عقیدہ ثواب وعذاب قبر

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سماع صلوٰۃ و سلام
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
عقیدہ اہل السنت و الجماعت:
اہل السنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اوردیگر انبیاء کرام علیہم السلام وفات ظاہری کے بعد اپنی قبروں میں بتعلقِ روح زندہ ہیں، ان کے اجسادِ مقدسہ بعینہ محفوظ ہیں،صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلّف نہیں ہیں لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور روضہ اقدس پر جو درود پڑھاجائے اسے بلاواسطہ سنتے ہیں اور اگر دور سے پڑھا جائے تو فرشتے ان کی خدمت میں پہنچا دیتے ہیں۔
اہل بدعت کا نظریہ:
منکرین سماع النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا موقف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں [معاذاللہ]، صلوۃ وسلام کا سماع نہیں فرماتے،یہ عقیدہ شرکیہ عقیدہ ہے،اس کے دلائل من گھڑت ہیں، یہ عقیدہ شیعہ کا ہے، اس عقیدہ کے قائلین شرک کے کھیت کے دہقان ہیں وغیرہ وغیرہ۔ قارئین کی خدمت میں ان کی بعض عبارات ملاحظہ ہوں۔
1: فرقہ مماتیت اپنے بعض عقائد منظر عام پر لائے اور جماعتی لیٹر پیڈ پر یہ عقائد لکھ کر شائع کیے۔ سید ضیاء اللہ بخاری صاحب نے ان عقائد کی تصدیق بھی کی۔ ان عقائد میں یہ درج ہے کہ:
عقیدہ(2)آپ صلی اللہ علیہ وسلم عندالقبر صلوۃ وسلام کا سماع نہیں فرماتے جو سماع کا قائل ہے وہ بےایمان کافر اور مشرک ہے(عند القبر صلوۃ وسلام کے سماع کی جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب کی سب جعلی اور موضوع ہیں)
تمام عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں۔ [دستخط] ضیاء اللہ
(نوٹ:اس کی ایک کاپی ہمارے پاس محفوظ ہے:از ناقل)
2: محمد عطاء اللہ بندیالوی صاحب (مماتی) عقیدہ حیاۃ وسماع النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قائلین کے بارے میں لکھتے ہیں:
٭ ”حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم، سماع موتیٰ اور بزرگوں کے وسیلے جیسے موضوعات پر دلائل دے کر الٹا شرک کے کھیت کے دہقان بنے ہوئے ہیں۔“
(شرک کیا ہے: ص4)
٭ امام الانبیاء علیہم السلام کے ذمہ یہ جھوٹ لگایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میری قبر پر سلام کہیں گے تو میں اس کا جواب دوں گا۔
(کیا مردے سنتے ہیں: ص37)
٭ امام الانبیاء علیہم السلام قبر منور پر آنے والوں کے سلام کو نہیں سنتے۔
(کیا مردے سنتے ہیں: ص39)
3: مولوی اللہ بخش صاحب (مماتی)لکھتے ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا درود وسلام عند القبر سننا وجواب دینا یہ قصّہ من گھڑت ہے۔
(دعوۃ الرشاد: ص8 مؤلف مولوی اللہ بخش ، مؤید عنایت اللہ شاہ گجراتی)
4: فتاویٰ اصحاب الحدیث میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درود و سلام کو سنتے نہیں ہیں۔
(ج2 ص62)
ایک دوسرے مقام پر ہے:بہرحال رسول اللہ صلی اللہ ہمارے درود و سلام کو براہ راست ہم سے نہیں سنتے ہیں۔
(ج2 ص63)
دلائل اہل السنۃ والجماعۃ از قرآن مجید
پہلی آیت:
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ.
(البقرۃ :154)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں ان کی زندگی کا احساس نہیں ہوتا۔
تفسیر:
[۱]: مفتی بغدادعلامہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (1270ھ) ایک مقام پر حیات الشہداء کا ذکر کرتے ہوئے حیاۃ الانبیاء کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
وهي فوق حياة الشهداء بكثير وحياة نبينا صلى الله عليه وسلم أكمل وأتم من حياة سائرهم عليهم السلام ••• إن تلك الحياة في القبر وإن كانت يترتب عليها بعض ما يترتب على الحياة في الدنيا المعروفة لنا من الصلاة والأذان والإقامة ورد السلام المسموع ونحو ذلك إلا أنها لا يترتب عليها كل ما يمكن أن يترتب على تلك الحياة المعروفة•
(روح المعانی :ج22ص38 تحت قولہ تعالیٰ: ما کان محمد ابا احد من رجالکم)
ترجمہ: یہ حیات (جو انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہے) شہداء کی حیات سے بہت اعلیٰ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تو تمام انبیاء علیہم السلام سے اکمل واتم ہے ...اس قبر کی زندگی پر اگر چہ بعض وہ امور مترتب ہوتے ہیں جو ہماری دنیا کی معروف زندگی پر مترتب ہوتے ہیں مثلاً نماز، اذان، اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب لوٹانا اور اسی طرح کےدیگر امور ،مگر اس پر وہ سب امور مترتب نہیں ہوتے جو دنیا کی معروف زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔
[۲]: شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں:
والذی نعتقد ان رتبۃ نبیناصلی اللہ علیہ وسلم اعلی مراتب المخلوقین علی الاطلاق وانہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ حیٰوۃ مستقرۃ ابلغ من حیٰوۃ الشھدا ء المنصوص علیھا فی التنزیل اذ ھو افضل منھم بلا ریب وانہ صلی اللہ علیہ وسلم یسمع من یسلم علیہ•
(اتحاف النبلا ء : ص: 415)
ترجمہ: ہمارا یہی اعتقاد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مرتبہ تمام مخلوقات سے علی الاطلاق اعلیٰ ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر شریف میں دائمی طور پر زندہ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حیات شہداء کی حیات سے جو قرآن میں منصوص ہے،بہت بالاتر ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اُن سے بلا ریب افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے روضہ اطہر میں سلام عرض کرنے والوں کا سلام خود سنتے ہیں۔
دوسری آیت :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ؁ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ؁
(سورۃ الحجرات:۲، ۳)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، ایسانہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ بے شک جو لوگ بارگاہ نبوت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے خوب جانچ کر تقویٰ کےلیے منتخب کر لیا ہے ، ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبردست اجر بھی۔
تفسیر:
[۱]: مولانا محمد مالک کاندھلوی (م1409ھ)فرماتے ہیں :
احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں دو شخصوں کی آواز سنی تو ان کو تنبیہ فرمائی اور پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے ہو؟ معلوم ہوا کہ یہ اہل طائف ہیں۔ تو فرمایا: اگر یہاں مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (افسوس کی بات ہے ) تم اپنی آوازیں بلند کر رہے ہو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ اس حدیث سے علماءِ امت نے یہ حکم اخذ فرمایا ہے کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام آپ کی حیات مبارکہ میں تھا، اسی طرح کا احترام و توقیر اب بھی لازم ہے۔ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیّ (زندہ) ہیں۔
(معارف القرآن تکملہ ج:7 ص487)
[۲]: علامہ ر حمت اللہ بن عبد اللہ السندھی الحنفی رحمہ اللہ (م978ھ او993ھ) فرماتے ہیں :
ثم توجہ مع رعایۃ غایۃ الادب فقام تجاہ الوجہ الشریف متواضعاً خاشعاً مع الذلۃ و الانکسار و الخشیۃ و الوقار والھیبۃ و الافتقار غاض الطرف مکفوف الجوارح فارغ القلب واضعاً یمینہ علی شمالہ مستقبلاً للوجہ الکریم مستدبراً للقبلۃ……… محترزاً عن اشغال النظر بما ہناک من الزنیۃ، متمثلاً صورتہ الکریمۃ فی خیالک، مستشعراًبانہ علیہ الصلوۃ و السلام عالماً بحضورک و قیامک و سلامک مستحضرا عظمتہ وجلالتہ و شرفہ و قدرہ صلی اللہ علیہ و سلم ثم قال مسلماً مقتصداً من غیر رفع صوت لقولہ تعالیٰ: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﴾ ولا اخفاء بحضور و حیاء•
(لباب المناسک للسندی: ص508 باب زیارۃ سید المرسلین)
ترجمہ:پھر انتہائی ادب کے ساتھ چہرہ اقدس کی طرف متوجہ ہو، تواضع، رسوائی، انکساری، خوف اور سکون کے ساتھ اور ہیبت، محتاجی، نگاہوں کو پست کئے ہوئے جوارحات کو حرکات سے بند رکھتے ہوئے، دل کو ہر بات سے اُ س مقصود کے لئے فارغ کئے ہوئے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے، چہرہ مکرم کی طرف منہ کئے ہوئے، اور قبلہ مبارکہ کی طرف پشت کئے ہوئے اور وہاں کی آرائش وتزئین سے نگاہوں کو بچاتے ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارکہ کا تصور لیے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیری موجودگی ،تیرے قیام اور تیرے سلام سے باخبر ہیں،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وجلالت بلندی قدر کو ملحوظ رکھتے ہوئے پھر سلام پیش کرے، میانہ روی سے اور آواز کو پست رکھتے ہوئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اپنی آواز کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے پست رکھو،اور بے شک جو لوگ بارگاہ نبوت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں(یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے خوب جانچ کر تقویٰ کےلیے منتخب کر لیا ہے ، ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبر دست اجر بھی)، اور نہ زیادہ اخفاء کے ساتھ اور حضور قلب اور حیاء کے ساتھ سلام عرض کرے۔
[۳]: قطب الاقطاب مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ(م1322ھ) فرماتے ہیں:
”اور بہت پکار کر نہ بولے، بلکہ آہستہ خضوع اور ادب سے بہ نرمی عرض کرے اور جس کا سلام کہنا ہو عرض کرے:
”السلام علیک یا رسول اللہ من فلان بن فلان یستشفع بک الی ربک“
(اے اللہ کے رسول ! آپ کو فلاں بن فلاں کی طرف سے سلام قبول ہو، وہ شخص آپ سے درخواست کر رہاتھا کہ آپ اس کےلیے رب سے سفارش کریں )
(تالیفات رشیدیہ: ص650 زبدۃ المناسک)
[۴]: شارح ابو داؤد حضرت مولانا خلیل احمد سہانپوری (م1346ھ) فرماتے ہیں:
”آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے سلام کرنا بے ادبی اور آپ کی ایذاء کا سبب ہے۔ لہذا پست آواز سے سلام عرض کرنا چاہیے۔ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست آواز سے سلام عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔“
(تذکرۃ الخلیل: ص370)
[۵]: شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃا للہ علیہ”(م1369ھ) فرماتے ہیں:
”اور جو قبر شریف کے پاس حاضر ہو، وہاں بھی اِن آداب کو ملحوظ رکھے۔“
(تفسیر عثمانی: ج2ص640)
احادیث مبارکہ سے ثبوت
اس عنوان کے تحت ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن سے سماع النبی صلی اللہ علیہ و سلم ثابت ہوتا ہے۔
حدیث نمبر1:
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ
(سنن ابی داؤد: ج1ص286 کتاب المناسک باب زیارۃ القبور، مسند احمد: ج9ص575 رقم الحدیث1075 ، مسند اسحاق بن راھویہ:ص204 رقم الحدیث 520 ، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج5ص245 باب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم، شعب الایمان للبیہقی: ج2ص217 باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم رقم الحدیث1581)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کوئی آدمی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہے (یعنی متوجہ کر دیتا ہے)یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔
تصحیح و استدلال بالحدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح فرمائی ہے۔
(1) علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ(م728ھ) فرماتےہیں:
وَهُوَ حَدِيثٌ جَيِّدٌ .
