تقلید ائمہ کی اہمیت وضرورت

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تقلید ائمہ کی اہمیت وضرورت
……عبد العلیم اسماعیل ندوی﷾
تقلید کامفہوم :
قرآن وسنت ایک مسلمان کی زندگی کے لیے رگِ جان کی حیثیت رکھتے ہیں اوراسلامی معاشرے کے قائم ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ کتاب وسنت کے مطابق زندگی گزاری جائے ،اس کے لیے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا ، اس کی تعلیم حاصل کرنا اوراس کو سمجھنا ناگزیر ہے۔
ظاہر بات ہے یہ کام ہر کس وناکس کا نہیں ہے اس کے لیے محنت اور یکسوئی کے ساتھ ساتھ طویل وقت بھی درکار ہے ، جس کا ہر کوئی متحمل نہیں ہو سکتا، عام طور پر دنیاوی مشاغل ، ضروریات اور کسب معاش کے تقاضے اس راہ میں آڑے آہی جاتے ہیں اور بڑے بڑے حوصلہ مندوں کو بھی آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے کے سارے مسلمان کلی طور پر علم دین کے حاصل کرنے او رکتاب وسنت میں گہرائی حاصل کرنے کے لیے فارغ ہوجائیں تو دنیا کاسارا نظام ٹھپ پڑجائے گا اور کاروبار دنیا تباہ وبرباد ہوکر رہ جائے گا، اور یہ قدرت کے قانون اور انسان کی پیدائش کے مقصد کے خلاف ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے قرآن میں جہاں تفقہ فی الدین کی ترغیب دی ہے،وہاں سارے کے سارے لوگوں کو مخاطب نہیں کیا ہے بلکہ ایک گروہ یا جماعت کو اس پر ابھارا ہے کہ وہ دین میں مہارت حاصل کریں اور اپنے علاقہ والوں کی اصلاح کا کام کریں، چنانچہ ارشاد باری ہے:
فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومھم إذا رجعوا إلیھم
[سورۃ التوبۃ]
یہی وجہ ہے کہ ہرزمانہ میں علم دین کے لیے کلی طور پر فارغ ہونے والے بہت تھوڑے رہے ہیں اور ان تھوڑوں میں بھی اجتہاد وکمال تک پہونچنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں اس لیے کہ فہم وفراست ، عقل وتدبر اور علمی صلاحیت ہر ایک کی یکساں نہیں رہتی۔ جیسا کہ خود حدیث شریف میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:’’لیبلغ الشاھد الغائب فإن الشاھد عسی أن یبلغ من ھو أوعیٰ منہ۔‘‘
(صحیح بخاری:کتاب العلم)
آپ نے اپنے ان صحابہ کو جو اس وقت موجود تھے یہ ارشاد فرمایا کہ حاضر شخص کو غائب شخص تک (یہ باتیں ) پہنچانی چاہیے ممکن ہے کہ وہ( یہ باتیں ) اس شخص تک پہنچادے جو اس” بتلانے والے“سے زیادہ اس کو سمجھتاہو ،جب اللہ کے رسولﷺ کی مجلس میں براہ راست آپ کی زبان مبارک سے سننے والوں میں فہم کے اعتبار سے حدیث کا مطلب سمجھنے میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے تو بعد والوں میں اس کا پایا جانا عین ممکن ہے۔
سوال یہ ہوتاہے کہ جو کلی طور پر اپنے آپ کو علم دین کے لیے فارغ نہیں کرسکتے یاکتاب وسنت سے براہ راست اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے وہ اپنے پیش آمدہ مسائل میں کیاتدبیر اختیار کریں گے ؟ظاہر بات ہے وہ اپنے علاقہ کے علما اور فقہاء جن کے علم پر ان کو بھروسہ ہے اور جن کی تحقیقات پر ان کو اعتماد ہے ان کی طرف رجوع کریں گے اور مسائل دریافت کریں گے ، دور صحابہ سے یہی ہوتاآرہا ہے اور اسی کانام تقلید ہے ، ظاہر ہے اس کی ضرورت سے کون عقل مند انکار کر سکتا ہے؟
تقلیدکی حقیقت:
تقلید کی حقیقت یہی ہے کہ جن مسائل میں دلائل بظاہر متعارض ہوں (دوحدیثیں الگ الگ مطلب بیان کر رہی ہوں ) یا قرآن وحدیث کے الفاظ مشترک معنی میں استعمال کیے جاتے ہوں (ایک لفظ سے ایک سے زائد معنی نکلتے ہوں) اور ایک مفہوم کے متعین کرنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت پڑھتی ہو یا اس طرح کی کوئی دوسری بات ہو جس کی وجہ سے مسئلہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آرہا ہو اور علماء کے اجتہادات دلائل کی وجہ سے مختلف ہوں دوسرے الفاظ میں مسئلہ بالکل واضح نہ ہو تو ایک عام آدمی یا اس عالم دین کے لیے جو اجتہاد کے درجہ تک نہیں پہنچاہو کسی مجتہد یا کتاب وسنت کے ماہر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ، اس کے بغیر حقیقت تک پہنچنا اور کتاب وسنت پر صحیح طریقہ پر عمل کرنا ناممکن ہوگا ، اسی لیے ان مسائل میں تقلید نہیں کی جاتی جو مختلف فیہ نہ ہوں یا جن کے سمجھنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت نہ پڑھتی ہو مثلا پنجگانہ نماز ، روزہ زکوۃ اور حج کی فرضیت اور چوری ، زنا اور جھوٹ وغیرہ کی حرمت۔
تقلید کے دلائل:
تقلید کی جس طرح وضاحت کی گئی ہے اس کے اصولی دلائل ہمیں قرآن وحدیث میں کثرت سے ملتے ہیں مختصراً اس کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں۔
دلائل قرآنی:

فاسئلوا أھل الذکر إن کنتم لا تعلمون۔
)سورۃ النحل :34۔سورۃ الأنبیاء:7(
’’اگر تم جانتے نہ ہو تویاد رکھنے والوں (جاننے والوں ) سے دریافت کرو۔‘‘

یا أیھا الذین آمنواأطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم۔
)سورۃالنساء (
”اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول اور جو تم میں سے ذمہ دار ہے اس کی اطاعت کرو۔‘‘

فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومھم إذا رجعوا إلیھم۔

)سورۃ التوبۃ :221 (
”ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ تم میں سے ہر گروہ میں سے ایک جماعت اس لیے نکل پڑے کہ دین میں تفقہ حاصل کرے اور جب وہ ان کی طرف لوٹیں تو ان کو ڈرائیں۔‘‘
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات پوری طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اپنے پیچیدہ مسائل میں علماء اور فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حدیثی دلائل:

جامع ترمذی حدیث میں بروایت حذیفہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’پتہ نہیں پھر کتنے دن تمہارے ساتھ رہوں اس لیے میرے مرنے کے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتدا کرنا ‘‘ روایت میں ’’اقتدوا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ،جو عام طور پر دینی امور میں طاعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جامع ترمذی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص میں دوخصلتیں ہوں گی اللہ تعالی اسے صابر وشاکر لکھے گا، دین کے معاملہ میں اپنے سے برتر کو دیکھے اور ان کی اقتداء (تقلید)کرے ،دنیوی امور میں اپنے سے کم تر کو دیکھے اور خدا کا شکر ادا کرے‘‘اس حدیث میں بھی’’ فاقتدی بہ‘‘کا لفظ آیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اپنے سےپہلے والوں کی دینی امور میں تقلید کی جا سکتی ہے۔

سنن ابوداؤد باب مایذکر فی قرن المأۃ میں ایک حدیث منقول ہے جس کو البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایسے شخص کو بھیجے گا جواس (امت)کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا(دین میں جو کمی بیشی ہوگی اس کی اصلاح کرے گا) ہر صدی میں پیدا ہونے والا مجدد ایک ہو یا ان کی تعداد ایک سے زائد ہوں اس میں اختلاف کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن اس بات سے تو کوئی انکار کر نہیں سکتا کہ جو مجدد نہیں ہوں گے چاہے وہ علماء ہوں یاعوام ان کو تو بحر حال مجددین ہی کی تقلید کرنی پڑے گی۔
اجماع امت :
صحابہ اور بعد کے تا بعین ، تبع تابعین اور دیگر علماء کا بھی اس پر اجماع ہے کہ عوام اپنے مسائل کئی تحقیق میں اپنے زمانے کے علماء ومحقیقن کی طرف رجوع کرے گی، یہاں تک امام شوکانی جنہوں نے شد ومد سے تقلید کا انکار کیا ہے انہوں نے بھی اجتہاداور تقلید کے درمیان عوام کے لیے ایک واسطہ کی ضرورت کااعتراف کیا ہے اور اس کو ’’اتباع‘‘ کا نام دیاہے۔
(اشارد الفحول للشوکانی : ص862(
عقلی دلائل :
عقل کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ تمام لوگوں کو ایک میزان میں نہ تولا جائے اس لیے کہ تمام لوگوں کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی بلکہ فہم وفراست اور عقل وتدبر کے اعتبار سے بھائی بھائی میں فرق پایا جاتا ہے، جس کے اثرات کا کتاب وسنت کے نصوص کے سمجھنے اور اس کے ذریعہ اجتہاد کرنے کی صلاحیت میں بھی پایاجاناضروری ہے،دوسری طرف عوام اور کم سمجھنے والوں کو بلاواسطہ کتاب وسنت میں غور کرنے کی دعوت دینا شریعت کی روح کے بھی خلاف ہے۔ چنانچہ فرمان باری ہے
(لایکلف اللہ نفسا إلا وسعھا)
)سورۃالبقرۃ (
اللہ کسی کو اس کی صلاحیت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا ، دوسری طرف اسی آیت میں ہمیں یہ دعابھی سکھائی گئی ہے(ربنا ولاتحملنا مالا طاقۃ لنا بہ)’’اے ہمارے رب ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ مت ڈالنا‘‘جب اللہ تعالی نے ان کو اس کا مکلف نہیں بنایا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں زبردستی مکلف بنانے والے؟؟
تقلید مطلق :
جس میں انسان کسی ایک امام کی تقلید کا پابند نہیں رہتا بلکہ مختلف مسائل میں مختلف علماء کی طرف رجوع کرتا ہے، یہ تقلید ہرزمانہ میں پائی جاتی رہی ہے۔
تقلید شخصی :
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے پیش آمدہ مسائل میں کسی ایک عالم یا فقیہ کی طرف رجوع کرتاہے اور اسی کی تحقیقات پر اعتماد کرتاہے ، اس کے بھی دلائل کتاب وسنت میں پائے جاتے ہیں۔
1: ایک عورت (کسی مسئلہ میں) اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ ﷺ نے دوبارہ پھر حاضری کا حکم دیا ، عورت نے دریافت کیا ’’اگر آپ سے ملاقات نہ ہوسکے تو کیا کیا جائے؟ آپﷺ نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ سے رجوع کرنا ‘‘
(صحیح بخاری کتاب مناقب الصحابۃ(
2: مدینہ والوں نے حضرت ابن عباس سے اس عورت کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا جو طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہوجائے، انہوں نے جواب دیا کہ طواف وداع کی ضرورت نہیں ہے ، اس پر مدینہ والوں نے کہا ’’ہم زید بن ثابت کے فتوے کو چھوڑ کر تمہارے فتوے پر عمل نہیں کرسکتے۔‘‘
(صحیح بخاری: باب إذاحاضت المرأۃ..الخ)
زید بن ثابت کا فتویٰ اس سلسلہ میں مختلف رہا ہوگا ، یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ مدینہ والوں نے ابن عباس جیسے متبحرعالم کے فتوے کوتو چھوڑدیالیکن اپنے علاقہ کے فقیہ زید بن ثابت کے فتوے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوے دوسرے الفاظ وہ زید بن ثابت کی تقلید شخصی کیا کرتے تھے۔
3: اللہ کے رسول ﷺنے حضرت معاذ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو جانے سے پہلے ان سے دریافت بھی کیا کہ تمہارے سامنے (نئے)مسائل آئیں گے تو تم ان کاحل کس طرح کروگے ؟ انہوں نے جو جواب دیا اس سے اللہ کے رسول ﷺ بہت زیادہ خوش ہوئے۔
(ابوداؤد :باب اجتھاد الرأی فی القضاء)
معلوم ہوا یمن والے حضرت معاذ کی تقلید شخصی کیا کرتے تھے،اس لیے کہ اختلافی مسائل میں انہیں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا، اسی لیے آپﷺ نے ان سے اس طرح کا کاسوال کیا تھا، یہ تو ان دلائل کی طرف مختصر سا اشارہ تھا جن سے تقلید شخصی کی مشروعیت پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔
تقلید شخصی کا اطلاق فقہی مکاتب فکرپربھی ہوسکتا ہے ؟
اب سوال یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے جومکاتب فکر پائے جارہے ہیں ان میں سے کسی ایک کی طرف اپنی نسبت کرنا اور اس کے دائرہ میں اپنے آپ کو محدود کرنا بھی تقلید شخصی کے دائرے میں داخل ہوسکتا ہے ؟
یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی ، اس لیے کہ جن ائمہ اربعہ کی طرف ہم اپنی نسبت کرتے ہیں ان کی فقہ پر ہر زمانہ میں لوگوں نے اتنا کچھ کام کیا ہے اور اتنے لوگوں کی صلاحیتیں اس کی تنقیح اورتہذیب میں لگ چکی ہیں کہ اب وہ شخصی مسلک نہیں ہے بلکہ مستقل دبستان فکرکی شکل اختیار کرگئے ہیں ،نیز بعد کے ائمہ نے انہیں کے اصول وضوابط کی روشنی میں اپنے اپنے زمانہ کے مسائل کوحل کرکے اس میں بے انتہا فروعات اور مسائل کا اضافہ کیا ہے جن کی نسبت بھی دبستان فکر کی طرف کی جاتی ہے جس کے وہ خوشہ چیں رہتے ہیں مثلا شوافع کے علماء میں مزنی ، شیرازی ، غزالی ، بغوی ، اصطخری،رافعی ، نووی اور متأخرین میں شربینی ،رملی ، ہیتمی اور زکریا انصاری وغیرہ ، ان کے اجتہادات اور اختیارات کو بھی فقہ شافعی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لیے اگر کوئی فقہ شافعی کی پیروی کرتاہے تو اس کو تقلید شخصی کے دائرہ میں داخل نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کو بھی تقلید مطلق کی ایک مخصوص شکل کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا
تقلیدشخصی کے اسباب :
متأخرین علماء نے دینی وانتظامی مصلحتوں کے خاطر تقلید شخصی یا مخصوص مکتبہ فکر کی تقلید کو ضروری قرار دیا ہے تفصیل کا توموقع نہیں ہے مختصر الفاظ میں انکا خلاصہ ’’فکری انتشار اور آپسی اختلافات کی کثرت ‘‘کے ذریعہ بیان کیاجاسکتاہے ، کیا اس طرح کی مصلحتوں کی بنا پر جائز حدود کی مزید تحددید کی جاسکتی ہے یا افضل کو چھوڑ کر مفضول پر عمل کیا جاسکتا ہے ،دوسرے الفاظ میں تقلید مطلق جس سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا اس کو چھوڑ کر دینی وانتظامی مصلحتوں کے پیش نظر عوام کے لیے تقلید شخصی یا کسی ایک مکتبہ فکر کی طرف نسبت کو ضروری قرار دینے کے لیے شرعی نصوص ہماری رہنمائی کرتے ہیں؟اس کی طرف بھی مختصراً اشارہ کیا جاتا ہے۔
آپ ﷺ نے اپنی مرضی کے مطابق کعبہ کی ازسرِ نوتعمیر کرنا چاہتے تھے جو یقیناًایک بہتر اور افضل عمل تھا لیکن آپ نے اس خیا ل یا ارادہ کو اس لیے چھوڑدیا کہ مکہ والے ابھی تازہ تازہ اسلام میں داخل ہوے ہیں ، اس عمل کی وجہ سے کہیں ان میں انتشار نہ پھیل جائے یا وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
(صحیح مسلم : باب نقض الکعبۃ (
آپﷺ نے قرآن مجید کو ساتھ حروف کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی تھی،حضرت عثمان کے دور خلافت میں جب یہی حروف لوگوں کی کم علمی کی وجہ سے آپسی انتشارو اختلاف کا سبب بن گئے توحضرت عثمان نے دیگر نسخوں کو جلا کر صرف لغت قریش کے مطابق اس کو لکھنے اور اسی کو سلطنت بھر میں عام کرنے کاحکم دیا۔
(صحیح بخاری: باب جمع القرآن(
تراویح کا مسئلہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے اللہ کے رسول اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جماعت سے تراویح کا کوئی مستقل نظام نہیں تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ ایک ہی مسجد میں ادھر ادھرمنتشر ہوکرنمازپڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ایک دوسرے کی نماز میں خلل پڑھ سکتاہے توآپ نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کیا حالانکہ خود آپ کو احساس تھا کہ پچھلی رات اٹھ کر انفرادی طور پر جونماز پڑھتے ہیں وہ ان سے افضل ہیں ، لیکن مصلحت کے پیش نظر انہوں نے ایک مفضول چیز کو افضل پر ترجیح دی۔
(صحیح بخاری)
اس وقت صحابہ کثیر تعداد میں موجود تھے پھر بھی حضرت عمر یا حضرت عثمان کے اس عمل پر نکیر نہیں کی گئی اور اس کو ناجائز قرار نہیں دیا گیا، اس لیے کہ خلفاء راشدین کی تقلید کرنے اور ان کے طور طریق کے اختیار کرنے کا خود حدیث میں حکم دیاگیاہے۔
(سنن ابوداؤدکتاب السنۃ: جامع ترمذی : کتاب العلم (
ائمہ اربعہ کی تخصیص :
ائمہ اربعہ کی تخصیص کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے (جوحقیقت بھی ہے )کہ اگر کسی مسلک پر عمل کرنا ہو تو اس کے لیے ان علماء کا پایا جانا ضروری ہے جن کی تقلید کی جائے یا ان کی فقہ مدون ومنقح شکل میں محفوظ ہوں ظاہر بات ہے یہ دونوں خصوصیتیں ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی اور امام کے حصہ میں نہیں آسکتی اس لیے ان چاروں ائمہ کو مخصوص کردیا گیا اس کی بھی اصل ہمیں حدیث میں ملتی ہے مثلا اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں صحابہ میں بہت سارے قراء اور قرآن کے ماہرین موجود تھے لیکن اللہ کے رسول نے صرف چار صحابہ (ابن مسعود،سالم مولی ابوحذیفہ ، أبی ابن کعب اور معاذبن جبل رضی اللہ عنہم ) کے سلسلہ میں فرمایا کہ ان سے قرآن مجید کا علم حاصل کیا جائے۔
(صحیح بخاری :باب مناقب معاذبن جبل )
اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ان چاروں کو اس فن میں خصوصی مہارت حاصل تھی جس کی وجہ سے دوسرے صحابہ پر ان کو ترجیح دی گئی۔
دور حاضر میں تقلید شخصی کی ضرورت :
موجودہ زمانہ میں تقلید شخصی کو ضروری نہ قرار دیاجائے تو سہولت پسندی کے متلاشی اپنے نفس کی تسکین کے خاطر جس امام کے یہا ں جو مسئلہ آسان نظر آئے گا اس کو اختیار کرنے لگیں گے ، اس طرح اتباع شریعت کے نام سے اتباع نفس کا شکار ہوجائیں گے اور دین مذاق اور کھلونا بن کر رہ جائے گا ، اور اس کے نتیجہ میں معاشرے میں جوانتشار پہلے گا اس کا وبال دوسرا ہوگا۔
عدم تقلید کے منفی اثرات :

