تشہد میں انگلی کا اشارہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تشہد میں انگلی کا اشارہ
……مفتی محمد نجیب قاسمی﷾
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا باتفاق فقہاءوعلماءسنت ہے اور صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماءاحناف کے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔ علماءاحناف کی طرح بے شمار محدثین وفقہاءوعلماءمثلاً امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒکا بھی یہ موقف ہے کہ تشہد میں صرف انگلی سے اشارہ کرنا ہے، اس کو حرکت دینا نہیں ہے۔
٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قعدہ میں تشہد پڑھتے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور انگوٹھے کو بیچ کی ا نگلی پر رکھتے۔
(صحیح مسلم۔ باب صفۃ الجلوس فی الصلاة(
٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اللہ کو (توحید کے ساتھ) پکارتے تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
اَنَّ النَّبِیَّﷺ کَانَ یشِیرُ بِاصبِعِہِ اِذَا دَعَا وَلَا یحَرِّکُہَا۔
(ابوداؤد۔ باب الاشارة فی التشہد، نسائی۔ باب بسط الیسریٰ علی الرکبۃ(
اس حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ تشہد میں حضور اکرمﷺ انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر اس کوبار بار حرکت نہیں دیتے تھے۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والےمعروف محدث حضرت امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
(المجموع)
امام ابن ملقن رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے۔
(خلاصۃ البدر المنیر۔ باب کیفیۃ الصلاة(
جو حضرات انگلی سے اشارہ کرنے کے بجائے انگلی کو حرکت دیتے رہتے ہیں، وہ حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین انگلیوں کو ملاکر حلقہ بنایا، ایک کو اٹھایا، میں نے دیکھا آپﷺ اس کو ہلاتے دعا کرتے۔
ثُمَّ قُبِضَ ثَلَاثَة مِّن اَصَابِعِہِ وَحَلَقَ حَلقَةً ثُمَّ رَفَعَ اصبَعَہُ فَرَاَیتُہُ یحَرِّکُہَا یدعُو بِہَا۔
(مسند احمد، بیہقی)
ان حضرات نے اس حدیث کی بنیاد پر نماز کے آخر تک انگلی کو حرکت دینے کے قول کو اختیار کیا حالانکہ اس حدیث میں اور نہ کسی دوسری حدیث میں یہ مذکور ہے کہ حرکت کی کیاصورت ہو، آہستہ یا تیز ؟اور کب تک یہ حرکت ہو۔؟ نیز اس حدیث کا یہ مفہوم لینے کی صورت میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے تعارض بھی ہورہا ہے جس میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپ ﷺ انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر حرکت نہیں کرتے تھے۔
چونکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث ان حضرات کے موقف کے واضح طور پر خلاف ہے، لہٰذا ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیا جائے باوجودیکہ مشہور ومعروف محدث امام نووی ؒ جیسے محدث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی ؒ کی خدمات کوساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ عصر حاضر میں شیخ ناصر الدین البانی نے اپنے مکتب فکر کی تائید کے لئے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی (محمد بن عجلانؒ) کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، جبکہ صحیح بخاری شریف کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام المحدثین علامہ ابن حجرعسقلانی ؒ نے ان کو (احد العلماء العاملین) کہہ کر ثقہ قرار دیا ہے۔
جس حدیث کی بنیاد پر یہ حضرات مسلسل حرکت کے قائل ہیں وہ حضرت عاصم ؒ سے 11 راویوں نے روایت کی ہے ، حضرت زائدہ بن قدامہ ؒ کے علاوہ تمام 10 راویوں نے یہ حدیث (یحَرِّکُہَا) کے لفظ کے بغیر روایت کی ہے، جو اس لفظ (یُحَرِّکُہَا) کے شاذ ہونے کی واضح دلیل ہے اور حدیث کے متفق علیہ اصول کی بنیاد پر حدیث میں یہ لفظ شاذ کہلائے گا، لہٰذا اس حدیث کو دلیل کو طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے، جیسا کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (صحیح ابن خزیمہ۔
باب صفۃ الیدین علی الرکبتین فی التشہد)
میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس کے شاذ ہونے کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: (احادیث میں سوائے اس حدیث کے کسی بھی حدیث میں "یحَرِّکُہَا" کا لفظ نہیں ہے)۔ صحیح مسلم میں اس موضوع سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں مگر ایک حدیث میں بھی حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے ، صحیح مسلم کی تمام ہی احادیث میں صرف اشارہ کا لفظ وارد ہونا اس بات کی واضح علامت ہے کہ اصل مطلوب صرف اشارہ ہے۔
