توبہ، تقویٰ اور دعا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">توبہ، تقویٰ اور دعا

خانقاہِ اشرفیہ اختریہ
مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ سرگودھا
4مئی 2012ء توبہ،تقوی،اوردعا
خطبہ:
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ۔۔۔ اما بعد فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم،بسم اللہ الرحمن الرحیم،قال تعالی واذا سالک عبادی فانی قریب،وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اسرع الد عاء اجابۃ دعوۃ غائب لغائب،
اللہم صلی علی محمد و علی اٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد و علی اٰل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔
انسان کے مال و ذات میں تصرف صرف اللہ کا:
اللہ رب ا لعزت نے قرآن کریم میں اس آیت کریمہ کے زریعے ہم سب کے لیے بہت بڑی ایک تسلی کا انتظام فرمایا۔ اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا۔
”وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ “
البقرۃ:186 
جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں، تو آپ ان کو بتائیں کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں۔ اللہ تعالی نے کس قدر تسلی کا انتظام پیدا فرمایا۔ اللہ رب العزت خالق ومالک ہیں اور ہم اللہ تعالی کی مخلوق اور اللہ تعالی کے مملوک ہیں۔ اللہ تعالی چونکہ خالق اور مالک ہیں، اس لیے پیدا بھی ہمیں انہوں نے فرمایا اور ہماری ذات، ہما ری جان اور ہمارے مال میں تصرف کا اختیا ر بھی اللہ ہی کوہے۔ اپنے مال اور اپنی ذات میں تصرف اللہ کے حکم کے بغیر نہیں کر سکتے۔
ہم پابندہیں، مال کو اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرنے کا، ہم پابند ہیں اپنی ذات کو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق استعمال کرنےکا، یہی وجہ ہے کہ ہم مسئلہ سنتے تو ہیں، لیکن سمجھتے کم ہیں۔ محرم کے دنوں میں عموما اہلسنت والجماعت کے مخا لفین، اہل تشیع و رافضی ماتم بھی کرتے ہیں اور پیٹتے بھی ہیں۔ ہمارے علماء بار بار فرماتے ہیں کہ ماتم کرنا اور پیٹنا حرام ہے، ماتم کے حرام ہونے کی وجہ کئی ہیں۔ لیکن ایک وجہ جو میں عرض کرتا ہوں وہ یہ ہےکہ ہمارا جسم ہما را نہیں، اللہ کا ہے، ہم اپنے جسم کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنے کے پابند ہیں۔
اپنی منشأ اور اللہ تعالیٰ کی منشأ:
اپنا گلا خود کاٹے، یہ حرام ہے اور اللہ کے دین کے لیے کٹوانا بڑاثواب اور بہت بڑا اجر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی موت مانگی ہے کہ جس میں اللہ کے راستے میں بندے کا خون بہہ جائے،خود خون بہائے تو حرام اوراللہ تعالی کی وجہ سے کافر کا خون کرے، تو حلال ہی نہیں ہے بلکہ بہت بڑی عبادت ہے۔ اس لیے چونکہ جسم ہمارا نہیں ہے، ہم اپنے جسم اور گلے کو کاٹ تو نہیں سکتے، جس طرح کل جسم ہمار ا نہیں، جسم کے اعضا بھی ہمارے نہیں۔
کل جسم کا ہلاک کرنا اگر جرم ہے تو جسم کے عضو کا ہلاک کرنا بھی جرم ہے، ہمارے جو نہیں ہے،ہم کس طرح اللہ کے حکم کے خلاف اس کو استعمال کر سکتے ہیں؟ تو جس طرح اپنے جسم کو دنیا میں نقصان دینا حرام ہے، اسی طرح ایسا عمل جان بوجھ کے کرنا کہ جس کی وجہ سے قبر اور آخرت میں اس جسم کو تکلیف ہو، یہ بھی حرام اور ناجائزہے، کیونکہ ہمارا جسم تو تھا نہیں، تو ہم ایسا عمل کیوں کرے جس کی وجہ سے جسم کو تکلیف اور نقصان ہو۔
اللہ تعالی ہمارے خالق بھی ہے، اللہ مالک بھی ہے،اس لیے ہم اس بات کے پابند ہیں کہ اللہ کے حکم کے مطابق اپنے جسم کو استعمال کریں۔ اپنے کان سے وہ سنیں جو اللہ چاہتے ہیں،اپنی زبان سے وہ کہیں جو اللہ چاہتے ہیں،اپنے دماغ سے وہ سو چیں، جو اللہ چاہتے ہیں،اپنی آنکھ سے وہ دیکھیں جو اللہ چاہتے ہیں، اپنی ناک سے وہ سونگیں جو اللہ چاہتے ہیں، اپنے ہاتھ سے وہ پکڑیں جو اللہ چاہتے ہیں، ہمارے قدم ادھر چلیں جہاں اللہ چاہتےہیں، اس لیے کہ ہمارے نہیں ہیں، سب اللہ تعالی کے ہیں۔ ہم اللہ تعالی کے حکم کے پابند ہیں،اپنے اعضاء کو اللہ کے حکم مطابق استعمال کریں۔
اللہ کی عدالت،دنیا کی عدالت:
اگر کبھی بہ تقاضاءِ بشریت انسان خطا کر جائے، نافرمانی ہو جائے، تو اللہ رب العزت نے اس کا دروازہ بند نہیں کیا، بلکہ معاف کرنے کا در وازہ اللہ نے قیامت کےلیے کھلا رکھا ہے، اللہ سے معافی مانگ لیں، اللہ سے تو بہ کرلیں، اور اللہ تعالی وہ ذات کریم اور رحیم ہے کہ جس سے اگر آدمی معافی مانگ لیں، اللہ معاف بھی فرماتے ہیں اور معاف فرماکر خوش بھی ہوتے ہیں کہ میرے بندے نےمجھ سے معافی مانگی ہے او رپھر اللہ تعالی کا نظام دنیا کی عدالتوں سے با لکل الگ ہے۔
دنیا کی عدالت اگر کسی ملزم کو مجرم ثا بت کردے اور ماتحت عدالت بھی مجرم ثابت کردے اور بالائی عدالت اس کے جرم کو معاف کردے، تو یہ بات ذہن نشین فرمالیں، عدالتیں ملزم یا مجرم کو معاف کرتی ہیں لیکن ان کے ریکارڈ ختم نہیں کرتیں، ان کا ریکارڈ باقی رہتاہے، عدالتوں میں بھی باقی رہتاہے اور تھا نوں میں بھی باقی رہتا ہے۔
اگر کسی بندے نے دس ڈکیتیاں اور دس چوریاں کی ہیں اور عدالت سے بری بھی ہو جا ئے تو تھانے سے اس کا ریکارڈ ختم نہیں ہو تا، ریکارڈ باقی رہتا ہے، جب کبھی کو ئی چوری ہوتی ہے تو پو لیس سب سے پہلےاس آدمی کے گھر چھاپہ مار تی ہیں، جس پر پہلے دس پرچے چوری اور ڈکیتی کے تھے۔ اس کی وجہ؟ کہتے ہیں اس کی ریکارڈ ٹھیک نہیں۔ تو اس کے ریکارڈ کی وجہ سے اس کو نظروں میں رکھتے ہیں، اور اللہ تعالی کی ذات ایسی کریم ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
إذا تاب العبدُ أنسى اللهُ الحفظةَ ذنوبَه وأنسى ذلك جوارحَه ومعالِمَه من الأرض حتى يلقى اللهَ وليس عليه شاهدٌ من اللهِ بذنبٍ
(جامع الاحادیث،رقم الحدیث:1601 )
کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے، اور تو بہ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے توبہ پر اتنے خوش ہو تے ہیں کہ جس جگہ پر گنا ہ ہو تا ہے اللہ تعالی اس جگہ کو بھلادیتے ہیں، اللہ تعالی ان ملائکہ کو بھلا دیتاہے، جن ملائکہ نے گناہ لکھا ہوتاہے اور اس بندے نے جن اعضاء سے گناہ کیا ہو تاہےاللہ تعالی ان اعضا کو بھلا دیتے ہیں اور یہ قیامت کو اللہ تعا لی سےیوں ملے گا کہ اس کے خلاف کوئی گواہی دینے والا بھی نہیں ہوگا۔
جب اللہ تعالی بندے کو معاف کرتے ہیں تو صرف جرم معاف نہیں کرتے، ریکارڈ ختم کردیتے ہیں۔ دنیا کی عدا لتیں معاف کرتیں ہیں، ریکارڈ ختم نہیں کرتیں۔ اللہ تعالی ریکارڈ ہی ضائع فرمادیتے ہیں، اس بندے کے خلاف کوئی گواہ نہیں ہوتا۔ تو اللہ تعالی کتنے کریم مالک ہیں اور کتنے رحیم ذات ہیں اس لیے پہلے تو ہم اس بات کا اہتمام کریں کہ بالکل گناہ نہ کریں، گناہ سے بچیں، اپنے آپ کو گناہ سے کوسوں دور رکھیں۔
گناہ سے کیسے بچا جائے؟
اور گناہ سے بچنےکے کئی طریقے ہیں۔ یہ الگ بات ہے اللہ تعالی کا خوف ہو نا چاہئے، اللہ تعالی کی محبت ہونی چاہئے، لیکن میں گناہ سے بچنے کا طریقہ عرض کرتاہوں جو ہمارے مشائخ نے لکھا ہے۔ آدمی گناہ سے بچے اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی مجلس بدل کے اپنے ماحول کو بدل دے، اپنی گفتگو کو بدل دے، مثلا آدمی جب خلوت میں ہو اور پیٹ بھر اہو، اور راحت کا سامان موجود ہو تو بندے کو گناہ کی سوجتی ہے۔