(مجموع الفتاویٰ: ج27ص55 کتاب الزیارۃ)
ترجمہ: یہ حدیث جید (کھری) ہے۔
(2) امام تقی الدین سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ(م756ھ) فرماتے ہیں:
وھذا ا سناد صحیح.
(شفاء السقام: ص161 الباب الثانی فیما ورد من الاخبار الخ)
ترجمہ: اور اس کی اسناد صحیح ہے۔
(3) حافظ ابن کثیر شافعی رحمۃ اللہ علیہ(م774ھ) فرماتے ہیں:
وصححہ النووی فی الاذکار.
(تفسیر ابن کثیر: ج3ص674 تحت الآیۃ: ان اللہ و ملئکتہ یصلون )
ترجمہ: امام نووی نے اس روایت کو اپنی کتاب ”الاذکار“ میں صحیح قرار دیا ہے۔
(4) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ(م852ھ) اس روایت کو نقل کر کےفرماتے ہیں:
ورواتہ ثقات.
(فتح الباری ج:6ص: 596 کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم)
ترجمہ: اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔
(5) علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ (م911ھ)فرماتے ہیں:
ورویٰ ابو داود بسند صحيح…… عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا.
(وفاء الوفاء ج4ص1349 الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ)
ترجمہ: امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاًروایت کی ہے۔
(6) علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃ اللہ علیہ (م1122ھ)فرماتے ہیں:
باسناد صحیح .
(شرح المواہب للزرقانی: ج8ص308)
ترجمہ: یہ روایت سند صحیح کے ساتھ مروی ہے۔
(7) خاتم المحدثین مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (م1352ھ) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
رواتہ ثقات.
(عقیدۃالاسلام: ص120)
ترجمہ: اس کے راوی ثقہ ہیں۔
(8) شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ(م1369ھ) نے اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے۔
(فتح الملہم:ج1 ص330باب الاسراء برسول اللہ و فرض الصلاۃ الخ)
رد روح کا مطلب:
اس حدیث میں ”رد روح“ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ فرماتے ہیں اور قوت گویائی عطا فرماتے ہیں۔
اکابرین امت کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں۔
1: علامہ علی بن احمدعزیزی رحمۃ اللہ علیہ(م1070ھ) فرماتے ہیں:
(الا رد اللہ علی روحی) ای رد علی نطقی لانہ صلی اللہ علیہ و سلم حی دائماً و روحہ لا تفارقہ لان الانبیاء احیاء فی قبورہم.
(السراج المنیر :ج3ص278)
ترجمہ: حدیث ”إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوْحِى“ میں ”ردِ روح“ سے مراد قوتِ گویائی کا عطا ہونا ہے، کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوامی طور پر زندہ ہیں اور آپ علیہ السلام کی روح آپ علیہ السلام سے الگ نہیں ہوتی، اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
2: قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (م1297ھ) فرماتے ہیں:
اس صورت میں حاصل معنی حدیث شریف کےیہ ہوں گے کہ جب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے تو خداوند کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پُر فتوح کو اس حالت استغراق فی ذات اللہ تعالیٰ وتجلیات اللہ سے جو بوجہ محبوبیت و محبیت تامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل رہتی ہے، اپنے ہوش عطا ء فرما دیتاہے۔ یعنی مبدء انکشاف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو انبساط الی اللہ حاصل تھا مبدل بانقباض ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے ارتداد علی النفس حاصل ہو تا ہے اور اپنی ذات وصفات اور کیفیات اور واقعات متعلقہ ذات وصفات سے اطلاع حاصل ہو جاتی ہے، سو چونکہ سلام امتیان بھی منجملہ وقائع متعلقہ ذات خود ہیں، اس لئے اس سے مطلع ہو کر بوجہ حسنِ اخلاقِ ذاتی جواب سے مشرف فرماتے ہیں۔ اس صورت میں اثباتِ حیات اور دفع مظنہ ممات بمعنی انقطاعِ تعلق حیات کے لیے جواب میں اور تکلفات کی حاجت نہ رہے گی۔
(آب حیات:ص206)
3: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (م1362ھ) فرماتے ہیں:
اس سے حیات میں شبہ نہ کیاجاوے کیونکہ مراد یہ ہے کہ میری روح جو ملکوت وجبروت میں مستغرق تھی جس طرح کہ دنیا میں نزول وحی کے وقت کیفیت ہوتی تھی، اس سے افاقہ ہوکر سلام کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں، اس کو ”رد روح“ سے تعبیر فرمادیا۔
(نشرالطیب: ص200 اٹھائیسویں فصل)
4: شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (م1377ھ) فرماتے ہیں:
الف: ابوداؤدکی روایت میں ”رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِىْ“ فرمایاگیاہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
” مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوْحِى حَتَّى اُسَلِّمَ عَلَیْہِ اوکما قال“
اگرلفظ ”اِلَیَّ رُوْحِیْ“ فرمایا گیا ہوتا تو آپ کا شبہ وارد ہو سکتا تھا، ”اِلٰی“ اور ” عَلٰی“ کے فرق سے آپ نے ذہول فرمایا، ” عَلٰی“ استعلاء کے لئے ہے اور ”اِلٰی“ نہایتِ طرف کے لئے ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتاہے کہ صلوٰۃ وسلام سے پہلے روح کا استعلاء نہ تھا، نہ یہ کہ وہ جسم اطہر سے بالکل خارج ہوگئی تھی اور اب اس کو جسم اطہر کی طرف لوٹا گیا ہے، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدارج قرب ومعرفت میں ہر وقت ترقی پزیر ہیں اس لئے توجہ الی اللہ کا انہماک اور استغراق دوسری جانب کی توجہ کو کمزور کر دیتا ہے، چونکہ اہل استغراق کی حالتیں روزانہ مشاہدہ ہوتی ہیں مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃللعلمین بنایا گیا ہے اس لئے بارگاہِ الوہیت سے درود بھیجنے والے پر رحمتیں نازل فرمانے کے لئے متعدد مزایا میں ایک مزیت یہ بھی عطاء فرمائی گئی ہے کہ خود سرور کائنات علیہ السلام کو اس استغراق سے منقطع کرکے درود بھیجنے والے کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے متوجہ ہو کر دعا فرماتے ہیں۔
ب: اگر بالفرض وہی معنی لیے جائیں جو آپ سمجھے ہیں اور ” عَلٰی“ اور ”اِلٰی“ میں کوئی فرق نہ کیا جائے تب بھی یہ روایت دوامِ حیات پر دلالت کرتی ہے، اس لئے کہ دن رات میں کوئی گھڑی اور کوئی گھنٹہ بلکہ کوئی منٹ اس سے خالی نہیں رہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اندورون ِ نماز اور بیرونِ نماز درود نہ بھیجا جاتا ہو، اس لئے دوامِ حیات لازم آئے گا۔
(مکتوبات شیخ الاسلام : حصہ اول ص248)
5: حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ(م1417ھ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئےرقمطراز ہیں:
حدیث کے ظاہری الفاظ ”إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوْحِى“ سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی روح مبارک جسدِ اطہر سے الگ رہتی ہے، جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کے جسدِ اطہر میں روح مبارک کو لوٹا دیتا ہے تاکہ آپ سلام کا جواب دے سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی، اگراس کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی روح مبارک جسم اقدس میں ڈالی اور نکالی جاتی ہے کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے لاکھوں کروڑوں امتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر صلوٰۃ و سلام نہ بھیجتے ہوں، روضہ اقدس پر حاضر ہو کر سلام عرض کرنے والوں کا بھی ہر وقت تانتا بندھا رہتا ہے اور عام دنوں میں بھی ان کا شمار ہزاروں سے کم نہیں۔علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبور میں زندہ ہونا ایک مسلم حقیقت ہے، اگر چہ اس حیات کی نوعیت کے بارے میں علماء امت کی رائیں مختلف ہیں لیکن اتنی بات سب کے نزدیک مسلّم اور دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قبور میں حیات حاصل ہے۔ اس لئے حدیث کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اطہر روح سے خالی رہتا ہے اور جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دلوانے کے لئے اس میں روح ڈال دیتاہے، اس بناء پر اکثر شارحین نے ”ردِ روح“ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قبر مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی جمالی وجلالی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے (اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے) پھر جب کوئی امتی سلام عرض کرتا ہے اور وہ فرشتہ کے ذریعہ یا براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس طرف متوجہ بھی ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں۔ پس اس روحانی توجہ والتفات کو ”ردِ روح“ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
(معارف الحدیث: ج5ص238 ص239)
حدیث نمبر2:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ "
(مشکوٰۃالمصابیح: ص87 باب الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفضلہا الفصل الثالث، شعب الایمان للبیہقی: ج2ص218 باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ و سلم و اجلالہ و توقیرہ، جلاء الافہام لابن القیم: ص22، القول البدیع للسخاوی: ص160 الباب الرابع، حیات الانبیاء للبیہقی: ص104، کتاب ثواب الاعمال لابی الشیخ الاصبہانی بحوالہ فتح الباری: ج13 ص279)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو شخص دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔
تصحیح حدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح فرمائی ہے۔
(1) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ(م 852ھ) فرماتے ہیں:
واخرج ابوالشیخ فی کتاب الثواب بسند جید.
