میاں بیوی میں جھگڑا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
میاں بیوی میں جھگڑا
شہزاد احمد
دین سے دوری کے سبب میاں بیوی کے درمیان دوستی کی بجائے دشمنی پنپتی جارہی ہے۔ جمن، شبراتی کو تو جانے دیجئے، اچھے خاصے’دین دار‘سمجھے جانے والے میاں بیوی بھی آپسی ناچاقیوں میں مبتلا ہیں۔ جبکہ اللہ نے تمھارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے اور پھر اس میں تمہارے لئے آپس میں محبت و رحمت رکھ دی۔ابن ماجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایاہے کہ محبت کا جوڑ لگانے والی چیزوں میں سے نکاح کا جوڑ سب سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے۔
ارشادات اکابر کے صفحہ 29 پر حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو صاف فرماتے ہیں کہ مردوں کو یہ آیت تو یاد رہتی ہے کہ
’مرد عورتوں پر حکمران اور حاکم ہیں‘
اب بیٹھ کر عورتوں پر حکم چلارہے ہیں اور ذہن میں یہ بات ہے کہ عورت کو ہر حال میں نوکر اور تابع فرمان ہونا چاہئے اور ہمارا ان کے ساتھ آقا اور نوکر جیسا رشتہ ہے،معاذاللہ…لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور بھی آیت نازل فرمائی ہے وہ آیت مردوں کو یاد نہیں رہتی…اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’اس نے تمہارے لئے تمہارے جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم دونوں میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی۔‘
)سورہ روم 21(
حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیشک مرد عورت کیلئے انتظامی طور پر تو قوام (حاکم) ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے،لہٰذا ایسا تعلق نہیں جیسا آقا اور کنیز کے درمیان ہوتا ہے…اس کی مثال ایسے ہے جیسے دو دوست کہیں سفر پر جارہے ہوں اور ایک دوست نے دوسرے دوست کو امیر بنالیا ہو…اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ امیر اس دوست پر حاکم بن جائے۔۔شوہر اس لحاظ سے تو امیر ہے کہ ساری زندگی کا فیصلہ کرنے کا وہ ذمہ دار ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کیساتھ نوکروں جیسا معاملہ کرے…بلکہ اس دوستی کے تعلق کے کچھ آداب اور تقاضے ہیں۔ کسے کہتے ہیں امیر ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں امیر کا تصور کیا ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے اصلاحی خطبات، جلد دوم کے صفحہ 80 سے رجوع کرنا ہوگا۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم دیوبند سے کسی دوسری جگہ سفر پر جانے لگے تو ہمارے استاد حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو دارالعلوم دیوبند میں’ شیخ الادب‘ کے نام سے مشہور تھے وہ بھی ہمارے ساتھ سفر میں تھے، جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو گاڑی کے آنے میں دیر تھی،مولانا اعزاز علی صاحب (رحمہ اللہ )نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم کہیں سفر پر جاؤ تو کسی کو اپنا امیر بنالو، لہذا ہمیں بھی اپنا امیر بنا لینا چاہئے،مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ ہم شاگرد تھے وہ استاد تھے اس لئے ہم نے کہا کہ امیر بنانے کی کیا ضرورت ہے، امیر تو بنے بنائے موجود ہیں،
حضرت مولانا نے پوچھا کہ کون؟
