زندگی گزارنے کا طریقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
زندگی گزارنے کا طریقہ
خانقاہِ اشرفیہ اختریہ
مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ سرگودھا
یکم نومبر2012ء
زندگی گزارنے کا طریقہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔ :Īتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ؀ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُĨ
سورۃ الملک:1،2 
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میں نے آپ حضرات کی خدمت میں سورت ملک کے شروع کا حصہ تلاوت کیا ہے۔ حدیث مبارک میں سورت ملک پڑھنے کے بہت زیادہ فضائل آئے ہیں اور ترغیب بھی دی گئی ہے کہ رات کو سونے سے قبل اس سورت کو پڑھ لیا جائے۔ جو شخص اس کو پڑھنے کا اہتمام کرتاہے، قبر میں یہ سورت اس شخص کو اللہ تعالی کے عذاب سے بچا لیتی ہے۔
(جامع الترمذی:رقم2890 )
انسان جو بھی اعمال عالمِ دنیا میں کرتاہے، ان اعمال کی عالمِ مثال میں خاص صورت ہوتی ہے۔ یہ سورۃ الملک بھی قبر میں خاص شکل میں آکر اللہ تبارک وتعالیٰ سے بندہ کو بچانے کی سفارش کرتی ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ نے بہت ساری باتیں ہمیں سمجھائی ہیں، میں نے اسی مقصد کے لیے ان آیتوں کی تلاوت کی ہے۔
Īتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُĨ
اللہ تبارک وتعالیٰ بہت بابرکت ذات ہے، اسی کے قبضہ میں پوری دنیا کی بادشاہت وحکومت ہے۔ اللہ جس کو چاہتے ہیں، عطا فرماتے ہیں اور جس سے چاہتے ہیں چھین لیتے ہیں۔
Ī وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌĨ
اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔
قدرت باری تعالیٰ پر ایک واقعہ:
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں کراچی جامعہ بنوریہ میں پڑھتا تھا اورشبِ جمعہ کا بیان سننے کے لیے مکی مسجد جایا کرتا تھا، بعد میں مرکز بنا تو ’’مدنی مسجد‘‘ اس کا نام رکھا گیا۔ کبھی ہمارے ہاں کراچی کے حضرات تشریف لائیں تو میں ان سے گزارش کرتاہوں کہ جب میں تیسرے سال میں کراچی پڑھتا تھا اور اس وقت یہ مدنی مسجد (جو تبلیغی جماعت کراچی کا بہت بڑا مرکز ہے )بنا تھا۔
اللہ کا شکر ہے جب اس کا کنواں کھودا گیا تو کنواں کھودنے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہمیں عطا فرمائی تھی۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے، خواہش ہوتی تھی کہ ایسی نیکیاں کریں جو صدقہ جاریہ بنیں۔ وہاں مرکز کے امیر تھے، امین صاحب،فوت ہوگئے،بوڑھے تھے۔ شب جمعہ کا بیان فرمارہے تھے، انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ دینی مدرسے میں پڑھنے والے سے شیطان کتنا پریشان ہوتاہے-
یہ تو آپ کے علم میں ہے کہ ابلیس کا تخت سمندر میں ہے، چھوٹے چھوٹے شیاطین صبح جاتے ہیں اور شام کو رپورٹ دیتے ہیں۔ شام والے چلے جاتے ہیں وہ صبح رپورٹ دیتے ہیں، بہت سارے شیاطین آئے، انہوں نے کارگزاری سنائی کہ فلاں بندے سےکفر کروایا،شاباش!فلاں سے زنا،شاباش!فلاں خاوند بیوی کے درمیان جدائی کرائی، اپنے اپنے اعمال سناتے رہے اور اس سے شاباش لیتے رہے-امیر صاحب فرمانے لگے: ایک شیطان تھوڑی دیر بعد آیا۔ وہ تھا بھی لنگڑا قسم کا،ابلیس نے پوچھا: تو دیر سے آیا ہے، کیا کام کیا؟اس نے کہا: میں نے یہ کام کیا کہ ایک بچہ جو روزانہ مدرسہ میں جاتا تھا آج میں نے اس کی چھٹی کروائی ہے۔ ابلیس تخت سے اترا اور اسے اپنے سینے سے لگالیا۔
