اسلام میں تجارت کی اہمیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اسلام میں تجارت کی اہمیت
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
قرآن مجید میں کم سے کم 32 مقامات پر زکوۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے یا اس کی ترغیب دی گئی ہے اور اسی طرح 16 مواقع پر بطور ترغیب یا مدح کے صدقہ دینے والوں کا ذکر آیا ہے اس کے برخلاف شاید ہی کوئی آیت ہو جس میں زکوۃ اور صدقہ لینے کی ترغیب دی گئی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کا منشا یہی ہے کہ مسلمان جائز طریقہ پر اپنے آپ کو اس لائق بنانے کی کوشش کریں کہ وہ خود زکوۃ ادا کریں۔
وہ صدقہ دینے کے موقف میں ہوں نہ کہ لینے کے۔ اسی لئے رسول اللہﷺ نے اوپر یعنی دینے والے ہاتھ کو نیچے کے ہاتھ یعنی لینے والے ہاتھ سے بہتر قرار دیا۔ دنیا کے مذاہب میں شاید اس کی کوئی مثال مل سکے جو معتدل اور متوازن تصور مال کے سلسلہ میں اسلام کا ہے۔ قرآن مجید نے مال کو ’’خیر‘‘اور ’’فضل‘‘کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ جس کے معنی اچھی اور بھلی چیز کے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم کو مناسب مقدار میں مال حاصل ہوجائے ، انہوں نے کہا اللہ کے رسول ! میں مال کے لئے مسلمان نہیں ہوا۔ میں اپنی قلبی رغبت سے مسلمان ہوا ہوں آپﷺ نے ارشاد فرمایا صالح آدمی کیلئے صالح یعنی حلال مال بہت ہی بہتر شئے ہے۔
(مسند احمد 17309(
پس اگر حلال طریقہ پر مال حاصل کیا جائے اور صحیح راستہ سے خرچ کیا جائے تو یہ اسلام میں عین مطلوب ہے ، کیونکہ بہت سے حقوق مال ہی سے متعلق ہیں ، اسی لئے رسول اللہﷺ نے فقر ومحتاجی کے بارے میں فرمایا : یہ ایسی چیز ہے جو بعض دفعہ انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہﷺ کے یہاں جو اعتدال و توازن تھا ، ایک واقعہ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک دن آپﷺ اپنے رفقاء کے ساتھ بیٹھے تھے ، لوگوں نے دیکھا ایک صحت مند طاقتور نوجوان صحیح دوڑ بھاگ میں لگا ہوا ہے۔ صحابہ کہنے لگے اس شخص پر افسوس ہے کاش اس کی جوانی اور طاقت اللہ کے راستہ میں صرف ہوتی۔ حضورﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کہو ، اگر یہ اس لئے محنت کررہا ہے کہ اپنے آپ کو دست سوال پھیلانے سے اور لوگوں کو محتاجی سے بچائے ، تو یہ اللہ ہی کے راستہ میں ہیں ، اسی طرح اگر اس کی دوڑ دھوپ کمزور والدین اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیلئے ہو تاکہ ان کی ضروریات پوری کرے ، تب بھی وہ اللہ ہی کے راستہ میں ہے ، ہاں اگر اس کی یہ جد وجہد اس لئے ہو کہ دوسروں پر فخر کرے اور اپنی دولت مندی کا مظاہرہ کرے ، تب اس کی دوڑ دھوپ شیطان کے راستہ میں ہے۔(احیاالعلوم 61/2( کسب معاش کی بہت سی صورتیں ہیں اور جو بھی جائز صورت ہو ، اسے اختیار کرنے میں مضائقہ نہیں ،لیکن سب سے زیادہ بابرکت ذریعہ تجارت کا ہے۔ اسی لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : دیانت دارانہ تجارت میں اللہ تعالی کی مدد ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باوجود یہ کہ حضورﷺ کی رفاقت سے تھوڑی سے محرومی کو بھی پسند نہیں کرتے۔ لیکن پھر بھی آپ کی موجودگی میں بصرہ کا سفر تجارت کیا اور حضورﷺ کو بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فراق پسند نہیں تھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا۔ آپﷺ نے خود تجارت فرمائی ، حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمان ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔ حضرت علیؓ چونکہ حضورﷺ کی خدمت میں مشغول رہتے تھے اس لئے انہیں اس کا موقع کم ملا تاہم گاہے بگاہے انہوں نے بھی تجارت فرمائی۔ سرحیل فقہا امام ابوحنیفہ بڑے تاجروں میں تھے۔ راس المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح اکثر سلف صالحین کا ذریعہ معاش تجارت تھا ان کا یہ مشغلہ اس لئے بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو حکومت کے اور اہل ثروت کے احسان سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔
رسول اللہﷺ نے تاجر کے بارے میں فرمایا کہ : سچے اور امانت دار تاجر کا حشر قیامت میں انبیا ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا (ترمذی) اسلام سے پہلے عرب میں لوگ تاجروں کے لئے سمسار کا لفظ استعمال کرتے تھے ، جس کے معنی دلال کے ہیں ، یہ ایک ناگوار تعبیر سمجھی جاتی تھی۔ آپﷺ نے ان کے لئے ایک مہذب لفظ تاجر کا اختیار فرمایا اور فرمایا کہ : اے جماعت تجار! خرید و فروخت میں لغو بات بھی آجاتی ہے اور قسم کھانے کی نوبت بھی آتی ہے لہذا صدقہ کے ذریعہ اس کی تلافی کیا کرو (ابو داؤد) رافع بن خدیجؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے درمیان کیا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنے ہاتھ کا کام اور صحیح طریقہ پر تجارت۔
(مسند احمد(