بند کمرے میں ہےاور سامان تعیش موجود ہے، پیٹ کے اندر خوراک موجود ہے،اس کا گناہ کو دل کرتا ہے، جب بند کمرے میں گناہ کا دل کرے تو بند کمرے سے نکل کر اپنے دوستوں کی مجلس میں جاکرجائز گپیں لگانی شروع کردیں، گناہ کا تقاضا ختم ہو جائے گا، شریعت نے گپ شپ سے منع نہیں کیا، حرام گپ کو چھوڑدیں، حلال گپ پہ آجائیں۔ اللہ تعالی گناہ سے دور فرمادیں۔ میں عرض کررہاتھا گناہ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مجلس کو بدل دے، اپنے ماحول کو بدل دے، آپ دیکھیں! گناہ سے کیسے بچتے ہیں۔ کچھ تھوڑی سی ہمت ہم کریں گے، اللہ تعالی گناہوں سے محفوظ فرمادیں گے۔ پہلے تو اس بات کا بھر پور اہتمام کریں کہ گناہ کر نا نہیں ہے، گناہ سے بچنا ہے اور محنت کرنی ہے کو شش کر نی ہے۔
تقاضا ئےگناہ اور گناہ:
ہم یہ چاہتے ہیں کہ گناہ کا تقاضہ ختم ہوجائے، گناہ کا تقاضہ ختم نہیں ہو تا،گناہ کا تقاضا ختم ہو اور پھر گناہ نہ کریں یہ ملا ئکہ کا کام ہے۔ تقاضا ہو اور پھر گناہ نہ کرے، یہ بشر اور انسان کاکام ہے، اور جب انسان گناہ کے تقاضے کے باوجود گناہ چھوڑدیں، اللہ اس کا مقام ملائکہ سے بھی بلند فرمادیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اولیا ء اور صوفیا نے لکھا ہے کہ ہیجڑا جسے خسر ا کہتے ہیں (خنسا مشکل) ولی کامل نہیں ہوتا۔ ولی تو ہو تاہے، لیکن اونچے درجےکا ولی نہیں ہو تا، کیوں؟ اس لیے کہ اس میں گناہ کی خواہش نہیں ہو تی، یا گناہ کرنے کے لیے جو چیزیں مطلوب ہیں وہ اس کے جسم کا حصہ نہیں، تو یہ گناہ نہ کرے تو کون سا کمال کیا ہے؟کوئی اندھا کہدے کہ میں فلمیں نہیں دیکھتا‘ بتاؤ یہ کمال ہے ؟ جی کوئی بہراکہدے میں گانے نہیں سنتا، بتاؤیہ کوئی کمال ہے؟ اور آپ قرآن کریم کو دیکھیں، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جب نفس کے تقاضوں کی بات کی ہے تو پہلے گناہ کا ذکرکیا ہے، پھر نیکی کا، فر مایا:
”فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا“﴿الشمس:8 
ہم نے آدمی کے نفس میں گناہ بھی رکھا ہے اور تقوی کا راستہ بھی بتایا ہے۔
ایک علمی لطیفہ:
ہمارے شیخ حضرت حکیم اختر دامت برکاتہم فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے فجور کو پہلے بیان کیا اور تقوی کو بعد میں بیان کیا، حالانکہ عام بندے کے ذہن میں آتا ہے کہ پہلے نیکی ذکرکرتے اور پھر گناہ کا ذکر کرتے، پہلے اللہ تعالی نے فجوراورگناہ کا ذکرکیا اور پھر تقوی کا ذکر کیا، یہ بتانے کے لیے کہ تقوی ہوتاہی وہ ہے، جہاں مادہ معصیت موجود ہو اور اس کو کنٹرول کریں، اس کانا م تقوی ہے۔
اگر مادہ معصیت نہ ہو، پھر کنٹرول کریں اس کا نام تقوی تو نہیں ہے۔ قرآن کریم فرشتوں کو ”متقون“ نہیں کہتا کہ بہت متقی ہیں۔ یہ اللہ تعالی نے بشر سے فرمایا کہ متقین ہیں اور بشر بہت نیک آدمی ہے، میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ پہلے اس بات کا اہتمام کریں کہ گناہ نہیں کرنا، پہلا اہتمام کریں گناہ نہیں کرنا، اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائیں۔
جتنے گناہ، اتنی اللہ کی رحمت سے دوری:
آدمی جس قدر گناہ کرتاہے اسی قدر اللہ تعالی کی رحمت سے دور ہوتاہے اور جس قدر بندہ نیکی کرتاہے اسی قدر بندہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتاہے، اللہ تعالہ کا قرب ملتا ہے بندے کو۔ پہلے تو کو شش کریں کہ گناہ نہ کریں اور میں نے جو عرض کیا کہ عموماً ہمارے اکثر احباب اس سے بہت پریشان ہوتے ہیں کہ جی میرے اندر سے گناہ کا تقاضا نہیں جارہا، میرے اندر سے شہوت ختم نہیں ہورہی۔ میرے اندر سے جنسیت ختم نہیں ہو رہی، میرے اندرسےجھو ٹ بولنے کا تقاضا نہیں جارہا، ہم کہتے ہیں، کیسا ہی سادہ آدمی ہے! اگر آدمی کے اندر گناہ کاتقاضا ہی نہ ہو اور پھر اللہ تعالی فرمائیں، گناہ نہ کرو! تب تو یہ حکم ہی بندے کی سمجھ میں نہیں آتا۔
آپ دیکھیں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سب سے اونچا درجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ہےاور سب سے پہلا اس امت کا طبقہ مومنین کا، صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُون
النور:30 
میرے پیغمبر! ان ایمان والوں سے کہو اپنی آنکھ کی حفاظت کریں، اور ان سے کہو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں۔
غضِّ بصر کا حکم حفاظتِ فرج پر مقدم کیوں؟
او ر اعلان کیسے فرمایا توجہ رکھنا! ”قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ “ایمان والوں سے کہدو۔ اس امت میں سب سے بڑا ایمان والا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ان ایمان والوں سے کہو
” يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ“ اپنی آنکھ کو چھپا لیا کریں” وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ“
اور ان کو چاہیے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرلیا کریں، پہلے آنکھ کو جھکانا ہے پھر شرمگاہ کی حفاظت ہے۔ کیوں؟ جس آدمی کو آنکھ جھکا نے کی تو فیق مل جائے، اس بندے کو شرمگاہ کی حفاظت کی توفیق بھی مل جاتی ہے اور جو آنکھوں کی حفاظت نہیں کرتا وہ بندہ شرمگاہ کی حفا ظت نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ پہلے آنکھ کی حفاظت کرو او ر اس کے بعد فرمایا تم شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ آنکھ کی حفاظت کس قدرکرنی ہے؟ اس واقعہ سے اندازہ لگائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام المؤ منین میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں، ہم گھر میں تھے، دو بیویاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر میں تھیں، حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نا بینا صحابی (حضور کا روحانی بیٹا ہے، جنت کا فیصلہ قرآن نے کیاہے صحابہ کے بارے میں)حضور کے گھر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے فرمایا: اپنی بیویوں سے” احْتَجِبَا مِنْه “اس سے پردہ کرو۔ ان عورتوں نے سوال کیا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَيْسَ أَعْمَى لاَ يُبْصِرُنَا وَلاَ يَعْرِفُنَا کیا وہ نابینا نہیں ہے۔ نابینے سے کیا پردہ کرنا ہے؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا ؟ کیا تم بھی نا بینی ہو ؟ أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِه تم اسے دیکھتی نہیں ہوں؟
(سنن ابی داؤد،رقم الحدیث:4114، باب فى قولہ وقل للمؤمنات )
تو نابینا گھر میں آئے تو پیغمبر کی بیوی کو حکم ہے، اپنی آنکھ کی حفا ظت کریں۔ تو بتائیں ہمیں کس قدر ضرورت ہوگی؟ اس لیے اس کا اہتمام کریں۔
بد نظری سے کیسے بچیں؟
عارف با للہ حضرت شیخ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم (ہمارے شیخ) وہ فرماتے ہیں اگر بازار میں جائیں، اور نامحرم عورت پہ نظر پڑے، اس وقت اپنی زبان سےیہ شعر پڑھا کریں، اللہ تعالی اس کی برکت سے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائیں گے، اولیاء کے کلام میں خد ا نے بڑی برکت رکھی ہے، زبان سے یہ شعر پڑھنا ہے اور اپنی آنکھیں حرام جگہوں سےروکنی ہیں۔ یہ نہیں کہ دیکھتے رہو او رساتھ شعر بھی پڑھتے رہیں، دیکھتے ہو ئے شعر پڑھیں گے تو پھر کچھ اثر نہیں ہو گا، پہلے آنکھ ہٹائیں اور پھر شعر پڑھیں۔ حضرت فرماتے ہیں: ”تم بازار میں جاؤ تو میرا شعر پڑھا کرو“
شعر:

نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں

گے

جنہیں دیکھنے سے رب میر ا ناراض ہو تا ہے

اور آپ یقین فرمائیں اس وقت امت کا سب سے بڑا اور عمومی فتنہ نظر بازی کاہے۔ سب سے بڑا عمومی فتنہ کو نسا ہے؟ [ ”نظر بازی کا ہے“ سامعین ]