شیاطین نے کہا: یہ بھی کوئی بات ہے، اگر اس نے آج چھٹی کرلی تو کل پھر چلا جائے گا۔ یہ بعض شیاطین کو اشکال ہوا کہ ہمارے سردار نے اس کو شاباش زیادہ دی ہے جس کا کام چھوٹا ہے۔ تو ابلیس نے اس سے پوچھا کہ تو نے تو اسے آج چھٹی کروائی ہے، وہ کل تو چلا جائے گا۔ اس نے کہا کہ اگر بچہ آج مدرسہ نہیں گیا تو کل بھی نہیں جائے گا۔ کیونکہ وہ سوچے گا کہ میں اگر اب جاؤں گا، تو قاری صاحب ماریں گے کہ کل کیوں نہیں آیا تھا؟گھر بھی نہیں جائے گا کہ ماں مارے گی کہ مدرسہ کیوں نہیں گیا؟تو ماں سمجھے گی کہ مدرسہ میں ہے اور قاری صاحب سمجھیں گے کہ گھر میں ہے اور یہ بھٹکتا رہے گا اور مدرسہ چھوڑ جائے گا،نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ بندہ علمِ دین سے محروم ہوجائےگا، تومیں نے اس لیے ایک دن کی چھٹی کروائی کہ اگلی چھٹیاں یہ خود بخود کرےگا۔
اس پر بھی شیاطین کو تعجب ہوا کہ ایک مولوی نہ بنا تو کیا ہوا؟ابلیس نے ان کا یہ سوال اور اشکال دور کرنے کے لیے کہا کہ آؤ میرے ساتھ گشت کرو۔ تبلیغ والے اپنا گشت کرتے ہیں نیک اعمال کے لیے،شیاطین اپنے گشت کرتے ہیں گناہوں کی طرف لانے کے لیے۔ چنانچہ اس نےچند ایک شیاطین لیے اور ایک عابد کے دروازے پر دستک دی،وہ نیک اعمال کرنے والاتو تھا لیکن عالم نہیں تھا۔
گھر والوں نے دروازے سے پوچھا: کون؟انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑا اہم مسئلہ پوچھنا ہے، انہیں کہیں ہماری بات سنیں۔ گھر والوں نے جواب دیا : جی حضرت اللہ اللہ کر رہے ہیں، بہت زیادہ مصروف ہیں،اس وقت بات نہیں کریں گے۔ ابلیس نے کہا: ہمارا بڑا اہم مسئلہ ہے۔ جب گھر والوں نے جا کر بتلایا کہ لوگ آئے ہیں تو وہ بزرگ تشریف لائے۔
ذکر شیخ کی ہدایت کے مطابق کیا جائے:
ہم بہت سے حضرات سے کہتے ہیں کہ آپ ذکرکریں اپنے شیخ سے پوچھ کر، ذکر کی حیثیت مقویات کی سی ہے۔ اگر آپ مقویات اور خمیرہ کھانا چاہیں، حکیم سے پوچھ پوچھ کر کھائیں گے تو وہ بتلائے گا کہ اس کو کتنی مقویات کی ضرورت ہے؟ تو وہ مقرر کر دے گا اور اگر حکیم سے پوچھے بغیر دکان پر جائیں اور پنسار سے دس پندرہ مقویات کے نسخے اٹھالیں جس میں مغزیات،دیسی گھی سب چیزیں ملی ہوئی ہوں۔ بندہ سمجھے گا کہ میں نے طاقت کی چیزیں کھائی ہیں لیکن پتا اس وقت چلے گا جب یہ بیمار ہوگا۔ جس طرح مقویات اور خمیرے حکیم سے پوچھ کر استعمال کرتے ہیں اسی طرح اذکار بھی اپنے شیخ سے پوچھ پوچھ کر کرتے رہیں۔ یہ بات عام بندوں کو سمجھ نہیں آتی۔
ہمارے ہاں ایک ساتھی تھے، مشورہ کے لیے آئے۔ میں نے مشورہ دیا۔ کہنے لگے:چونکہ میں رائیونڈ پڑھتاہوں، وہاں میرے ساتھ مسئلہ بنا تھا، پھر ان سے اجازت لی تھی توانہوں نے کہا فلاں مدرسہ میں پڑھ لو۔ اب میرے ساتھ پھر مسئلہ بنا ہے، اب میں آپ کے پاس آیا ہوں، آپ میری بات سنیں۔
