آئیےناران چلتے ہیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">آئیےناران چلتے ہیں !!

افتحار احمد اعوان
پاکستان انتہائی متنوع مناظر میں ایک دلکش منظر وادی ناران کاغان ہے۔ یہ وادی میدانی علاقو ں کے قریب ترین ہے یہاں پہنچناقدرےآسان ہے۔ بہترین سفری اور رہائشی سہولتوں کی وجہ سے ہر سال موسم گرما میں سیاحوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ یہاں سیاحت کا بہترین وقت جون سے اکتوبر کا ہے تاہم مئی میں بھی جا یا جا سکتا ہے۔ وادی کا غان میں دلکش جھیلں، شور مچانی آبشاریں ، میٹھے پانی کے چشمیے۔ سرسبز چراگائیں، گلئشئرز اور دریا کہنار سیاحوں کو پنے طرف مدعو کرتاہے۔
ہم نے اپنے سفر کا آغاز بلیو ایریا اسلام آباد سے کیا ہم براستہ ٹیکسلا، ہری پور(وہاں سے ہم نے ایک دوست کو ساتھ لینا تھا۔)پھر ہم سفر پر نکل پڑے ابیٹ آباد سے پہلے ایک ہوٹل میں ناشتا کیا۔ دیسی قسم کے لطف اندوز ہوئے ہمارا گروپ بارہ لوگوں پر مشتمل تھا۔
ناشتے پر عدنان عالم نے خواہش ظاہر کی کہ یہاں ناشتے کے مناظر اپنے محفوظ کر نا چاہیے بد قسمتی سے کیمرے گاڑی میں تھے میں اس کی بات نہ مانی اوروہاں کے دلکش لمحات قید نہ کر سگے۔ جس کا مجھے ابھی تک دکھ ہے آپ اس طرح کی غلطی سے اجتناب کیجئے گا۔
اس کے بعد ہم لوگ گاڑی میں سوار ہو گئے ابیٹ آباد شہر میں پہنچے وہاں سے میر پور گاؤں سے ہماری ہر دلعزیز شحصیت آفسر کوں ساتھ لینا تھا۔ خان لالہ نے ہماری پر تپاک استقبال کیا اور ہمارے لیے چائے پانی سے تواضع کی وہاں سے کچھ سامان لینا تھا وہ لیا اور اپنے سفر کی طرف گامزن ہو گئے مانسہرہ کے بانی پاسے مانسہرہ کو بائی پاس کرتے ہوئے آگئے سفر پر روانہ ہو ئے دریا کہنار کے ساتھ کا سفر شروگ ہو گیا دریا کہنار نے ہماری ساری تھکاوٹ دور کر دی۔ ہم رکنا چاہتے دریا کے ساتھ پر اپنے گروپ لیڈر کا انتظار کر رہے تھے جب ہم نے ان کی طرف دیکھا تو بڑے مزے کے ساتھ آنکھیں بند کر کے کسی سوچ میں مگن تھے۔ ہم سب نے کہا کہ یہاں رکنا چاہیے تو انہوں نے بھی یک دم آنکھیں کھولی اور کہا کہ یہاں رکنے کو کون روک سکتا ہے۔ ؟
ہم خوش ہو گئےاور ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی سائیڈ پر لگائی اور ہم اترے ہم یہاں سے گرمی میں ستائے ہوئے گئے تھے تو ہم نے سیدھا جا کے اپنےپاؤں دریا میں ڈال دیئے اور اتنا ٹھنڈا پانی کہ ہم پاؤں باہر نکالنے پر مجبور ہو گئےیا شاید یہ بات دریا کے شایان شان نہ تھی پھر دوبارہ ہمت نہی کی اور دریاسے دل ہی دل میں ہم نے معافی مانگی۔اس کے بعد سفر پر چلے بالاکوٹ جا کے رکے۔ وہاں سچھ کچھ سامان خریدا اگر کچھ لینا ہے تہ اچھی جگہ ہے خریداری کی بالاکوٹ اس وادی کا سب سے بڑی شہر ہے اس کے درمیان سے دریا کہنار گزرتا ہے یہاں کافی اچھی ہوٹلز اور سیر کے لیے سواری بھی آسانی سے مل سکتی ہے ایک دو دن گزار کے اس شہر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو جا سکتا ہے۔ تار وں اور گھروں کے لائٹوں کے حسین مناظر رات کو دلکش بنادیتے ہیں۔