مشہور ومعروف محدث امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی حدیث کی مشہور کتاب (سنن کبری للبیہقی۔باب من روی انہ اشار بہا ولم یحرکہا) میں دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح پیش کی ہے کہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد حرکت سے مراد اشارہ ہے نہ کہ اس کو بار بار حرکت دینا۔ کیونکہ اشارہ بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں، اس طرح حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے موافق ہوجائی گی۔ غرضیکہ اس موقف کو اختیار کرنے میں دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے گا اور کسی حدیث کو ضعیف قرار دینے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
مشہور ومعروف حنفی عرب عالم ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مرقاة میں بھی یہی تحریر کیا ہے کہ یہاں حرکت دینے سے مراد محض انگلی کا اٹھانا ہے اور اٹھانا بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں۔
(بحوالہ اعلاءالسنن(
غرضیکہ جمہور علماءخاص کر علماءاحناف، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒ جیسے جلیل القدر علماءنے یہی قول اختیار کیا ہے کہ تشہد میں انگلی سے ایک مرتبہ اشارہ کرنا کافی ہے، نماز کے اختتام تک برابر حرکت کرتے رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماءنے یہی قول اختیار کیا ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ لا الہ پر شہادت کی انگلی کے اٹھانے اور الا اللہ پر گرانے کا واضح ثبوت حضور اکرم ﷺ سے نہیں ملتا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ احادیث میں وارد اشارہ کا لفظ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں صرف اشارہ کرنا مراد ہے نہ کہ حرکت۔ اور اشارہ الا اللہ پر خود ہی ختم ہوجائے گا۔ صحیح مسلم میں متعدد جگہوں پر اس مسئلہ کے متعلق متعدد احادیث ذکر کی گئی ہیں مگر تمام ہی جگہوں پر صرف اشارہ کا لفظ وارد ہوا ہے، ایک جگہ پر بھی حرکت یا مسلسل حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ انگلی اٹھانے کا سلسلہ نماز کے اختتام تک جاری رکھنے یا نماز کے اختتام تک حرکت جاری رکھنے کا کوئی ثبوت نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں موجود نہیں ہے۔
اشارہ کی حقیقت:
آپ ﷺ کا یہ اشارہ دراصل توحید کا اشارہ تھا اور توحید تشہد کا نام ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی گواہی دینا ہے اور توحید میں ایک تو غیر اللہ سے الوہیت کی نفی ہے اور دوسرے اللہ کی الوہیت کا اقرار اور اثبات ہے تو اشارہ بھی نفی اور اثبات ہونا چاہئے، اس لئے علماءاحناف نے فرمایا کہ اثبات کے لئے انگلی اٹھانا اور نفی کے لئے انگلی کا رکھنا ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت خفاف بن ایماءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے اخیر میں یعنی قعدہ میں بیٹھتے تو اپنی انگلی مبارک سے اشارہ فرماتے تھے۔ مشرکین کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) آپﷺ اس اشارہ سے جادو کرتے ہیں، حالانکہ مشرکین جھوٹ بولتے تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ اس اشارہ سے توحید کا اشارہ کرتے تھے، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اشارہ ہے۔ (مجمع الزوائد۔ باب التشہد والجلوس والاشارة بالاصبع فیہ) محدث علامہ ہیثمی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
شہادت کی انگلی اٹھانے کی فضیلت:
امام نافع ؒ فرماتے ہیں کہ ا بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور نگاہ انگلی پر رکھتے، پھر (نماز کے بعد) فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
لھی اَشَدُّ عَلَی الشَّیطَانِ مِنَ الحَدِیدِ یعنِی السَّبَّابَة
یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے، یعنی تشہد کی حالت میں شہادت کی انگلی سے اللہ کی وحدانیت کا اشارہ کرنا شیطان پر کسی کو نیزے وغیرہ مارنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔
(مسند احمد (
انگلی سے اشارہ قبلہ کی طرف:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اشارہ کرتے ہوئے رخ قبلہ کی طرف ہوتا۔ (سنن کبری للبیہقی۔ باب کیفیۃ الاشارة بالمجۃ) یعنی اشارہ کے وقت انگلی کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے۔
خلاصہ کلام:
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کے سنت ہونے پر حضوراکرمﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماءکرام کا اتفاق ہے، اگرچہ اشارہ کرنے کی کیفیت میں اختلاف زمانہ قدیم سے چلا آر ہا ہے۔ امت مسلمہ کا اچھا خاصہ طبقہ نماز ہی پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر مسلمان کسی طرح نماز پڑھنے والا بن جائے، اور ہم اپنی اصلاح کی بھی فکر کریں کہ اللہ ہمیں خشوع و خضوع اور خشیت والی نعمتیں نصیب فرمائے۔ نیز ہم اپنی صلاحیت اس بات پر لگائیں کہ کس طرح عام مسلمان حرام روزی سے بچ کر حلال روزی پر اکتفاءکرنے والا بن جائے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کریں۔
غرضیکہ تشہد میں اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماءاحناف کے ہاں بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