ کی طرف فورا ًچلے آنے کا حکم اس کے وجوب پر دلالت کرتا ہے اور اللہ کا ارشاد وذروا البیع کہ خرید و فروخت کو چھوڑو دو۔ یعنی معاملات کو چھوڑ دو۔ یہ اللہ کے ذکر کی طرف فوراً چلے آنا تمہارے لیے معاملات سے بہتر ہے اس لیے کہ آخرت کا نفع زیادہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
8: علامہ زمخشری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وتسمیۃ اللہ الخطبۃ ذکر لہ قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ سبحان اللہ جاز وعن عثمان انہ صعد المنبر فقال الحمد للہ وارتجع علیہ فقال ان ابابکر وعمر یدعان لھذا المقام مقالا وانکم الی امام فقال احوج متکلم الی امام قوال وسقاتیکم الخطب ثم نزل وکان ذلک بحضرۃ الصحابۃ ولم ینکر علیہ احد۔
)تفسیر کشاف ج4ص535(
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مراد خطبہ ہے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فریاما ہے کہ اگر خطیب اتنی مقدار خطبہ پر اکتفاء کرے جیسے ذکر اللہ کہا جاسکے۔ مثلاً الحمد للہ سبحان اللہ کہے تو جائز ہے، اور روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف لے گئے اور الحمد للہ کہنے پائے تھے کہ آگے نہ چل سکے تب آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اس موقع کے لیے کلام تیار کر کے لاتے تھے تم بنسبت بہت زیادہ خطیب کے ایسے امام کے زیادہ محتاج ہو جو کام کرنے والا ہو اور عنقریب تمہارے سامنے خطبات بھی دیے جائیں گے پھر آپ نیچے تشریف لے آئے اور یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ہوا اور اس پر کسی نے انکار نہ کیا۔
ماکان من ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والثناء علیہ وعلی خلفائہ الراشدین واتقیاء المومنین والموعظۃ والتذکیر فھو فی حکم ذکر اللہ۔
)تفسیر کشاف ج4 ص535(
خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور آپ کے خلفاء راشدین اور مومن متقی حضرات کی تعریف اور وعظ و نصیحت یہ سب ذکر اللہ کے حکم میں ہے۔
9: علامہ نصر بن محمد ابو اللیث السمرقندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ذالک خیر لکم یعنی السعی الی الصلوٰۃ وترک الشراء والبیع والاستماع الی الخطبۃ خیر لکم من الشراء والبیع ان کنتم تعلمون۔
)تفسیر بحر العلوم السمر قندی ج3ص448 (
یہ بہتر ہے تمہارے لیے یعنی نماز کی طرف جلدی جانا خرید و فروخت کا چھوڑنا ، خطبہ توجہ سے سننا تمہارے لیے خرید و فروخت سے بہتر ہے اگر تمہیں شعور ہو
10: امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقولہ الی ذکر اللہ الذکر ھو الخطبۃ عند الاکثر من اہل التفسیر وقیل ھو الصلوٰۃ۔
)تفسیر کبیر ج30 ص542(
اللہ تعالیٰ کے ارشاد الی ذکر اللہ میں ذکر سے مراد اکثر مفسرین کے ہاں خطبہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نماز ہے۔
11: امام ابو محمد البغوی الشاعی المتوفیٰ 510ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قولہ الی ذکر اللہ ای الصلاۃ قال سعید بن المسیب فاسعوا الی ذکر اللہ قال ھو موعظۃ الامام۔
)معالم التنزیل ج5ص85(
اللہ تعالی کے ارشاد ذکر اللہ سے مراد نماز ہے اور حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ذکر اللہ سے مراد امام کا خطبہ ہے۔ ………) جاری ہے (