فتاویٰ پر زمانہ و حالات کی تبدیلی کا اثر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فتاویٰ پر زمانہ و حالات کی تبدیلی کا اثر
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
دنیا کے بیشتر مذاہب کا حال یہ ہے کہ ان کے ماننے والوں کا رشتہ اپنے مذہب سے کٹ چکا ہے ، ان کے یہاں صرف دو چیزوں میں مذہب کی حکمرانی قائم ہے ایک : عبادت اور پوجا پاٹ ، دوسرے : تہوار اور قدیم زمانہ سے مروج مذہبی تقریبات ، اس کے علاوہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے مذہب کو نکال باہر کردیا گیا ہے ، ان کے یہاں زندگی کے عام مسائل میں حلال و حرام کا تصور باقی نہیں رہا؛ اسی لئے ان کے یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں پایا جاتا ، جو مذہبی نقطۂ نظر سے رہنمائی کرے کہ کن کاموں کو کرنا چاہئے اور کن کو نہیں کرنا چاہئے ؟ ان کے یہاں مذہبی پیشواؤں کا رول صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ وقت اور مقام کے بارے میں مبارک اور منحوس کی نشاندہی کریں ، شادی بیاہ کی اور موت کی رسوم انجام دیں اور بس ، اور یہ بھی اس لئے کہ اِن کاموں سے مذہبی پیشواؤں کی آمدنی متعلق ہوتی ہے۔
اس سے صرف مسلمانوں کا استثناء ہے ، ہر مسلمان اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ ہم پر صرف عبادات یعنی نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی میں احکام شریعت کی پابندی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ زندگی کے تمام مسائل میں اس کی دنیا و آخرت کی بھلائی احکام شریعت کی پیروی سے جڑی ہوئی ہے ، کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، سونے جاگنے ، تجارت و کاروبار ، خاندانی زندگی ، لوگوں کے حقوق ، جرم و سزا ، سیاسی مسائل ، مختلف قوموں کے ساتھ ارتباط غرض کہ زندگی کا کوئی شعبہ نہیں جس میں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے آزاد ہو ، وہ اللہ تعالیٰ کا عبد ہے ، یعنی ۲۴ گھنٹے کا غلام ، ایسا غلام جو ہر چھوٹا بڑا کام اپنے آقا کے چشم و اَبرو کے اشارہ پر کرتا ہو ، جس کی نظر میں اپنے مالک کی خوشنودی کے لئے کھونا ہی پانا اور مرنا ہی جینا ہو اور جو اپنے خدا کے لئے لٹ جانے ہی کو سب سے بڑی سرفرازی اور کامیابی تصور کرتا ہو۔
زندگی میں ایسی ہمہ گیر اطاعت و فرمانبرداری کے لئے ایک ایسے ادارہ کی ضرورت تھی ، جو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے سلسلے میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کرے ، اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مسلم معاشرہ میں فتاویٰ کا نظام قائم ہے ، قرآن و حدیث میں شریعت کے جو احکام آئے ہیں ، ان میں بعض ایسی صراحت و وضاحت کے ساتھ منقول ہیں کہ ان میں کوئی ابہام نہیں ہے اور بعض وہ ہیں جو قابل تحقیق ہیں کہ رسول اللہ ا کی طرف ان کی نسبت کس حد تک درست ہے ؟ یا قرآن و حدیث میں کوئی حکم ایسے الفاظ میں دیا گیا ہے ، جن میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہے ، ایسی ہدایات کے بارے میں اہل علم تحقیق و جستجو کے ذریعے ان کی مراد متعین کرتے ہیں ، اسی کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں ’ اجتہاد ‘ کہا جاتا ہے اور شریعت کی واضح تعلیمات اور فقہاء کے اجتہادات کی روشنی میں مسلمانوں کی رہنمائی کا نام ’ فتویٰ ‘ ہے ، مسلم سماج میں عہد نبوی اورعہد صحابہ سے ہمیشہ ایسے لوگ رہا کئے ہیں ، جو فتویٰ دینے کی ذمہ داری انجام دیا کرتے تھے ، مسلم حکومتوں میں بھی مفتی کا منصب ہوا کرتا تھا اورآج بھی بہت سے مسلم ملکوں میں مفتی کا منصب موجود ہے ، جب کہ غیر مسلم ممالک میں دینی درسگاہیں اس فریضہ کو انجام دیتی ہیں ، اس سلسلے میں خاص طورپر برصغیر کی ایک روشن تاریخ رہی ہے؛ چنانچہ فتاویٰ کے کتنے ہی مجموعے ہیں ، جو نہ صرف عربی زبان بلکہ مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
قرآن و حدیث کے احکام میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور وہ ہمیشہ اسی تفصیل کے ساتھ باقی رہیں گے؛ لیکن اجتہادی احکام کی بنیاد بعض اوقات وقتی حالات ، رواجات اور موجودہ آلات و وسائل پر ہوتی ہے ، ایسے فتاویٰ پر بدلتے ہوئے حالات کا اثر پڑتا ہے ، اسلامی قانون میں بعض حصوں کا ہمیشہ اپنی حالت پر قائم رہنا جہاں اس کو استحکام اور عدل و انصاف قائم کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف فقہ و فتاویٰ میں اپنے عہد کی تبدیلیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت اس کو ہر عہد میں قابل عمل بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اسی پس منظر میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں قائم ’’ شیخ محمد ابراہیم للفتویٰ چیئر ‘‘ کے تحت ’ فتاویٰ میں تبدیلی اور زمانہ و حالات کے اثرات ‘ کے زیر عنوان ایک بین الاقوامی سیمینار بتاریخ ۱۸-۱۹؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو منعقد ہوا ، جس میں اس بات پر بحث کی گئی کہ فتاویٰ پر زمان و مکان اور حالات کی تبدیلی کا کیا اثر پڑتا ہے اور خود فتاویٰ سماج پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ؟
اس سیمینار میں لوگوں کو براہ راست مقالہ پڑھنے یاشریک ہونے کی دعوت نہیں دی گئی؛ بلکہ دنیا بھر سے فقہاء ، اصحابِ افتاء ، فقہ اور اُصول فقہ پر کام کرنے والے مصنفین سے مقالہ لکھنے کی درخواست کی گئی ، جن کی طرف سے پانچ سو مقالات وصول ہوئے ، ان میں سے ڈیڑھ سو پہلے ہی مرحلہ میں چھانٹ دیئے گئے ، بقیہ ساڑھے تین سو مقالات جائزہ کمیٹی ( مجلس التحکیم) کو سپرد کئے گئے ، کمیٹی نے ان مقالات کا جائزہ لے کر ۶۸ کا انتخاب کیا ، ان ہی حضرات کو سیمینار میں مدعو کیا گیا؛ چونکہ یہ مقالات کافی پہلے طلب کرلئے گئے تھے ، اس لئے سیمینار کے موقع سے ہی چھ جلدوں میں ان کی طباعت بھی عمل میں آگئی ، پہلے سے ہر مقالہ نگار کو لکھ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے مقالہ کا خلاصہ ایک تا ڈیڑھ صفحہ میں لکھیں اور اسی کو سیمینار میں پیش کریں؛ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ وقت کی کمی کی وجہ سے اس خلاصہ کو بھی پیش کرنے کی گنجائش نہیں رہی اور ہر مقالہ نگار کو پانچ منٹ کا وقت دیا گیا کہ وہ اس میں مقالہ کی بنیادی فکر کو پیش کرے ، کسی لمبی بات کو مختصر کرنا اور پھر اچانک اس کو مختصر تر کرنا آسان نہیں ہوتا؛ لیکن اس کے سوا چارہ نہیں تھا۔
۶؍ صفر ۱۴۳۷ھ کو صبح نو بجے مدینہ یونیورسٹی کے ’ ملک سعود آڈیٹوریم ‘ میں پروگرام کا آغاز ہوا ، جامعہ کے کلیۃ القرآن کے ایک استاذ نے بڑی نفیس آواز میں تلاوت کی ، شیخ محمد ابراہیم چیئر کے استاذ ڈاکٹر سلیمان رحیلی نے استقبالیہ کلمات کہے ، پھر جامعہ ازہر کے ایک بزرگ استاذ اورمالدیپ کے صدر نے بحیثیت مہمان خطاب کیا ، یونیور سٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ابراہیم بن علی عبید کا کلیدی خطاب ہوا ، پھر مملکت کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ نے اپنے خطاب کے ذریعہ سیمینار کا باضابطہ طورپر افتتاح فرمایا ، شیخ عام طورپر مختصر خطاب پر اکتفا کرتے ہیں؛ لیکن آج انھوںنے نسبتاً تفصیل سے فتویٰ کی اہمیت اور اس کی نزاکت پر روشنی ڈالی ، تمام ہی مقررین کی گفتگو کا خلاصہ یہی تھا کہ فتویٰ دینا ایک نازک کام ہے ، اس کے لئے گہری بصیرت اور ورع و دیانت ضروری ہے ، اور آج کل اس سلسلہ میں جس بے احتیاطی سے کام لیا جارہا ہے ، اس سے اُمت کے لئے نئی مشکلات جنم لے رہی ہیں۔
اس کے بعد کل سات نشستیں منعقد ہوئیں ، جن میں سے چھ نشستیں متوازی طورپر ہوتی رہیں ، ایک : ملک سعود آڈیٹوریم میں ، دوسری : کلیہ الدعوۃ واصول الدین کے سیمینار ہال میں ، ساتویں نشست ملک سعود آڈیٹوریم میں مشترک طورپر ہوئی ، تمام نشستوں کی صدارت سعودی عرب کے بڑے علماء و مشائخ نے فرمائی ، جن میں شیخ عبد الرحمن سدیس خطیب حرم مکی و صدر اُمور حرمین شریفین ، شیخ حسین بن عبد العزیز آل شیخ امام و خطیب مسجد نبوی اور شیخ صالح بن حمید امام و خطیب حرم مکی و مشیر دیوان مکی شامل ہیں۔
یہ نشستیں ۷؍ صفر ۱۴۳۷ھ ، جمعرات کو بارہ بجے دن تک مکمل ہوگئیں اور اختتامی نشست ساڑھے بارہ سے ڈیڑھ بجے تک منعقد ہوئی ، جس میں اعلامیہ اور تجاویز کی خواندگی ہوئی ، یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس آخری نشست کی صدارت کی۔
اس سیمینار میں نہایت اہم موضوعات پر مقالے پیش کئے گئے ، جیسے جدید مسائل پر فتویٰ دینے کا کیا طریقہ ہونا چاہئے ؟ اقتصادی نظام میں آنے والی تبدیلیوں کا فتویٰ پر کیا اثر پڑتا ہے ، ٹیکنالوجی کی ترقی ، سماجی تعلقات اور میڈیکل دنیا میں پیدا ہونے والے جدید وسائل کے سلسلہ میں مفتی کا کیا طرز عمل ہونا چاہئے ؟ مسلمان اقلیتیں جن حالات سے دوچار ہیں ، مختلف ملکوں میں ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے ، عرف و رواج اور زمان و مکان کی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے فقہاء نے کیا راہ دکھائی ہے ، موجودہ دور میں فتاویٰ کے سلسلہ میں بے جا شدت یا بے جا نرمی یا کسی مناسب سبب کے بغیر مسلمانوں کی تکفیر جیسے مسائل سے عالم اسلام کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے ؟ یہاں تک کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں اس کی بنیاد پر برادر کشی کی نوبت آگئی ہے اور فکری اختلاف نے نوبت قتل و قتال تک پہنچادی ہے ، ان تمام پہلوؤں پر بڑے اہم مقالات پیش کئے گئے۔
اس حقیر کا مقالہ پہلی نشست میں رکھا گیا تھا ، جس کا عنوان تھا ’’ فتاویٰ میں تبدیلی — مثالیں ، قواعد اور احکام ‘‘ (تغیر الفتویٰ نظائر وضوابط و احکام) شیخ سدیس اس نشست کی صدارت کررہے تھے ، انہوں نے شروع میں فتاویٰ کے موضوع پر مختصر؛ لیکن جامع اور مفید گفتگو کی ، اس کی وجہ سے وقت اور مختصر ہوگیا ، اس حقیر نے صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنے مقالہ کے خلاصہ کو سات نکات پر تقسیم کردیا تھا ، جن میں ہرنکتہ صرف دو تین فقروں پر مشتمل تھا ، اس کا یہ فائدہ ہوا کہ بغیر روک ٹوک کے بات پوری ہوگئی ، شیخ سدیس ہر مقالہ پر دوچار جملوں میں جچا تلا تبصرہ کرتے جاتے تھے ، میری اس تحریر پر انھوںنے کہا کہ جب مضمون وسیع الجہات ہو اور وقت کم ہو تو اپنی بات پیش کرنے کے لئے یہ منہج بہت بہتر ہے جو فاضل مقالہ نگار نے اختیار کیا ہے کہ اپنی بات نمبر وار ذکر کردی جائے؛ تاکہ اصل مقصد سامنے آجائے اور بات لمبی بھی نہ ہو۔ راقم الحروف نے جو کچھ عرض کیا ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
1: حکم شرعی اور فتویٰ دونوں بالکل ہم معنی نہیں ہیں ، ان دونوں کے درمیان ایک دقیق فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ حکم شرعی تو بندوں کے افعال سے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ، جس کی حیثیت اصل اور بنیاد کی ہے اور جس میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہے ، جب کہ فتویٰ اللہ تعالیٰ کے احکام کو موجودہ حالات و واقعات پر منطبق کرنے سے عبارت ہے اور اس میں انسان سے غلطی واقع ہوسکتی ہے۔
2: فتاویٰ میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ انسان کے کسی عمل کا جو حکم بیان کیا جاتا تھا ، اب اس پر اس کے بجائے دوسرا حکم لگایا جائے ، جیسے کسی چیز کو گذشتہ فقہاء نے اپنے اجتہاد سے حرام قرار دیا تھا ، بعد کے فقہاء نے اپنے زمانہ کے حالات کے لحاظ سے اسے مباح قرار دیا ہو ، یا جس کو گذشتہ اہل علم نے جائز قرار دیا تھا ، فتنہ کے اندیشہ یا حالات میں تبدیلی کی وجہ سے بعد کے اربابِ افتاء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہو ، قرن اول ہی سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔
3: جن فتاویٰ کی بنیاد قرآن مجید ، معتبر حدیث یا اجماع پر ہو ، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ، ان میں تبدیلی کا مطالبہ گمراہی اور دین سے انحراف ہے ، جیساکہ آج کل بعض مغرب زدہ دانشوروں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
4: جن فتاویٰ کی بنیاد قیاس و اجتہاد ، عرف و رواج یا کسی خاص زمانے کی مصلحت پر ہو ، ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے؛ بلکہ بعض حالات میں واجب ہوجاتی ہے ، سلف صالحین کا ہمیشہ سے اس پر عمل رہا ہے ، علامہ ابن عابدین شامی ؒ، علامہ ابو اسحاق شاطبی ؒ، علامہ قرافیؒ اور علامہ ابن قیمؒ جیسے عبقری علماء نے اس کی صراحت کی ہے۔
5: جن مسائل میں احادیث یا صحابہ کے فتاویٰ بظاہر متعارض ہوں یا کسی حدیث کے معتبر ہونے اور نہ ہونے میں معتبر فقہاء اور محدثین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو اور مختلف علماء نے اپنے ذوق کے مطابق ترجیح سے کام لیا ہو تو زمانے کی تبدیلیوں اور ضرورتوں کے لحاظ سے ترجیحات میں تبدیلی ہوسکتی ہے ، یہ جو مذاہب اربعہ کے فقہاء نے بوقت ضرورت دوسرے مکتب فکر سے استفادہ کی اجازت دی ہے ، وہ اسی قبیل سے ہے۔
6: فتاویٰ میں تبدیلی کی ضرورت پیش آنے کے بنیادی اسباب ’’عرف و عادت میں تبدیلی ، اخلاقی قدروں کا انحطاط ، جدید آلات ووسائل کی پیدائش ، مقام ، جیسے مسلم اور غیر مسلم ممالک کا فرق ، اقتصادی اور سیاسی نظام میں تبدیلی ، وغیرہ ‘‘ ہیں ، جن کی وجہ سے فتاویٰ میں تبدیلی کی نوبت آتی ہے۔
7: فتاویٰ میں تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجماع اور قطعی دلیل کے خلاف نہ ہو ، شریعت کے بنیادی مقاصد سے اس کا ٹکراؤ نہ ہو ، اس کی مصلحتوں سے اس کے مفاسد بڑھ نہ جائیں اور ایسے فقہاء کی ایک جماعت اس کام کو انجام دے جو فقہی بصیرت بھی رکھتی ہو ، اپنے زمانہ کے احکام پر بھی اس کی نظر ہو اورورع و تقویٰ کی بھی حامل ہو۔
اس اجلاس میں زیادہ تر عالم اسلام بلکہ عالم عرب کے نمائندے شریک تھے ، برصغیر سے صرف یہ حقیر ہی شریک تھا ، معلوم ہوا کہ پڑوسی ملک سے مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب تشریف لانے والے تھے؛ لیکن وہ نہیں پہنچ سکے ، سبھوںکا ایک مشترک احساس یہ تھا کہ موجودہ دور میں فتاویٰ میں غیر معمولی افراط و تفریط پائی جاتی ہے ، ایک طرف مغربی ملکوں میں مقیم بعض وہ اہل علم ہیں جو منصوص مسائل میں بھی تغیر کی بات کرتے ہیں ، دوسری طرف قرآن و حدیث پر عمل کے دعوے دار وہ لوگ ہیں جو اپنے سوا تمام مسلمانوں کے عمل کو غلط ٹھہراتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض غالی حضرات اس کی وجہ سے دوسروں کی تکفیر کرنے سے بھی نہیں چوکتے ، تیسری طرف وہ متشددین ہیں جنہوں نے اپنے مخالف نقطۂ نظر کو نہ صرف کافر قرار دے دیا ہے؛ بلکہ ان کے قتل کو بھی جائز ٹھہرا دیا ہے اور مسلمان حکمرانوں کے خلاف تلوار لے کر میدان میں کود پڑے ہیں ، یہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے اعدائے اسلام کے مقاصد کو پورا کررہے ہیں ، مساجد میں خود کش حملے ، مسلکی بنیاد پر لوگوں کا قتل ، پرتشدد طریقوں کا استعمال اور مخالفین کے ساتھ ایسی بے دردی اور سفاکی اختیار کرنا ، جو اسلام اور انسانیت کے سراسر خلاف ہے ، میں فتاویٰ دینے میں بے احتیاطی کا بھی دخل ہے۔
اسی طرح آج کل مختلف ٹیلی ویژن پر ایسے لوگوں کو مفتی مقرر کیا جارہا ہے ، جنہیں نہ کتاب و سنت میں بصیرت حاصل ہے اور نہ فقہ سے کوئی مناسبت ہے ، یہی حال انٹرنیٹ پر چلنے والی فتاویٰ کی بہت سے سائٹوں کا ہے ، ان سے نوجوان گمراہ ہورہے ہیں ، ان میں کہیں انتہاپسندی ، غلو ، اور کہیں اباحیت پیدا ہوتی ہے؛ اس لئے مسلم سماج کی تربیت ہونی چاہئے کہ فتویٰ دینے کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو دی جائے جو واقعی اس کے اہل ہوں اور ایسے ہی لوگوں کے فتاویٰ قبول کئے جائیں۔
دنیا بھر کے مسلمانوں اور خود مسلمانانِ ہند کے لئے اس کانفرنس کا اصل پیغام یہی ہے کہ مختلف نقطۂ نظر کے حاملین فتاویٰ میں ایسے غلو کا راستہ اختیار نہ کریں کہ اختلاف، اختلافِ رائے سے بڑھ کر جدال اور جدال سے بڑھ کر قتل و قتال تک پہنچ جائے ، ایک دوسرے کی تکفیر کی جائے اوراختلاف رائے کو ایسے نفرت انگیز طریقہ پر پیش کیا جائے کہ اسلامی اُخوت کی بنیاد یں ریزہ ریزہ ہوجائیں اور انسانیت کو بھی شرمسار ہونا پڑے ، جیساکہ اس وقت ہمارے پڑوسی ملک کی حالت ہے۔
سعودی عرب کے کسی علمی پروگرام میں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت حاصل ہوجاتی ہے ، اس سفر میں پانچ دنو ں مدینہ منورہ میں قیام کا موقع ملا ،چونکہ حجاج جاچکے تھے اور عمرہ و یزا شروع نہیں ہوا تھا؛ اس لئے اژدہام نہیں تھا ، ہم لوگوں کا ہوٹل بھی مسجد نبوی کے صحن سے متصل اور روضۂ نبوی کے قریب تھا اور عصر سے فجر تک کا وقت خالی ہوتا تھا؛ اس لئے بار بار روضۂ شریف پر حاضر ہونے اوردیر تک اپنی گناہ گار زبان سے صلاۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔
ایک غلام بے دام کے لئے اس سے بڑھ کر شرف اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس کو اپنے آقا کے مبارک قدموں میں کھڑے ہونے کا موقع مل جائے ، اسی طرح ریاض الجنۃ میں بھی آسانی کے ساتھ اور دیر تک نماز پڑھنے کا موقع ملا ، غالباً اس سے پہلے اتنی سہولت سے اور اتنی دیر تک یہ مواقع میسر نہیں آئے تھے ،مکہ مکرمہ بھی میں بھی طواف میں بڑی سہولت رہی اور مختصر لیکن بہتر طورپر وقت گذارنے کا موقع ملا ، دُعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس گناہ گار بندے کو بار بار اپنی چوکھٹ پر حاضری دینے اوراپنے ایمان کوتازہ کرنے کا موقع عطا فرمائے۔