اگرمذہب یا تقلید کی قید وبند سے آزاد کیا جائے تو ہر کس و ناکس اجتہاد کا دعوی کرنے لگے گا جس کا نتیجہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔

لوگ بغیر کسی اصول وقواعد کے اجتہاد کرنے لگیں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

اسلاف کی ہزار سالہ محنتوں پر پانی پھر جائے گا اور اپنے اسلاف کی میراث سے دور ہونے کے نتیجہ میں امت کا ذہنی ، فکری، فقہی اور ثقافتی تسلسل ٹوٹ جائے گا اور امت اپنے علما اور اسلاف سے کٹ کر اپنی شناخت کھو بیٹھے گی۔

خود پسندی اور خوداری عام ہوجائے گی جوتمام اختلافات کی جڑہے۔

ہر ایک کے اجتہاد کرنے سے اختلافات کو بھی خوب فروغ ملے گا ، کیونکہ لوگوں میں دوسروں کو قبول کرنے کی صلاحیت اتنی کم ہے کہ ایک علاقہ میں دومکاتب فقہ یافکر کو قبول نہیں کیا جاتا پھر جب ہرآدمی کی فکر اور اس کا اجتہاد الگ ہو گا تواس کے نتائج کتنے سنگین ہو سکتے ہیں ؟اہل نظر اس کا اندازہ کرسکتے ہیں ؟
ایک ہی مکتبہ فکرکو رواج کیوں نہ دیاجائے ؟
بعض لوگ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ چاروں ائمہ کا اختلاف کیوں ؟کتاب وسنت کی طرف رجوع کرکے کسی ایک ہی طریقہ پرامت کو کیوں نہ لایا جائے ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کیا جانا بالکل ناممکن ہے ، اگر بالفرض اس طرح کیابھی جائے تو دیگر بہت ساری سنتیں واجتہادات متروک ہو جائیں گے جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ چیز بہتر ہوتی توخود قرآن وحدیث میں ایسے الفاظ وروایتیں کیوں کر پائی جاتی جن سے اختلافات کی گنجائشیں نکلتی ہیں ، تیسری بات یہ ہے کہ عقل بھی اس کو قبول نہیں کرتی اس لیے کہ ہر جماعت یہی کہے گی کہ ہمارامسلک ہی برحق ہے اسی کو رواج دیا جائے ، آخر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کس کو اصل قرار دے کر اس کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا جائے۔
عوام کے لیے تقلیدکی حکمتیں :

کتاب وسنت سے مسائل اخذ کرنا اور ان میں اجتہاد کرنا آسان نہیں ہے ،اس کے لیے عربی زبان ، اس کی بلاغت اور اسلوب میں مہارت کے ساتھ ساتھ اصول فقہ وحدیث وتفسیر وغیرہ کا بھی گہر اعلم ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ جب اصول ہی سے واقفیت نہ ہو تو کیوں کر اجتہاد ممکن ہوسکتاہے؟