اللہ کی رحمت اور ابلیس کی خباثت:
حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ ”مرقات شرح مشکا ۃ“ میں بڑی ایک عجیب بات فرماتے ہیں، فرماتے ہیں: جب ابلیس کو اللہ پاک نے در بار سے نکا لا تو ابلیس نے اللہ سے یہ دعامانگی:
”أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُون“
اعراف:114 
اے اللہ مجھے تو قیا مت تک کی مہلت دے! فرمایا: دیکھو اس نے دعا مانگی اللہ نے قبول فرمالی، اوریہ بہت بڑا عارف تھا، عارف کا معنی یہ مزاج خدا وندی کو سمجھتا تھا، ابلیس اللہ تعالی کے مزاج کو سمجھتا تھا۔ کیوں؟ ابلیس کے علم میں تھا اللہ تعالی غصے کے اندر بھی ہو، اللہ تعالی سے مانگ لیں، اللہ تعالی پھر بھی دیتا ہے۔ یہ ابلیس خدا کے مزاج کو جانتاتھا، اللہ تعالی جتنا بھی غصے میں ہو۔ اللہ تعالی کے غصے کااللہ تعالی کی ذات پر اثر نہیں ہو تا۔
میں علم کلام کی روشنی میں مختصر سی بات کہتا ہو ں، اللہ تعالی میں صفت انفعال نہیں ہے، اللہ تعالی فاعل تو ہیں لیکن خدا میں صفت انفعال نہیں ہے، یعنی جس طرح ایک آدمی پر غصے کا اثر ہو تا ہے، خدا پر یوں اثر نہیں ہو تا، اللہ تعالی کو غصہ آتا ہے لیکن اللہ تعالی مغلوب الغضب نہیں ہوتے، ابلیس عارف تھا اور وہ بدبخت جانتا تھا کہ اللہ تعالی اس حالت میں بھی دعا قبول کرتے ہیں، ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس نے کہا ”أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُون۔“ اے اللہ تعالی تو مجھے قیامت تک مہلت دے کہ میں تیرے اس انسان کو گمراہ کرتارہوں۔
فرمایا: وہ اس کے بجائے یہ دعا اگر مانگ لیتا”
انظر إلیّ“ ”أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُون“ نہ کہتا ” انظر إلیّ“
کہتا یعنی اے اللہ تعالی! آپ نے جو میرے بارے میں فیصلہ فرمایا ہے، آپ نظر ثانی فر مائیں اور دو بارہ کرم فر مادیں۔ ” انظر إلیّ“ کہدیتا تو معاملہ بدل جا تا لیکن اس بد بخت نے نظر ثانی کی درخواست نہیں بلکہ الٹا اکڑ کر کہا کہ مجھے مہلت دو میں نے جہنم میں جانا ہے اوروں کو بھی لے کر جاؤں، اللہ تعالی نے فرمایا: جا بد بخت، تجھے قیامت تک مہلت ہے تو نے مانگا ہم سے، لیکن جو تو نےمانگا ہے، ہم نےتجھے دے دیا۔
جعلی پیر اور ہماری غلط فہمی:
اس سے ایک ہماری جاہلیت کے رسم کی بہت بڑی تردید ہو تی ہے، آپ اس کو سمجھاکریں، ہمارے ہاں عموما لو گ کیا کرتے ہیں ؟ایک ایسےشخص کو پیر مانتے ہیں جو عورتوں کی بھی پروانہیں کرتا،گناہوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا، نمازیں نہیں پڑھتا، لیکن پوچھو کہ تم نے پیر کیوں مانا ہے؟ کہتے ہیں اس لیے کہ پہنچی ہو ئی سرکار ہے۔ پہنچی ہو ئی سرکا رکی دلیل کیا ہے ؟ بیس سال گزر گئے ہمارے ہاں اولاد نہیں تھی، ہم نے ان سے کہا، ان نے دعا مانگی، اللہ تعالی نے بیٹا دے دیا، کتنا بڑا بزرگ ہے، کتنا نیک آدمی ہے۔
میں کہتاہوں اس بات کو سمجھو! بندہ خدا کی نافرمانی کرے اور اللہ سے دنیا مانگے اللہ تعالی پھر بھی دے دے، اگر یہ دلیل ہے بہت بڑا آدمی ہو نے کا تو ابلیس سے بڑا کون ہے، نہیں سمجھے ؟پھر ابلیس سے بڑ ا کون ہو گا؟ ابلیس نے نافر مانی کی، اللہ تعالی سے دنیا مانگی، کہ مجھے لمبی عمر دے دیں، خدانے عطا فرمائی کہ نہیں؟ تو نا فرمانی کرے اور پھر اللہ تعالی سے دنیا مانگے اور اللہ تعالی دے دے، اگر یہ دلیل ہے پہنچی ہوئی سرکار کی، تو ابلیس سے بڑی پہنچی ہوئی سرکار اس دنیا میں کوئی نہیں، اس لیے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ پہنچی ہو ئی سرکار ہے۔
مرشد کے انتخاب میں معیار کیا ہو؟
دلیل یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے شیخ وہ ہیں جو گناہ نہیں کرتے، ہم نے ان کو بہت غصے میں دیکھا ہیں، حالت غصہ میں دیکھا ہیں، ہم نے ان کو حالت خلوت اور جلوت میں دیکھا ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہےکہ ایسے بندے سے اپنا تعلق جوڑ نا چاہیے، اس نے دعامانگی اور دنیا میں لگے یہ تو تعلق ہی نہیں۔
خیر میں عرض یہ کررہا تھا کہ پہلا اہتمام یہ ہو نا چاہیے کہ گناہوں سے بچیں، گناہوں سے بچنے کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی تو فیق عطافرمائیں، اللہ تعالی اپنی رحمت کا قرب عطا فرمائیں، اللہ تعالی ہمیں اپنے رحم کا سایہ عطافرمائیں۔ گناہوں سےبچیں، یہ دنیا میں بہت بڑی نعمت ہے۔ اور گناہ کر نا بہت بڑی لعنت ہے اور اس سے بڑی لعنت اور کیا ہے ؟ بیٹی کسی کی ہے، دیکھتے ہم ہیں، بیوی کسی کی ہے، دیکھتے ہم ہیں، ماں کسی کی ہے، دیکھتے ہم ہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لَعَنَ اللَّهُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُورَ إِلَيْه “
(السنن الکبریٰ للبیہقی،رقم الحدیث:13950، باب ما جاء فى الرجل ينظر إلى عورة الرجل )
بد نظری ،موجب لعنتِ الٰہی:
جو کسی نامحرم کو دیکھے خدا اس پر بھی لعنت بھیجتا ہے اور جو اس لیے نکلے کہ لوگ اسے دیکھیں خدا اس پر بھی لعنت بھیجتا ہے، اور اللہ تعالی کی لعنت کا معنی خداکی رحمت سے دوری ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت سے دورہوگئے، بتاؤ دنیا میں ملا کیا ؟ اللہ تعالی کی رحمت سے دو ر ہوگئے، بتاؤدنیا میں اور بچتاکیا ہے ؟
تو اس بات کا اہتمام کرناہے کہ گناہ نہیں کرنا اور آج سب حضرات صدق دل سے تو بہ کریں، اے مولائےکریم! جو ہم نے گناہ کئے، آئندہ نہیں کریں گے بس، دیکھو نیت کرو، نیت کرنے میں کیا حرج ہے اور ایک بات ذہن میں رکھو، اگر من کہےنا کہ تو نے گناہ کرنا ہے، نیت نہ کرو پھر بھی نیت کر، اگر نفس کہےنا کہ فلاں گناہ کو نہیں چھوڑ نا، تو بہ کر نے کا فائدہ ؟ پھر بھی تو بہ کریں، جو راستہ چھوڑنے کا دل نہ کرے، پھر بھی توبہ کر و،اگر نفس سمجھا ئے کہ فلاں گناہ سے تو بہ نہیں کرنا ہے پھر بھی تو بہ کرو، ایک وقت آجائے گا اللہ تعا لی تو فیق عطافر مادے گا، بس اللہ تعالی سے مانگو۔
گناہوں پر ندامت،اللہ کی رضا:
میں نے پہلے گزارش یہ کرنی کہ گناہوں سے بچیں اور جو گناہ کیے ہیں ان سے توبہ کریں، توبہ کا مطلب صرف یہی ہوتا ہے کہ جو گناہ کیا اس سے توبہ کریں اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کریں، اس پر ندا مت کریں، بس دیکھیں اللہ تعا لی کتنے خوش ہوتے ہیں اور ندامت میں رونا ضروری نہیں ہے، رونا آجائے تو بہتر ہے، اگر رونا نہ آئے تو رونے والی شکل بنائیں پھر بھی اللہ تعالی عطافرما دینگے، اللہ تعالی کی عطامیں کیا کمی ہے؟ اللہ تعالی اسی شکل پراپنی عطائیں دیتا ہے۔
خیر میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ سب اس بات کا اہتمام کریں کہ گناہ نہیں کریں گے، عزم کرنا ہے نا، انشاء اللہ۔ اور پچھلے گناہو ں پر اللہ تعا لی سے اپنی معافی مانگیں۔ حضرت حاجی امدا داللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ سید الطائفہ، دارا لعلوم دیو بند سے و ابستہ تمام مشائخ کے پیر ہیں اور بہت بڑے آدمی تھے۔
