ہدایات برائےحجاج کرام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہدایات برائےحجاج کرام
مولانا یوسف لدھیانوی شہید﷫
اسلام کا عظیم الشان رُکن ہے۔ اسلام کی تکمیل کا اعلان حجۃالوداع کے موقع پر ہوا، اور حج ہی سے ارکانِ اسلام کی تکمیل ہوتی ہے۔ احادیثِ طیبہ میں حج و عمرہ کے فضائل بہت کثرت سے ارشاد فرمائے گئے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من حَجَّ ِللهِ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیومٍ ولدتہ أُمُّہ۔
(متفق علیہ ،مشکوٰة ص:۲۲۱)
ترجمہ:… ”جس نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا، پھر اس میں نہ کوئی فحش بات کی اور نہ نافرمانی کی، وہ ایسا پاک صاف ہوکر آتا ہے جیسا ولادت کے دن تھا۔“
ایک اور حدیث میں ہے:
سئل رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أیُّ العمل أفضل؟ قال: ایمان بالله ورسولہ۔ قیل: ثم ماذا؟ قال: الجھاد فی سبیل الله۔ قیل: ثم ماذا؟ قال: حَجّ مبرورٌ۔
(متفق علیہ۔مشکوٰة ص:۲۲۱)
ترجمہ:… ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا: اس کے بعد؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔ عرض کیا گیا: اس کے بعد؟ فرمایا: حجِ مبرور۔“
ایک اور حدیث میں ہے:
”پے در پے حج و عمرے کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں سے اس طرح صاف کردیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کو صاف کردیتی ہے، اور حجِ مبرور کا ثواب صرف جنت ہے۔“
(مشکوٰة ص:۲۲۲)
حج، عشقِ الٰہی کا مظہر ہے، اور بیت اللہ شریف مرکزِ تجلیاتِ الٰہی ہے، اس لئے بیت اللہ شریف کی زیارت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں حاضری ہر موٴمن کی جانِ تمنا ہے، اگر کسی کے دِل میں یہ آرزو چٹکیاں نہیں لیتی تو سمجھنا چاہئے کہ اس کے ایمان کی جڑیں خشک ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے:
”وعن علیّ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من ملک زادًا وراحلةً تبلغہ الٰی بیت الله ولم یحجّ فلا علیہ أن یموت یھودیًّا أو نصرانیًّا۔۔ الخ۔“
(مشکوٰة ص:۲۲۲)
ترجمہ:… ”جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کے لئے زاد و راہ رکھتا تھا اس کے باوجود اس نے حج نہیں کیا، تو اس کے حق میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرے۔“
ایک اور حدیث میں ہے:
وعن أبی أمامة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من لم یمنعہ من الحجّ حاجة ظاھرةٌ أو سلطانٌ جائرٌ أو مرضٌ حابسٌ فمات ولم یحجّ ، فلیمت ان شاء یھودیًّا وان شاء نصرانیًّا۔
(مشکوٰة ص:۲۲۲)
ترجمہ:… ”جس شخص کو حج کرنے سے نہ کوئی ظاہری حاجت مانع تھی، نہ سلطانِ جائر اور نہ بیماری کا عذر تھا، تو اسے اختیار ہے کہ خواہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔“