ہم نے کہا کہ امیر آپ ہیں، اس لئے کہ آپ استاد ہیں، ہم شاگرد ہیں،
حضرت مولانا نے کہا…اچھا آپ لوگ مجھے امیر بنانا چاہتے ہیں،
ہم نے کہا کہ جی ہاں، آپ کے سوا اور کون امیر بن سکتا ہے؟
مولانا نے فرمایا کہ اچھا ٹھیک ھے لیکن امیر کا ہر حکم ماننا ہوگا، اس لئے کہ امیر کے معنی یہ ہیں کہ اس کے حکم کی اطاعت کی جائے۔
ہم نے کہا جب امیر بنایا ہے تو ان شاء اللہ ہر حکم کی اطاعت بھی کریں گے، مولانا نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں امیر ہوں اور میرا حکم ماننا۔
جب گاڑی آئی تو حضرت مولانا نے تمام ساتھیوں کا کچھ سامان سر پر اور کچھ ہاتھ میں اٹھایا اور چلنا شروع کردیا۔
ہم نے کہا کہ حضرت یہ کیا غضب کر رہے ہیں؟ ہمیں اٹھانے دیجئے، مولانا نے فرمایا کہ نہیں، جب امیر بنایا ہے تو اب حکم ماننا ہوگا اور یہ سامان مجھے اٹھانے دیں،چنانچہ وہ سارا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا اور پھر پورے سفر میں جہاں کہیں مشقت کا کام آتا تو وہ کام خود کرتے اور جب ہم کچھ کہتے تو فوراً مولانا فرماتے کہ دیکھو تم نے مجھے امیر بنایا ہے اور امیر کا حکم ماننا ہوگا، لہذا میرا حکم مانو، ان کو امیر بنانا ہمارے لئے قیامت ہوگیا، حقیقت میں امیر کا تصور یہ ہے۔
حسین ترین رشتہ :
گویا کہ بندہ اور رب کے بعد سب سے پہلا اور خوبصوت رشتہ میاں بیوی کا بنایا گیا ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کو جب تنہائی محسوس ہوئی تو ان کے سکون و تسکین کیلئے اللہ نے حضرت اماں حوا کو انہی کی پسلی سے تخلیق کیا، یہ وہ خوبصورت رشتہ ہے جس پر شیطان کی سب سے بھیانک نظر ہوتی ہے کہ اس میں پھوٹ ڈلوا کر وہ نسل آدم کو گمراہ کر سکے۔
ایک دوسرے کا لباس :
میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیاہے۔ لباس کیا ہوتا ہے؟ جو ڈھانپتا ہے، ستر پوشی کرتا ہے، کوئی انسان کامل نہیں ہوتا، اللہ انسان کے شریک حیات کو نہایت حکمت سے منتخب کرتا ہے، کوئی کہاں سے آکر کیسے آپ کی پوری زندگی کا ساتھ بن جاتا ہے… آپ نے سوچا بھی نہیں۔ شادی کر کے زندگی میں یونہی سکون میں نہیں آجاتا بلکہ زندگی کو پرسکون بنایا جاتا ہے۔
زندگی کسی بھی سطح پر ہو اس کو صبر شکر و حمد آسان کرتی ہے، تکلیف دہ باتوں کو درگزر کر کے، اس پر محبت و تحمل سے برداشت کر کے اپنی پہلے اور پھر ضرورت پڑنے ہر دوسرے کی محبت بھری اصلاح کر کے زندگی کو آسان بنایا جاتا ہے۔ شادی شدہ زندگی میں شکر گزاری کی بہت اہمیت ہے۔
شکر گزاری کی ضرورت :
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ روشن مثال ہے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی غیر موجودگی میں ان کی بیگم سے پہلی بار ملنے گئے اور ان کے ناشکری کے کلمات سنے تو انھوں نے اپنی بہو کو ایک’اجنبی بزرگ‘ کے طور پر مشورہ دیا کہ تمہارا خاوند آئے تو اسے کہنا کہ چوکھٹ بدل لے! وہ تو اپنی کم فہمی میں سمجھی بھی نہیں، شوہر کے آنے پر بتایا تو انہوں نے اسے طلاق دے دی اور دوبارہ شادی کی۔
کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام پھرتشریف لائے تو ان کے بیٹے گھر پر نہیں تھے، اب کے نئی بہو سے سلام دعا ہوئی تو شکرگزاری کے کلمات سنے، اس پر جاتے ہوے دعا دی اور کہا کہ اپنے شوہر سے کہناکہ اس چوکھٹ کو سلامت رکھے۔ بیوی نے ایسے ہی کلمات شوہر سے عرض کردئے۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور الحمدللہ کہا، اپنے بابا جان کی دعا کی برکت سے بہت نعمتیں پائیں۔ درحقیقت عورت کا احساسِ شکرگزاری اورمرد کا ظرف کسی بھی گھر کو جنت یا دوزخ بنا سکتا ہے۔
جہنم میں جانے کا سبب :
شکر اللہ اور اللہ کے فیصلوں سے نباہ کا صرف لفظی نہیں عملی اظہار بھی ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا کہ انہوں نے سب سے زیادہ عورتوں کو جہنم میں دیکھا کہ وہ اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں! آج کل بیویاں جانے، انجانے میں اپنی خواہش و ہوس کے ہاتھوں ناشکری کرتی ہیں ، اپنی بیوی یا شوہر کو دوسروں کی بیوی یا شوہر سے موازنہ کرنا تو اتنا عام ہو چکا ہے کہ اسے اب کوئی عار نہیں سمجھا جاتا، موازنہ کرنے والے کیساتھ مسئلہ ہوتا ہے بدلنے کا… فلاں شخص کے معیار پر پورا نہیں اتر سکے، یا فلاں شخص فلاں کی طرح کیوں نہیں ہے، ہر وہ شخص جو پرفیکشنزم کا حامل ہے اس کو اتنی ہی ذہنی اصلاح کی ضرورت ہے جتنی کے اس کو، جو دوسرے کے معیار پر پورا اترنے کیلئے اذیت میں ہے۔
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی :
اپنی شخصیت میں اللہ کیلئے نکھار پیدا کریں اپنی ذینت اپنے شوہر یا بیوی کیلئے درست کریں۔ پر سکون ذہن تب ہی میسر آتا ہے جب اتباع نفس نہیں بلکہ اتباع شریعت ہو، کوئی کسی ذہنی یا روحانی مسئلے میں الجھا ہوا ہے اس کا فرق اس کے ذہنی سکون سے اندازہ لگا کر کیا جاتا ہے۔
اصل زینت محض جسم کا سجنا سنورنا نہیں بلکہ اصل روح کی بالیدگی ہوتی ہے جبکہ روح کا سنگھار صبر و شکر ہوتا ہے۔ اسی سے خلوص، وفا، نباہ، درگزر اور احساس ہمدردی اور خیر خواہی پیدا ہوتا ہے، زندگی سے لے کر موت تک ہر ہر معاملہ آزمائش ہے، انا شادی شدہ رشتے کی دشمن ہی نہیں سب سے پہلے انانیت انسان کی خود کی دشمن ہوتی ہے، جو اسے مختلف وجہیں تلاش کر ناشکری اور اذیت میں مبتلا رکھتی ہیں،انسان خود ایسی اذیت میں رہتا ہے وہ اپنے سکون کو خود اپنے ہاتھوں سے دور کرتا چلا جاتا ہے لیکن حقیقت جان نہیں پاتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
الزام تراشیوں سے گریز :
میاں ،بیوی خود احتسابی کی بجائے الزام تراشی زیادہ آسان سمجھتے ہیں اور محبت کا رشتہ ہوتے ہوتے مقابلے بازی میں بدل جاتا ہے۔ انانیت اور خودسری شیطان کا عطیہ ہے، جو لہو میں دوڑ رہا ہے وہ ہر پل، ہر لمحہ’میں‘ کو اکساتا رہتا ہے…
اللہ سے غافل ہوتے ہی ازواجی رشتہ’ہم‘ میں پروان چڑھنے کی بجائے تو تو ، میں میں کے ہاتھوں ذبح ہو جاتا ہے۔ اور قاتل خود کو مقتول سمجھتے رہتے ہیں، خود احتسابی کی بجائے الزام تراشی وطیرہ بن جاتی ہے۔
محبت کا ذریعہ نکاح :
ابن ماجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا کہ محبت کا جوڑ لگانے والی چیزوں میں سے نکاح کا جوڑ سب سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے۔نکاح سے بڑھ کر کوئی اور چیز ایسی نہیں جس سے محبت میسر ہو جآ، اب اگر میاں بیوی میں وہ سکون و محبت و رحمت نہیں ہے تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو الزام دینے کی بجآ اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دوسری جانب واقعی اصلاح کی ضرورت ہو۔
