حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بَابُ : مَا جَاءَ فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بیان میں
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : آخِرُ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَشْفُ السِّتَارَةِ يَوْمَ الإِثْنَيْنِ ، فَنَظَرْتُ إِلَى وَجْهِهٖ كَاَنَّهٗ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ وَالنَّاسُ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَشَارَ إِلَى النَّاسِ أَنِ اثْبُتُوا ، وَأَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّهُمْ وَأَلْقَى السِّجْفَ ، وَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے جس وقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار نصیب ہوا یہ وہ وقت تھا جب آپ نے پیر کے دن گھر کا پردہ اٹھایا۔میں نے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا تو وہ قرآن کریم کے نورانی ورق کی طرح چمک رہا تھا۔ لوگ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کر رہے تھے (آپ کو دیکھ کر لوگ پیچھے ہٹنے لگے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنی جگہ کھڑے رہنے کا اشارہ فرمایا پھر آپ نے پردہ گرا دیا۔ اسی دن کے آخری حصے میں آپ کا وصال مبارک ہو گیا۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینہ پر سہارا دیا ہوا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کرنے کے لیے طشت منگوایا، اس میں پیشاب مبارک فرمایا اور اس کے بعد آپ کی وفات ہوگئی۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پانی کا پیالہ رکھاہواتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پیالے میں اپنے ہاتھ مبارک ڈالتے اور چہرہ مبارک پر پھیرتے تھے اور ساتھ یہ دعا بھی فرماتے: اے اللہ! موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔
زبدۃ:
جب کوئی تکلیف آتی ہے تو اکثر لوگ بھٹک جاتے ہیں، تکلیف کا رونا روتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں اللہ کے نبی نے یہ دعا مانگ کر امت کو تعلیم دی ہےکہ موت کے مشکل اور سخت ترین وقت میں بھی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھنا چاہیے اور کسی کی طرف دھیان نہ دینا چاہیے۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ موت کے وقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سختی تھی اس کو دیکھ کر اب مجھے کسی شخص کے مرض الموت میں تکلیف نہ ہونے پر رشک نہیں ہوتا۔
حدیث: حضرت ابن عباس اور حضرت ام المؤمنین(میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تشریف لائے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیا۔
زبدۃ:
یہ بوسہ دینا برکت حاصل کرنے کے لیے تھا یا یہ الوداعی بوسہ تھاکہ آپ اپنے محبوب کو رخصت کر رہے تھے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اپنے کسی عزیز کو وفات کے بعد بوسہ دینا جائز بلکہ سنت سے ثابت ہےکیونکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو وفات کے بعد بوسہ دیا تھا۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم جس روز ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کی ہر چیز روشن ہوگئی اور جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو مدینہ منورہ کی ہر چیز تاریک نظر آنے لگی۔ ہم نے ابھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرنے کے بعد قبر کی مٹی سے ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں تبدیلی محسوس کی۔
زبدۃ:
دلوں میں تبدیلی محسوس کرنے کا مطلب یہ ہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے جو فیض حاصل ہورہا تھا وہ ختم ہوگیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سےجو روحانی ترقی اور انوار حاصل ہو رہے تھےوہ ختم ہو گئے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ جو کیفیت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تھی وہ کہاں باقی رہ سکتی ہے؟!
حدیث : حضرت سالم بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت کے دوران آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر جب کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو کہو کہ اذان کہےاور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلال کو کہو اذان دے اور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میرے والد ابوبکر بڑے نرم دل ہیں، وہ جب اس مصلے پر کھڑے ہوں گے تو روپڑیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا آپ کسی دوسرے آدمی کو نماز پڑھا نے کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد آپ پر پھر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا: بلال کو کہو کہ اذان دیں اور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ تم تو حضرت یوسف علیہ السلام کی عورتوں کی طرح ہو۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ نے جب کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: دیکھو مجھے سہارا دے کر کوئی مسجد تک لے جانے والا ہے؟چنانچہ حضرت بریرہ باندی اور ایک دوسرا شخص آیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے کندھوں کا سہارا لیا اور مسجد تک تشریف لے گئے۔ پھر جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے کا ارادہ فرمایا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہو یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےنماز مکمل فرمائی اور اسی روز حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے میں اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ اُمّی تھے، اس سے پہلے ان میں کوئی نبی نہیں آیا تھا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر سب خاموش ہوگئے۔ پھر بعض لوگوں نے کہا کہ اے سالم! جاؤ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لے آؤ۔ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ میں روتا ہوا دہشت کے عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔ اس وقت آپ مسجد میں تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا: کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے؟ میں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے میں اپنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلو۔ چنانچہ میں بھی ان کے ہمراہ چل دیا۔ جب آپ تشریف لائے تو لوگ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جمع تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو مجھے راستہ دو۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کو راستہ دے دیا۔ آپ آئے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر گہری نظر ڈال کر آپ کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیا، آپ کو چھوا اور یہ آیت پڑھی:
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ․
[سورۃ الزمر: 30]
آپ بھی وفات پانے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔
پھر لوگوں نے پوچھا کہ کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ لوگ سمجھ گئے اور ان کو یقین ہوگیا۔ پھر لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا ہم حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ بھی پڑھیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ لوگوں نے پوچھا: جنازہ کس طرح پڑھیں؟ آپ نے جواب دیا: ایک جماعت حجرہ کے اندر جائے، وہ تکبیر کہے اور دعا کرے اور حضرت پاک صلی للہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کر باہر آجائے، پھر دوسری جماعت حجرہ مبارک میں داخل ہو تکبیر کہے، درود پڑھے اور دعا کرکے باہر آجائے، اسی طرح سب لوگ نماز جنازہ پڑھیں۔ پھر لوگوں نے پوچھا : اے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن بھی کیا جائے گا؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ لوگوں نے پوچھا: کس جگہ دفن کیا جائے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کو اسی جگہ دفن کیا جائے گا جس جگہ آپ فوت ہوئے، اس لیے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ پر قبض فرمائی ہے جو جگہ اللہ کو پسند ہے۔ صحابہ کو ہرہر بات پر یقین ہوگیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تمام امور میں ٹھیک راہنمائی فرمائی ہے۔
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کو حکم دیا کہ و ہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کریں۔ مہاجرین آپس میں خلیفہ کے بارے میں مشورہ کر رہے تھے تو انہوں نے (مہاجرین نے) کہا کہ اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلیں اور انہیں بھی اس معاملہ میں اپنے ساتھ شریک کریں۔ چنانچہ جب مشورہ ہوا تو انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہونا چاہیےاور ایک امیر تم میں سے ہوناچاہیے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ کون شخص ہے کہ جس میں یہ تین فضیلتیں جمع ہیں:
(۱): جس کو قرآن نے ”ثانی اثنین“ کہا یعنی وہ غار میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تنہائی کا ساتھی ہے۔
(۲): جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی اور رفیق فرمایا ہے۔
(۳): جس کو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غم نہ کرو،اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہے۔
اے لوگو بتاؤ! وہ دونوں کون تھے جن دونوں کے بارے میں یہ آیتیں اتریں؟ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھایا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، پھر دوسرے تمام لوگوں نے بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اپنی رضا مندی اور رغبت کے ساتھ بیعت کرلی۔
زبدۃ:
اس حدیث میں اہم بات یہ ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تو حضرت یوسف علیہ السلام والی عورتوں کی طرح ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا تھا کہ میرے والد نرم دل ہیں اور وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے، اس لیے کسی اور کو مصلے پر کھڑا فرمادیں۔ اس میں انہوں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا تھا اور انہوں نے ان کی سفارش کردی تھی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف (علیہ السلام) والی عورتوں کی طرح ہویعنی جس طرح زلیخا بے جا بات پر ضد کر رہی تھی، تم بھی بے جا بات پر ضد کرتی ہو، تمہیں چاہیے تھا کہ میری بات فوراً مان لیتیں۔
اور بعض نے فرمایا کہ یوسف والی عورتوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جنہوں نے زلیخا کو طعنہ دیا تھا کہ تو ایک غلام لڑکے پر عاشق ہو گئی ہے تو زلیخا نے ان کی دعوت کی اور یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے آنے کا حکم دیا۔ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ تو زلیخا کا مقصد ان عورتوں کی دعوت کرنانہ تھا بلکہ مقصد یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی یوسف علیہ السلام والی عورتوں کی طرح ہو کہ تم ظاہراً روکتی ہو کہ ابوبکر نرم دل ہیں اور ان کی جگہ پر کسی اور کو مصلے پر کھڑا کردوں مگر تمہارا مقصد کچھ اور ہے۔ چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ میں بار بار اصرار کر رہی تھی کہ میرے باپ کو مصلے پر کھڑا نہ کریں کیونکہ وہ نرم دل آدمی ہیں، رونے لگ جائیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں خیال کرتی تھی کہ لوگ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اس شخص کو کبھی پسند نہ کریں گے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ پر کھڑا ہو۔ لوگ ایسے شخص کو منحوس سمجھیں گے۔
اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اگرچہ ظاہر میں توحضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کی موافقت کر رہی تھیں مگر شاید دل میں یہ ہو کہ میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت ادا کرنے کی سعادت مل جائے اور اپنے والد کی عظمت و بزرگی کا زیادہ خیال ہو تو اس طرح ان کو حضرت یوسف علیہ السلام والی عورتوں کے ساتھ تشبیہ دی۔
زبدۃ:
(1): حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بہت بڑاسانحہ تھا۔انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ زبان سے کچھ بول ہی نہ سکتے تھے۔ ایسے موقع پر جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سنبھالا یہ ان کا کمال اور ان کی ہی خصوصیت ہے، اور کیوں نہ ہوتی؟ آخر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح جانشین، ہم راز اور ساتھی تھے۔
(2): یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی موت کا انکار کیوں کیا؟ اس کی بہترین توجیہ جو راقم کے ذہن میں آتی ہے جس میں حضرت عمر کی جلالت شان بھی ہے اور اہل السنت والجماعت کے عقیدہ کی وضاحت بھی وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ علیہ السلام کے جسد مبارک اور آنکھوں کو دیکھا تو فرمایا کہ وفات ہوگئی۔ حضرت عمر کی نگاہ حضور کے قلب اطہر پر تھی جس میں حیات کے اثرات تھے اس لیے فرمایا کہ آپ زندہ ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس عمر کے بارے پیغمبر نے فرمایا :
ان اللہ جعل الحق علیٰ لسان عمر وقلبہ
) ترمذی ج2ص 209باب مناقب عمر(
کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کے دل و زبان پرحق جاری کردیا، عمر سوچتا بھی ٹھیک ہے عمر بولتا بھی ٹھیک ہے ،وہ عمر اس موقعے پر غلط بات کہے!۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس نظریہ پر مدلل بحث دیکھنے کے لیے قاسم العلوم والخیرات بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "آب حیات" کامطالعہ کریں۔
(3): عام مسلمانوں کی نماز جنازہ کا طریقہ تو معروف ہی ہے مگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کا طریقہ بالکل مختلف ہےجس کی تفصیل کتب حدیث میں موجود ہے۔ یہ طریقہ خود حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی ازواج مطہرات کے سامنے ایک روز بیان فرمایا تھا جیسا کہ مستد ر ک حاکم اور مسند بزار میں ہے کہ ایک موقع پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے گھر والوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! موت تو ہر ذی روح کے لیے بر حق ہے، جب آپ کی ذات مبارک پر یہ وقت آئے تو آپ کا جنازہ کون پڑھے گا؟ تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھے غسل دے کر تین سفید کپڑوں میں کفن پہنادو تو مجھے چارپائی پر رکھ دینا اور تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر نکل جانا، سب سے پہلے میرا جنازہ مقرب فرشتے اپنے لاؤلشکر کے ساتھ پڑھیں گے یعنی جبرائیل، پھر میکائیل، پھر اسرافیل، پھر ملک الموت اپنی اپنی جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھیں گے، پھر تم گرو ہ درگروہ کمرے میں داخل ہونا اور مجھ پر درود وسلام پڑھنا۔
(مستدرک الحاکم: ج3 ص608 رقم الحدیث4455)
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق ایسے ہی ہوا۔ دس دس کے گروہ کمرے میں داخل ہوتے، آپ پر درود وسلام پڑھتے، پھر اسی طریقہ سے عورتوں نے، پھر بچوں نے پڑھا۔
حدیث:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم موت کی سختی محسوس فرمارہے تھےتو آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرے ابا جی کی تکلیف! تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تیرے والد پر کوئی تکلیف نہیں رہے گی، آج تیرے باپ پر وہ بھاری چیز اتری ہے (یعنی موت) جو کہ قیامت کے دن تک کسی بھی فرد کو نہیں چھوڑے گی۔
حدیث: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دو بچے ذخیرہ آخرت بن گئے (یعنی بچپن میں ہی فوت ہو گئے) تو اللہ تعالیٰ ان کی بدولت ایسے شخص کو ضرور جنت میں داخل فرمائیں گے۔ ام المؤمنین(میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: حضرت! جس کا ایک ہی بچہ ذخیرہ آخرت بناہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا ایک بچہ ہی ذریعہ آخرت بنا ہو تووہ بھی بخش دیا جائے گا۔ حضرت ام المؤمنین(میری امی)عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا: جس کا ایک بچہ بھی ذریعہ آخرت نہ بنا (یعنی ایک بچہ بھی نابالغی میں فوت نہ ہوا) تو اس کا کیا حکم ہے؟ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے میں ذخیرہ آخرت ہوں، اس لیے کہ میری وفات کا رنج اور صدمہ تو سب سے زیادہ ہوگا۔
زبدۃ:
ایک روایت میں ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی مصیبت پہنچے تو میری جدائی کی مصیبت سے تسلی حاصل کرے یعنی یہ سوچے کہ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کو برداشت کرلیا تو باقی مصائب کی اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے؟
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی ابتداء سر کے درد سے ہوئی۔ اس روز حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف فرماتھے۔ اس کے بعد حضرت ام المؤمنین(میری امی) میمونہ رضی اللہ عنہاکی باری کے دن مرض میں شدت پیدا ہوگئی۔ اس حالت میں بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم فرماتے رہے مگر جب مرض میں زیادہ شدت پیدا ہوگئی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ پر تمام بیویوں نے حضرت ام المؤمنین(میری امی ) عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر بیماری کے ایام گزارنے کا اختیار دے دیا تھا، اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ یا چودہ ایام مرض کے گزارنے کے بعد پیر کو چاشت کے وقت ربیع الاول کےمہینے میں حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں وصال فرمایا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون