معراج کب اور کیسے ہوا ؟

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
معراج کب اور کیسے ہوا ؟
مرکز اصلاح النساء، سرگودھا
تمہید:
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد:
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ۔
سورۃ اسراء آیت نمبر 1 پارہ نمبر 15
میری نہایت واجب الاحترام ماؤو ،بہنو اور بیٹیو! میں نے جو آیت آپ کی خدمت میں تلاوت کی ہے اس میں اللہ رب العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بڑے اہم سفر اور واقعے کو بیان فرمایا ہمارے ہاں عموماً اس سفر اور واقعہ کو معراج کے نام سے یاد کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے معراج کروایا ہے۔
معراج کب ہوا ؟
معراج کب ہوا؟اور کیسے ہوا؟یہ دو باتیں سمجھنے کی ہیں۔
پہلی بات یہ کہ معراج کب ہوا؟ اس بارے میں علماء کرام کے10 اقوال موجود ہیں۔
1: ہجرت سے 6ماہ قبل
2: ہجرت سے 8ماہ قبل
3: ہجرت سے11ماہ قبل
4: ہجرت سے 1 سال قبل
5: ہجرت سے ایک سال اور 2ماہ قبل
6: ہجرت سے ایک سال اور 3ماہ قبل
7: ہجرت سے ایک سال 5ماہ قبل
8: ہجرت سے ایک سال 6ماہ قبل
9: ہجرت سے 3 سال قبل
10: ہجرت سے5سال قبل
یہ دس اقوال علماء سیرت کے موجود ہیں لیکن علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری شریف میں جو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے معراج ہوئی اگر اس بات کو ترجیح دی جائے تو معراج نبوت کے دسویں سال کے بعد اور گیارہ نبوی میں سفر طائف سے واپسی کے بعد ہوئی اور حضرت ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ سیرۃ المصطفیٰ میں بھی اسی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اللہ رب العزت کا عمومی ضابطہ نظام اور قانون یہ ہے کہ جب کسی بندے سے امتحان لیتے ہیں وہ کامیاب ہوتاہے تو اللہ رب العزت اس امتحان کی کامیابی پہ دنیا وآخرت کے انعامات سے نوازتے ہیں۔ گزشتہ انبیاء علیہم السلام سے اللہ تعالیٰ نے امتحانات لیے اور وہ تمام کے تمام کامیاب بھی ہوئے،لیکن سب سے بڑے امتحانات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد مکہ مکرمہ کی تیرہ سالہ زندگی میں امتحانات اور قربانیوں کی انتہاء کردی۔
مصائب ومشکلات اور مخالفتوں کا سامنا
سب سے پہلے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب نے مخالفت کی، صرف مخالفت ہی نہیں بلکہ بددعائیہ کلمات کہے۔ اس نے کہا
تباًلک یا محمد الہذا جمعتنا؟
مسند البزار، رقم الحدیث 5088
العیاذباللہ،اے محمد تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا تو نے اس لیے جمع کیا تھا اس کا جواب اللہ رب العزت نے دیا:
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
سورۃ المسد، 1
ابولہب تو برباد ہو تو نے میرے لاڈلے محمد کو یہ بددعا کیوں دی ہے؟ یہ بہت بڑا حملہ جو اس نے کیا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت۔
دیکھیے سب سے پہلی دعوت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا مقابلے میں کھڑا ہوا تھا اورادھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کی گلیوں میں جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی ام جمیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دین کی دعوت کےلیے نکلتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سگا چچا ابو لہب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتاہے۔
اپنوں کے نشتر
آدمی غیروں سے لڑائی لڑ لیتاہے لیکن اپنوں سے لڑائی نہیں لڑتا۔ ہمارے ہاں عموماً ایک جملہ لوگ اپنی زبان سے کہہ دیتے ہیں کہ تیری جگہ کوئی اور ہوتا میں دیکھتا بات کیسے کرتا ہے مجھے تیری عمر،رشتے کا حیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام آدمی کے خلاف ہاتھ اور زبان استعمال نہیں کرتے تھے اور جب مدمقابل چچا اور چچی ہو پھر آپ خود اندازہ فرمائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ کہ اپنے گھر کے لوگ مخالفت کر رہے ہیں۔
نبوت کا سوشل بائیکاٹ
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دور بھی آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا ابولہب نے نبوت کی دونوں بیٹیوں رقیہ اورام کلثوم رضی اللہ عنہما کو عتبہ اور عتیبہ سے طلاق دلوائی ہے۔ کتنا بڑا امتحان ہوگا! پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سال کے لیے شعب ابی طالب کی اس گھاٹی میں بند کیا گیا جہاں نہ کسی کا آنا اور نہ ان کا باہر جانا۔ کھانا پینا بھی ختم تعلقات بھی ختم ، سوشل بائیکاٹ ہاشم اور مکہ والوں نے یہ معمولی بات نہیں ایک دو دن خاندان بائیکاٹ کرے تو دماغ ٹھکانے آجاتاہے نبوت کے تین سال تک بائیکاٹ میں گزرے۔ آج بھی مکہ مکرمہ جائیں اور وہاں کی گرمی کو دیکھیں تو انسان کو اندازہ ہوتاہے کہ کن مشکلات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں تین سال کاٹے ہوں گے۔
جانثار بیوی کا سانحہ انتقال
پھر اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت غم خوار بیوی امت کی ماں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا دنیا سے چلے جانا یہ نبوت کے لیے چھوٹا سانحہ نہیں۔ اس لیے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک طرف اور پوری امت کے دکھ ایک طرف۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد ساتھ دیاہے،بے حد تعاون کیاہے۔ اپنی ساری دولت نبوت پر نثار کردی۔ اپنی گود ہمیشہ نبوت کی راحت کے لیے پیش کی ہے تو اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قدرساتھ دیاہے کہ دنیا بھر کے غموں کو اپنے سینے میں سمیٹ لیاہے۔
دکھ سکھ اور گھریلو نظام زندگی
اس پر میں عموماًایک بات کہتاہوں اگر پوری دنیا انسان کو دکھ دے اور گھر والے اس کو سکھ دیں تو بندے کو دنیا کے دکھ،دکھ محسوس نہیں ہوتے اور اگر پوری دنیا انسان کو سکھ دے اور گھر والے دکھ دیں تو دنیا کے سکھ آدمی کو سکھ محسوس نہیں ہوتے۔ پوری دنیا کے دکھ ایک طرف اور گھر کا سکھ ایک طرف ،پوری دنیا کے سکھ ایک طرف اور گھر کا دکھ ایک طرف۔ دنیا میں کسی بندے نے تحریکی کام کرنا ہو تو اسے سب سے بڑا جو سہارا چاہیے وہ اس کی بیوی اور اس کے گھر والے ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شکل میں بہت بڑا سہارا اللہ نے عطا فرمایا تھا۔ ایک وقت آیا کہ امی خدیجہ کا بھی انتقال ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار فرمایا۔
حضرت خدیجہ سے حضور کی محبت
حضرت خدیجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا پیار تھا اور کتنی محبت تھی آپ اس کا اندازہ دو باتوں سے لگاسکتے ہیں۔
1: حضور مدینہ منورہ میں اتنی کثرت سے اماں خدیجہ کو یاد کرتے کبھی امی عائشہ پوچھ لیتیں کہ حضور میرے اندر کوئی کمی ہے؟ حضرت خدیجہ میں کون سی خوبی تھی جو میرے اندر موجود نہیں ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انھا کانت و کانت
صحیح البخاری، رقم الحدیث 3818
اے عائشہ تمہیں کیا کہوں خدیجہ تو خدیجہ تھی۔ یہ جملہ آدمی اس وقت کہتاہے جب کسی کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے الفاظ نہ ہوں یا کسی کی خوبیاں بہت زیادہ ہوں اس وقت یہ جملہ کہتے ہیں فلاں کا کیا کہنا ،فلاں تو فلاں ہے۔ تو اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ تو خدیجہ تھی۔ حضور کامبارک معمول تھا جب بھی گھر میں گوشت آتا تو امی خدیجہ کی سہیلیوں کے گھر بطور ہدیہ بھیجا کرتے۔
2: ایک واقعہ جو میں بتا رہا تھا اس سے اندازہ لگائیں کہ مکہ مکرمہ میں جو پہلی جنگ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی اس جنگ کا نام بدر ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جنگ میں مدمقابل آنے والے حضور کے چچا زاد بھی تھے۔ان میں ایک رشتہ دار حضرت زینب آپ کی بیٹی کے شوہر ابوالعاص جو آپ کے داماد تھے۔اگر کسی کے مقابلے میں اس کا داماد کھڑا ہوتو سسر ہی بتا سکتاہے اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے لیکن حضور پر یہ گزری کہ چچا اور چچا زاد اور داماد مقابلے میں۔ کفر و اسلام کی جنگ ہے خون دینا بھی ہے خون لینا بھی ہے کس قدر مشکل دور ہوگا۔
ابو العاص گرفتار ہوگئے، قیدیوں میں شامل ہوگئے،نبی اکرم کی خدمت میں لائے گئے تو حضور نے مشاورت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا جو تم میں سے فدیہ دے سکتاہے؛ غالباً 40دراہم مقرر ہوئے؛ وہ فدیہ دے اور رہاہوجائے اور جو فدیہ نہیں دے سکتا وہ صحابہ کے بچوں کو علم سکھائے اس کے بعد وہ بھی چھوٹ سکتاہے۔ ابوالعاص نے فدیہ کے لیے ایک ہار پیش کیا جو حضرت زینب نبی کی بیٹی لخت جگر نے اپنے خاوند کو پیش کیا جب وہ ہار نبی کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے۔
فرمایا صحابہ سے اگر تم راضی ہو تو میں یہ ہار واپس کردوں ؟صحابہ نے فرمایا کیوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ؟تو آپ نے فرمایا یہ میری خدیجہ کا ہار ہے جو اس نے اپنی بیٹی زینب کو دیاہے اس ہار کو دیکھ کر آج مجھے میری خدیجہ یاد آگئی۔ بتائیں حضور کی کس قدر غمخوار تھیں وہ بھی دنیا سے چلی گئیں۔ ابوطالب جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے نبی کریم کے نہایت غمخوار تھے اور حضور سے نہایت محبت کرنے والے تھے آپ کے لیے ڈھال کا کام دیتے تھے وہ بھی دنیا سے چلے گئے اب بتائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غم کی حالت کیا ہوگی۔ پھر آپ کا بائیکاٹ ختم ہوا۔
نبوت طائف کی وادیوں میں