اس کیلئے ترک تعلق کی بجائے ارباب عقدوحل کی مدد لینی چاہئے جو شریعت مطہرہ کی روشنی میں صحیح رہنمائی کر سکیں، جیسے کوئی شخص بیمار ہو جاتا ہے تو اسے معالج کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ متاثرہ عضو کو براہ راست کاٹا نہیں جاتا بلکہ اس کا علاج کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں کاؤنسلنگ بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔
کیا ہے سب سے نا پسندیدہ چیز؟
اللہ پاک کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ شے طلاق ہے، اور شیطان ایک شادی شدہ رشتہ کو ایک نسل ایک خاندان کی بربادی کیلئے اسی جانب لاتا ہے۔
خطبات حکیم الا مت حقوق الزوجین میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کیونکہ ہماری عورتوں میں محبت کا مادہ اس قدر ہے کہ سچ مچ عشق کا مرتبہ ہے۔ کانپور میں دیکھا گیا ہے کہ بعضی عورتوں نے خاوند کے ظلم اور مار پٹائی سے تنگ آکر قاضی جی کے یہاں جاکر طلاق لینے کی درخواست کی۔
قاضی جی نے کوشش کر کے طلاق دلوادی۔ ساری عمر کی مصیبتوں اور مار پٹائی کی وجہ سے طلاق لے تو لی۔
مگر طلاق کے وقت زار زار روتی تھیں اور یہ حالت تھی کہ ابھی مر جائیں گی۔ یا زمین پھٹ جائے تو اس میں سما جائیں گی۔
عورتوں کی یہ بات بہت قابل قدر ہے کہ ان کو خاوند سے عشق ہوتا ہے۔ پھر کیا اس کی یہی قدر ہے کہ ان کو تکلیف دی جائے یا ذرا سی ناگواری پر ان کو الگ کر دیا جائے…
کسی نے خوب کہا ہے۔
آنرا کہ بجائے تست ہردم کرمے

عزرش بنر از کند ز بعمرے سخنے

 
کہ جس سے ہر وقت راحت پہنچے اس سے کسی وقت اذیت بھی پہنچے تو چشم پوشی کرنا چاہئے۔
میاں بیوی دونوں یاد رکھیں:
حضرت لقمان علیہ السلام نے جو حکیم تو سب کے نزدیک ہیں اور بعض کے نزدیک پیغمبر بھی ہیں ایک باغ میں نوکری کرلی،اس سے سبق لینا چاہئے کہ حلال پیشہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہئے۔مالک باغ ایک روز باغ میں آیا اور ان سے ککڑیاں منگائیں اور اس کو تراش کر ایک ٹکڑا ان کو دیا یہ بے تکلف بکر بکر کھاتے رہے اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ بڑے مزے سے کھارہے ہیں، یہ سمجھا کہ یہ ککڑی نہایت لذیذ ہے۔
ایک قاش اپنے منھ میں بھی رکھ لی تو وہ کڑوی زہر تھی، فوراً تھوک دی اور بہت منھ بنایا۔ پھر کہا، اے لقمان تم تو اس ککڑی کو بہت مزے سے کھا رہے ہو، یہ تو کڑوی زہر ہے۔
کہا جی ہاں کڑوی تو ہے کہا پھر تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ کڑوی ہے؟ کہا میں کیا کہتا مجھے یہ خیال ہوا کہ جس ہاتھ سے ہزاروں دفعہ مٹھائی کھائی ہے ،اگر اس ہاتھ سے ساری عمر میں ایک دفعہ کڑوی چیز ملی تو اس کو کیا منھ پر لاؤں! یہ ایسا اصول ہے کہ اگر اس کو میاں بیوی دونوں یاد رکھیں تو کبھی لڑائی جھگڑا نہ ہو اور کوئی بدمزگی پیش نہ آوے۔
بیوی یاد کرے کہ میاں نے ہزاروں طرح کے ناز میرے اٹھائے ہیں ایک دفعہ سختی کی تو کچھ بات نہیں۔ اور خاوند خیال کرے کہ بیوی ہزاروں قسم کی خدمتیں میری کرتی ہے ایک دفعہ خلاف طبع بھی سہی، اللہ پاک اپنے پاس سے تمام ازواجی بندھنوں میں خیر و برکت و محبت و برداشت و سکون عطا فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دل و جان سے جینے اور رشتوں میں توازن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ پاک سرخروئی عطا فرمائے۔
اللھم آمین!