اللہ تعالی نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اورسود کو حرام ، حالانکہ تاجر بھی اپنا سرمایہ لگاتا ہے اور سود خور بھی ،تاجر بھی اپنے سرمایہ لگانے کی مدت کے لحاظ سے نفع حاصل کرتا ہے اور سود خور بھی مہلت کی گویا اجرت حاصل کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے سود کو حرام قرار دیا اور اسے بے برکتی کا باعث بتایا اور تجارت کو حلال قرار دیا اور باعث برکت بتایا گیا۔ کیوں کہ تاجر اپنے نفع کے سلسلہ میں اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اس سے نفع ہوگا یا نقصان، نفع ہوتا تو کس قدر اور سود خور اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنا نفع بہر صورت متعین کرانا چاہتا ہے۔
تجارت کی فضیلت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ تاجر اگور گاہک کا ربط بہت ہی گہرا ہوتا ہے اور خلیق و دیانت دار تاجر بہت آسانی کے ساتھ گاہک کے دل میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں ، اس میں مذہب و ملت اور قبیلہ و خاندان کی بھی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ انسانی فطرت یہ ہیکہ جہاں ارزاں اور سستا سودا ملے ، انسان اسی دکان کی طرف متوجہ ہوتا ہے خواہ دوست کی ہو یا دشمن کی اور اپنوں کی ہو یا بیگانوں کی۔ اسلئے ایک خدا ترس اور فہیم تاجر اپنی تجارت کو اسلام کی دعوت و اشاعت کا بہترین وسیلہ بناسکتا ہے۔ اور دنیا کی تجارت کے ساتھ ساتھ آخرت کی تجارت کو بھی انجام دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ تجارت میں راست گوئی ، دیانتداری اور خدا ترسی کی راہ اختیار کی جائے اور جو تجارت جھوٹ اور دھوکہ سے آلودہ ہو ، وہ تجارت کو بے برکت اور بے فیض بنادیتی ہے ، جیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ قسم کھا کر سامان بیچا جاسکتا ہے لیکن اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ (بخاری(اسلامی تاریخ میں متعدد مثالیں اس کی موجود ہیں کہ محض تاجروں کے ذریعہ ایک پورے علاقہ اور وسیع خطہ میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خدمت پائی۔ خاص کر مشرقی ایشیا اور افریقی ممالک میں زیادہ تر مسلمان اور عرب تاجروں ہی کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوئی۔ انڈونیشیا میں اسلام کے ابتدائی دور میں جزیرہ صوماترہ پر عرب تجار اترے اور پھر خلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ میں عرب تاجروں نے جزائر انڈونیشیا کو اپنی دعوت کوششوں کا خاص مرکز بنایا۔ فلپائن میں عرب تجار قیام پذیر ہوئے اور ان ہی کی نسلوں سے اسلام پھیلا ، ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں پہلی صدی سے چوتھی صدی تک عرب تاجروں کی دعوت اسلام کی کوششیں بارآور ہوتی رہیں۔ سری لنکا میں بھی پہلی صدی ہجری میں عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا۔ چھٹی صدی ہجری میں برما ، عرب تجار کے ذریعہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا ، اور ملیشیا کے مسلمان تاجروں کے ذریعہ پہلی سی چوتھی صدری ہجری تک برونائی میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ جو اس وقت صد فیصد مسلم ملک ہے۔ کمبوڈیا میں نویں صدی ہجری میں اور سنگاپور میں ابتدائی صدیوں میں تاجروں ہی کے ذریعہ اسلام پہنچا۔ عرب تاجروں ہی کے ذریعہ پہلی صدی ہجری میں ہانگ کانگ اور تیسری صدی ہجری میں جنوبی کوریا میں اسلام کا چراغ روشن ہوا۔ اسی طرح چین کے ساحلی علاقوں میں بھی مسلمان تاجر ہی اسلام کی امانت لے کر پہنچے۔ افریقہ میں عرب سے قریبی علاقوں میں تو مجاہدین اور علماء کی کوششیں ہوئیں لیکن دور دراز علاقوں تک دعوت اسلام کے پہنچنے کا ذریعہ تاجر ہی بنے ، تنزانیہ میں پہلی صدی ہجری اور نائیجریا کے شمالی علاقوں میں دوسری صدی ہجری میں عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوئی موریطانیا میں بربر کے تازہ دم نو مسلم تجارت نے اشاعت اسلام کا فریضہ ادا کیا۔
مزنبیق میں ابتدائی صدیوں ہی میں عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا اور بارہویں صدی ہجری کے بعد پوری قوت سے اسلام کی اشاعت ہوئی۔ سوڈانی مسلمان تجار وسطی افریقہ میں بارہویں صدی ہجری میں اسلام کی امانت لے کر پہنچے ، انگولا میں اس وقت پچیس فیصد مسلمان ہیں اور یہ مسلمان تاجروں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ بنوامیہ کے عہد میں عرب تجار اور مراکشی مسلمان سنیگال میں خیمہ زن ہوئے اور ان کے ذریعہ وہاں اسلام کی باد نسیم چلی۔ بحرہند کے جزائر قمر میں چوتھی صدی ہجری میں عرب تاجر دین اسلام کی اشاعت کا ذریعہ بنے ، اسی طرح مغربی افریقہ کے مختلف ممالک میں تاجروں ہی کے ذریعہ اسلام کی عالم تاب کرنیں ضیابار ہوئیں (ملخص از انتشار الاسلامی فی العالم) صرف ایشیا اور افریقہ ہی نہیں بلکہ یورپ کے بہت سے علاقوں تک بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت تاجروں کے ذریعہ انجام پائی۔