بالاکوٹ سے آگے بلندی کی جانب تقربیا ٢٤ کلومیٹر کی مسافت پر ایک پر کش جگہ کیوائی آتا ہے جب تک ہم وہاں پہنچےتو بھوک حد سے زیادہ ہو چکی تھی وہاں آرام اور کھانے کے روکے دیر کہنار کہ کنارے ایک خوبصورت پارک ہے وہاں بریانی سے لطف اندوز ہوئے زاہد صاحب ہمارے گروپ لیڈر تھے انہوں نے اسپیشل بریانی تیار کرائی بریانی کے مزے لیے۔
آم ٹھنڈ کرنے کے لیے دریا کہنار میں پتھر رکھ کے رکھے لیکن پانی کا زور چھوٹے موٹے پتھروں کی کب سنتاہے۔ ان کو اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ وہ تو ہمارے ایک ساتھی نیا ز صاحب کی نظر پڑی تو انہوں نے جا کے جلدی ے پکٹر لیے ورنہ کئوائی میں آم کھانے سے محروم رہے جاتے۔کیوائی سے مزید بلندی کی جانب ایک راستہ شوگران آتا ہے شوگران تک آسانی سے جایا سکتا ہے لیکن آگے سری پائے جانے کے لیے جیپ کا استعمال کرنا پڑتا ہے وہاں سے آسانی سے جیپ مل سکتی ہے۔
شوگران کا راستہ کچھی پکی سڑک پر مشتمل ہے اور جنگلات کے درمیاں بل کھاتے ہوئے گزرتا ہے یہ ایک بہت ہی دلکش وادی ہےیہاں با کثرت رہائشی سہولتیں ہے یہاں کا خوبصورت ترین مقام سری پائے جو شوگران سے ٤ کلو میٹر کے فاضلے پر ہے ہم نے راستہ پیدل اور کچھ جیپ پر کیا اور ہمارے ایک ساتھ نے یہ راستہ گھوڑا پر کیا وہاں معمولی معاوضہ پر گھوڑے دستیاب ہے وہاں گھوڑی سواری کا بھی اپنا مزہ ہے۔ وہاں کولڈ ڈرنک کے مزے لیے وہاں سے کولڈ ڈرنک ، پانی اور چپس جیسے کھانے کے چیزیں مل سکتی ہے۔یہاں سے راستہ مکٹرا کے جانب جاتا ہے لیکن ہم نے اپنا سفر ناران کے طرف موڑ لیا۔
کیوائی سے کاغان کا سفر ٤٠ کلو میٹر ہے اس پوری وادی کا نام کاغان ہے۔لیکن یہ شہر اس نام سے منسوب ہے وہاں ہم نے کچھ زیادہ دیر قیام نہی کیا بازار سے ہوتے آگے گزر گئے۔کاغان سے ناران کا سفر ٢٤ کلو میٹر کی مسافت پرہے یہ اس وادی کا سب سے خوبصورت ترین مقام ہے نارن میں داخلے ہو تے ہو ئے گلشئرز آپکا استقبال کر تاہے یہ سیاحوں کا اصل مقام ہے جہاں سے آگئے زیادہ تر سفر جیپ پر ہی ممکن ہے یہاں بسنگ پوائنٹ بھی لیکن شکار کے لیے لائسنس لینا نہ بھولیں جو بڑی آسانی سے تھوڑے سے پیسوں میں بن جاتا ہے۔ہم ناران پہنچ کر جیپ کر کے جھیل سیف الملوک جانے کی تیاری کی ہمارے چچا آفسر خان ہمارے ساتھ نہیں گئے انہوں نے ہمارے لیے رات کے قیام کا انتظام کر تا تھا جیب کرایہ پر لی اور چل پڑے یہ جھیل سطح سمندر سے ١٠٥٠٠ کی بلندی پر ہے۔ اس راستے پر بے شمار سر سبز پہاڑ اور چھوٹے موٹے گلیشئرز ہے۔
جو اس سفر کو دوبالا کر تے ہیں آدھا راستہ طے کیا تھا کہ راستہ بلاک تھا بارش شروع ہو گئی اور تیز ہو ا چلنے لگی اور ہم لوگوں نے گرمیوں والے کپڑے پہنے ہو ئے تھے تو ہمارا سردی سے بُرا حا ل تھا۔
سب نے پروگرام بنایا کہ واپس جاتے ہیں میں جیپ سے اترا تو سب نے پوچھا کہ کہاچلے میں کہاں جھیل پر پیدل تو سب نے روکا میں نے کہا جس نے آنا ہے آئے ورنہ میں تو جاؤں گا اتنے میں نیاز صاحب اور ستی صاحب میرے ساتھ چل پڑے جھیل پر جاتے ہی بارش تھم گئی لیکن اس تک ہمارے کپڑے گیلے ہو گئے تھے۔