(فتح الباری ج:6ص: 595 کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم)
ترجمہ: محدث ابوالشیخ اصبہانی رحمۃا للہ علیہ نے عمدہ سند کے ساتھ اس روایت کی تخریج کی ہے۔
(2) امام سخاوی رحمۃا للہ علیہ (م 902ھ)نے اس کی سند کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
(القول البدیع للسخاوی: ص160 الباب الرابع)
(3) حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ(م 1014ھ) فرماتے ہیں:
ورواہ ابوالشیخ وابن حبان فی کتاب ثواب الاعمال بسند جید.
(المرقاۃ: ج4ص22 باب الصلوٰۃ علی البنی صلی اللہ علیہ و سلم و فضلہا)
ترجمہ: ابوالشیخ اصبہانی اور ابن حبان نے اس حدیث کو سند جید سے نقل فرمایا ہے۔
(4) شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی (م 1369ھ)نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے:
سندہ جیّد .
(فتح الملہم:ج1 ص330باب الاسراء برسول اللہ و فرض الصلاۃ الخ)
ترجمہ: اس حدیث کی سند کھری ہے۔
(5) امام اہل السنت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ(م 1430ھ) فرماتے ہیں:
ان اکابر محدثین کے(جن میں حافظ ابن حجررحمۃا للہ علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، جن کی تقریب اور تہذیب پر آج رواۃ کی توثیق وتضعیف کا مدار ہے)بیان سے واضح ہو گیا کہ یہ روایت جید اور صحیح ہے۔
(تسکین الصدور: ص328)
(6) مولانا غلام اللہ خان فرماتے ہیں:
”اس حدیث کی جو سند سدّی صغیر پر مشتمل ہے اس کو بوجہ راوی مذکور کے کمزور کہا جائے گا اور جس سند میں یہ راوی نہیں ہے وہ کمزور نہیں ہے اور حدیث ہذا کی دوسری سند بھی ہے جس کے صحیح ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔ چنانچہ ملا علی قاری الحنفی رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: قال میرک نقلاً عن الشیخ ورواہ ابوالشیخ وابن حبان فی کتاب ثواب الاعمال بسند جید. “
(ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی ص48 اکتوبر 1967ء)
(7) نواب صدیق حسن خان غیر مقلد اس روایت کو اپنی کتاب ”دلیل الطالب“ میں لائے ہیں اور اس کی تحسین فرمائی ہے۔ (ص844)
حدیث نمبر3:
عن عطاء مولى أم حبيبة قال : سمعت أبا هريرة يقول : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ليهبطن عيسى ابن مريم حكما عدلا و إماما مقسطا و ليسلكن فجا حاجا أو معتمرا أو بنيتهما و ليأتين قبري حتى يسلم عليَّ و لأردن عليه يقول أبوهريرة: أي بني أخي إن رأيتموه فقولوا أبو هريرة يقرئك السلام
(المستدرک للحاکم:ج3ص489، 490 ذکر نبی اللہ و روحہ عیسی بن مریم، مسند ابی یعلی: ص1149 رقم الحدیث6577، مجمع الزوائد: ج8ص387 باب ذکر الانبیاء علیہم السلام، الخصائص الکبرٰی: ج2ص490 باب حیاتہ صلی اللہ علیہ و سلم فی قبرہ الخ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ضرور عادل، فیصلہ کرنے والے، منصف حکمران بن کر اتریں گے اور وہ اس گلی میں سے حج کرتے یا عمرہ کرتے یا ان دونوں کی نیت سے گزریں گے اور وہ میری قبر پر آئیں گے اور مجھے سلام کریں گے، میں ان کے سلام کا جوا ب دوں گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے میرے بھتیجو! اگر تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ان سے کہیے گا: ابوھریرہ آپ کو سلام کہہ رہے تھے۔
فائدہ:
اس صحیح روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا قبر اقدس میں زندہ ہونا، صلوۃوسلام کا سماع فرمانا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب دینا بھی ثابت ہے، اس کا انکار کرنا حدیث کا ا نکار کرنے کے مترادف ہے۔
تصحیح حدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح فرمائی ہے۔
(1) امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ (م 405ھ)اسے نقل کر کے فرماتے ہیں:
هذا حديث صحيح الإسناد.
(المستدرک للحاکم:ج3ص489، 490 ذکر نبی اللہ و روحہ عیسی بن مریم)
ترجمہ: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
(2) علامہ شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ(م 748ھ) بھی اسے صحیح کہتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم:ج3ص489، 490 ذکر نبی اللہ و روحہ عیسی بن مریم)
(3) علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ (م 807ھ)فرماتے ہیں:
رواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح .
(مجمع الزوائد: ج8ص387 باب ذکر الانبیاء علیہم السلام)
ترجمہ: اس روایت کوامام ابویعلی نے نقل کیا ہے اور اس کے راوی بخاری کے راوی ہیں۔
(4) علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (م 911ھ)نے اس کو صحیح فرمایا ہے۔
(الجامع الصغیر :ج2ص260 رقم الحدیث7742)
سماع النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت
سلف صالحین اور علمائے اُمّت سے
1: حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ (م24 ھ)کے بارے میں ایک واقعہ مروی ہے:
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ فَجِئْتُهُ بِهِمَا قَالَ مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا قَالَا مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(صحیح البخاری: ج1ص67 باب رفع الصوت فی المساجد)
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ کسی شخص نے مجھے کنکری ماری، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لے آؤ۔ میں انہیں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟ (یعنی کس قبیلے سے تمہارا تعلق ہے؟) انہوں نے کہا: ہم اہل طائف میں سے ہیں۔اس پرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا :اگر تم اہل مدینہ میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزادیتا اس لئے کہ تم مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی آوازیں بلند کررہے ہو۔
آواز بلند کرنے پر مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے نکیر کرنا اس لئے تھا کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارکہ ہے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیوی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آواز بلند کرنا جرم تھا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ منورہ کے پاس آواز بلند کرنا بھی جائز نہیں، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں، حدودِ مسجد کی آواز کو بلا کسی توسط سے خود سماعت فرماتے ہیں۔ چنانچہ سلف وخلف میں سے کسی نے انکار نہیں فرمایا۔
اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اعتقاد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ نہ ہوتے اور قریب کی آوازوں کو خود سماعت نہ فرمارہے ہو تے تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دبی آواز سے بات کرنے کے حکم قرآنی کو اس انداز میں کبھی بیان نہ فرماتے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک دوسرا واقعہ منقول ہے، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃا للہ علیہ حنفی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی مہم سے فارغ ہو کر واپس مدینہ منورہ تشریف لاتے تو سب سے پہلا کام جو آپ رضی اللہ عنہ کرتے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں سلام عرض کرناہوتا تھا اور اسی کی آپ دوسروں کو تلقین بھی فرماتے تھے۔ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
اول کارِ کہ عمر رضی اللہ عنہ ابتداء مے کرد سلام بہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بود. (جذب القلوب: ص200)
ترجمہ: پہلا کام جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابتداء فرماتے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا ہوتا۔
علامہ السمہودی رحمہ اللہ (م911ھ) اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
ولماقدم عمر المدینۃ کان اول ما بدء بالمسجد و سلم علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم.
(وفاء الوفاء ج4ص1358 الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ)
ترجمہ: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لاتے تو پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام عرض کرتے۔
2: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(م57 ھ) فرماتی ہیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق روایت ہے :
انھا کانت تسمع صوت الوتد یوتد، والمسمار یضرب فی بعض الدور المطیفۃ بمسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، فترسل الیہم: ((لا توؤذوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم))
قالوا و ما عمل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مصرعی دارہ؛ الا بالمناصع؛ توقیا لذلک.
(شفاء السقام للسبکی: ص432)
ترجمہ:آپ جب کبھی اُن گھروں میں جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سےمتصل تھے، کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتی تھیں کہ (خبردار!) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ا س آواز سے) اذیت نہ دو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسی سے بچنے کے لئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جاکر بنوائے تھے( تاکہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت نہ دے)
3: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ (م 101ھ)کے بارے میں مروی ہے:
کان عمرُ بن عبد العزیز یُرْسِل البرید من الشام الی المدینۃ لیُسلِّمَ لہ علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم.
(شفاء السقام للسبکی: ص166)
ترجمہ: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ایک قاصد مدینہ منورہ بھیجا کرتے تھے تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی طرف سے سلام پہنچائے۔
4: امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ(م150ھ)
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے: سنت یہ ہے کہ تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر شریف پر قبلہ کی جہت سے جاؤ، قبلہ کی طرف پیٹھ کرو اور قبر شریف کی طرف چہرہ کرو، پھر کہو:
السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
(مسند الامام الاعظم: ص126 کتاب الحج)
5: علامہ ابن تیمیہ الحنبلی (م 728ھ)فرماتے ہیں:
قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ } فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.
(مجموع الفتاویٰ: ج26ص70 کتاب الحج، فصل؛ واذا دخل المدینۃ)
ترجمہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کاا رشاد ہے: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو کھائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قریب سے صلوٰ ۃ وسلام خود سنتے ہیں اور دور سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچایا جاتا ہے۔
6: محقق علی الاطلاق حافظ ابن الہمام الحنفی(م 861ھ) آدابِ زیارت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثم يسأل النبي صلى الله عليه وسلم الشفاعة فيقول يا رسول الله أسألك الشفاعة يا رسول الله أسألك الشفاعة وأتوسل بك إلى الله في أن أموت مسلما علی ملتك وسنتك۔۔۔۔ ثم ينصرف متباكيا متحسرا على فراق الحضرة الشريفة النبوية والقرب منها.
(فتح القدیر: ج3 ص169 و ص184 کتاب الحج، ا لمقصد الثالث فی زیارۃ قبر النبی )
ترجمہ: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرے اور یہ کہے: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بطور وسیلہ پیش کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مروں اور آپ کی سنتوں پر عامل ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب اقدس سے روتا ہوا اور جد ائی کا غم ساتھ لئے ہوئے واپس ہو۔
18: علامہ شہاب الدین احمد بن محمد الخفاجی (م 1069ھ)فرماتے ہیں:
لانہ صلی اللہ علیہ و سلم حی فی قبرہ، یسمع دعاء زائرہ.
(نسیم الریاض فی شرح شفاء القاصیٰ عیاض: ج3ص398)
ترجمہ: اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور اپنے زیارت کرنےوالے کی دعا ( یعنی صلوٰۃ وسلام) سنتے ہیں۔
19: علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی الحنفی(م 1232ھ) رقمطراز ہیں:
ینبغی لمن قصد زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم ان یکثر الصلاۃ علیہ فانہ یسمعہا و تبلغ الیہ
(حاشیۃ الطحطاوی: ص746 فصل فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم)
ترجمہ: جو شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کاا رادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ آپ علیہ السلام پر کثرت سے درود پڑھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اس وقت) خود سنتے ہیں اور (اگر دور سے پڑھا جائے تو فرشتوں کے ذریعے) آپ کی طرف پہنچایا جاتا ہے۔
25: سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ کے حکم سے تقریباً پانچ سو علماء کرام کی مستند جماعت کے مرتب کردہ فتاویٰ عالمگیری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک پر حاضری کے آداب کے بیان میں یہ بات درج ہے:
ويبلغه سلام من أوصاه فيقول السلام عليك يا رسول الله من فلان بن فلان يستشفع بك إلى ربك فاشفع له ولجميع المسلمين.
(عالمگیری ج1ص292 کتاب المناسک، باب النذر بالحج)
ترجمہ: اگر کسی نے اس (زائر) کوآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں سلام کہنے کی درخواست کی ہو تو یہ(زائر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا سلام بھی عرض کرے اور یوں کہے:” یارسول اللہ! فلاں بن فلاں کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام ہوں اور وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی بناتا ہے، لہذاآپ اس کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے شفاعت کریں۔“
سماع النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت
اہل السنت و الجماعت علماء دیوبند سے
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی(م 1297ھ)
”جمال قاسمی“ میں لکھتے ہیں:
ارواح انبیاء علیہم السلام کوبدن کے ساتھ علاقہ بدستوررہتاہے اور ان کاسماع بعدوفات بھی بدستورباقی ہے۔
(جمال قاسمی ص13ط :کتب خانہ اعزازیہ دیوبند)
قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (م 1322ھ)
فرماتے ہیں:
مگر انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کو خلاف نہیں۔
(فتاوٰی رشیدیہ: ص134)
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (م 1339ھ)
سنن ابی داؤد کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
تقدیرالکلام( مامن احدیسلم علی الااردعلیہ السلام) لانی حی اقدرعلی ردالسلام.
(حاشیہ سنن ابی داؤد: ج1ص286‘باب زیارۃ القبور)
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کہ ”جوبھی مجھے سلام کرتاہے تومیں خوداس کے سلام کا جواب دیتاہوں“ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ میں زندہ ہوں تو سلام کاجواب دینے پر قادرہوں (اس لیے جواب دیتا ہوں)
مولانا خلیل احمد سہارنپوری(م 1346ھ)
”تذکرۃ الخلیل“ میں آپ کے متعلق مولاناعاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں:
آستانہ محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم پر حاضری کے وقت حضرت کی عجیب کیفیت ہوتی تھی، آواز نکالنا تو کیا مواجہ شریف کے قریب یا مقابل بھی کھڑے نہیں ہوتے تھے، خوفزدہ، مؤدبانہ، دبے پاؤ ں آتے اور مجرم وقیدی کی طرح دور کھڑے ہوتے، بکمال خشوع صلوٰۃ وسلام عرض کرتے اور چلے آتے تھے۔ زائرین جو بیباکانہ اونچی آواز سے صلوٰۃ و سلام پڑھتے اس سے آپ کو بہت تکلیف ہوتی اور فرمایا کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے سلام عرض کرنا بے ادبی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایذاء کا سبب ہے، لہٰذاپست آواز سے سلام عرض کرنا چاہئے اور یہ بھی فرمایا کہ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست آواز سے سلام عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود سنتے ہیں۔
(تذکرۃ الخلیل: ص370)
علامہ محمد انور شاہ کشمیری (م 1352ھ)
آپ فرماتے ہیں:
ومن ھھناانحل حدیث اخررواہ ابوداؤدفی رد روحہ صلی اللہ علیہ و سلم حین یسلم علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس معناہ انہ یردروحہ ای انہ یحیی فی قبرہ بل توجہہ من ذلک الجانب الی ھذاالجانب فہوصلی اللہ علیہ و سلم حی فی کلتاالحالتین لمعنی انہ لم یطرأعلیہ التعطل قط۔
(فیض الباری علی صحیح البخاری: ج2 ص65 باب رفع الصوت فی المساجد)
ترجمہ:اوریہیں سے ابوداؤدوالی حدیث بھی حل ہوگئی کہ ”جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم پرسلام کیاجاتاہے تو آپ کی روح مبارک لوٹائی جاتی ہے“ اس روح لوٹانےکا یہ مطلب نہیں کہ قبرمیں زندہ کیاجاتاہے بلکہ( اس کا معنی یہ ہے کہ) آپ علیہ السلام کی ایک جانب سےدوسری جانب توجہ کردی جاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں حالتوں میں زندہ ہوتے ہیں، آپ علیہ السلام پرتعطل بالکل طاری نہیں ہوتا۔
حضرت مولانا نصیر الدین غور غشتوی:
ارشاد فرمایا:
(حدیث پاک) جس شخص نے مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھا تو میں خود یعنی حقیقی طور پر فرشتوں کے واسطے کے بغیر میں خود سنتا ہوں اور جس نے دور سے مجھ پر درود پڑھا تو اس کی مجھے کسی فرشتہ کے ذریعے خبر دی جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ غور سے سنو! یہی ہمارا اور ہمارے سب اساتذہ کرام، مشائخ عظام اور تمام اکابرین کا مسلک اور عقیدہ ہے۔
(مجالس غور غشتوی: ص69، 70)
حضرت مولانا مفتی محمود (م1400 ھ)
حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ مولانا عبد العزیز شجاع آبادی کی کتاب ”دعوت الانصاف فی حیات جامع الاوصاف“ کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حضرت مولانا عبد العزیز صاحب شجاع آبادی کی تصنیف ”دعوت الانصاف فی حیات جامع الاوصاف“ کو مختلف مقامات سے دیکھا، ماشاء اللہ مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم اور سماع صلوٰ ۃ وسلام عند القبر الشریف پر اسلام وجمہور اہل السنۃ کے متفقہ فیصلہ کے مطابق تحریر فرمایا، حوالہ جات پیش کئے اور صحیح مسلک کو حوالہ جات سے ایسا ثابت کیا جو اخلاف ومعاصرین کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ اللہ تعالی ٰ قبول فرماوے اور حضرت مولانا کو ایسی تصانیف کرنے کی توفیق مزید بخشے۔ واللہ الموفق
الاحقر الافقر محمود عفا اللہ عنہ
خادم مدرسہ قاسم العلوم ملتان
17 ربیع الاوّل 1400ھ“
(دعوت الانصاف فی حیات جامع الاوصاف: ص9)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (م 1402ھ)
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے خود سننے میں کوئی اشکال نہیں، اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں۔علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے قول بدیع میں لکھا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم زندہ ہیں اپنی قبر شریف میں او رآپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بدن اطہر کو زمین نہیں کھا سکتی اور اس پر اجماع ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے انبیاء علیہم السلام کی حیات میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث (الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون) کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اس کی مختلف سے طرق سے تخریج کی ہے۔
(فضائل درود شریف: ص34)
حضرت مولاناقاری محمدطیب قاسمی (م1403ھ)
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
برزخ میں انبیاء علیہم السلام کی حیات کامسئلہ معروف ومشہوراورجمہورعلماء کااجماعی مسئلہ ہے۔علماء دیوبندحسب عقیدہ اہلسنت والجماعت برزخ میں انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات کے اس تفصیل سے قائل ہیں۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اورتمام انبیاء کرام علیہم السلام وفات کے بعداپنی اپنی پاک قبروں میں زندہ ہیں اوران کے اجسام کے ساتھ ان کی ارواح مبارکہ کاویساہی تعلق قائم ہے جیساکہ دینوی زندگی میں قائم تھا۔ وہ عبادت میں مشغول ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں انہیں رزق دیاجاتاہے اوروہ قبورمبارکہ پرحاضرہونے والوں کا صلوٰۃ وسلام سنتے ہیں۔ علماء دیوبندنے یہ عقیدہ قرآن وسنت سے پایاہے اوراس بارے میں ان کے سوچنے کاطرز بھی متوارث رہاہے۔
(خطبات حکیم الاسلام: ج7ص181)
امام اہل السنت مولانا محمد سرفراز خان صفدر (م 1430ھ)
ہمارے استاذ محترم امام اہل السنت شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ ایک عنوان: ”عدم تعلق کا کوئی بھی قائل نہیں رہا“ کے تحت لکھتے ہیں:
”بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تقریبا 1374ھ تک اہل السنت والجماعت کا کوئی فرد، کسی بھی فقہی مسلک سے وابستہ، دنیا کے کسی خطہ میں اس کا قائل نہیں رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (اور اسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام) کی روح مبارک کا جسم اطہر سے قبر شریف میں کوئی تعلق اور اتصال نہیں اور آپ عند القبر صلوۃ وسلام کا سماع نہیں فرماتے، کسی اسلامی کتاب میں عام اس سےکہ وہ کتاب حدیث وتفسیر کی ہو یا شرحِ حدیث اور فقہ کی، علم کلام کی ہو یا علم تصوف وسلوک کی، سیرت کی ہو یا تاریخ کی، کہیں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر نہیں کہ آپ کی روح مبارک کا جسم اطہر سے کوئی تعلق اور اتصال نہیں اور یہ کہ آپ عند القبر صلوۃ وسلام کا سماع نہیں فرماتے۔
من ادعی خلافہ فعلیہ البیان ولا یمکنہ ان شاء اللہ تعالیٰ الیٰ یوم البعث والجزاء والمیزان۔“
[جو ہمارے اس دعوے کا مخالف ہو تو وہ دلیل لائے، ان شاء اللہ قیامت قائم ہونے، روزِ جزاء آنے اورمیزان عمل لگنے تک اس کے خلاف دلیل لانا نا ممکن ہے]
)تسکین الصدور: ص290 (
اکابر علماء دیوبند کا مسلک:
امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ماہنامہ ”پیام مشرق“میں ایک اشتہار شائع ہوا جس میں مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق اکابر علماء دیوبند کے مسلک اور ان کے متفقہ فیصلہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس اشتہار میں اکابرین میں سے دس حضرات کے دستخط موجود تھے اور یہ اشتہار حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہفت روزہ رسالہ ”خدام الدین“ میں بھی شائع کیا تھا۔ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ نے ”تسکین الصدور“ (ص37) میں اور ڈاکٹر علامہ خالد محمود زید مجدہ نے ”مقام حیات“ (ص707) میں بھی نقل فرمایا ہے۔ افادہ عام کے لیے اس اشتہار کی تحریر اور اس کا سکین پیش خدمت ہے۔
اشتہار کی تحریر :
مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق
اکابر دیوبند کا مسلک
علمائے دیوبند کا متفقہ اعلان
حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اورسب انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں اکابر دیوبند کا مسلک یہ ہے کہ وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کے ابدان ِ مقدسہ بعینہ محفوظ ہیں اور جسدِ عنصری کے ساتھ عالم برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے اور حیات دنیوی کے مماثل ہے۔
صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلّف نہیں ہیں، لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور روضہ اقدس میں جو درود پڑھاجائے بلاواسطہ سنتے ہیں اور یہی جمہور محدثین اور متکلمین اہل سنت کا مسلک ہے۔اکابر دیوبند کے مختلف رسائل میں یہ تصریحات موجود ہیں۔حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی مستقل تصنیف حیات انبیاء علیہم السلام پر ”آبِ حیات“ کے نام سے موجود ہے۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد خلفاء میں سے ہیں، ان کا رسالہ ”المہند علی المفند“ بھی اہل انصاف اور اہل بصیرت کے لئے کافی ہے۔اب جو اس مسلک کے خلاف دعویٰ کرے اتنی بات یقینی ہے کہ ان کا اکابر دیوبند کے مسلک سے کوئی واسطہ نہیں۔
واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل
1:مولانا محمد یوسف بنوری عفا اللہ عنہ مد رسہ عربیہ اسلامیہ کراچی نمبر 5
2:مولانا عبد الحق عفی عنہ مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک
3:مولانا محمد صادق عفا اللہ عنہ سابق ناظم محکمہ امور مذہبیہ بہاولپور
4:مولانا ظفر احمد عثمانی عفا اللہ عنہ شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہ یار سندھ
5:مولانا شمس الحق افغانی عفااللہ عنہ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
6:مولانا محمد ادریس کان اللہ لہ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور
7:مولانامفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور
8:مولانا محمد رسول خاں عفااللہ عنہ جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور
9:مولانا مفتی محمد شفیع عفا اللہ عنہ مہتمم دارالعلوم کراچی نمبر1
10:مولانا احمد علی عفی عنہ امیر نظام العلماء وامیر خدام الدین لاہور
منجانب :حیات الانبیاء سوسائٹی گجرات
(پیام مشرق: ستمبر 1960ء)

عقیدہ ثواب وعذاب قبر
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
مذہب اہل السنت والجماعت:
قرآن کریم ،احادیث مبارکہ،اجماع امت اور اسلاف امت کے فرامین کی روشنی میں اہل السنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد قیامت سے پہلے قبر میں (جہاں میت یا اس کے اجزاء ہوں)جسد عنصری کو بتعلق روح ثواب وعذاب ہوتا ہے۔
اہلِ بدعت کا موقف:
[۱]: اشاعت التوحید والے حضرات کا موقف یہ ہے کہ مرنے کے بعد علیین یا سجین میں روح اور جسم مثالی کو عذاب وثواب ہوتا ہے ، اس دنیا والی قبر میں جسد عنصری سے نہ تو روح کا تعلق ہوتا ہے نہ ہی اس جسم کو عذاب وثواب ہوتا ہے۔ان حضرات کی چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
 مرنے کے بعد انسان زندہ ہی رہتاہے مگر لباس ومکان بدل لیتا ہے...جسد عنصری کا لباس اتارکر جسد مثالی کالباس پہن لینے اور دار دنیا سے منتقل ہوکر دار برزخ میں پہنچ جانے سے بھی انسان نہیں مرتا۔
(ندائے حق ج1ص17)
 دنیا میں جو شخص مرتا ہے اس کی روح کا رشتہ اس مادی جسم سے ٹوٹ جاتا ہے یہ جسم فنا ہوجاتا ہے مگر مثالی اصلی جسم باقی رہتا ہے اس سے روح کا تعلق نہیں ٹوٹتا...راحت ورنج مسرت اور غم ہروجدانی کیفیت اس کو محسوس کرتی ہے مگر اس کے باوجود یہ ظاہری مادی جسم نہیں رکھتا یہ جسم تو فنا ہوچکا ہوتا ہے...اس کا تو ہراحساس وادراک جسم مثالی کے ساتھ ہوتا ہے...روح جسم مثالی کے ساتھ ہی منکر نکیر کے سوال کا جواب دیتی ہے۔
(ندائے حق ج1ص100،101)
 اس جسد عنصری میں بعداز دفن دوبارہ روح کا آنا اور میت کا قبر میں زندہ ہوجانا یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
(ندائے حق ج1ص225)
 قبر وہ ہے جہاں روح کو عذاب وثواب ہوتا ہے وہی شرعی قبر ہے اوروہی روح کا ٹھکانہ ہے۔
(عقیدۃ الامت ص31مصنف شہاب الدین خالدی)
 اللہ تعالیٰ اس عالم برزخ میں روح کو وہاں کے مناسب حال ایک جسم عطا فرماتے ہیں...اسی جسم مثالی میں روح قیامت تک رہے گی۔
(عقیدۃ الامت ص34)
 شرعی قبر جس میں ثواب وعذاب ہوتا ہے وہ ہے جو جنت کے قریب ہے۔
(عقیدۃ الامت ص36)
 یعنی زمین وقبر بھی مثالی زور جسم بھی مثالی اور ثواب وعذاب بھی وہیں ہوگا۔
(عقیدۃ الامت ص39)
 اس جسم عنصری کو عذاب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس قبر میں عذاب ہوتا ہے...عذاب وثواب روح کوہوتا ہے جو اس جسم میں نہیں ہوتی۔
(عقیدۃ الامت ص525)
 جمعیت اشاعت التوحیدوالسنۃ کا قرآن کریم اور احادیث صریحہ کی رو سے یہ موقف ہے کہ اس مٹی والے جسم سے روح نکلنے کے بعد نہ تو وہ روح اس قبرمیں مدفون جسم میں واپس آتی ہے اور نہ ہی اس مدفون جسم سے روح کا کوئی تعلق قائم ہوتا ہے۔
(عقائد علمائے اسلام ص91 مصنف شہاب الدین خالدی)
[۲]: کیپٹن عثمانی صاحب ثواب وعذاب قبر کی اس صحیح صورت کے منکر ہیں۔ چنانچہ موصوف نے اپنے ایک رسالہ "عذاب برزخ" میں کئی ایک مقامات پراس عقیدہ کا انکار کیا ہے چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں :
٭ یہی وہ اصلی قبر ہے جہاں روح کو دوسرے (برزخی) جسم میں ڈال کر قیامت تک رکھا جائے گااور اسی پر راحت یا عذاب کا پورا دور گذرے گا۔
(عذاب برزخ: ص2)
٭ روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے اور روح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دور گزرتا ہے……اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔
(عذاب برزخ: ص6)
٭ سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخص بھی وفات پاجاتا ہے اس کو حسب حیثیت ایک برزخی جسم ملتا ہے جس میں اس کی روح کو ڈال دیا جاتا ہے اور اس جسم اور روح کے مجموعہ پر سوال و جواب اور عذاب و ثواب کے سارے حالات گذرتے ہیں اور یہی اس کی اصلی قبر بنتی ہے۔ (عذاب برزخ: ص9)
٭ اللہ کا فیصلہ ہے کہ قیامت سے پہلے مردہ جسم میں روح واپس نہیں آسکتی اور ظاہر ہے کہ بغیر روح کے عذاب و راحت بے معنی ہیں۔
عذاب برزخ: ص17
٭ اب اگر کوئی بضد ہو کہ اس مردے کے ساتھ جو مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہوجاتا ہے ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی نہیں رہتا، عذاب و راحت کا معاملہ اس زمینی گڑھے میں ہوتا ہے تو یہ محض جہالت، ضد اور ہٹ دھرمی اور قرآن و حدیث کا صریح انکار ہے جو یقینا اللہ تعالی کے عذاب اور آخرت سے لا پرواہی کا ہی نتیجہ ہے قرآن کی نظر میں ایسے عقیدے کا حامل شخص سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن مومن نہیں ہوسکتا۔
قبر پرستی کا شرک اور اس کی بنیاد: ص17
کیپٹن عثمانی صاحب کی ان عبارات سے چندباتیں سامنے آتی ہیں :
1:قبر اس دنیا والے گڑھے کا نام نہیں بلکہ علیین یا سجین کا نام ہے۔
2:برزخ روحوں کے مقر کو کہتے ہیں۔
3:موت ودفن کے بعداس دنیا والے جسم میں نہ تو روح کا اعادہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا تعلق ہوتا ہے۔
4:قبر میں سوال وجواب کے لئے روح کو دوسرا جسم دیا جاتا ہے جسے جسم مثالی کہتے ہیں اور ثواب وعذاب بھی اسی جسم مثالی کو ہوتا ہے۔
5:دنیاوالے گڑھے کو قبر ماننا ،روح کا اس جسم سے تعلق کا قائل ہونا اور اس جسم کی سزاوجزا کا عقیدہ رکھنا شرک کی بنیاد اور قرآن کریم کی مخالفت وانکار ہے۔
اگر بالترتیب یہ چیزیں سمجھ لی جائیں:
1:تعیین قبر 2:اعادہ و تعلق روح (یعنی حیات فی القبر) 3: عذاب وثواب جسم مع الروح
تو مسئلہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔ ان امور کی مختصر سی تفصیل پیش خدمت ہے :
[۱]:تعیین قبر
آیات قرآنیہ:
1:وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
(التوبۃ: 84 )
ترجمہ: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان منافقین میں اگر کوئی مرجائے تو آپ اس پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔
2:ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ
[عبس21]
ترجمہ: پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچادیا
3:حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
[التكاثر2 ]
ترجمہ: (ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کی عیش حاصل کرنے کی ہوس نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے) یہاں تک کہ تم قبرستان میں پہنچ جاتے ہو۔
احادیث مبارکہ
حدیث نمبر1:
عن عمرو بن حزم قال رآني رسول الله صلى الله عليه و سلم على قبر فقال : انزل عن القبر لا تؤذ صاحب القبر فلا يؤذيك
[ شرح معانى الاثارص328،329باب الجلوس على القبور]
ترجمہ: حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر دیکھا تو فرمایا قبر سے نیچے اتر جاو قبر والے کو تکلیف نہ دو اور نہ وہ تمہیں تکلیف دے (یعنی اس کی وجہ سے تمہیں تکلیف نہ پہنچے)
حدیث نمبر2:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا قَالَتْ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا
]بخارى ج 1 ص 177 بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلَى الْقُبُورِ]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں فرمایا یہود و نصاری پر اللہ تعالی کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مساجد بنالیں تھیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ علیہ السلام کی قبر کھلی جگہ بنائی جاتی۔
حدیث نمبر3:
عن عائشة قالت لما مات النجاشى كنا نتحدث أنه لا يزال يرى على قبره نور
.[سنن ابى داودج 1 ص 364 باب فى النور يرى عند قبر الشهيد]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب حضرت نجاشی کا انتقال ہوا تو ہمارے اندر یہ بات بیان کی جاتی تھی کہ ان کی قبر پر نور دیکھا جاتا تھا
[۲]: اعادہ وتعلق روح (یعنی حیات فی القبر)
آیاتِ قرآنیہ:
آیت نمبر1:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ
[ابراهيم 27]
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں اللہ ان کو اس مضبوط بات پر دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدمی عطا فرماتے ہیں اور قبر میں بھی اور ظالم لوگوں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے اور اللہ (اپنی حکمت کے مطابق) جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
تفسیر:
1:وأخرج البزار عن عائشة قالت : قلت يارسول الله تبتلى هذه الأمة في قبورها فكيف بي وأنا امرأة ضعيفة قال يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة
[الدر المنثورج8ص525]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ اس امت کو قبروں میں آزمایا جائے گا میری کیا حالت ہوگی میں تو کمزور سی عورت ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿ یثبت اللہ الذین آمنوا بالقول الثابت فی الحیوٰۃ الدنیا وفی الآخرۃ ﴾
آپ علیہ السلام کے اس تسلی والے فرمان سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں لفظ آخرت سے مراد قبر کی زندگی ہے جہاں کے عذاب سے اللہ کلمہ کے مطابق زندگی گزارنے والوں کو محفوظ فرماتے ہیں۔
فائدہ: اکثر مفسرین نے اس آیت کو ثواب وعذاب قبر کے متعلق قرار دیا ہے اور اس آیت کے تحت مرفوع اور موقوف احادیث نقل کرکے اعادہ وتعلق روح کو ذکر کیا ہے جس سے قبر کی زندگی ثابت ہوتی ہے دیکھئے :
(تفسير طبرى ج8ص253،تفسيربغوى ج3ص35،تفسيركشاف ج2ص520،المحررالوجيزلابى محمدعبدالحق الاندلسى ج3ص337،تفسيربيضاوى ج1ص518،تفسيرمدارك ج1ص452،تفسيرخازن ج3ص84،تفسيرابن كثير ج2ص691،الدرالمنثور لسيوطى ج4ص148،تفسيرابوالسعودج5ص52،البحرالمديد ج3ص370)
آیت نمبر 2:
قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
الجاثیہ 26
ترجمہ: : اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دیجیے اللہ ہی تمہیں زندگی دیتا ہے پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر تم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے لیکن اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔
تفسیر:
قُلِ } يا محمد لأبي جهل وأصحابه { الله يُحْيِيكُمْ } في القبر { ثُمَّ يُمِيتُكُمْ } في القبر { ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إلى يَوْمِ القيامة } ويقال قل الله يميتكم مقدم ومؤخر ثم يجمعكم إلى يوم القيامة { لاَ رَيْبَ فِيهِ } لا شك فيه { ولكن أَكْثَرَ الناس } أهل مكة { لاَ يَعْلَمُونَ } ذلك ولا يصدقون
[ تفسيرابن عباس 2ص22]
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ا س آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ابو جہل اور دوسرے کفار سے کہدیں اللہ تمہیں قبر میں زندہ کرے گا {سوال وجواب کے بعد }تمہیں قبر میں موت دے گا پھر تم سب کو قیامت کے دن جمع کرےگا بعض حضرات کے نزدیک اس آیت میں تھوڑی سی تقدیم وتاخیر ہے { ثُمَّ يُمِيتُكُمْ }پہلے ہے اور { يُحْيِيكُمْ }بعد میں ہے اب آیت کامعنیٰ ہوگا اللہ تمہیں دنیا میں موت دیں گے پھر قبر میں زندہ کریں گے ، پھر تم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے لیکن اکثر اہل مکہ اس بات کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
احادیث مبارکہ :
حدیث نمبر1:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث مروی ہے جسے کئی محدثین نے نقل کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت پیش آنے والے حالات وواقعات ،موت کے وقت مومن و کافر کی کیفیت موت کے بعد قبر میں پیش آنے والے حالات کو تفصیلاً بیان فرمایا ہے اس طویل حدیث میں قبر کے زندگی کو بیان کرتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا "فتعاد روحہ فی جسدہ"
سوال و جواب کے وقت میت کی روح پھر اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔
(مسنداحمدرقم الحديث18534،شعب الايمان ج1ص356،357 رقم الحديث395 فصل فى عذاب القبر)
مصححين ومستدلين حديث:
حضرات ائمہ کی بہت بڑی تعداد نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا اور اس سے قبر کی زندگی کے اثبات پر استدلال کیا ہے۔ مثلاً:
٭ قَالَ الْبَيْهَقِيُّ رَحِمَهُ اللهُ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ،
شعب الايمان ج1ص357
٭ وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو نُعَيْمٍ الأصبهاني : وَأَمَّا حَدِيثُ الْبَرَاءِ رَوَاهُ الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ زاذان عَنْ الْبَرَاءِ فَحَدِيثٌ مَشْهُورٌ رَوَاهُ عَنْ الْمِنْهَالِ الْجَمُّ الْغَفِيرُ وَرَوَاهُ عَنْ الْبَرَاءِ : عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ وَغَيْرُهُمَا وَرَوَاهُ عَنْ زاذان عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ . قَالَ : وَهُوَ حَدِيثٌ أَجْمَعَ رُوَاةُ الْأَثَرِ عَلَى شُهْرَتِهِ وَاسْتِفَاضَتِهِ وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ منده : هَذَا الْحَدِيثُ إسْنَادُهُ مُتَّصِلٌ مَشْهُورٌ رَوَاهُ جَمَاعَةٌ عَنْ الْبَرَاءِ
مجموع الفتاوى ج5ص216
٭ هذا حديث ثابت مشهور مستفيض صححه جماعة من الحفاظ ولا نعلم أحدا من أئمة الحديث طعن فيه بل رووه في كتبهم وتلقوه بالقبول وجعلوه أصلا من أصول الدين في عذاب القبر ونعيمه ومساءلة منكر ونكير وقبض الأرواح وصعودها إلى بين يدي الله ثم رجوعها إلى القبر
كتاب الروح ص48
نوٹ: اس روایت کے راوی ابومعاویہ پربعض حضرات نےاضطراب کی جرح کی ھے لیکن وہ جرح یہاں نہیں چل سکتی کیونکہ بتصریح ائمہ ابومعاویہ کی ان روایات میں اضطراب ہے جواعمش کے علاوہ سے مروی ہوں
أبو معاوية الضرير صدوق وهو في الأعمش ثقة وفي غير الأعمش فيه اضطراب.
(تاريخ بغداد ج2ص115)
اوریہ روايت امام اعمش سے ہی مروی ہے۔ صحیح مسلم میں سبزپرندوں والی روایت بھی ابو معاویہ عن اعمش کے طریق سے مروی ہے۔
حديث نمبر2:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ رَجُلٌ يُسْرِفُ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِيهِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اطْحَنُونِي ثُمَّ ذَرُّونِي فِي الرِّيحِ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَيُعَذِّبَنِّي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ أَحَدًا فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ فَأَمَرَ اللَّهُ الْأَرْضَ فَقَالَ اجْمَعِي مَا فِيكِ مِنْهُ فَفَعَلَتْ فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَبِّ خَشْيَتُكَ فَغَفَرَ لَهُ
صحيح بخارى ج ص بَاب حَدِيثُ الْغَارِ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک آدمی تھا جو جو بہت گناہگار تھا جب اسے موت آنے لگی تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاوں تو مجھے جلادینا پھر میری ہڈیوں کو پیس لینا اور مجھے ہوا میں اڑا دینا قسم بخدا اگر میں اپنے رب کی پکڑ میں آگیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو کسی کو بھی نہیں دیا ہوگا چنانچہ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ یہی معاملہ کیا گیا، اللہ رب العزت نے زمین کو حکم دیا کہ اس بندے کے ذرات جہاں کہیں بھی ہیں ان کو جمع کردے زمین نے اس کے ذرات جمع کردیے تو وہ زندہ کھڑا ہوگیا اللہ تعالی نے فرمایا تونے یہ کام کیوں کیا ؟ایسی وصیت کیوں کی؟ تو وہ کہنے لگا اے میرے رب میں نے تیرے ڈر کی وجہ سے ایسا کیا تھا چنانچہ اللہ تعالی نے اس بخش دیا۔
ملاحظہ فرمائیں اگر موت کے بعد سوال وجواب اور اس کے بعد ثواب وعذاب کا تعلق اس دنیا والے جسم سے نہیں ہوتا تواللہ تعالیٰ نے اس بندے کے اسی دنیوی جسم کو دوبارہ کیوں زندہ فرمایا ؟اس کی روح تو محفوظ تھی اسی سے سوال وجواب کرلیتے۔
حديث نمبر3:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ
سنن ابى داودج ص باب الاِسْتِغْفَارِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِلْمَيِّتِ فِى وَقْتِ الاِنْصِرَافِ.
ترجمہ: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوجا تے تو تھوڑی دیر وہی ٹھہرتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اس سے ابھی سوال کیے جائیں گے۔
اور سوال زندہ سے کیا جاتا ہے۔
[۳]: عذاب وثواب جسم مع الروح
قرآن مع التفسیر:
آیت نمبر1:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ
[الانعام 93]
مستدلین :
1: امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری المتوفیٰ 256ھ نے اس آیت کریمہ سے عذا ب قبر پر استدلال کیا ہے فرماتے ہیں:
باب ما جاء في عذاب القبر وقول اللہ تعالى ولو تریٰ إذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو أيديهم أخرجوا أنفسكم اليوم تجزون عذاب الهون
صحیح بخاری ج1ص183
2: امام شمس الدین ابو عبد اللہ بن قیم الجوزیہ المتوفیٰ 751ھ ایک سوال ” قرآن کریم میں عذاب وثواب قبر کا ذکر کیوں نہیں ؟“کے جواب میں فرماتے ہیں:
وأما الجواب المفصل فهو أن نعيم البرزخ وعذابه مذكور في القرآن في غير موضع فمنها قوله تعالى ولو ترى إذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو أيديهم أخرجوا أنفسكم اليوم تجزون عذاب الهون بما كنتم تقولون على الله غير الحق وكنتم عن اياته تستكبرون وهذا خطاب لهم عند الموت وقد أخبرت الملائكة وهم الصادقون أنهم حينئذ يجزون عذاب الهون ولو تأخر عنهم ذلك إلى انقضاء الدنيا لما صح أن يقال لهم اليوم تجزون"
کتاب الروح لابن قیم ص87
3: مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب المتوفیٰ 1396ھ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
آج مرنے کے ساتھ ہی تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی یعنی جس میں تکلیف جسمانی بھی ہو اور ذلت روحانی بھی .
معارف القرآن ج3ص393
آیت نمبر2:
وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ
(التوبہ: 101)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے لئے قیامت سے پہلے دو عذابوں کوذکر کیا ہے۔بقولِ مفسرین ان میں ایک عذاب قبر کا ہے۔
مستدلین :
1: عن ابن عباس في هذه الآية قال قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا يوم الجمعة فقال"اخرج يا فلان، فإنك منافق، واخرج يا فلان فإنك منافق فأخرج من المسجد ناسا منهم فضحهم فجاء عمر وهم يخرجون من المسجد فاختبأ منهم حياء أنه لم يشهد الجمعة وظن أن الناس قد انصرفوا، واختبئوا هم من عمرظنوا أنه قد علم بأمرهم فجاء عمر فدخل المسجد فإذا الناس لم يصلوا،فقال له رجل من المسلمين: أبشر يا عمر، قد فضح الله المنافقين اليوم. قال ابن عباس: فهذا العذاب الأول حين أخرجهم من المسجد، والعذاب الثاني عذاب القبر".