حضر ت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھا نوی رحمہ اللہ فرماتے تھے اگر میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی مجلس میں نہ جاتا تومیں فتوی ٰبازمولوی ہو تا، میں یہ جو فتوے میں محتاط ہو ں، یہ حضرت مولانا امدا داللہ مہا جر مکی کی صحبت کا نتیجہ ہے، کہ میں تاویل کرکے کفر سے لوگوں کو بچاتا ہوں اور بہت جلدی میں کفر کے فتوے نہیں لگاتا، اگر حاجی صاحب کے مجلس میں نہ جا تا تو آج میں ایسا نہ ہوتا، اس لیے فتویٰ لگانے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے خطبات کامیں (اللہ تعالی توفیق دے ) مطالعہ کرتاہوں، کثرت سے تو میں نہیں کہتا، لیکن بہر حا ل میں اس کا مطالعہ کرتا ہوں، ہمارے علوم کا خلاصہ حضرات مشائخ علماء دیوبند کی تعلیمات اور ان کے علوم ہیں۔ [سبحان اللہ ] آپ پڑھیں پھر آپ ورق پر ورق پڑھتے جائیں گے،اس میں جب حاجی امداداللہ صاحب کا نام آتا ہے تو حضرت مسلسل شروع ہو جا تے ہیں، حاجی صاحب ایسے تھے، حاجی صاحب ایسے تھے، ہم نے ایسے تو نہیں مانا ان کو۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی بصیرت:
میں آپ کو ان کے زیادہ واقعات نہیں، دو واقعات سناتاہوں، حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ہمارے حضرت حاجی امدا داللہ صاحب اتنے بڑے آدمی تھے (آپ بھی ذرادیکھیں حضرت حاجی صاحب کتنی دور تک نگاہ رکھتے تھے) واقعہ نقل فرمایا ہےکہ ایک شخص حرم کعبہ، مکہ مکرمہ میں نماز پڑھ رہا تھا، دو رکعت نماز پڑھی اور نماز کے بعد اللہ تعا لی سے دعامانگی، اے اللہ! میں نے جو نماز پڑھی ہے، یہ جیسی میں نے پڑھی ہے ایسی مجھے دکھا دے۔ اللہ تعالی نے اس کو حالت کشف میں دکھایا کہ اس کو نہایت خوبصورت عورت عطا کی گئی جو آنکھوں سے نا بینی تھی، دیکھااور اپنے شیخ اور پیر کو ملا۔ جب کوئی خواب یا حالت نظرآئے تو اپنے شیخ کو ملنا چاہیے اور اپنے شیخ کو بتانا چاہیے، اپنے شیخ کے بارے میں بھی دیکھیں تو بھی اپنے شیخ کو ملنا چاہیے اور اپنے شیخ کو اپنے حالات بتانے چاہیے، نہ بتانے سے بہت کچھ نقصان ہو تا ہے۔
ایک ساتھی ہیں، کہتے میں نے آپ کے بارے میں خواب دیکھا، جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ میں نےکہا، آپ خواب بتائیں، پریشان نہ ہو۔ تعبیر نہ بتائیں، صرف خواب بتائیں، خیر خواب لمبی ہے۔ فرمایا: میں نے دیکھا ہے کہ آپ فوت ہوئے ہیں او رمیں نے جنازہ آپ کا دیکھا ہے، اس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ میں نےکہا یہ تو بہت اچھا خواب ہے، پریشان نہ ہو۔
میں نے کہا ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی کا جنازہ جارہا تھا۔ حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مستريح ، أو مُسْتَراح منه“صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا، یا رسو ل اللہ کیا مطلب ہے؟ فرمایا یا تو بندے اس کو تکلیف پہنچاتے تھے اور یہ ان کے تکلیف سے محفوظ ہوگیا اور یا یہ بندوں کو تکلیف دیتاتھا اور بندے اس کے شر سے محفوظ ہو گئے۔
(جامع الاصول فی احادیث الرسول،رقم الحدیث:8688 )
تو میں نے کہا دیکھو موت کے معنی کیا ہے
” المو ت جسر یو صل الحبیب الی الحبیب“
کہ موت ایک پل ہےجو ایک دوست کو دوسر ے دو ست سے ملادیتی ہے، میں نے کہا اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کےشیخ کو بزرگی بھی عطا کرےگا اور لو گوں کے شرسے بھی محفوظ کرے گا، اب کس بات پہ پریشان ہو؟
خواب کی تعبیر کن سے پوچھیں؟
میں نے کہا تعبیر شیخ کاکام ہے، تعبیر تو آپ کاکام نہیں تھا نا۔ اب آپ بتائیں مجھے۔ بسا اوقات بعض ساتھی کہتے ہیں، مجھے ایک خواب آیا ہے، میں کہتا ہوں ہم تعبیر صرف ان کو بتاتے ہیں جو ہم سے بیعت ہو، جو مرید نہ ہو اس کو تعبیر نہیں بتاتے۔ اس کی وجہ ؟ کیوں کہ پھر خواب پوچھتے ہیں مسئلہ نہیں پوچھتے۔ہر وقت خواب، خواب،خواب پہ خواب۔ اور خواب توہر روز ہی آتے ہیں نا ! تو آج خواب کی تعبیر بتادی، کل پھر فون، کل پھر فون۔ اس لیے میں خواب کی تعبیر صرف اسے بتاتا ہوں جو مجھ سے بیعت ہو۔
آپ خواب لکھیں اور اس کی تعبیر پو چھیں اور پتہ پہ بھیجیں، چلو اس طرح آپ کو خط لکھنے کی عادت تو پڑھ جا ئے نا، جنہیں اپنی حالات لکھنے کی عادت نہ ہو، تو خواب لکھنے کی عادت تو پڑھ جائے گی۔ خیر میں عرض کررہا تھا کہ حضرت حاجی صاحب فرمانے لگے کہ تو نے جو نماز پڑھی ہے، کہیں آپ نے آنکھیں بند کرکے نماز تو نہیں پڑھی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میں نے آنکھیں بند کرکے نماز پڑھی ہے، اور اللہ تعالی سے میں نے دعا مانگی یہ اے اللہ مجھے دکھا دیں کہ میں نے کیسے نماز پڑھی ہے تو اس شخص کو کیا نظر آیا کہ ایک عور ت ہے جو آنکھوں سے نابینی ہے۔
حضرت حاجی صاحب فرمانے لگے تو نے جو نماز پڑھی ہے، آنکھیں بند کرکے تو نہیں پڑھی ؟ فرمایا:جی آنکھیں بند تھیں، فرمانے لگے: کیوں آنکھیں بند کرکے نما ز پڑھی ہے؟ کہنے لگے: خشوع پیدا نہیں ہو رہا تھا، آگے وسوسے خیالات بہت آرہے تھے، میں نے آنکھیں بند کرکے نماز پڑھی ہے تاکہ وسوسوں سے بچ جاؤں۔
اب حضرت حاجی رحمہ اللہ علوم لدنیہ سے (بغیر پڑھے، اللہ تعالی کی طرف سے علوم ملے تھے) جواب دینے لگے، حضرت فرمانے لگے ایسی نماز جو وساوس والی ہو اور سنت کے مطابق ہو، ایسی نماز سے بہتر ہے جو خشوع والی ہو اور خلافِ سنت ہو۔ ایسی نماز جو وساوس اورخیالات والی ہو لیکن سنت کے مطابق ہو اس نماز سے بہتر ہے جو وساوس اور خیا لات والی ہو، اور سنت کے مطابق نہ ہو۔ ہم سنت کے پابند ہیں، وساوس کے پابند نہیں ہے۔ اب آپ کتابیں کھولو، پتہ چلے حضرت کو علوم اللہ تعالی نے کہاں سے دیے تھے، علومِ وہبیہ کی بنیاد پہ حضرت یہ ساری باتیں فرماتے تھے،میں ایک دوسراواقعہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
علوم وہبیہ کی ایک درخشاں مثال:
دوسرا واقعہ حضرت نے بیان فرمایا کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبندکے بانی تھے، میرا تین دن پہلے ٹیکسلا میں بیان تھا، تو میں نے اس میں وہ شرح بیان کی جو مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ خاتم النبیین کی شرح کرتے ہیں، تحذیرالناس کتاب میں، اس شرح کے موافق میں نے بیان کیا، تین گھنٹے کا بیان تھا، کل پرسوں سرگودھامیں علماء سے میں نے عرض کیا کہ میری خوا ہش ہے کہ خاص علماء کا مجمع ہو اور وہاں میں تحذیرالناس کی شرح بیان کروں،مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ ختم نبوت کا معنی کیا بیان کرتے ہیں ”اناخاتم النبیین“ کامعنی مو لانا محمدقاسم نانوتوی رحمہ اللہ بہت ہی عجیب بیان فرماتے ہیں۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اپنے شیخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے پا س گئے، حضرت نے فرمایا مولانا قاسم! لوگ اپنے حالات لکھتے ہیں، تم اپنے حالات نہیں لکھتے، حالات لکھاکرو۔ فرمایا میں حالات کیا لکھو ں، جب ذکر کرنے بیٹھتا ہو ں تو مجھے یوں لگتاہے جیسے کسی نے میرے اوپر چٹان رکھ دی ہے، میری زبان نہیں چلتی، میں ذکر نہیں کر پاتا، میں کیا لکھوں؟ اب بتائیں ہم کیا سمجھیں گے کہ بہت گندی حالت ہے، مو لا نا حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ فرمانے لگے، مولوی قاسم مبارک ہو، یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا قاسم ابھی مولانا قاسم نہیں بنے تھے، ابھی وہ پڑھ رہے تھے، طالب علم تھے، کسی کو کیا پتہ اتنے بڑے عالم بنیں گے۔
وحی الہی کی ہیبت:
تو حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے، مولوی قاسم مبارک ہو، نبوت کا فیض تمہاری طرف منتقل ہو رہاہے، فیضِ نبوت اور علومِ نبوت تمہاری طرف منتقل ہو رہےہیں، کیسے ؟ حضرت حاجی صاحب فر مانے لگے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی، تو بو جھ ہو تا، اتنا بوجھ ہو تا کہ سردی ہو تی تو حضور کی مبارک پیشانی پرپسینہ آجاتا اور اگر اونٹ پر بیٹھے ہوتے تو اونٹ بیٹھ جاتا، کسی کے ران پر سر رکھا ہو تا اور لیٹے ہو ئے وحی آجاتی تو وہ یوں محسوس کرتا کہ ران چور چور ہو گئی، یہ وحی کا بوجھ تھا، یہ امت کا بوجھ تھا، پیغمبر اٹھا رہے ہیں، یہ نبوت کا بو جھ تھا اور امت کو بہت سے الجھنوں سے بے غم کردیا ہے، وحی کا بوجھ تھا یہ امت کا بوجھ پیغمبر نے اپنے سینے میں اٹھا رکھا ہے۔
کیا خواب، کیا تعبیر:
حضر ت حاجی صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگتے: حضرت! تمہیں مبارک ہو اللہ تم سے علمی کام لے گا اور علوم نبوت کا فیض تمہاری طرف منتقل کرےگا، اب یہ کون بند ہ سمجھ سکتاہے، لیکن مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے پھر علوم دیکھیں! کتنے بڑے عالم ہیں، یہ وہ ہیں جس نے تحذیرالناس کتاب لکھی ہے، جو قاری محمد طیب صاحب دارالعلو م دیوبند نے سبقاً اپنے استاد سے پڑھی ہے، علماء سے میں نے کہا، اس کتاب کو پڑھانا چاہیے۔
مجھے ایک مولانا صاحب محبت میں فرمانے لگے کہ پھر پڑھانے والا بھی ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم ہو نا چاہیے۔ میں نے کہا جب میں نے بوڑھا ہو نا ہے تو پھر تم نے کہنا ہے کہ پڑھانے والا الیا س گھمن ہو، اب جب میں جوان ہو ں تو میں کہتاہوں کہ یہ کتاب مجھ سے پڑھ ہی لو۔ کیا سمجھے! یہ باتیں میں بے تکلفی میں کہہ دیتاہوں، پھر قدر کرنی ہے، دوڑ لگانی ہے ،کیوں؟ کہ اب میں بول جو نہیں سکتا۔ اپنے شیخ کا ادب کرو اور اس وقت بیعت ہو جب وہ تمہیں رگڑا دے سکے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مرید:
حضرت حکیم اختر مدظلہ فرماتے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی﷫ کے پاس ایک بہت بڑے شخص آئے، بیعت ہو نے کےلیے۔ فرمایا، بیعت نہ کرو۔ عرض کیا، کیوں ؟ فرمایا مرید کو تو رگڑا لگا نا پڑ تاہے اور آپ تو بہت بڑے آدمی ہیں، میں تمہیں کیسے رگڑ ا لگاوں گا ،میں بارہا گزارش کرتاہوں کہ ہم سے صرف وہ بیعت ہوں جس نے رگڑ ا لینا ہے، تاکہ پتہ چلے کہ اس خانقاہ میں رگڑا لگتا ہے، ہاں کام کرنے پہ شاباش تو ضرور ملتی ہے، لیکن آپ کام ہی نہ کریں پھر شاباش ملتی رہے ایسی بات بہت شکل ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائیں۔
آمدم بر سرِ مطلب:
بات کہاں سے چلی تھی،یاد ہے آپ کو؟ مولانا حاجی امداداللہ مہاجر مکی﷫ کےیہاں جب کوئی بیعت ہو نے کے لیے آتا تو فورا بیعت کردیتے تھے، جب کوئی آیا، فرمایا، لاؤ ہاتھ، لوگوں کو بڑا تعجب ہوتا کہ یار ہما رے مشائخ تو بہت جلدی بیعت نہیں دیتے ہیں، تو شاید یہ بھوکے ہیں، میرے مرید زیادہ ہوں۔
آپ حضرت حاجی صاحب کا ذوق سنیں، حاجی صاحب فرماتے ہیں: بھئی میں فو راً بیعت اس لیے کرتاہوں کہ ابھی اس کے دل میں داعیہ پیداہواہے گناہ سے تو بہ کرنے کا۔ تو فو را توبہ کراؤ۔ بس میں اس لیے فورا بیعت کرتا ہوں کہ اس کے دل میں خواہش پیداہوئی ہے گنا ہوں سے تو بہ کرنے کی، تومیں کہتاہوں کہ پتہ نہیں زندگی کا، کب مرتاہوں، کب وقت آجائے تو فورا اس کی توبہ کرادو۔ فرمایا، فورا توبہ کی وجہ سے فورا بیعت کراتاہوں، تو عام بندہ سمجھتا ہےکہ اس کو شوق تھا، میرے مرید زیا دہ ہوجائیں، اس لیے جلدی بیعت کرتے ہیں،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیں۔
بیعت ایک سے ،عزت سب کی:
ایک شیخ کی وجہ سےدوسرے شیخ پر تنقید بھی نہ کریں، یہ بالکل کبھی نہ کریں، ہر شیخ کا اپنا مزاج ہو تا ہے، ہر شیخ کا اپنا مزاج ہو تا ہے، ہر پھول کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، ہر پھل کا اپنا ایک ذائقہ ہوتا ہے، یہ ہماری بہت بڑی کو تاہی ہو تی ہے کہ ایک شیخ کے مزاج کی وجہ سے دوسرے شیخ پر تنقید کرتے ہیں۔ بعضوں کا مزاج ہوتاہے وہ جلدی بیعت نہیں دیتے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ بیعت جلدی نہیں کرتے تھے۔
جس مرشد پر شرح صدر ہو ،ان سے بیعت ہوں:
حجۃ اللہ فی الارض حضرت امین صفدر اوکا ڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ہم نے سنا تھا حضرت احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ سے متعلق کہ ان کو کشف ہو تا ہے، حر ام اور حلال کے بارے میں، فرمایا ہمیں خواہش تھی معلوم کرلیں، تو ہم سکول کے ٹیچر،حضرت لاہوری کے پاس چلے گئے اور کچھ پیسے جو حلال کے تھے، اس سے ہم نے دو دو روپیہ جمع کیا، اس سے پھل خریدے، پا نچ روپے سود کے تھے، اس سے ہم نے سیب خریدے، اس کے اوپر چھوٹےچھوٹے نشان لگادیے، تا کہ دیکھیں حضرت پہچانتے ہیں یا نہیں۔
کہتے ہیں حضرت کے مجلس میں ہم حاضر ہوئے تو پھل پیش کیے، جب پھل پیش کیے تو فرمانے لگے، بھئ ! یہ پھل حرام کا ہے، الگ کردواور یہ حلال کا ہے، الگ کردو۔ پھر ہم سے مخاطب ہو کر کہنے لگے، ٹھیک ہے؟ ہم نے کہا حضرت! بیعت کرادیں۔ چونکہ امتحان جو لینا تھا وہ پو را ہو گیا، اب بیعت کرادیں، حضرت لاہو ری کے الفاظ سن لیں!
فرمانے لگے بھئ ابھی نہیں، ابھی تو تم لوگ امتحان کے لیے آئے تھے، بیعت کے لیے نہیں آئے تھے، بیعت تب کریں گے، جب تم بیعت کے لیے آؤگے۔ تم بیعت کے لیے نہیں آئے تھے، تم تو ہمارے امتحان کے لیے آئے تھے۔ اساتذہ حضرات چلے گئے مجھے یا دنہیں، یا فرمایا پھر بعد میں آئے، اورصبح ہم سب حضرت والا کے ہاں حاضرہو ئے، عرض کیا، اب بیعت کرادیں، اب بیعت کے لیے آئے ہیں، بیعت فرمالیں! حضرت لاہوری رحمہ اللہ نے فو راً بیعت فرمالی۔
ہر مرشد کا مزاج الگ الگ:
اب یہ شیخ کا مزاج ہے، کوئی سختی کرتا ہے، کوئی نرمی کرتا ہے۔ ہرایک کا الگ مزاج ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی پر تنقید کریں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رات کو کھڑے ہیں اور آہستہ آواز میں تلاوت فرمارہے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہیں اور تلاوت اونچی آواز سے کررہےہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا، آپ تلاوت آہستہ آواز سے کیوں کررہے ہیں؟ فرمایا میرے ساتھ لوگ سوئے ہو ئے ہیں، ان کی نیند خراب ہو جائےگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ تلاوت اونچی آواز سے کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا خود اٹھ کراونچی آواز سے تلاوت کرتا ہوں کہ تاکہ یہ بھی اٹھ کر پڑھیں، یہ کیوں سوئے رہیں۔ ہر ایک کا اپنا ذوق ہے۔
کیا دوسرے صحابی پر تنقید کرسکتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
أصحابي كالنجومِ ، فبأيِّهِم اقتديتم اهتديتم
مشکوۃ المصابیح،رقم الحدیث:6009،باب مناقب قریش
میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں۔اب ستاروں میں سے جس ستار ے کو دیکھو، روشنی ملتی ہے۔ کسی میں روشنی کم ہے کسی میں زیادہ ہے۔ لیکن ہےتو ہر کسی میں۔ کوئی ستارہ ایسا نہیں ہے کہ جس ستارے میں ظلمت ہو، کوئی صحابی ایسا نہیں کہ جس سے ضلالت اور گمراہی ملے۔ جس سے ملے گی، ھدایت ملے گی، کم ملے گی یا زیادہ ملے گی۔ لیکن ملے گی ضرور۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطافرمائیں۔ خیر میں نے پہلی بات عرض کی ہے۔ گناہوں سے بچیں، کیا کریں؟ گناہوں سے بچیں اور اگر گناہ کرلیا ہے تو فورا توبہ کرلیں، اس لیے میں بھی توبہ کرتاہوں، آپ بھی کرلیں کہ اے اللہ ہمارے صغیرہ اور کبیرہ ظاہری او رباطنی سارے گناہ معاف فرما۔ اللہ تعالی سے صدق دل سے توبہ کریں۔ اللہ کریم ہیں اس مجلس میں کتنے نیک لوگ موجودہوں گے۔ اللہ تعالی ان کے بدلے میں ہم لوگوں کو بخش فرمادیں گے۔ ہم میں بے شک نکمے اور گناہ گار بھی ہیں لیکن نیک لوگ بھی ضرور ہوں گے۔