آپ نے سوچا مکہ والے نہیں مانتے چلو طائف والوں کو سمجھاؤں۔ طائف پہنچے تو طائف کے سرداروں نے حضور کی بات ماننے کی بجائے نبی کریم کے پیچھے طائف کے لونڈے اور اوباش لڑکے لگادیے کہ ان کو مارو۔ انہوں نے تالیاں بجائیں اور پتھر مارے۔ جب حضور بیٹھ جاتے تو کھڑا کرکے پھر مارا جاتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غلام بھی تھا۔ سوچو حضور علیہ السلام پر کیا گزررہی ہوگی۔ مکہ والوں نے ستم کیا، بائیکاٹ کیا، اتنے ستم کے باوجود طائف گئے۔ طائف والوں نے بھی لہولہان کردیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپش مکہ تشریف لائے۔ جبرائیل امین بھی آسمان سے اتر آئے اور کہا حضور اجازت دیں مکہ والوں کو ہم کچل کر رکھ دیں انہوں بہت زیادتی کی ہے۔
مشہور غلطی کا ازالہ
عموما لوگ اس کو طائف والوں سے منسوب کرتے ہیں لیکن یہ طائف والوں کے لیے نہیں ہے۔ اس کا تذکرہ بخاری میں موجود ہے۔ جبل ابی خبیب اور جبل نور یہ پہاڑ مکہ مکرمہ میں ہیں، ان کا طائف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عام بندہ سمجھتاہے کہ چونکہ طائف والوں نے بہت ظلم کیا تھا تو جبرائیل امین نے ان کے لیے کہا تھا حالانکہ ان کے لیے نہیں تھا مکہ والوں کے لیے تھا۔ کیوں؟اس وجہ سے کہ طائف والوں کی وجہ بھی مکہ والے ہیں اگر مکہ والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنبھال لیتے تو طائف جانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟
اگر مکے والے ان کا ساتھ دیتے تو طائف والوں کی کیا جرأت تھی کہ وہ حضور پر ہاتھ اٹھاتے۔ تو طائف والوں کا ہاتھ اٹھانا مکہ مکرمہ والوں کی وجہ سے تھا اس لیے عتاب کے مستحق بھی یہی لوگ تھے لیکن آپ نے جبرائیل امین کی اس بات کے جواب میں فرمایا:
اللهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث 1375
اے اللہ ان کو معلوم نہیں میں ان کا کتنا خیر خواہ ہوں اے اللہ ان کو ہدایت عطا فرما۔ اب بتائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کتنا ٹوٹا ہوگا۔ نبی نے امتحانات میں کامیابی کی انتہاء کردی تو پھر اللہ نے حضور کو عرش پربلاکر اعزازات سے نوازکر عطا کی بھی انتہا کردی۔ لوگوں نے حضور علیہ السلام پر زمین تنگ کر دی تھی تو اللہ نے عرش پر بلا کر وسعت عطا کردی ہے۔
معراج کیسے ہوا ؟
آپ علیہ السلام حضرت ام ہانی کے گھر سو رہے تھے۔ جبرئیل امین علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ آئے۔ دروازے سے آنے کی بجائے چھت پھاڑ کر اندر آئے آپ کو اٹھایا اور حطیم کعبہ لے گئے۔وہاں سے زمزم کے کنویں پر تشریف لے گئے وہاں قلب اطہر کو نکالا اور اس کو زمزم کے پانی سے دھویا اور ایمان وحکمت سے اس کو بھر دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت لگادی گئی۔ پھر براق پر سوار کراکے حضورکا سفر شروع ہوا۔
اسراء اور معراج
مدینہ منورہ پہلا سٹاپ تھا اور طور سینا دوسرا سٹاپ۔ بیت اللحم تیسرا سٹاپ، بیت المقدس چوتھا سٹاپ۔ یہاں سے نبی کریم آسمان پر تشریف لے گئے آسمان اول دوم سوم چہارم پنجم ششم اور ہفتم، سات آسمان تک پہنچے اور پھر وہاں سے اوپر آپ سدرۃ المنتہیٰ تک گئے ہیں۔ صریر الاقلام تک پھر عرش معلیٰ تک،وہاں سے واپس تشریف لائے ہیں۔ معراج کے متعلق میرا مفصل بیان ہے اسے سنیں جو خواتین ملک سے باہر میرا بیان سن رہی ہیں وہ انٹر نیٹ پر سماعت فرماتی رہتی ہیں میں ان سے گزارش کرو ں گا کہ معراج کے موقع پر ہونے والا میرا بیان نیٹ پر موجود ہے آپ وہاں سے سن لیں۔
اللہ کےراستے میں خرچ کرنے کی فضیلت
