الاشباہ والنظائر

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ :
………مفتی محمد یوسف ﷾
الاشباہ والنظائر (5)
گزشتہ اقساط میں آپ یہ پڑھ چکے ہیں کہ زیر بحث کتاب فقہی قواعد و اصول پر مشتمل ہے۔ صاحب کتاب علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ نے اس میں 25 قواعدکلیہ ذکر کیے ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک قاعدہ بذات خودمختلف اصول و قواعد پر مشتمل ہے گویا ان قواعد کے تحت سینکڑوں مسائل و جزئیات فقہیہ کو بیان کیا گیا ہے۔
کتاب میں درج شدہ قواعد میں سے ہر ایک قاعدہ اپنی جگہ مسلّم ہے اور بے پناہ جامعیت و اہمیت کا حامل ہے ، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر ہر اصول پر قدرے تفصیلی بات کی جائے مگر طوالت کا خوف دامن گیر ہے اس لیے مختصراً چند قواعد پر روشنی ڈالتے ہیں۔
پہلا قاعدہ:
درء المفاسد اولی من جلب المنافع۔
مفاسد کو دور کرنا منفعت کے حصول سے زیادہ اہم ہے۔
آگے مصنف رحمہ اللہ نے اس قاعدہ کی وجہ و علت کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب کسی کام میں فساد بھی پایا جائے اور مصلحت بھی موجود ہو تو اکثر حالات میں فساد کو زائل کرنا زیادہ بہتر قرار پائے گا۔
کیونکہ شریعت نے ممنوعات کو مامورات کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :
اذا امرتکم بشیء فاتوا منہ ما استطعتم واذا نہیتکم عن شیء فاجتنبوہ۔
)صحیح بخاری کتاب الاعتصام(
جب میں تم کو کسی کام کا حکم دوں تو اس کو اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ لیکن جب میں تم کو کسی کام سے منع کر دوں تو اس سے بالکل اجتناب کرو۔
اس حدیث پاک سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ جب فساد اور مصلحت کا کسی جگہ ٹکراؤ ہو جائے تو اس وقت فساد کو دور کرنا زیادہ اہم ہے۔
مثال : جب کسی عورت پر غسل فرض ہو اور اس کے لیے مردوں سے پردہ کر کے غسل کرنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو وہ مردوں کے سامنے غسل نہ کرے بلکہ اسے موخر کر دے۔
دوسرا قاعدہ:
اذا اجتمع امران من جنس واحد ولم یختلف مقصودھما دخل احدھما فی الآخر غالبا۔
جب دو چیزیں ایک ہی جنس کی جمع ہو جائیں اور ان دونوں کا مقصود مختلف نہ ہو تو وہ دونوں چیزیں ایک دوسرے میں داخل ہو جائیں گی۔
مثال :اگر کسی عورت میں جنابت اور حیض جمع ہو جائیں تو مذکورہ قاعدے کے مطابق اس کو ایک ہی غسل کرنا کافی ہوگا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہوا اور داخل ہوتے ہی بیٹھنے سے پہلے فرض یا سنت نماز شروع کردی تو اس میں تحیۃ المسجد بھی داخل ہو جائے گی یعنی فرض یا سنت نماز ادا کرنے بعد تحیۃ المسجد کا ثواب بھی مل جائے گا بعد میں تحیۃ المسجد پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
تیسرا قاعدہ :
السوال معاد فی الجواب۔
یعنی کسی سوال کے جواب میں اسی سوال کا اعادہ لازما تسلیم کیا جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی سوال کا جواب دینے والے نے تصدیق کی تو اس کی طرف سے محض ایک بات کی نہیں بلکہ ان تمام باتوں کی تصدیق سمجھی جائے گی جو اس سوال میں بیان کی گئی تھیں۔
اس قاعدہ کی مثال یہ ہے کہ آصف نے عدالت میں جج کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ کاشف نے مجھ سے موٹر سائیکل خریدا تھا اس کی قیمت کے پچاس ہزار روپے اس نے مجھے دینے ہیں۔ یہ رقم اس کے ذمہ واجب الادا ہے۔ جج نے یہ سن کر کاشف سے دریافت کیا کہ جس رقم کا آصف نے دعوی کیا ہے کیا یہ رقم واقعتا آپ کے ذمہ واجب الاداء ہے ؟ جواب میں کاشف نے کہا : ”ہاں“۔
تو کاشف کے تسلیم کر لینے سے اس بات کی تصدیق سمجھی جائے گی کہ آصف کا دعویٰ صحیح ہے اور یہ ہاں کہنا اس امر کی اطلاع سمجھی جائے گی کہ مدعی نے جو کچھ کہا ہے وہی درست بات ہے۔
اسی طرح اگر ایک آدمی نے دوسرے سے پوچھا کیا آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے ؟ جواب میں اس نے کہا” ہاں “
تو اس کے ”ہاں“ کہنے کی وجہ سے اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی کیونکہ جواب دینے والے نے تسلیم کر کے اس چیز کا اقرار کر لیا جس سے متعلق اس سے سوال کیا گیا تھا۔
قارئین کرام !
ان شاء اللہ آئندہ قسط میں ”الاشباہ والنظائر“ کی چند اہم شروحات اور ان کے شارحین کے مختصر حالات کا تذکرہ کریں گے۔
……)جاری ہے

(