عقیدہ ختم نبوت… شاملِ نصاب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خیبر پختون خوا اسمبلی کا تاریخ ساز فیصلہ
عقیدہ ختم نبوت… شاملِ نصاب
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
ختم نبوت اہل اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی رو سے اس عقیدہ کے انکار کرنے والے کو کافر قرار دیا گیا ہے۔ کافی عرصہ سے ہمارے ملک میں قادیانی لابی سادہ لوح مسلمانوں بالخصوص اسکولز اور کالجز میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کو غیر مسلم بنانے میں کافی سرگرم ہے۔ ان سے اپنی نسل نو بچانا بہت ضروری ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ ہے کہ مولانا فضل غفور ممبر صوبائی اسمبلی )خیبر پختون خوا ، پاکستان(اور ان کےرفقاء کار نے اسمبلی کے فلور پر عقیدہ ختم نبوت کو شامل نصاب کرانے کی قرارداد پیش کی۔ جسےمعزز ممبران اسمبلی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا۔ موصوف کی ساری جدوجہد کی روداد ان کے اپنے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ کریم ان کی کوششوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت نصیب فرمائے۔
7 ستمبر 1974 کو 4بج کر 35 منٹ پر قومی اسمبلی کے فلور پر قادیا نیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ اور ان کے رفقاء کرام کی کوششیں رنگ لائیں۔ پورے ملک میں ایک عظیم الشان جشن کا سماں بن گیا۔ ختم نبوت پر جان نثا ر کرنے والے عام مسلمان خوشی سے دیوانے ہوگئے، ہر دل جھوم اٹھا، ہر دماغ مہک اٹھا۔ گلیاں اور بازار نعرہ تکبیر اللہ اکبر ،تاجدار ختم نبوت زندہ باد ، تاج وتخت ختم نبوت زندہ باد، سے گونج اٹھے۔ چنانچہ آئین پاکستان (1973ء) کے دفعہ 260 میں ترمیم کے ذریعے شق3درج کی گئی۔
غیر مسلم وہ ہوگا" جو شخص حضرت محمدﷺ جو آخر نبی ﷺ ہے کے خاتم النبیین ہو نے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جوحضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کے اغراض کیلئے مسلمان نہیں ہے۔"
پھر یہ سلسلہ آگے چلتا ہوا امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984 ؁ء پر منتج ہو ا اور یوں ایکٹ نمبر 45، 1860 ؁ء کے اضافی دفعات 298ب اور ج کے ذریعے قادیانیوں پر درج ذیل پابند یاں لگوائی گئیں۔
298-B (1) قادیانی اور لاہوری گروپ مرزا قادیانی کے جانشین ساتھیوں کو " امیر المؤمنین" یا " صحابہ" یا اس کی بیوی کو " ام المؤمنین " یا اسکے خاندان کے افراد کو "اہل بیت" کے الفاظ سے پکارنا قا نو ناً ممنوع ہوگا۔ نیز اپنی عبادت گاہ کو مسجد بھی نہیں کہہ سکیں گے۔
298-B (2) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں ) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہو یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب میں عبادت کیلئے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب نہیں کر سکیں گے۔
298-B (3) قادیانی الفاظ کے زریعے خواہ زبانی ہو یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کے تبلیغ یا تشہیر کریں یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دیں یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کریں، مطلقًا ممنوع اور قابلِ تعزیر جرم متصور ہوگا۔ جس کی سزا 3 تین سال تک قید بھی ہوسکتی ہے۔