آج میں نے ایک دو باتیں عرض کرنی ہیں جو ہمارے احکامات کے متعلقہ ہیں ایک بات یہ سمجھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کے سفر پر جارہے تھے تو راستے میں تین اہم واقعات حضور کے ساتھ پیش آئے۔ ان میں ایک واقعہ حضور کے ساتھ یہ پیش آیا آپ نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو تخم ریزی کرتے ہیں فصل کاٹتے ہیں اور بیچتے ہیں ادھر انہوں نے فصل کی بوائی کی ادھر وہ بڑی ہوگئی، انہوں نے فصل کو کاٹ لیا۔ فصل کو کاٹا پھر اتنی بڑی ہوگئی۔ جبرائیل امین سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل نے فرمایا اے اللہ کے رسول یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، اللہ اس کے بدلے انہیں یہ نعمت عطا فرمائی ہے۔
نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کا وبال
پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم پر گزرے کہ جن کے سر پتھروں کے ساتھ کچلے جارہے ہیں۔ سر پر پتھر مارا سر زخمی ہوگیا پھر سر ٹھیک ہوگیا پھر مارا پھر سر زخمی ہوگیا۔ پھر پتھر لینے گئے سر پھر ٹھیک ہوگیا۔بار بار سر پتھر سے کچلا جا رہاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل نےعرض کیا اللہ کے پیغمبر یہ وہ لوگ ہیں جو فرض میں کاہلی اور سستی سے کام لیتے ہیں۔ توجو فرض نماز میں سستی کرتاہے قیامت کے دن ان کے سر کو پتھروں سے کچلا جائے گا جو اتنی بڑی سزا برداشت کر سکتاہے وہ تو بے شک نماز میں کوتاہی کرے۔اور جو میری ماں اور بہن برداشت نہیں کر سکتی وہ ہرگز نماز میں سستی نہ کرے۔
ادائیگی زکوٰۃ میں کوتاہی کی سزا
پھر حضور کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کی شرمگاہ پر آگے پیچھے چیتھڑے سے لٹکے ہوئے تھے اور وہ اونٹ اور بیل کی طرح چل رہے تھے اور کھانےکو جہنم کے پتھر اور کانٹے ملتے تھے۔ پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کون لوگ ہیں؟تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال میں زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ دنیا میں زکوٰۃ ادا نہیں کی آج جہنم کے پتھر اور کانٹے کھانے پر مجبور ہیں۔ اس لیے مرد وعورت دونوں کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کریں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں جو بینک میں پیسہ ہے صرف اس پر زکوٰۃ ہے۔ جو عورتیں گھر میں زیور استعمال کرتی ہیں ان زیوروں پر بھی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے اور بعض عورتیں کہتی ہیں، زیور میں نے پہنا ہے زکوٰۃ اس کی خاوند نے ادا کرنی ہے۔ عورت کے زیور پر خاوند کے ذمہ زکوٰۃ اداکرنا نہیں ہے۔ ہاں اگر خاوند بیوی مشاورت کےساتھ طے کر لیں اور خاوند خوشی سے دے تو دے سکتاہے۔ ورنہ زیور پہننا ہی نہیں چاہیے اگر زکوٰۃ ادا نہیں کر سکتیں۔ تو زیوروہ پہنیں جو زکوٰۃ ادا کرسکتی ہیں۔
بدکاری کے مرتکب لوگ