تھوڑی دیر بعد دھوپ نکل آئی تو ہمارے باقی ساتھی بھی وہاں آگئے وہاں کافی ٹائم گزارا جھیل سیف الملوک واقی ایک خوبصورت جھیل ہے جتنی تعریف سنی تھی اس سے کئی زیادہ دلکش تھی۔
مقامی لوگوں کے مطابق شہزادہ سیف الملوک اور پری بدرالجمال کی محبت بھری داستان بھی یہاں ہی پروان چڑھی اور چاند کی چاندنی راتوں میں پریاں نہانے آتی ہے۔
دل نشین رنگوں بھری داستان اس جھیل کی وجہ شہرت بنی۔ اس کےبعد واپسی کا سفرلیا واپسی آکر چائے سے لطف اندوز ہوئے۔ رات کے کھانے کی تیاری میں لگ گئے ہم لوگوں نے باربی کیو کی اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ناران بازار دیکھنے کا پروگرام بنایا رات کومیں نے باری باری سب سے پو چھا کے اب چلیں تو کر کسی نے دھیمے دل سےآواز نکالی کے جیسے تمہاری مرضی تو جواب سے نمایاں تھا کہ کو ئی بھی سردی کی وجہ جانے کو تیار نہیں تھاہر کوئی بس میرا دل رکھنے کے لیے کہ رہاتھا اور سچ پوچھیں جانا میں بھی نہیں چاہتا تھا۔ ہم سبے گرمیوں میں رضائیوں کے مزے لیتے گہری اور میٹھی نیند میں وادی کی گہرے رنگوں میں گم ہو گئے۔ صبح زاہد صاحب کی آواز نے مجھے جگا دیا کہ کافی پیو گئے مجھے کافی بالکل پسند نہیں تھی۔لیکن ان کے اسرار پر انکار نہ ہو سکا وہ دن اور آج تک مجھے وہ کامی کبھی نہیں بھولی اور اسی کافی کی تلاش میں ہر جگہ سے لے لیتا ہوں لیکن اُس جیسامزہ پھر نہ مل سکا۔باقی دوست ناشتے کی تیاری میں لگ گئے اور کچھ بازار چلے گئے ناشتے سے فری ہو کے ناران بازار چلے گئے پھر غار دیکھی جو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں شہزادہ اور پری نے دیو کے ڈر ے یہاں پناہ لے لی۔
آج تک یہاں ہے بہرحال ہم دوستوں نے تو بہت کوشش کی شاہد ہم کو مل جائے پر ایسا ممکن نہ ہوا آپ بھی اسی احمقانہ مزے بھری شرارت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیے آگے بنڈی کنڈی کی طرح چل پرے ایک گلیشئرز کے پاس رکے وہاں گھومنے اور بوتلیں ٹھنڈی کرنے کے لیے گلیشئرز کا سہارا لیا کچھ دوست اوپر کی طرف چل پرے ہم وہ ہیں رکے اور کولڈ ڈرنک کے مزے لیے جب وہ واپس آئے تو جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور چل پڑے اور آگئے جا کہ وہ کہتے ہیں کہ کولڈ ڈرنگ تو وہاں ہی رہے گئی ہم نے انہیں نہیں بتایا اور آج تک ان کا مذاق بنایا ہوا ہے کہ آپ کی کولڈ ڈرنک تو وہاں پڑی ہے۔
بٹہ کنڈہ سے لالہ زار گئے لالہ زار ادبیوں، درویشوں، اور شاعروں کا دیس لگا شوگراں کے قریب ایک جگہ راجواں وہاں رات قیام کی وہاں کافی اچھا ہوٹل مناسب ریٹ پر مل گیا آپ کا بھی جانا ہو تو ناران اور کاغان سے ہٹ کر لے تو مناسب کرایہ پر کمرہ مل سکتا ہے۔ واپسی کا سفربوجھل دل کے ساتھ شروع کیا ایک مشہور کہاوت ہے کی مسافر سفر ے اختتام پر اور سیاح سفر کے شروع پر خوش ہوتا ہے

۔