صحبتِ صالح تراصالح کند:
بخاری کی روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب ذکر کا حلقہ لگتا ہے، اللہ تعالی کے ذکر کی مجلس لگتی ہے، جب ختم ہوتی ہے فرشتے اللہ کریم کے پاس جاتے ہیں، اللہ تعالی پوچھتے ہیں تم کہاں گئے تھے؟ فرماتے ہیں، اللہ تعالی! فلاں جگہ آپ کا نام لیا جارہا تھا، ہم وہاں گئے تھے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اچھا وہ مجھ سے کیا مانگتے تھے؟ کہا: اللہ! جنت مانگ رہےتھے۔ فرمایا: پناہ کس سے مانگتے تھے؟ فرمایا: اللہ جہنم سے پناہ مانگتے تھے۔ فرمایا: جنت دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں دیکھی ہے۔
اللہ تعا لی نے فرمایا: گواہ رہو میں نے ان کے لیے جنت واجب کردی ہے۔ فرمایا: جہنم سے پناہ مانگتے تھے، تم گواہ رہو میں نے ان کے لیے جہنم سے خلاصی کا فیصلہ کرلیا۔ فرشتے فرماتے ہیں: اللہ وہ سارے اس کام کے لیے جمع نہیں تھے، بعض اور کام کے لیے آئے تھے، لیکن وہ رک گئے تھے کہ مجلس اٹھے گی، پھر وہ اپنا کام کریں گے۔ اللہ تعالی فرماتےہیں:
هُمْ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُم
وہ مجلس اتنی برکت والی ہے، ان میں بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔ میں نے ان کی برکت سے سب کو معاف کردیا۔
(صحیح البخاری،رقم الحدیث:6408، باب فضل ذكر الله عز وجل )
یہ ان کا معاملہ ہے، جو کام کے لیے نہیں آئے ہیں۔ فرمائیں ان کا کیا حال ہوگا، جو آئے ہے اسی کام کے لیے ہیں۔ اللہ کی قسم اٹھا کر میں کہتا ہوں، اللہ تعالی کے نام کے لیے سفر کرنا، یہ بہت مبارک عمل ہے۔ میں کس درد سے آپ کو سمجھادوں؟ آپ حضرات یہاں تشریف لاتے ہیں آپ حضرات آتے ہی اس مقصد کے لیے ہیں کہ اللہ کانام لیں اور اللہ تعالی کا نام سنیں، اللہ تعالی کے نام سننے کے لیے، اللہ کا نام لینے کے لیے جمع ہونا، اس سے بڑ ی دنیا میں اور کیا عبادت ہو سکتی ہے؟ نبی کریمﷺ کا مبارک ارشاد ہے:
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّه
(صحیح البخاری،رقم الحدیث:660، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة)
اللہ کے عرش کا سایہ کن کو نصیب ہوگا:
اللہ قیامت کے دن سات بندوںکوعرش کا سایہ نصب فرمائیں گے،جب خدا کے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو! دو بندے وہ ہیں جو اللہ تعالی کے نام پر جمع ہیں، اللہ تعالی کے نام پر جداہوں گے۔ دعاکرو اللہ تعالی ہم سب کو اپنے عرش کاسایہ عطافرمائیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی رحمت میں رکھیں۔ اس گئے گزرے دور میں خداکے نام کے لیے جمع ہو نا بہت بڑی عبادت ہے۔ کبھی کسی کی نیت پہ شک نہ کریں، بد گمانی نہ کریں۔
اللہ سے مانگنے کا معمول بنائیں:
دوسری بات جو میں نے عرض کرنی ہے وہ یہ کہ اللہ پاک سے مانگنے کا معمول بنائیں۔ مانگنا کس سے ہے ؟ [سامعین، اللہ تعالی سے] اللہ تعالی کوئی ہم سے دور ہیں؟ [سامعین، نہیں ] اس پر میں نے آیت پڑھنی ہے۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيب
البقرۃ: 186 
میرے پیغمبر! جب میرے بارے میں میرے بندے پوچھیں، تو بتائیں میں قریب ہوں۔
ذاتِ باری تعالی کے بارے میں اہل السنت والجماعت کا نظریہ:
اس سے ایک مسئلہ سمجھیں۔ اہل السنت والجماعت کا نظر یہ یہ ہے۔ اللہ کی ذات ہر جگہ پرہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ پر نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی کا علم ہر جگہ پر ہے، تو سنیں! آیت کیا کہتی ہے، اللہ تعالی کی آیت کہتی ہے، ”واذاسئا لک عبادی عنی“ اللہ تعالی فرماتے ہیں جب یہ بندے میرے ذات کے بارے میں تجھ سے پو چھیں، یا کہ میرے علم کے بارے میں ؟ [سامعین، ذات ] میرے ذات کے بارے میں جب تجھ سے پوچھیں، توکیا جواب دینا”فانی قریب“
”فانّی“ کہا یا ”فانّ علمی “ کہا؟ [سامعین، فانّی ]
فرمایا: میری ذات ان کے قریب ہے۔ تو آیت بتارہی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ پہ موجودہے، ہر بندے کے قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے، غزوہ خیبر کےلئیے صحابہ کرا م رضون اللہ عنہم اجمعین جارہے ہیں کہ زور سے ذکر کیا ”اللہ اکبر، اللہ اکبر “زور سے ذکر کیا۔ نبی پا کﷺ فرمانے لگے:
إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ
(صحیح البخاری،رقم الحدیث:4206،باب غزوة خيبر )
تم ایسے خد ا کو نہیں پکا ر رہے، جو بہرہ ہے، تم ایسے خدا کو پکا رتے ہوجو قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے۔ تو اللہ پاک ہر جگہ پہ موجود ہے،کوئی ایک جگہ متعین نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ موجود بلا مکان پر عقلی اعتراض:
کل مجھے ایک ساتھی کا ہندوستان سے فون آیا، وہ کہنے لگا: یہاں کے غیرمقلدین اہل حدیث کہتے ہیں کہ ایک جگہ پر دس آدمی ہیں، تو تم کہتے ہو ہر جگہ پر ہر ایک کے ساتھ خد ا ہے، تو کیا دس خداہے، ایک ،ایک ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک تیسرے کے ساتھ۔ تو ایسے تو کئی خدا بنیں گے ؟ میں نے کہا بیٹا مجھے لگتا ہے کہ تم میرے بیان انٹرنیٹ پر سنتے نہیں ہو ؟ کہا: سنتا ہوں، میں نے کہا پھر سمجھتے نہیں ہو، کیونکہ اگر سنتے اور سمجھتے ہو تے تو یہ سوال آپ کےانٹر نیٹ پر موجود ہے۔
یا درکھیں! ہمار ا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہرجگہ پہ موجود ہے اور یہ سوال تب واقع ہو سکتی ہے کہ جب ہم اللہ تعالی کو جسم کے سا تھ مانیں ہم اللہ تعالی کو ہر جگہ مانتے ہیں اور بلا جسم کے مانتے ہیں، ہم جسم کےساتھ نہیں مانتے۔ آپ کوسمجھ آئے تو بہت اچھا، نہ سمجھ آئے تو دلیل پھر بھی ساتھ رکھو۔ آپ کہیں، بیان سمجھ نہیں آتا، لوگ تنگ کرتے ہیں، تو آپ قرآن کریم سنتے ہو ؟ سمجھ بھی آتا ہے ؟ [سامعین، نہیں] تو کچھ فائدہ بھی ہوتاہے کہ نہیں؟ [سامعین،ہو تا ہے]
ہربندے کو سمجھ آئے تو فائدہ ؟ یہ اصول کہا ں سے لیا، سمجھ نہیں آیا ہے تو بھی سن لیں، اللہ پاک وقت لائے گا تو سمجھا دے گا، فکر نہ کریں، میں سا تھیو ں کو سنایا کرتا ہوں، ایک مرتبہ سیالکوٹ کے ایک مدرسے میں گیا، میرا بیان تھا، مہتممصاحب نے کہا بیان کریں، عقیدے پر۔ میں نے کیا، تو مجھے آدھے گھنٹے کے بیان کے بعد وہاں کے قاری صاحب ملے، فرمانے لگے، آپ نے اتنا مشکل بیان کیا کہ چھو ٹے بچوں کو سمجھ ہی نہیں آیا، ایسا بیان کرنے کا کیا فائدہ؟ میں کہا بچوں کو واپس بلاؤ، وہ قاری صاحب بہت خوش ہوئے کہ اس پر میر ی نصیحت اثر کر گئی، خیر بچے آگئے۔
میں نے ان میں سے ایک بچے کو کھڑا کیا، میں نے پو چھا، بیٹا! آپ نے کتنے پارے پڑھے ہیں؟ تو اس نےکہا 22،23، جو بھی یا د تھے اسے۔ میں نے کہا، سو لہویں پارے کے آیت تھی میں نے کہا، فلاں جگہ سے پڑھو، اس نے ایک رکوع پڑھ لیا، میں نے کہا اب اس کا ترجمہ کرو، کہتا ہے مجھے نہیں آتا۔ میں نے کہا، تفسیر کرو، کہتا ہے، مجھے نہیں آتا۔ میں نے قاری صاحب سے پوچھا کہ جب اس بندے کو قرآن سمجھ ہی نہیں آتا تو پڑھا نے کا کیا فائدہ ؟ مجھے قاری صاحب فرمانے لگے: چھوٹے بچے ہیں، آج یاد کرلیں، جب بڑے ہو جا ئیں تو سمجھ جائیں گے۔ میں کہا میرا بیان آج یا دکرلیں، بڑے ہو کر سمجھ جائیں گے، قاری صاحب مجھے فرمانے لگے آپ نے تو مناظرہ شروع کیا، میں نے کہا ہما را کا م جو ہے ہم تو وہی کریں گے، جس کا جو کام ہے، اپنا کام کرنا چاہیے۔
تبلیغی جماعت کےساتھ ہماری موافقت:
میں ایک مرتبہ سفر پہ جا رہا تھا مانسہرہ، تو میرے دوست تھے طالب علمی کے زمانے کا، وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ سال لگا رہے تھے۔ (تبلیغ ہمار اکام ہے، ہم تبلیغ کی دل سے قدر کرتے ہیں ، بلکہ ابھی سفر میں تھے، چار پا نچ دن پہلے مدینہ منورہ کا تو وہاں مدینہ منورہ ایک جگہ میرا بیان تھا، تو میں نے ان حضرات سے کہا: جتنا تبلیغی جماعت کا دفاع میں نے کیا ہے، اتنا شاید ہی کسی عالم نے کیا ہو۔
یہ شاید اسی بات کا صلہ ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے تبلیغ والوں کی بیٹی دی ہے، ساتھی کہتے ہیں آپ کی کیسے شادی ہو ئی؟ میں نے کہا کہ آپ نے کبھی یہ نہیں پو چھا کہ آپ نے دفاع کیسے کیا، تو آدمی کام جیسے کرتا ہے، اللہ تعا لی ایسے ہی ثمرات دیتے ہیں۔ تو میں نے کہا، اس کی برکت سے دیکھو، خدا نے دنیا میں انعام دیا، ہمار ا ایک کام جاری ہے آپ دعا فرمائیں، اللہ تعا لی اس کو اپنے فضل سے پورا فرمائیں۔
فضائل اعمال اور دفع شبہات:
ہما ری خو اہش ہے کہ فضا ئل اعمال ایک ایسا چھپے، جس کے اوپر حاشیہ لگا ہو، جن جن جگہوں میں فضا ئل اعمال پر اعتراضات ہیں، ان جگہوں پر اوپر فضائل اعمال ہو اور نیچے حاشیے میں ان اعتراضات کے جوابات ہوں، یہ بالکل لا جواب رہے گا، اور آپ دعا فرمائیں یہ کتاب مکمل بھی جلدی ہو، اس کی اشاعت کے اسباب بھی اللہ عطا فرمائیں، جب یہ فضائل اعمال آجائے پھر اپنی مساجد میں اس فضا ئل اعمال کو رکھیں، اس سے بعض لوگ پر یشان ہو ں گے، جن کو آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں، یعنی فضائل اعمال پر اعتراضات کرنے والے۔ اور جو خوش ہیں اللہ تعالی ان کو خوش رکھیں۔ اور جو پریشان ہیں، اللہ تعالی ان کی پریشانی دو ر فرمادیں۔ ہم کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتے۔
دعا کی توفیق بھی اللہ کے انتخاب سے ملتی ہے:
میں یہ عرض کررہا تھا کہ گناہوں سے بچیں اور جو گناہ ہوجائے اس پر اللہ تعالی سے معافی مانگیں۔ اور نمبر دو یہ کہ اللہ تعالی سے دعا ئیں مانگیں، اللہ تعالی سے دعامانگنے کا بہت اہتمام کریں، اس کو معمول بنائیں، بہت بڑی نا لائقی ہے کہ ہم اللہ تعالی سے ما نگتے نہیں ہیں۔ اور جب بندے کومانگنے کی توفیق مل جاتی ہے تو اس کو عطا فر ما ہی دیتے ہیں اور بندہ اللہ تعالی کے درپہ اسی وقت آتاہے جب اللہ تعالی بندے کا انتخاب فرما دیتے ہیں۔
رات آپ کے دروازے پر کوئی آجائے تو آپ اس کو خالی ہاتھ پھیر نا اپنی توہین سمجھتے ہیں اگر مادہ سخاوت مو جود ہو تو۔ کریم کےدروازے پر کوئی جائے، کریم واپس نہیں کرتااور اللہ تعالی کے دروازے پر کوئی جائے اور خالی ہاتھ واپس آئے، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ حدیث مبارک میں ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
يا أيها الناس إن ربكم حيي كريم يستحي أن يمد أحدكم يديه إليه فيردهما خائبتين
(مسند ابی یعلی،رقم الحدیث:4108 )
اللہ تعالی حیا کرتےہیں جب بندہ خدا سے مانگتا ہے توہاتھ خالی واپس لوٹاتے ہوئے حیا اور شرم محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے اس کا اہتمام کریں کہ اللہ تعالی سے دعامانگیں۔ مانگیں گے نا؟ [سامعین، انشاءاللہ] تو مانگنے کا بہت اہتمام کریں۔ میں ایک دو حدیث سناکر بات ختم کرتا ہوں۔ ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
مامن مسلم يدعو بدعوة ليس له فيها إثم أو قطيعة رحم إلا أعطاه الله بها إحدي ثلاث إما أن يعجل له دعوته وإما أن يدخرها له في الآخرة وإما أن يكشف عنه من السوء مثلها قالوا إذا نكثر قال الله أكثر
(جامع العلوم والحکم )
بندہ جب بھی دعاکرے، شرط یہ ہےکہ گناہ کی دعانہ ہو اور قطع رحمی کی دعانہ ہو،یہ شرط ہے جب بھی بندہ کوئی ایسی دعاکرتاہے، تو اللہ تعالی اس کو تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطافرماتے ہیں۔ نمبر 1:جو وہ دعا مانگتے ہیں اللہ تعالی وہی دعاعطا فرمادیتے ہیں۔
دعاکی قبولیت کا مجرب نسخہ:
ہمارے شیخ حضرت شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم فرماتے ہیں: مجھے کچھ شوگر کی بیماری ہو ئی، تو میں اللہ تعالی سے دعا مانگتا، اے اللہ میں تیر امخلوق ہوں، میرا پیٹ تیر امخلوق ہے، میرالبلبہ تیر ا مخلوق ہے، اے اللہ! میرا خوراک تو ٹھیک ہیں، لہٰذا میر ےغذا میں شکر پیدا نہ کریں تاکہ میں شوگر کےمرض سے بچ جاؤں،میں خدا سے دعاما نگتا، اے اللہ! میرے لبلبے کو ایسا بنادے کہ گر میوں میں آم بڑے شوق سے کھالوں اور یہ آم میرے پیٹ میں شوگر پیدانہ کریں۔
اللہ سے بچوں جیسا مانگیں:
حضرت فرماتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں، آپ خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا مجھے ایسا معدہ عطا کردے کہ میں آم کھالوں؟ حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، جب حج پر جاتے ہیں، تو حاجی کیا دعا کرتا ہے؟ دعا کر و اللہ تعالی مجھے حج کی توفیق دے، دعا کرو اللہ تعالی میری درخوا ست قبول کریں، کرتا ہے نا؟ اور جب حج پہ پہنچ جائے، پھر کیا دعا ما نگتا ہے، دعا کرو میرا حج قبول ہو جائے اور جب حج سے واپس آئے، تو کیا دعا کرتے ہیں؟ یہ جو میرے پا س سامان ہے یہ کسٹمز سے خیر سے نکل جائے۔
فرمایا: سا رے دعا مانگتے ہو، ہم بھی سارے دعا ما نگتے ہیں۔ اب آم کا موسم آگیاہے تو آم کھانے کی دعا۔ تو جب چھوٹی چیزیں مانگیں گے تو کس سے مانگیں گے ؟ [سامعین، اللہ تعالی سے ]
ایک ولی کا ایمان افروز واقعہ:
حضرت فرما تے ہیں ایک ولی تھے اللہ تعالی سے رو رو کر دعا کرتے تھے اللہ تعا لی مجھے کھا نا چاہیے۔ کسی نے کہا، تو تو اتنا بڑا ہے اور روتا ہے، یہ تو بچوں کی عادتیں ہیں، رو تے ہیں، کھانا ما نگنے پر رونا۔ بڑے تو کھانا ما نگنے پر نہیں رو تے، فرمایا: فرق ہے، بچہ جب مانگتا ہے تو ابا سے مانگتا ہے اور بڑ اجب مانگتا ہے تو ربا سے مانگتا ہے۔ میں نے عرض کیا: جب چھوٹا روتا ہے تو ابا سے مانگتا ہے، جب بڑا روتا ہے تو ربا سے مانگتا ہے۔ میں نے کسی کے سامنے ہا تھ نہیں پھیلائے، میں تو اپنے ربا سے مانگتا ہوں۔ رب کے ہاں روتاہوں، میں جنگل میں رہتا ہوں، میرے پاس اسباب نہیں ہے، تو اللہ تعالی سے نہ مانگو، کس سے مانگوں؟
ایک نہایت دلچسپ دعا:
مانگنےکا کسی کو اللہ تعالی سلیقہ عطا فرمادے تو اللہ تعا لی کی رحمت بڑی متوجہ ہوتی ہے۔ اس پر میں نے ایک واقعہ کئی بار سنا یا ہے، آج پھر سنا تا ہوں۔ حیوۃ الحیوان جو کہ علامہ دمیری رحمہ اللہ کی کتاب ہے، یہ واقعہ اس میں میں نے پڑھا جس وقت میں جہلم جیل میں تھا۔ اس میں آیا ہے ایک بزرگ تھا، جب بہت مصیبت زدہ ہو تے، کوئی بیما ری آتی، تکلیف آتی، تو ایک دعا مانگتے، آپ ذرا دعا سنیں، وہ کیا فرما تے ہیں۔ وہ دعا یہ تھی، اے اللہ! جب مومن کی تکلیف کاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلے توحضورﷺ پریشان ہوتے ہیں، کیونکہ امت کے اعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہیں، جب مومن کی خوشی کا پتہ چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوتے ہیں۔
مومن کی خوشی پر شیطان نہایت پریشان ہو تا ہے اور مومن کی خوشی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اور شیطان کی پریشانی ہوتی ہے۔ اب وہ دعا سن لیں! وہ یہ دعا مانگتے تھے ”اے اللہ! میر ی اس بیماری کو دور فرمادے اور شیطان کو پریشان کردے اور مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کردے، کہتے: اب اللہ تعالی میری پریشانی دور کرےگا اپنے حبیب کےلیے۔
دوچیزیں یا د رکھیں!
مانگنے کا طریقہ
دعا پر استقامت
سبحان اللہ! بڑوں کی باتیں بڑی ہو تی ہیں، تو حضرت فرمانے لگے کہ مجھے شوگر کا عاضہ لاحق ہو گیا اور جی چاہ رہا تھا آم کھانے کو۔ ڈاکٹر وں نے منع کیا، آم نہ کھا۔ میں نے اللہ تعالی سے دعا مانگی [یقین کرو، میں خلوت میں پڑھ رہا تھا، میں تڑپ گیا،کیسے بزرگ ہیں] فرمایا: اے اللہ! میں نے تیرے کہنے پہ حرام چھوڑ دیا ہے، اب حلال تو نہ چھڑ وا۔
حاجت پوری ہونے کی ایک ذوداثر دعا:
میں سا تھیوں سے کہتا ہوں جن کی شادی نہ ہو، وہ یہ دعا مانگا کریں اور بہ شرط گناہوں سے بچیں، پھر دعا مانگیں، پھر دیکھیں کہ کتنی جلدی ہو تی ہے کہ اےاللہ میں تیرے کہنے پہ حرام کے قریب نہیں جاتا، اے اللہ حلال تو عطا فرما! تو دیکھو اللہ تعالی کیسے اسباب عطا فرما تےہیں۔
یہ میں بارہا کہتاہوں، میری باتوں کو آپ مذاق سمجھتے ہیں، خداکی قسم گناہوں سے بچنے کا سب سے بڑا ذریعہ آج کے دورمیں میں نکاح ہے۔ اور یہ ہمارا فیصلہ نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔ حضور خطبے میں فرماتے ہیں:
يامعشر الشباب عليكم بالباءة فإنه أحصن للفرج وأغض للبصر فمن لم يقدر على ذلك فعليه بالصوم فإنه له وجاءة
(المعجم الکبیر، رقم الحدیث:10027 )
جو طاقت رکھتا ہے تم میں وہ شادی کرے، جو طاقت نہیں رکھتا، وہ مسلسل روزے رکھے،یہ اس کے لئے ڈھال ہے۔
مسلسل روزے خواہش کو کاٹ کے رکھ دیتے ہیں، جب یہ نہ ہو تو اللہ تعالی سے مسلسل دعائیں مانگو۔ یہ کام کی باتیں ہیں، ہمیں پتہ نہیں۔ لوگ اس میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ یہ کیسی باتیں کرتےہیں، یہ نہیں ہو نا چاہیے۔ خیر میں یہ عرض کر نا چاہتا تھا کہ اللہ تعالی وہی عطا کرتے ہیں جو دعا مانگی ہے۔
مایوس نہ ہوں:
”وإما أن يدخرها له في الآخرة“
کبھی وہ نہیں دیتے بلکہ بندہ کی دعاؤں کو ذخیرہ فرماتےہیں۔ بدلہ آخرت میں عطا فرماتےہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ پاک دنیا میں بندے کی کوئی دعا قبول نہیں فرماتے اور اس کے بدلے قیامت میں نعمتیں عطا فرما ئیں گے، اس وقت بند ہ کہے گا، اے کاش! دنیا میں میری کوئی بھی دعا قبول نہ ہو ئی ہوتی، سا رے ثمرے آج ہی مل جاتے۔ اس لیے پر یشان نہ ہوں بس مانگتے رہیں۔
اور تیسرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو کیا عطا فرماتے ہیں
”وإما أن يكشف عنه من السوء مثلها“
کہ اللہ پا ک وہی تو نہیں دیتے جو اس نے دعا مانگی ہے، لیکن اس کے بدلے میں اس پر آنے والی بلائیں اور تکالیف اور مصیبتوں کو ہٹادیتے ہیں۔
اللہ سے زیادہ سے زیادہ مانگیں:
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تو صحابہ تو مانگنے والے تھے، انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ”إذا نكثر “ پھر تو ہم اللہ تعا لی سے بہت مانگیں گے۔ جو مانگیں گے وہ ملے گا، ورنہ ذخیرہ ہو گا، یا تکالیف ومصائب سے تو بچ جا ئیں گے، جان چھو ٹے گی۔ تو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”الله أكثر“تم جتنا زیادہ مانگتے ہو، اللہ اس سے زیا دہ دیتے ہیں، تم کتنا مانگوگے؟ تم جتنا مانگ سکتے ہو، اللہ تعالی اس سے بھی زیادہ عطا فرمائیں گے۔ تو خدا سے ما نگنے میں بخل نہ کریں۔ میرے خیال میں بات لمبی ہو گئی۔با ت تفصیل سے اس وجہ سے کرتا ہوں کہ کون کونسی دعائیں ایسی ہیں جن کو اللہ رب العزت بہت زیا دہ قبول فرماتا ہے تاکہ ان کا تذکرہ ہو۔
ان میں ایک دعا جو میں نے خطبے میں تلاوت کی، فرمایا:
إِنَّ أَسْرَعَ الدُّعَاءِ إِجَابَةً دَعْوَةُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ
(سنن ابی داؤد،رقم الحدیث:1537،باب الدعاء بظهر الغيب )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے جلدی اللہ تعا لی وہ دعا قبول فرماتے ہیں جو کسی بندے کی غیر موجودگی میں دعا مانگو، ہم مانگتے بعد میں ہیں، اور بتاتے پہلے ہیں، فون کرتے ہیں میں حرم میں ہو ں، تیرے لیے دعا مانگ رہا ہو ں، بڑا چھوٹوں کی تسلی کےلیے کہدے، میں تمہارے لیے دعا مانگ رہاہوں، تو کوئی حرج نہیں، یہ نہیں کہ ہر بندہ کہے۔ نہیں بلکہ پتہ ہی نہیں چلے، جب پشت پیچھے اس کےلیے دعا مانگے۔ فرمایا:
إذا دعا المرءُ لأخيه بظهر الغيبِ قالت الملائكةُ آمين ولك مثلُه
(جامع الاحادیث،رقم الحدیث:1933 )
ایک بندہ کسی کے لیے پسِ پشت دعا مانگتا ہے۔ فرشتہ کہتا ہے، اللہ تعالی اس کو بھی دے دیں، اللہ تعالی اس کو بھی دےدیں۔ تو دعا مانگنے کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی تو فیق عطا فرمائیں۔ اور اپنے دربار سے مانگنے کی تو فیق عطا فرمائیں۔
گناہوں سے توبہ:
تو میں نے یہی گزارش آپ سے کرنی ہے کہ میں نے جو گناہ کیے ہیں، میں بھی تو بہ کرتاہوں۔ جو آپ نے کیے ہیں، آپ بھی توبہ فرمائیں اور نیت کریں۔ اللہ! آئندہ ہم گناہ نہیں کریں گے، بس اے اللہ! ہم آئندہ تجھے ناراض نہیں کریں گے، پوری مخلوق ناراض ہو جائے، اے اللہ تجھے ناراض نہیں کریں گے۔ خداکی قسم! پھر دیکھو اللہ تعالی کیسے عطا فرماتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہاں علماء تشریف لائے، ہمارا اجلاس تھا تبلیغی مرکزوالوں کا، تومیں نےان سے گزارش کی، صرف ان کے لیے نہیں، آپ سب کے لیے، خصوصا علماءاور طلباء، جومسلک اور عقیدے پر کام کرتےہیں۔ میں نے کہا یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی، کہ ایک بندے میں کام کی فکر بھی ہو، کام ٹھیک ہو، کام کی فکر بھی ہو، اور محنت کرے اور گناہوں سے بچ کے محنت کرے اور اللہ تعالی اس کو نتیجہ نہ دے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، پس کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہے۔ یا ہمیں کام کی فکر نہیں ہے، برائے نام کرتے ہیں، یا فکر ہو تی ہے اس فکر کے مطابق محنت نہیں ہے، یا محنت ہے مگر ساتھ ہم نے گناہوں کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
قبولیت دعا کے لیے ترکِ معصیت ضروری:
گرمیوں کے مہینہ میں اے سی چلایا ہوا ہوبلکہ ایک نہیں دو اے سی چلالیں، کمرہ ایسا ہو کہ سوراخ باقی رہے، کیا کمرے میں ٹھنڈک ہو گی؟ [سامعین، نہیں] ہم نیکی کا اے سی بھی چلاتے ہیں اور ساتھ گناہوں کا سراخ بھی کھلارکھتے ہیں۔ اب بتاؤ!اے سی سے ٹھنڈک کیسے ملے گی؟ دماغ معطر کیسے ہو گا؟ اللہ تعالی کی طرف توجہ کیسے ہوگی؟ جب تک گناہوں والا سوراخ بند نہیں ہوتا، اس وقت تک نیکیوں کے ائیر کنڈیشن سے کمرہ ٹھنڈ ا نہیں ہو تا۔ میں یہ کس درد سے آپ کی خدمت میں عرض کررہاہوں۔
اللہ تعالی تمہیں بات سمجھنے کی تو فیق عطافرما ئیں۔ میں پھر کہتاہوں اللہ تعالی سے توبہ کرو توبہ۔ اللہ تعالی ہم سب کی گناہوں کو معاف فرمائیں۔ اللہ ساری انسا نوں کو گناہوں سے محفوظ فرمائیں۔ اللہ تعالی سے مانگتے رہیں گے اللہ تعالی عطافرمادیتے ہیں۔ جب کسی کریم کے دروازے کو کھٹکٹاتے ہیں، اللہ پاک کسی نہ کسی وقت ضرور کھول دے گا۔اللہ سے بڑا دنیامیں کون ہو گا؟ اللہ ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے، اللہ کریم ہم سب کو گناہوں سے محفوظ فرمائیں،اپنے دربارسے اللہ تعالی مانگنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ وماعلینا الا البلاغ۔