اس آئینی اور قانونی جیت نے قادیانیت کے تمام راستے جب بند کردیے تو ملک بھر میں موجود قادیانی لابی نے اپنے مذہب کی دعوت اور تبلیغ کیلئے زیرِ زمین خفیہ منصوبے شروع کئے۔ چنانچہ نسل نو کو جہاں علمائے دین اور مذہبی اداروں سے دور رکھنے کیلئے شعوری اور لا شعوری طور پر ہمارے اپنی ہی ادارے استعمال کرائے گئے۔ اور علمائے دین سے بیزارکرنے کے بعد قادیانیوں نے تعلیمی اداروں کا رخ کیا اور بالخصوص ان تعلیمی اداروں کو حدف( Traget) بنایا گیا جہاں خوشحال گھرانوں Elite Class کے بچے پڑھتے ہیں۔ جو کہ پڑھ کر ملک کے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ لینے جا رہے ہیں ان معصوم اور دینی تربیت سے خالی الذہن نوجوان طالب علموں کو مختلف طریقوں سے گمراہ کیا جانے لگا۔ چنانچہ پرسٹن،کیمبرج اور آکسفورڈ جیسے مایہ ناز شہرت یافتہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کی لالچ دے کر معصوم ذہنوں کو قادیانیت کے ہھتے چڑھائے گئے۔ مجھے میرے ایک دوست نے یونیورسٹی کے ایک Gathereing Hall میں منعقدہ ایک فیسٹیول میں درجنوں سنّی محمدی نوجوانوں کا اجتماعی طور پرقادیانی بننے کا قصہ جب سنا یا تو میرے ہوش اڑگئے کیونکہ بحیثیت ایک گنہگار مسلمان بھی میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی مسلم نوجوان پاکستان کے اسلامی مملکت میں خواجہ یثرب تاجدارِ ختم نبوت ، شفیع المذنبین ،رحمتہ اللعالمین ساقیِ کوثر جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے چوکھٹ کو الوداع کہہ کر قادیانی بن جائے۔
میں نے فوری طور پر یونیورسٹی کے VC صاحب کو مذکورہ قادیانی خفیہ سرگرمیوں سے آگاہ کیا اور آئین پاکستان کے دفعہ 298 کے B اور C شق کے مطابق قادیانیت کی پر چار پر پابندی سے بھی آگاہ کیا۔ اور وہاں کے صوبائی امیر عالمی مجلس ختم نبوت مولانا مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو ختم نبوت کے عنوان سے کام شروع کرنے کی درخواست کی۔ ساتھ ہی دعوت و تبلیغ کی محنت سے وابستہ دوستوں اور جمیعتہ طلباء اسلام کے جانباز کارکنوں کو فکر مند ہونے کی گزارش کی۔ اور ان سے قادیانی گروہ کا تعاقب کرنے کو کہا۔
نیز دیگر ایلیٹ کلاس تعلیمی اداروں میں بھی اپنی بساط کے مطابق دوستوں کو قادیانیت کے تعاقب اور ختم نبوت کے دفاع کی درخواست کی۔ لیکن یہ مستقل حل نہیں تھا۔اس لیے نصابِ تعلیم میں ختم نبوت کا مضمون لازمی طور پر شامل کئے بغیر نوجوان نسل کو فردً ا فردًا ختمِ نبوت کی اہمیت اور قادیانیت کی ضلالت سے آگاہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
چنانچہ جب 7 ستمبر کو یومِ ختم نبوت منایا جا رہا تھا اسی دن خیبر پختونخواہ اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ اور اتفاقی طور پر یہی دن پرائیوٹ ممبر ڈے Declear کیا گیا جس میں اپوزیشن سے وابستہ ممبرانِ اسمبلی بھی اپنی طرف سے کوئی قرار داد پیش کرسکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ختمِ نبوت کے مضمون کو شاملِ نصاب کرانے کیلئے قرار داد جمع کی اور یوں وہ 7 ستمبر 2015 عصر کو عین اسی وقت اسمبلی سے متفقہ طور پر پاس ہوا جس وقت 7 ستمبر 1974 کی عصر کو قومی اسمبلی سے ختمِ نبوت کا قانون پا س ہوا تھا۔ اور دو دن بعد 9 ستمبر2015 کو اس کا باقاعدہ آفیشل نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔
آفیشل نوٹیفیکیشن کا عکس ملاحظہ فرمائیں۔