پھر حضور کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے سامنے دو قسم کے گوشت موجود ہیں ہنڈیا میں پکا ہوا اچھا گوشت اور ایک ہنڈیا میں پکا ہوا گندا بدبودار گوشت اور یہ اچھا گوشت چھوڑ کر گندا گوشت کھا رہے ہیں۔ پوچھا جبرائیل امین یہ کون لوگ ہیں؟عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال پاک منکوحہ بیویاں موجود ہیں اور ان کو یہ چھوڑ کر غیرمحرم اور ناپاک عورتوں کے ساتھ بدکاری کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ وہ عورتیں ہیں جو پاک اور حلال شوہر کو چھوڑ کر زنا کی لعنت میں لت پت ہیں۔ اللہ حفاظت فرمائے۔ زنا اتنا سخت گناہ ہے بہت بڑا جرم ہے یہ بات ذہن نشین فرمائیں شادی شدہ عورت کا نامحرم مرد سے تعلق رکھنا کنواری لڑکی کے تعلق رکھنے سے بڑا گناہ ہے اور دنیا میں خدا نے سزاکا فرق یہ کیاہے کہ اگر عورت کنواری ہو اور مرد کنوارا ہو اور ان کے ناجائز تعلقات ہوں تو ان کو سو سو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر شادی شدہ ہوتو شریعت کوڑوں کی بات نہیں کرتی بلکہ کندھوں تک زمین میں دفن کرکے پتھروں کے ساتھ مار مار کر قتل کردیا جائے اسے” رجم “ کہتے ہیں کیونکہ جرم بہت بڑا ہے۔ اگرچہ کنواری لڑکی کا جرم بھی بڑاہے لیکن شادی شدہ کا جرم اس سے بڑا ہے جب اس کے پاس حلال موجود ہے تو حرام کے پاس کیوں گئی ؟
چوری اور ڈکیتی کی سزا
حضور کا گزر پھر ایک ایسی لکڑی پر ہوا جس کے پاس سے گزرتی ہے اس کو چیر دیتی ہے۔ پوچھا جبرائیل امین یہ لکڑی کون سی ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لکڑی نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ڈاکے ڈالتے اور چوریاں کرتے تھے ان کے گندے عمل کو بیان کرنے کے لیے یہ مثال دی۔
حقوق العباد
پھر آپ نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کےپاس لکڑیاں کا ایک بہت بڑا گٹھا ہے اس نے سر کے اوپر لادی ہیں لیکن وہ لکڑیاں اٹھائی نہیں جاتیں۔ پوچھا جبرائیل یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ وہ شخص ہے جس پر بندوں کے حقوق اور امانتوں کا بوجھ پہلے سے موجود ہے اوپر سے اور اٹھاتا ہے۔ پہلے حق ادا نہیں ہوتے مزید حقوق اپنے ذمہ لیتاہے۔
یاد رکھیں اپنے ذمہ ایسا حق نہ لیں جسے ادا نہ کرسکیں۔ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق ہیں، والد کے حق علیحدہ ہیں ہمسائےکے حقوق الگ ہیں اور مسلمان کے حقوق الگ ہیں۔ الگ الگ حقوق کو شریعت کے دائرے میں رہ کر ادا کرنا ضروری ہے۔ اس بات کا پورا اہتمام کریں دنیا سے اس حال میں جائیں کہ آپ کے ذمہ کسی کا کوئی حق نہ ہو کہیں ایسا نہ ہو تلاوت بھی کرتی رہیں اور نمازیں بھی پڑھتی رہیں، مدرسے میں تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں اور قیامت کے دن اتنے بوجھ موجود ہوں کہ سارے اعمال ان حقوق کے بدلے ان حق داروں کو دے دیں اور ہم تہی دامن رہ جائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صحابہ! تم جانتے ہو مفلس ونادار کون ہے ؟ کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے پاس مال اور پیسہ موجود نہ ہو۔ حضور اکرم نے فرمایا نہیں بلکہ مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس اچھے اعمال موجود ہوں لیکن لوگوں کے حقوق ادا نہ کیے ہوں، قیامت کے دن آئے گا وہاں حقوق کے بدلے اعمال دینے ہوں گے۔ کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی کی چوری کی ہوگی ،کسی کی غیبت کی ہوگی، سارے اعمال لے کر حقداروں کو دے دیے جائیں گے۔ ایک وقت آئے گا اس کے اعمال ختم ہوجائیں گے اور لوگوں کے حقوق اب بھی باقی ہوں گے تو پھر ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے سر پر ڈال دیے جائیں گے۔ اس لیے اگر کسی کے حقوق ہیں تو دنیا میں ادا کرکے جائیں آخرت میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔
بدعمل واعظین اور علماء
پھر آپ نے دیکھا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن زبانیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جارہی ہیں پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ وہ لوگ ہیں جو علماء ہیں واعظ ہیں لوگوں کو تو تعلیم دیتے ہیں لیکن خود عمل نہیں کرتے۔
تین خوب صورت تحفے
آپ معراج پر گئے جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے۔
1۔ پانچ نمازوں کا تحفہ اللہ سے لے کر آئے ہیں ان کا اہتمام کریں یہ خدائی تحفہ ہے۔ جیسے آپ کو کوئی بھائی رشتہ دار ملنے آئے تو اور تحفہ لائے تو بندہ کتنے شوق سے قبول کرتا ہے کہ میری بہن نے بھیجا ہے، میرے باپ نے بھیجاہے۔ اس طرح نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا تحفہ لے کر آئے ہیں۔
2۔ سورۃ بقرہ کی آخری 3آیتیں لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْض سے لے کر أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ تک۔
3۔ اللہ نے فرمایا تیسرا تحفہ یہ کہ آپ کی امت میں جو بندہ شرک نہیں کرے گا اس بندے کی معافی کا میں اللہ وعدہ کرتاہوں۔ شرک سے بڑا دنیا میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
کونڈے کھانے کا مسئلہ
آخری بات میری یہ ذہن میں رکھیں کہ22رجب کو پورے پاکستان میں عموماً اور دیہاتوں میں خصوصا یہ بہت بڑاجرم ہے۔ مرد بھی کرتے ہیں عورتیں بھی کرتی ہیں۔ جرم یہ ہے کہ 22رجب کو کونڈے پکا کر کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں امام جعفر کی پیدائش کے کونڈے ہیں اور ہوتایہ ہے کہ چھپا کر پکائیں گے چھپاکر کھائیں گے رات کی تاریکی میں۔ یہ کون سی ایسی عبادت ہے جو ہو کھانا کھلانے کی اور پھر چھپا کر کھلانے کی۔
میری ماؤو بیٹیو اور بہنو اچھی طرح سمجھو کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سالے اور پوری امت کے ایمان والوں کے ماموں لگتے ہیں۔ 22رجب کو ان کا انتقال ہوا۔ رافضی اور شیعہ؛ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام سے جلتے ہیں ان کے نام سے نفرت کرتے ہیں۔ تو 22رجب کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر شیعہ رات کو مٹھائی بنا کھاتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ اور نام کیا دیا؟ امام جعفر صادق کے کونڈے پکاتے ہیں! حالانکہ امام جعفر صادق ان کی پیدائش رمضان کی ہے اور وفات شوال کی۔ نہ ان کی پیدائش رجب کی ہے اور نہ وفات رجب کی ہے تو اس کا تعلق ہی نہیں بنتا۔ غالباً 8رمضان کو پیدا ہوئے اور 15شوال کو وفات ہوئی۔ رجب میں نہ ہی پیدا ہوئے اور نہ ہی فوت ہوئے۔ کونڈے ان کے نام کے نہیں بلکہ صرف دنیا کو دھوکا دینے کے لیے امام جعفر کا نام استعمال کرتے ہیں ایک دور وہ تھا کہ شیعہ سنی سے ڈرتے تھے تو رات کو چھپ چھپ کر کونڈے پکاتے۔ تو پھر جب سنی بھی ساتھ شروع ہوگئے تو اب علی الاعلان بنانا شروع ہوگئے۔
انا للہ ونا الیہ راجعون
اگر کوئی آپ کو کونڈے بنا کر بھیجے تو ان کو باہر پھینک دو۔ کتے کھا لیں اپنے کسی بچے کو بھی نہ کھلاؤ۔ اللہ تعالی ٰ ہم سب کو شریعت کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین