میرے اکابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
میرے اکابر
راؤ فہد ارشاد
حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ :
دارالعلوم دیوبند جو ہند وستا ن میں اسلامی علوم وفنو ن کا دمکتا آفتا ب ہے اور جس کی شعاعیں ہند سےنکل کر پاکستا ن۔۔۔ انڈو نیشیا۔۔ افریقہ۔۔ ایران۔۔۔ نیپال۔۔۔ برما۔۔۔ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں پھیلیں ہیں۔ جس کو دیکھ کررشید رضا مصری نے اعترا ف کیا تھا کہ میرا یہ سمجھناصحیح نہیں ہے کہ دنیا سے علم حدیث اٹھ چکا ہے بلکہ دارالعلوم دیوبند دیکھ کریقین کرنا پڑا کہ علم حد یث اپنی پوری تابانی کے ساتھ مو جو د ہے اور ان شاءاللہ مو جود رہے گا۔
دارالعلوم دیوبند کاپہلا طالب علم:
حضرت میاں اصغر حسین لکھتے ہیں :
حضرت مولانا شیخ الہند کی عمر پند رہ سال کی تھی اور ابھی آپ قدوری اور تہذیب پڑ ھ رہے تھے کہ دیوبند میں خداتعالیٰ کے مقبو ل اور سراپا اخلاص بند وں کی تجو یز سے ۱۵ محر م ۱۲۸۳ء کو ایک عربی مد رسہ کا اجر اء ہو ا اور مولانا محمد محمود دیوبندی رحمہ اللہ؛ حضرت مو لانا محمد قاسم صاحب قدس کی تجویز سے پند رہ رو پے ماہوار مشاہرہ پر مقرر ہوئے اور دیوبند کی مشہور مسجد چھتہ میں تعلیم عربی شرو ع ہو ئی ہمارے حضرت مولانااجر اء مدرسہ سے سابقین اولین طلبہ میں داخل ہوئے۔
حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات :
دیوبند کا یہ مدرسہ چونکہ ابھی نیانیاتھا گو یہاں طلبہ کابڑا مجمع اکھٹا ہوچکا تھا مگر وہ دورہ حدیث کاکوئی خاص انتظام نہ تھا اس لیے صحاح ستہ کیلیےشیخ الہند کومدرسے کے سرپر ست حضرت نانوتوی کی خدمت میں حاضرہونا پڑا حضرت میاں صاحب لکھتے ہیں آج کے طلبہ اس کی لذت کوکیا جانیں گے جو حلقہ نما عمارت میں رہتے ہیں اور ان کی راحت وآرائش کےسارے سامان مدرسے میں فراہم کر تے ہیں جہاں بجلی کی روشنی ،مشین کا پانی ،پختہ آرام دہ کمرے اورضروریات ِ زندگی کی ساری چیزیں مہیا ہوتی ہیں۔
حضرت شیخ الہند کا طرزتعلیم :
حضرت نانوتوی کاطرز تعلیم کیاتھا ؟اور تلامذہ کواس کی نزاکت کا کس قدر پاس تھا لکھتے ہیں:مو لانانانوتوی رحمہ اللہ کی خدمت میں سبق پڑھنا کچھ آسان کام نہ تھا عبارت میں غلطی کرنا یاترجمہ سمجھنے کے خیال سے ٹھہرنا توگناہ کبیر ہ تھا اس قسم کے امور اور بےموقع سوال سے مولانا نانوتوی رحمہ اللہ مکرر ہوجاتے اور سبق کالطف ہی جاتا رہتا۔ جو شخص ذہین ومستعد ہوتا اور اصل کتا ب پہلے سے سمجھے ہو ئے ہوتاوہ مولانا کے مضامین سمجھنے کی امید کرسکتا تھا اچھے اچھے استعداد کے مولوی اس شرط پر شریک کئے جاتے تھے کہ صرف سنتے رہیں عبارت پڑھنے یاکچھ دریافت کرنے کاحق نہ ہوگا لوگ خوشی سے قبول کر تے اور حاضر ہوتے۔
درس میں تحقیقی تقریر :
کون نہیں جانتا کہ استاد کی تقریر سے دراصل وہی مستفیدہوتا ہے جومطالعہ کرکے آیا ہو اوراس نے اس مطالعہ میں مشقت جھیلی ہوکہ سبق میں کیاکیااشکالات ہیں اوراس کے حل کاکیا طریقہ ہے؟ کہاں الجھاؤہے اور یہ الجھاؤ کہاں سے پیدا ہورہا ہے جوطلبہ ہی اندھے کی طرح جاکر درسگا ہ میں بیٹھ جاتے ہیں وہ غریب کیاجانیں کہ استاد نے مسئلہ کے حل میں کیابات فرمائی اورکیا نکتہ بیان کیا۔
کتب احادیث حضرت نانوتو ی رحمۃ اللہ علیہ سے :
شیخ الہند نے قدرت کی طرف سے طبع سلیم ،ذہین ثاقب اور قوی حا فظہ تو پایا تھا لیکن اس کے ساتھ مطالعہ ،محنت، استادکی خدمت نے ان کو اجاگر کیا۔ گویا دورہ حدیث اور بعض دوسری کتابوں کے پڑھنے میں آپ کو حضرت نانوتوی کی خدمت ۱۲۸۴ءسے ۱۲۸۹ء تک چار سا ل رہنا پڑا اور ذی قعدہ ۱۲۹۰ءمیں آپ کی دستار بندی ہوئی اس عرصہ میں آخر کے ایک دو سالو ں میں جب حضرت نانوتوی کاقیام دیوبند میں رہا توآپ خود پڑ ھتے بھی تھے اور مدرسہ میں طلبہ کو درس بھی دیا کر تے تھے جیسا کہ پرانے زمانے کادستور تھا کہ منتہی طلبہ سے درس وتد ریس کاکام بھی لیا جاتاتھا۔
استاد کی خدمت اور تیمارداری :
حج کے دنوں بحری جہاز کے اند ر حضرت نانو توی بیمار ہو گئے حضرت میا ں صا حب کی زبان ِقلم سے ہی سے سنئے۔
حضرت مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مقامات مقدسہ اور اپنے بزرگوں کی جد ائی کی کوفت اور خانہ کعبہ کے ادب واحترام کی وجہ سے دور تک پاپیادہ چلنے کی تکلیف سے جدہ پہنچ کر بخارہو گیا اور پھر جہاز کی تنگی اورکشمکش سے اس پر اضافہ ہوگیا اور رفتہ رفتہ مرض اتنا بڑھاکہ سب مایوس ہو گئے۔ نہ دوائی تھی نہ علاج اور نہ جا ئے راحت وسکون۔ تاہم حضر ت مولانا ) شیخ الہند ( نے خوب حق خدمت ادا کیا شدت ِمرض میں تمام تما م رات بیدار رہے۔ عدم پہنچ کر لیموں خریداکہیں سے کنیں کہیں سے گلاب دستیا ب کر کے کھلایامولانا ) نانوتوی( کوکسی قدر فاقہ ہو تو قافلہ کی جان میں جان آئی حضرت مولانااپنے استاد اور پیرومرشدکو اپنے وطن قصبہ نانوتہ میں پہنچ کر ربیع الاول ۱۲۹۵ءمیں دیوبند واپس آئے۔