نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر2:
……مولانا عبدالغفار حسین، انڈیا
نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں؟؟
دلیل نمبر3:
۱: حدثنا فھد،حدثنا یحیی بن عبدالحمید ،حدثنا عبدالواحد بن زیاد عن عبدالرحمن بن اسحاق عن سیار ابی الحکم عن ابی وائل قال قال ابو ھریرةؓ من السنةاخذ الکف (علی الکف) فی الصلوة تحت السرة۔
(مسند الامام طحاوی)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے “
۲: حدثنا مسدد،حدثنا عبدالواحد بن زیاد عن عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی عن سیار ابی الحکم عن ابی وائل قال قال ابو ھریرة رضی اللہ عنہ اخذ الکف علی الکف فی الصلوة تحت السرة۔
(سنن ابی داؤدنسخۃ ابن الاعرابی(
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا ہے “
عبدالرحمٰن دو ہیں۔

I.

وہی جن کا ذکر اوپر آیا یعنی عبد الرحمٰن کو فی۔

II.

ایک عبد الرحمن مدینہ کے رہنے والے ہیں اور قریشی ہیں ان کا لقب عباد ہے اور صحیح مسلم کے راوی ہیں۔
اس روایت میں کون سے عبد الرحمٰن ہیں ؟
اگر پہلے والے ہی عبد الرحمٰن ہیں تو ہم نے ثابت کردیا کہ ان کی حدیث حسن ہے لہٰذا یہ حدیث بھی حسن ہو گی اور قابل قبول ہوگی اور اگر یہاں دوسرے عبدالرحمٰن مراد ہوں تب تو کوئی سوال ہی نہیں یہ حدیث بالکل صحیح ہوگی کیونکہ یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ امام احمد ؒ ،امام بخاری ؒ اور امام ترمذی ؒ نے ان کو ثقہ کہاہے۔
محدثین کا اختلاف ہے کہ سیارابوالحکم سے روایت کرنے والے عبد الرحمٰن کون سے ہیں ؟ بعض فرماتے ہیں کہ سیارابوالحکم سے روایت کرنے والے عبدالرحمٰن کوفی ہیں جیسا کہ سنن ابو داؤد میں عبد الرحمٰن کے آگے الکوفی لگا ہوا ہے۔ (التہذیب (
جبکہ بعض محدثین نے کہا کہ سیارابوالحکم سے روایت کرنے والے عبدالرحمٰن مدنی ہیں۔
(الجرح والتعدیل(
اور یہ دوسری بات قرین قیاس بھی ہے کیونکہ
تحت السرة والی حدیث کے علاوہ حدیث کی کتابوں میں جہاں کہیں اس سند کے ساتھ کوئی حدیث آئی ہے اس میں عبد الرحمٰن کے آگے یا تو قریشی کی نسبت ہے جیسا کہ فضائل صحابہ لامام احمد،مسند احمد ،مستدرک حاکم اورالدعوات الکبیر للبیہقی میں قریشی کی نسبت ہے اوریا پھرکوئی نسبت ہی نہیں ہے جیسا کہ مسند بزار ،الدعاءللطبرانی اور سنن دار قطنی میں ہے۔ کوفی کی نسبت کہیں نہیں ہے توپھر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت میں ہی کوفی نسبت کیسے لگ گئی ؟
یہی بات البانی صاحب کہتے ہیں۔
چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن ترمذی میں ایک حدیث اسی سند کے ساتھ
(عن عبدالرحمن بن اسحاق عن سیار ابی الحکم عن ابی وائل عن علی رضی اللہ عنہ اللھم اکفنی بحلالک عن حرامک الخ )
لائے ہیں اور اس کو” حسن“ کہا ہے اورسنن ترمذی کے شارح اہل حدیث مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے مبارک پوری نے اس حدیث کو” ضعیف“ کہاہے کیونکہ اس میں راوی عبدالرحمٰن ہیں اور وہ بالاتفاق ضعیف ہیں ،اس پر محترم البانی صاحب کہتے ہیں:” اس روایت میں عبد الرحمٰن کوفی نہیں ہیں بلکہ عبدالرحمٰن مدنی ہیں ، لیکن چونکہ سنن ترمذی میں عبدالرحمٰن کے آگے قریشی کی نسبت نہیں لگی ہے ،نیز” تہذیب “میں سیار کو عبدالرحمٰن کوفی کے اساتذہ میں شمار کیا گیا ہے اور دونوں عبدالرحمٰن ایک ہی طبقے کے ہیں ، ان وجوہات کی بنا پر علامہ مبارک پوری کووہم ہو گیا کہ یہ عبدالرحمٰن کوفی ہیں، مدنی نہیں۔ جبکہ یہ غلط ہے۔ اگر مبارک پوری صاحب ”الجرح والتعدیل “دیکھ لیتے تو ان معلوم ہوتا کہ معاملہ پورا الٹا ہے یعنی سیار سے روایت کرنے والے عبدالرحمٰن کوفی نہیں، بلکہ مدنی ہیں۔ اور حدیث کی کئی کتابوں میں اس حدیث میں ہم کو عبدالرحمٰن کے آگے قریشی کی نسبت دریافت ہوئی ہے
والذی اوقع المبارکفوری فی ذلک الوھم اموراولا انہ لم ینسب قرشیا کما سبق ،ثانیا انھما من طبقة واحدة،ثالثاانہ رای فی ترجمتہ فی ” التھذیب “انہ روی عن سیاروعنہ ابو معاویہ وھو کذلک فی ھذا الحدیث ولم یر مثل ذلک فی ترجمة الاول ولکنہ لو رجع الی ترجمتھما فی ” الجرح والتعدیل“ لوجد عکس ذلک تماماً فی سیار فانہ ذکرہ فی شیوخ الاول لافی شیوخ ھذا فلو رای ذلک لم یجزم بانہ الثانی بل لتوقف حتی اذا ما وقف علی الزیادة التی وقفنا علیھا فی سندہ وھی (القرشی )اذن لجزم بما جزمنا نحن بہ .
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (
معلوم ہوا کہ البانی صاحب کے یہاں اس سند میں عبدالرحمٰن مدنی ہی ہوتے ہیں تب ہی تو انہوں نے اس حدیث (اللھم اکفنی الخ )کو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ یعنی صحیح حدیثوں کے سلسلہ میں جگہ دی ہے۔ لہٰذا ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی یہ حدیث بھی صحیح ہوگی۔
اب یہ کہناقطعاً درست نہیں کہ صبح قیامت تک کوئی ایک صحیح حدیث نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی نہیں پیش کرسکتا۔ہم نے اللہ کی توفیق سے آپ کے سامنے ایک حسن حدیث اوردو صحیح حدیثیں پیش کردیں۔
رہ گئیں سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایات ،تو وہ احادیث بھی حسن کے درجے کی ہی ہیں کیونکہ ان کے راویوں کے بارے میں حفظ و یادداشت کے متعلق ہی جرح کی گئی ہے چنانچہ صحیح ابن خزیمہ کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث کے راوی مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں حضرات محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔
یحیٰ بن معین فرماتے ہیں : ثقہ ہیں
(سیر اعلام النبلاء(
امام ابوحاتم فرماتے ہیں : ثقہ ہیں ،غلطیاں بہت کرتے ہیں (سیر اعلام النبلاء(
امام ابو داؤد فرماتے ہیں : بہت اچھے اور بڑے ہیں لیکن وہم کے شکار ہیں
(سیر اعلام النبلاء(
امام احمد فرماتے ہیں : مؤمل غلطی کرتے ہیں (موسوعۃ اقوال الاما م احمد (
امام بخاری فرماتے ہیں : ان کی حدیث منکر ہے
(سیر اعلام النبلاء(
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : سچے ہیں لیکن برے حافظے والے ہیں۔
(تہذیب التہذیب(
حافظ ذہبی فرماتے ہیں : ان کی کتابیں دفن ہوگئیں تو اپنے حافظے سے حدیث بیان کرنے لگے جس کی وجہ سے ان سے غلطیاں ہونے لگیں ( التہذیب(
نوٹ : مذکورہ بالا روایت اور اس کے مرکزی راوی مؤمل بن اسماعیل کے بارے تفصیلی بحث محترم مفتی شبیر احمد حنفی کے تحقیقی مضمون مؤمل بن اسماعیل فی میزان الجرح والتعدیل شائع شدہ ”قافلہ حق“ بابت ماہ جنوری 2015 میں ملاحظہ فرمائیں۔
اسی طرح مسند احمد کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث کے راوی سماک بن حرب کے بارے میں حضرات محدثین تقریباًیہی فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ تو ہیں لیکن حافظہ کےاعتبار سے کمزور ہیں چنانچہ
امام احمد فرماتے ہیں : سماک کی حدیث مضطرب ہے۔
امام نسائی فرماتے ہیں : سماک اگر اکیلے ہو ں تو بالکل حجت نہیں ہیں کیونکہ تلقین قبول کرتے تھے۔
ابن عمار فرماتے ہیں : سماک غلطی کرتے تھے۔
یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں : سماک نیک ہیں لیکن پختہ نہیں ہے۔
)میزان الاعتدال تحت الترجمہ(
نیز مسند احمد کی روایت میں قبیصہ بن ہلب مجہول راوی ہیں ان سے روایت کرنے والے صرف ایک راوی سماک بن حرب منفرد ہیں اس لئے دونوں روایتیں ”حسن“ کے درجہ سے آگے نہیں بڑھ سکتیں۔
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایت حسن ہونے کے باوجود ہم نے دو وجہوں سے اس عمل نہیں کیا۔
۱: حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین میں سے کسی نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا صحابہ کرام میں بعض ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے اور بعض ناف کے اوپر ،ناف کے اوپر اور نیچے میں کوئی سختی نہیں ہے بلکہ دونوں درست ہیں چنانچہ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں:
والعمل علی ھذا عند اہل العلم من اصحاب النبیﷺ والتابعین ومن بعدھم یرون ان یضع الرجل یمینہ علی شمالہ فی الصلاة ،ورای بعضھم ان یضعھما فوق السرة وای بعضھم ان یضعھما تحت السرة وکل ذالک واسع عندھم۔
(سنن الترمذی حدیث ۲۵۲)
اگر صحابہ وتابعین میں کوئی سینہ پر ہاتھ باندھنے والا ہوتا تو امام ترمذیؒ ضرور ذکر کرتے ،بلکہ حضرات محدثین نے سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت سے ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے پر استدلال کیا ہے۔ چنانچہ علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں:
ودلیل وضعھما فوق السرة حدیث وائل بن حجر ؓ قال صلیت مع رسول اللہ ﷺووضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ ،رواہ ابن خزیمة فی صحیحہ
(شرح مسلم للنووی)
معلوم ہوا کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا تصور ہی نہیں تھا۔ نہ صحابہ کے زمانے میں نہ تابعین کے زمانے اور نہ محدثین کے زمانے میں ،پھر یہ نئی چیز کہاں سے آگئی ؟؟
۲: سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیث کے خلاف نہیں ہے کیونکہ سینے پر ہاتھ باندھنا ایک دو بار کا عمل ہے اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہمیشہ کا عمل ہے ،جو” سنت“ کہلاتا ہے۔ لہٰذا اگر حضور ﷺ نے ایک دو بار سینے پر ہاتھ باندھا ہو تو اس سے انکار نہیں البتہ سنت یعنی ہمیشہ کا عمل ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے ، اور شاید اسی لئے صحابہ وتابعین میں سے کسی نے سینے پر ہاتھ باندھنے کو اختیار نہیں کیا۔
اور ہمیں ارشاد نبوی کے مطابق سنت اختیار کرنے کا حکم ہے ایک دو بار کا عمل نہیں اس کی حضورﷺ نے خاص نصیحت فرمائی۔
علیکم بسنتی وسنة الخلفاءالراشدین المھدیین تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ وایاکم ومحدثات الامورفان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة۔
(حدیث صحیح رواہ احمدوابو داود والترمذی وابن ماجۃ وابن حبان والحاکم وغیرھم (