(تفسیر ابن کثیر ج3ص435)
2: وقال الحسن البصري: عذاب في الدنيا، وعذاب في القبر.
(تفسیر ابن کثیر ج3ص435)
آیت نمبر3:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاء.
(ابراھیم 27)
تفسیر نبوی :
1: عن البراء بن عازب رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا أقعد المؤمن في قبره أتي ثم شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فذلك قوله {يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت} حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة بهذا وزاد {يثبت الله الذين آمنوا} نزلت في عذاب القبر.
(صحیح بخاری ج1ص183)
2: عن البراء بن عازب عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : { يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة } قال نزلت في عذاب القبر يقال له من ربك فيقول ربي الله وديني دين محمد صلى الله عليه و سلم فذلك قوله { يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة .
(سنن نسائی ج1ص290باب عذاب القبر)
تفسیرصحابی:
عن خيثمة عن البراء قال : { يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة } قال نزلت في عذاب القبر.
(سنن نسائی ج1ص289باب عذاب القبر)
فائدہ : اکثر سنی مفسرین نے اس آیت کریمہ کو ثواب وعذاب قبر کے متعلق قرار دیا ہے اور اس آیت کے تحت اعادہ روح ،سوال وجواب فی القبر کو ذکر کیا ہے طو الت کے خوف سے ان تمام کو یہاں نقل نہیں کیا جاتا صرف ایک پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :
”قبر کا عذاب وثواب قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ حدیث یہ ہے؛ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قبر میں مومن سے سوال کیا جائے گا توایسے ہولناک مقام اور سخت حال میں بھی وہ بتائید ربانی اس کلمہ پر قائم رہے گا ،اور "لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ "کی شہادت دے گا اور پھر فرمایا کہ ارشاد قرآنی " يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة "کا یہی مطلب ہے... اسی طرح تقریباًچالیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے معتبر اسانید کے ساتھ اسی مضمون کی حدیثیں منقول ہیں جن کو امام ابن کثیر نے اس جگہ اپنی تفسیر میں جمع کیا ہے اور شیخ جلال الدین سیوطی نے اپنے منظوم رسالہ "التثبیت عند التبییت"میں اور "شرح الصدور"میں ستر احادیث کا حوالہ نقل کرکے ان روایات کو متواتر فرما یا ہے ،ان سب حضرات صحابہ کرام نے آیت مذکورہ میں آخرت سے مراد قبر اور اس آیت کو قبر کے عذاب وثواب سے متعلق قرار دیا ہے۔ “
(معارف القرآن ج5ص248)
احادیث مبارکہ:
حدیث نمبر1:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَةُ وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ.
(صحیح البخاری: ص220 بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِرقم 1374)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے دفن کرنے والے ساتھی واپس لوٹتے ہیں یقینا وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں اس کو بٹھادیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں پس اسے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا آگ کا ٹھکانہ دیکھ لے اللہ تعالی نے تجھے اس کے بدلے جنت عطا فرمائی ہے پس وہ دونوں مقاموں کو دیکھتا ہے باقی منافق اور کافر جب اس سےپوچھا جاتا ہے تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہےوہ کہتا ہے میں نہیں جانتا جس طرح لوگ کہتے تھے میں بھی اسی طرح کہتا تھاتو فرشتے اسے کہتے ہیں نہ تو خود جانتا تھا اور نہ ہی جاننے والوں پر اعتماد کرتا تھا اس کے بعد لوہے کے ہتھوڑے سے اسے ایسا مارا جاتا ہے کہ وہ چیختا ہے اور اس کی چیخ و پکار جن اور انس کے علاوہ ارد گرد کے جانور سنتے ہیں۔
حدیث نمبر2:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ إِنَّ نَبِىَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ نَخْلاً لِبَنِى النَّجَّارِ فَسَمِعَ صَوْتًا فَفَزِعَ فَقَالَ مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ نَاسٌ مَاتُوا فِى الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالُوا وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِى قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَكٌ فَيَقُولُ لَهُ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ فَإِنِ اللَّهُ هَدَاهُ قَالَ كُنْتُ أَعْبُدُ اللَّهَ. فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِى هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُول هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَىْءٍ غَيْرَهَا فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى بَيْتٍ كَانَ لَهُ فِى النَّارِ فَيُقَالُ لَهُ هَذَا بَيْتُكَ كَانَ لَكَ فِى النَّارِ وَلَكِنَّ اللَّهَ عَصَمَكَ وَرَحِمَكَ فَأَبْدَلَكَ بِهِ بَيْتًا فِى الْجَنَّةِ فَيَقُولُ دَعُونِى حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِى فَيُقَالُ لَهُ اسْكُنْ. وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِى قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَكٌ فَيَنْتَهِرُهُ فَيَقُولُ لَهُ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ فَيَقُولُ لاَ أَدْرِى. فَيُقَالُ لَهُ لاَ دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ فَيُقَالُ لَهُ فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِى هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِيدٍ بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ.
(سنن ابى داود ج 2 ص 305باب فِى الْمَسْأَلَةِ فِى الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی نجار کے باغ میں تشریف لے گئے آپ نے وہاں پر ایک آواز سنی تو آپ گھبراگئے اور دریافت فرمایا یہ کن لوگوں کی قبریں ہیں؟ لوگوں نے بتایا یارسول اللہ کچھ لوگوں کی قبریں ہیں جو دور جاہلیت میں انتقال کرگئے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ سےآگ کے عذاب اور فتنہ دجال سے پناہ مانگو لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ کس وجہ سے؟ آپ نے ارشاد فرمایا مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور کہتا ہے تو (دنیا میں) کس کی عبادت کرتا تھا؟ اللہ تعالیٰ جس کی راہنمائی فرماتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا پھر اس شخص سے کہا جاتا ہے کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) وہ شخص جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اس کے بعد اس کو ایک گھر کی طرف لے جاتے ہیں جو اس کے لیے دوزخ میں تھا اور اس سے کہتے ہیں تمہارا دوزخ میں یہ گھر تھا لیکن اللہ تعالی نے تمہاری حفاظت فرمائی اور تم پر رحم فرمایا اور اس کے عوض جنت میں گھر عطافرمادیا، وہ شخص یہ سن کر کہتا ہے کہ مجھے دنیا میں واپس جانے دو میں اپنے اہل خانہ کو اس کی خوشخبری سناؤں لیکن اس شخص کو دنیا میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور جب کافر کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتہ آتا ہے اور ڈانٹ کر اس سے پوچھتا ہے کہ تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے مجھے معلوم نہیں پھر اس سے کہتے ہیں کہ تو نے نہ تو خود علم حاصل کیا اور نہ کسی کی اتباع کی پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ میں وہی بات کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے پھر وہ فرشتہ اس شخص کو اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے گرز سے مارتا ہے وہ شخص ایسی چیخ مارتا ہے کہ اللہ کی تمام مخلوق اس کو سنتی ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے۔
حدیث نمبر3:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ ثُمَّ قَالَ بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ ثُمَّ قَالَ لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا
صحيح بخاري ص221بَاب عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْ الْغِيبَةِ وَالْبَوْلِرقم1378 ،مسنداحمدج3ص441رقم1980،
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں سے گذر ہوا تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ان دو قبر والوں کو عذاب دیا جارہاہے اور عذاب بھی کسی بڑے جرم کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے پھر آپ نے فرمایا ان میں سے ایک چغل خوری کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا پھر آپ علیہ السلام نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ہر ایک قبر پر گاڑدی پھر فرمایا کہ امید ہے ان کے خشک ہونے تک ان سے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی۔
اجماع اہل السنت والجماعت:
1: بيان استنباط الاحكام الاول فيه أن عذاب القبر حق يجب الإيمان به والتسليم له وعلى ذلك أهل السنة والجماعة----------ثم المعذب عند أهل السنة الجسد بعينه أو بعضه بعد إعادة الروح إلى جسده أو إلى جزئه وخالف في ذلك محمد بن جرير وطائفة فقالوا لا يشترط إعادة الروح وهذا أيضا فاسد
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج2ص597،598
2: ثم المعذب عند أهل السنة الجسد بعينه أو بعضه بعد اعادة الروح إليه أو إلى جزء منه وخالف فيه محمد بن جرير وعبد الله بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إعادة الروح قال أصحابنا هذا فاسد لأن الألم والاحساس إنما يكون فى الحى
شرح مسلم ج2ص386
3: بَلْ الْعَذَابُ وَالنَّعِيمُ عَلَى النَّفْسِ وَالْبَدَنِ جَمِيعًا بِاتِّفَاقِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ تَنْعَمُ النَّفْسُ وَتُعَذَّبُ مُنْفَرِدَةً عَنْ الْبَدَنِ وَتُعَذَّبُ مُتَّصِلَةً بِالْبَدَنِ وَالْبَدَنُ مُتَّصِلٌ بِهَا فَيَكُونُ النَّعِيمُ وَالْعَذَابُ عَلَيْهِمَا فِي هَذِهِ الْحَالِ مُجْتَمَعِينَ كَمَا يَكُونُ لِلرُّوحِ مُنْفَرِدَةً عَنْ الْبَدَنِ.
(فتاوي ابن تیمیہ: ج2ص140

)

Download PDF File