ذرائعِ مواصلات کی سہولت اور مال کی فراوانی کی وجہ سے سال بہ سال حجاجِ کرام کی مردم شماری میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن بہت ہی رنج و صدمہ کی بات ہے کہ حج کے انوار و برکات مدہم ہوتے جارہے ہیں، اور جو فوائد و ثمرات حج پر مرتب ہونے چاہئیں ان سے اُمت محروم ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بہت تھوڑے بندے ایسے رہ گئے ہیں جو فریضہٴ حج کو اس کے شرائط و آداب کی رعایت کرتے ہوئے ٹھیک ٹھیک بجا لاتے ہوں، ورنہ اکثر حاجی صاحبان اپنا حج غارت کرکے ”نیکی برباد، گناہ لازم“ کا مصداق بن کر آتے ہیں۔ نہ حج کا صحیح مقصد ان کا مطمحِ نظر ہوتا ہے، نہ حج کے مسائل و اَحکام سے انہیں واقفیت ہوتی ہے، نہ یہ سیکھتے ہیں کہ حج کیسے کیا جاتا ہے؟ اور نہ ان پاک مقامات کی عظمت و حرمت کا پورا لحاظ کرتے ہیں۔
بلکہ اب تو ایسے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں کہ حج کے دوران محرّمات کا ارتکاب ایک فیشن بن گیا ہے، اور یہ اُمت گناہ کو گناہ ماننے کے لئے بھی تیار نہیں، انا لله وانا الیہ راجعون! ظاہر ہے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکام سے بغاوت کرتے ہوئے جو حج کیا جائے، وہ انوار و برکات کا کس طرح حامل ہوسکتا ہے؟ اور رحمتِ خداوندی کو کس طرح متوجہ کرسکتا ہے؟
حاجی صاحبان کے قافلے گھر سے رُخصت ہوتے ہیں تو پھولوں کے ہار پہننا پہنانا گویا حج کا لازمہ ہے کہ اس کے بغیر حاجی کا جانا ہی معیوب ہے۔ چلتے وقت جو خشیت و تقویٰ، حقوق کی ادائیگی، معاملات کی صفائی اور سفر شروع کرنے کے آداب کا اہتمام ہونا چاہئے، اس کا دُور دُور کہیں نشان نظر نہیں آتا۔ گویا سفرِ مبارک کا آغاز ہی آداب کے بغیر محض نمود و نمائش اور ریاکاری کے ماحول میں ہوتا ہے۔ اب ایک عرصہ سے صدرِ مملکت، گورنر یا اعلیٰ حکام کی طرف سے جہاز پر حاجی صاحبان کو الوداع کہنے کی رسم شروع ہوئی ہے، اس موقع پر بینڈباجے، فوٹوگرافی اور نعرہ بازی کا سرکاری طور پر ”اہتمام“ ہوتا ہے۔ غور فرمایا جائے کہ یہ کتنے محرّمات کا مجموعہ ہے․․․! سفرِ حج کے دوران نمازِ باجماعت تو کیا، ہزاروں میں کوئی ایک آدھ حاجی ایسا ہوتا ہوگا جس کو اس کا پورا پورا احساس ہوتا ہو کہ اس مقدس سفر کے دوران کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے، ورنہ حجاجِ کرام تو گھر سے نمازیں معاف کراکر چلتے ہیں، اور بہت سے وقت بے وقت جیسے بن پڑے پڑھ لیتے ہیں۔ مگر نمازوں کا اہتمام ان کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا بلکہ بعض تو حرمین شریفین پہنچ کر بھی نمازوں کے اوقات میں بازاروں کی رونق دوبالا کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں حج کے سلسلے میں جو اہم ہدایت دی گئی ہے وہ یہ ہے: ”حج کے دوران نہ فحش کلامی ہو، نہ حکم عدولی اور نہ لڑائی جھگڑا۔“ اور احادیثِ طیبہ میں بھی حجِ مقبول کی علامت یہی بتائی گئی ہے کہ: ”وہ فحش کلامی اور نافرمانی سے پاک ہو۔“ لیکن حاجی صاحبان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان ہدایات کو پیشِ نظر رکھتے ہوں اور اپنے حج کو غارت ہونے سے بچاتے ہوں۔ گانا بجانا اور داڑھی منڈانا، بغیر کسی اختلاف کے حرام اور گناہِ کبیرہ ہیں۔ لیکن حاجی صاحبان نے ان کو گویا گناہوں کی فہرست ہی سے خارج کردیا ہے، حج کا سفر ہو رہا ہے اور بڑے اہتمام سے داڑھیاں صاف کی جارہی ہیں، اور ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر سے نغمے سنے جارہے ہیں، انا لله وانا الیہ راجعون!