قرآن کا نزول عربی زبان میں تقریباً ساڑھے چودہ سوسال قبل کے عرب معاشرے میں ہوا اور ان میں اس وقت جو زبان رائج تھی اس کے اصول ومحاورات وتعبیرات اور طریقہ استعمالات کا قرآن مجید میں لحاظ رکھا گیا ہے ، آج نہ وہ زبان رہی اور نہ اس کے بولنے والے رہے اور نہ وہ ماحول رہا بلکہ زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں ، محاورات وتعبیرات بدل چکی ہیں جن سے اہل زبان خوب واقف ہیں ، اب اگر کوئی متقدمین کی کوششوں سے بے نیاز ہو کر خود سے کتاب وسنت پر غور کرنے لگے تو کیا اس کے منشاء ومقاصد تک پہنچ سکے گا ؟او ر اس کے حقیقی مفہوم سے واقف ہوسکے گا ؟

صرف زبان سے واقفیت کی وجہ سے کتاب وسنت کی تہوں تک نہیں پہنچا جاسکتا ، اس لیے کہ قرآن مجید عربی زبان میں ان لوگوں کے درمیان نازل ہوا جو عربی زبان کے رمز شناس تھے اور ان کو اپنی زبان دانی پر ایک طرح کا فخر تھا ،آج بھی عربی زبان میں سب سے عمدہ کلام اسی دور کا مانا جاتا ہے جس دورمیں قرآن مجید نازل ہوا تھا پھر بھی اللہ تعالی نے کتاب وسنت کے سمجھنے میں انھیں آزاد نہیں چھوڑا بلکہ اس کے ساتھ اپنا رسول بھی بھیجا تاکہ اس کا صحیح مطلب ان کے سامنے بیان کرے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لقد منّ اللہ علی المؤمنین إذ بعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ

’’بیشک اللہ تعالی نے مؤمنین پر احسان کیا جب ان میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو اس کی آیا ت کی ان پر تلاوت کرتا ہے ،اور ان کا تزکیہ کرتاہے اور کتاب وحکمت کی ان کو تعلیم دیتا ہے ‘‘غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ نے صرف یہ نہیں کہا کہ رسول آیا ت کی تلاوت کریں گے اور بس !بلکہ یہ بھی کہا کتاب وسنت کی تعلیم بھی دیں گے اگر صرف عربی زبان کو جاننا اور کتاب وسنت کے ظاہری الفاظ ہی کو سمجھنا سب کچھ ہوتا توپھر ساتھ میں معلم کے بھیجنے اور تعلیم وتدریس کی ذمہ داری اس کے ذمہ سونپنے کی ضرورت کیوں ہوتی ؟دوسری طرف بعض ایسے نصوص بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ اہلیت کے بغیرقرآ ن مجید میں رائے زنی نہیں کی جاسکتی۔

(جامع ترمذی،سنن ابوداؤد (

قرآن وحدیث کے دلالات کو جاننا بھی ہر ایک کے بس میں نہیں ہے مثلاً امر کا صیغہ کہاں واجب کے معنی میں ہے او رکہاں غیر واجب کے معنی میں ہے ، اورفعل نہی کہاں حرمت کے معنی دے رہا ہے اور کہاں کراہت کے؛ عام احکام یعنی جوصیغے عام ہوتے ہیں ان کو خاص کس طرح اور کب کیا جاتا ہے ، اسی طرح ناسخ اور منسوخ کے جاننے اور متعارض روایتیں جو بظاہر ایک دوسرے کے خلاف نظر آتے ہیں ان کے درمیان جمع کرنے یا ایک روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینے کا مسئلہ اور اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جن کی باریکیوں سے ہر شخص واقف نہیں ہوسکتا اور بھی حکمتیں ہیں طوالت کے خوف سے ہم ان سے صرف نظر کر رہے ہیں ،جن سے معلوم ہوتاہے کہ ہر کس وناکس کو اس طرح کے مسائل میں رائے زنی نہیں کرنی چاہئے ، بلکہ اپنے علماء اور اسلاف کی آراء اور ان کے فہم پراعتماد کرنا چاہیے اور اسی کا نام تقلید ہے۔
واللہ اعلم بالصواب