مخلص دوست

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مخلص دوست
علی احسن
بس، بس رہنے دو ميری بھلائی،میں خود سمجھتا ہوں ا پنی بھلائی اپنی برائی کو،تم اپنے کام سے کام رکھو بس، نديم نے اسی طرح تنکتے ہوئے کہا-
نشيد نے کہا:ٹھيک ہے، ابھي تو میں جارہا ہوں مگر ميری يہ بات ياد رکھنا، آئندہ کسی معصوم پرندے کو اپنے ظلم کا نشانہ بنايا تو ٹھيک نہيں ہوگا، يہ کہہ کر نشيد نے جانے کے ليے جيسے ہی اپنا قدم آگے بڑھايا نديم نے ايک اور کبوتر کو نشانہ بنا کر اس کی جان لے لی، نشيد يہ ديکھ کر اس پر جھپٹا اور اس کے ہاتھ سے غليل چھین لی، نديم اپنی غليل اس سے واپس لينے کے ليے بھپرے ہوئے انداز ميں جھپٹا مگر نشيد جھکائی دے کر تيزی سے ايک طرف ہٹ گيا، نہ جانے کيسے نديم کا پير پھسلا، وہ ڈگمگايا، سنبھلنے کی کوشش کی مگر اوندھے منہ زمین پر گرپڑا، جس جگہ وہ گرا تھا وہيں ايک بڑا نوکيلا پتھر پڑا ہوا تھا جو اس کی پيشانی میں بری طرح چھب گيا اور پيشانی سے خون کی دھار بہہ نکلی، نشيد نے يہ ديکھا تو واپس پلٹا۔
اس نے نديم کو اٹھايا اور اپنا رومال اس کے زخم پر رکھ کر خون روکنے کی کوشش کرنے لگا، مگر جب ناکام رہا تو اسے ساتھ لے کر قريبی کلینک لے گيا، ڈاکٹر نے ديکھا زخم گہرا تھا، پوچھا يہ کيسے لگا تو نشيد نے ساری بات بتا دی۔
ڈاکٹر نے کہا: بیٹے شکر کريں، يہ قدرتی سزا ہے، اللہ کي طرف سے آپ کے ظلم کی، آپ کو ايک اچھا دوست ملا ہے جو آپ کو غلط کام سے روکنا چاہتا ہے، آپ نے قرآن مجيد پڑھا ہے، نديم نے اقرار میں سر ہلا ديا۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سورة الزلزال ياد ہے آپ کو، نديم نے پھر اقرار ميں سر ہلا ديا، شاباش يہ تو بہت اچھی بات ہے ذرا سنائيے تو سہی، ڈاکٹر صاحب نے نديم سے بڑے ہی دوستانہ انداز میں کہا۔
نديم نے بسم اللہ الرحمن الرحيم پڑھ کر سورة الزلزال سنا دی- ماشاءاللہ، آپ کو اچھی طرح ياد ہے، اور پڑھتے بھی بہت پيارے انداز میں ہيں۔
اب ذرا يہ بتائيں آپ کو اس کا ترجمہ بھی آتا ہے، اس پر نديم نے انکار میں سر ہلاديا۔
ارے بھائی، يہ کيا بات ہوئی، آپ نے قرآن مجيد پڑھا، سورت بھی ياد کی مگر اس کا ترجمہ نہيں معلوم آپ کو، پھر ايک گہری سانس ليتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
ترجمہ جاننے سے پہلے آپ يہ جان ليں کہ قرآن مجيد کی يہ سورة مدنی ہے اور اس ميں سات آيات ہيں، پہلی آيت میں اللہ تعالٰی کہتے ہيں: جب زمین اپنی پوری شدت سے ہلا ڈالی جائے گی
اور دوسری آيت میں کہا ہے اور انسان کہے گا يہ کيا ہو رہا ہے؟
پھر اگلی آيت میں اللہ تعالیٰ نے بتايا ہے کہ اس روز وہ اپنے اوپر گزرتے ہوئے حالات بيان کرے گی کيوں کہ تيرے رب نے اسے ايسا کرنے کا حکم ديا ہوگا، اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹيں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائيں۔
پھر آخری دو آيات میں سے ايک آيت میں کہا ہے کہ پھر جس نے ذرہ برابر نيکی کی ہوگی وہ اس کو ديکھ لے گا اور دوسری آخری آيت میں کہا ہے کہ جس نے ذرا برابر بھی بدی کی ہوگی وہ اس کو ديکھ لے گا۔
پھر ايک گہری سانس ليتے ہوئے آگے کہا بیٹے میں نے پہلے کہا تھا يہ قدرتی سزا ہے جو آپ کو اسی وقت مل گئی يہ آپ کے ظالم کی جو بے زبان، معصوم پرندوں کی جان لے کر کرتے ہيں کی ملی ہے، پھر آپ کا دوست اپنی دوستی، اپنی اسلامی تعليم اور اسلامی اخوت، محبت کا خيال کرتے ہوئے آپ کو ميرے کلینک تک لے آيا يہ بھی اللہ کی طرف آپ کے دوست کے دل میں ڈالی گئی بات ہے۔
ذرا سوچيے وہ آپ کو زخمی حالت میں وہيں پڑا چھوڑ کر اپنے گھر چلا جاتا تو بروقت طبی امداد نہ ملنے پر آپ کے زخم کی نوعيت کيا ہوتی کی زيادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ کمزوری محسوس نہ کرتے اور نديم ڈاکٹر صاحب کی کسی بھی بات کا کوئی جواب نہيں دے سکا-
اس کی گردن ندامت سے جھکی ہوئی تھی، وہ اپنے عمل پر شرمسار تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے کرم کا شکر ادا کررہا تھا جس نے نشيد کی صورت ميں ايک اچھا مخلص دوست اور ڈاکٹر صاحب کی صورت میں ايک اچھا رہنما۔
جب وہ نشيد کے ساتھ کلینک سے باہر نکلا تو دل ہی دل میں فيصلہ کرچکا تھا کہ آئندہ وہ کسی بھی پرندے کو کسی بھی کمزور کو ناحق اپنے ظلم کا نشانہ نہيں بنائے گا۔
ايک دن نديم نے صبح سويرے مٹھی بھر باجرے کے دانے اپنے آنگن میں ڈال ديے، دانے ديکھ کر کئی کبوتر اور دوسرے پرندے دانہ چگنے صحن ميں آ گئے، نديم کو دانہ چگتے ہوئے پرندے بہت اچھے لگ رہے تھے۔
آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ ظلم وہ ہے جس سے دل و دماغ میں چھبن ہی محسوس ہو اور نيکی وہ جس سے دل و دماغ میں خوشی، سکون اور اطمينان کا احساس پيدا ہو۔ اب نديم وہ پہلے والا نديم نہيں رہا تھا۔
اس کا ہر فعل، ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور پيارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعليمات کے مطابق ہوگيا تھا، اس کی سوچ کا عمل بالکل بدل چکا تھا، نشيد اب اس کا سب سے مخلص دوست تھا۔