اس نوعیت کے بیسیوں گناہِ کبیرہ اور ہیں جن کے حاجی صاحبان عادی ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں جاتے ہوئے بھی ان کو نہیں چھوڑتے۔ حاجی صاحبان کی یہ حالت دیکھ کر ایسی اذیت ہوتی ہے جس کے اظہار کے لئے موزوں الفاظ نہیں ملتے۔ اسی طرح سفرِ حج کے دوران عورتوں کی بے حجابی بھی عام ہے، بہت سے مردوں کے ساتھ عورتیں بھی دورانِ سفر برہنہ سر نظر آتی ہیں اور غضب یہ ہے کہ بہت سی عورتیں شرعی محرَم کے بغیر سفرِ حج پر چلی جاتی ہیں اور جھوٹ موٹ کسی کو محرَم لکھوادیتی ہیں۔ اس سے جو گندگی پھیلتی ہے وہ ”اگر گویم زبان سوزد“ کی مصداق ہے۔
جہاں تک اس ارشاد کا تعلق ہے کہ: ”حج کے دوران لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہئے“، اس کا منشا یہ ہے کہ اس سفر میں چونکہ ہجوم بہت ہوتا ہے اور سفر بھی طویل ہوتا ہے، اس لئے دورانِ سفر ایک دُوسرے سے ناگواریوں کا پیش آنا اور آپس کے جذبات میں تصادم کا ہونا یقینی ہے، اور سفر کی ناگواریوں کو برداشت کرنا اور لوگوں کی اذیتوں پر برافروختہ نہ ہونا بلکہ تحمل سے کام لینا یہی اس سفر کی سب سے بڑی کرامت ہے۔ اس کا حل یہی ہوسکتا ہے کہ ہر حاجی اپنے رفقاء کے جذبات کا احترام کرے، دُوسروں کی طرف سے اپنے آئینہٴ دِل کو صاف و شفاف رکھے، اور اس راستے میں جو ناگواری بھی پیش آئے، اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔ خود اس کا پورا اہتمام کرے کہ اس کی طرف سے کسی کو ذرا بھی اذیت نہ پہنچے اور دُوسروں سے جو اذیت اس کو پہنچے اس پر کسی رَدِّ عمل کا اظہار نہ کرے۔ دُوسروں کے لئے اپنے جذبات کی قربانی دینا اس سفرِ مبارک کی سب سے بڑی سوغات ہے، اور اس دولت کے حصول کے لئے بڑے مجاہدے و ریاضت اور بلند حوصلے کی ضرورت ہے، اور یہ چیز اہل اللہ کی صحبت کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔
عازمینِ حج کی خدمت میں بڑی خیرخواہی اور نہایت دِل سوزی سے گزارش ہے کہ اپنے اس مبارک سفر کو زیادہ سے زیادہ برکت و سعادت کا ذریعہ بنانے کے لئے مندرجہ ذیل معروضات کو پیش نظر رکھیں:
چونکہ آپ محبوبِ حقیقی کے راستے میں نکلے ہوئے ہیں، اس لئے آپ کے اس مقدس سفر کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، اور شیطان آپ کے اوقات ضائع کرنے کی کوشش کرے گا۔جس طرح سفرِ حج کے لئے ساز و سامان اور ضروریاتِ سفر مہیا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر حج کے اَحکام و مسائل سیکھنے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ اور اگر سفر سے پہلے اس کا موقع نہیں ملا تو کم از کم سفر کے دوران اس کا اہتمام کرلیا جائے کہ کسی عالم سے ہر موقع کے مسائل پوچھ پوچھ کر ان پر عمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل کتابیں ساتھ رہنی چاہئیں اور ان کا بار بار مطالعہ کرنا چاہئے، خصوصاً ہر موقع پر اس سے متعلقہ حصے کا مطالعہ خوب غور سے کرتے رہنا چاہئے، کتابیں یہ ہیں:
۱:…”فضائلِ حج“ از حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نوّر اللہ مرقدہ۔
۲:…”آپ حج کیسے کریں؟“ از مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہ۔
۳:…”معلّم الحجاج“ از مولانا مفتی سعید احمد مرحوم۔
اس مبارک سفر کے دوران تمام گناہوں سے پرہیز کریں اور عمر بھر کے لئے گناہوں سے بچنے کا عزم کریں، اور اس کے لئے حق تعالیٰ شانہ سے خصوصی دُعائیں بھی مانگیں۔ یہ بات خوب اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہئے کہ حجِ مقبول کی علامت ہی یہ ہے کہ حج کے بعد آدمی کی زندگی میں دِینی انقلاب آجائے۔ جو شخص حج کے بعد بھی بدستور فرائض کا تارک اور ناجائز کاموں کا مرتکب ہے، اس کا حج مقبول نہیں۔
آپ کا زیادہ سے زیادہ وقت حرم شریف میں گزرنا چاہئےاور سوائے اشد ضرورت کے بازاروں کا گشت قطعاً نہیں ہونا چاہئے۔ دُنیا کا ساز و سامان آپ کو مہنگا سستا، اچھا بُرا اپنے وطن میں بھی مل سکتا ہے، لیکن حرم شریف سے میسر آنے والی سعادتیں آپ کو کسی دُوسری جگہ میسر نہیں آئیں گی۔ وہاں خریداری کا اہتمام نہ کریں، خصوصاً وہاں سے ریڈیو، ٹیلیویژن، ایسی چیزیں لانا بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ کسی زمانے میں حج و عمرہ اور کھجور اور آبِ زم زم، حرمین شریفین کی سوغات تھیں۔ اور اب ریڈیو، ٹیلیویژن ایسی ناپاک اور گندی چیزیں حرمین شریفین سے بطورِ تحفہ لائی جاتی ہیں۔چونکہ حج کے موقع پر اطراف و اکناف سے مختلف مسلک کے لوگ جمع ہوتے ہیں، اس لئے کسی کو کوئی عمل کرتا ہوا دیکھ کر وہ عمل شروع نہ کردیں، بلکہ یہ تحقیق کرلیں کہ آیا یہ عمل آپ کے حنفی مسلک کے مطابق صحیح بھی ہے یا نہیں؟ یہاں بطور مثال دو مسئلے ذکر کرتا ہوں۔
۱:… نمازِ فجر سے بعد اِشراق تک اور نمازِ عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک دوگانہ طواف پڑھنے کی اجازت نہیں، اسی طرح مکروہ اوقات میں بھی اس کی اجازت نہیں، لیکن بہت سے لوگ دُوسروں کی دیکھا دیکھی پڑھتے رہتے ہیں۔
۲:… اِحرام کھولنے کے بعد سر کا منڈوانا افضل ہے اور ایسے لوگوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دُعا فرمائی ہے، اور قینچی یا مشین سے بال اُتروا لینا بھی جائز ہے۔ اِحرام کھولنے کے لئے کم از کم چوتھائی سر کا صاف کرانا یا کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر اِحرام نہیں کھلتا، لیکن بے شمار لوگ جن کو صحیح مسئلے کا علم نہیں، وہ دُوسروں کی دیکھا دیکھی کانوں کے اُوپر سے چند بال کٹوالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اِحرام کھول لیا، حالانکہ اس سے ان کا اِحرام نہیں کھلتا اور کپڑے پہننے اور اِحرام کے منافی کام کرنے سے ان کے ذمہ دَم واجب ہوجاتا ہے۔ الغرض صرف لوگوں کی دیکھا دیکھی کوئی کام نہ کریں بلکہ اہلِ علم سے مسائل کی خوب تحقیق کرلیا کریں۔
نوٹ : اس مضمون میں معمولی تبدیلی کی گئی ہے۔