میں نے کہا: آپ گفتگو لمبی کریں گے اور اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ آپ ایسا کریں کہ سب کام چھوڑ کر تین چار دن میرے پاس ٹھہریں۔ وہ آگئے اور ایک دن میرے پاس ٹھہرے۔ دوسرے دن کہنے لگے:جی میرے گھر کام ہے۔ میں نےکہا: چاہیں تو چلے جائیں، میں نے کون سا آپ کو باندھ کے رکھا ہے؟ پھر واپس آئے توسفارشی ساتھ لائے کہ آپ اس کو کچھ دن کےلیے اپنے پاس رکھیں۔ میں نے کہا کہ رکھ لوں گا، لیکن یہ دوبارہ نہیں آئے گا۔
فن صا حب فن سے حاصل کریں:
میں سمجھا رہا تھا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا علاج کتنا کرنا ہے، اس کو ذکر کتنا دینا ہے، اس کو کھلانا کیا ہے؟بسا اوقات بندہ ذکر زیادہ کرتا ہےاور خوراک ہوتی نہیں جس کی وجہ سے دماغ خشک ہوجاتاہے، وہ سمجھتاہے کہ میں عرش کی سیر کرتاہوں۔ وہ عرش کی سیر نہیں کرتا۔ وہ خشکی کا مریض ہوتاہے۔ خشکی دور کر دو تو وہ عرش سے نیچے آجائے گا۔ تو اس لیے اپنے شیخ سے پوچھ کر چلنا ضروری ہے۔
میں ابھی سفر میں تھا۔ ایک ساتھی مجھے ملا اور اپنے اذکار بتلائے کہ میں یہ یہ پڑھتاہوں اور میں نے آپ سے مشورہ کرنا ہے۔ میں نے کہا: آپ نے کسی سے بیعت بھی کی ہے؟کہنے لگا: نہیں۔ میں نے کہا کہ مجھ سے مشورہ کرنا ہے تو مجھ سے بیعت کرلو اور اگر کسی اور سے بیعت کرو تو اس سے مشورہ کرلو۔ کہنے لگا: کیوں؟ میں نے کہا کہ میرے پاس آؤ گے تو میں نے سب سے پہلے تیرے ذکر چھڑانے ہیں، تو کہے گا کہ اتنے ذکر کرتا تھا، آپ نے چھڑا دئیے تو تجھے تکلیف ہوگی۔
جب آپ کسی کو شیخ وپیر سمجھیں گے تو پھر جب وہ ذکر دے گا تو کرنے میں لطف آئے گا اور اگر چھڑائے گا تو بھی لطف آئے گا۔جس طرح حکیم پر اعتماد ہوتاہے،وہ نسخہ بدل دے، تو مریض کو تکلیف نہیں ہوتی۔ ذکر کریں لیکن ساتھ سب سے اہم چیز کہ آپ گناہوں کو چھوڑ دیں۔ بندہ گناہ کرے پھر ذکر کرے، اس پر ثواب تو ملے گا لیکن فائدہ نہیں ہوگا۔
مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کا فرمان:
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے بھی استاد تھے اور مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے بھی استاد تھے۔ بہت بڑے صوفی تھے۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو ذکر کی مثال تو مقویات کی سی ہے، مقویات کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آدمی کا معدہ ٹھیک ہو۔ اگر معدہ ٹھیک نہ ہو تو پھر اس کو دیسی گھی پلاؤ اس کو کچھ نفع نہ ہوگا، اگر معدہ اور اندر کا نظام ٹھیک ہو تو خشک روٹی کھلاؤ گے تو اس کو لگے گی اور طاقتور بن جائے گا۔
اگر آدمی گناہوں کی لت سے بچ جائے پھر صرف فرائض پڑھے تو بھی اللہ کا ولی ہے اور ولایت کے اعلیٰ مقامات طے کرتا چلا جائے گا اور اگر گناہ نہیں چھوڑے گا پھر ذکر کرے گا تو اس سے انسان کو نفع نہیں ہوتا۔ بہت سارے حضرات کہتے ہیں کہ سال ہوگیا، بیعت کی لیکن مجھے نفع نہیں ہوا۔ فائدہ کیسے ہوگا؟
گناہ؛ فیضِ شیخ میں رکاوٹ ہیں:
میں نے جب حضرت اقدس عارف باللہ مولانا حضرت شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم العالیہ سے بیعت کی،ہم اشرف المدارس میں بیٹھے تھے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے عصر کی نماز کے بعد کا وقت تھا تو حضرت نے فرمایا: چلو بیعت کرتے ہیں۔ عصر کے بعد جب ہم بیٹھے بیعت کرنے کے لیے تو ہوا شمال وجنوب کی چل رہی تھی، بیچ میں دیوار تھی، ہوا نہیں لگ رہی تھی۔
حضرت نے فرمایا: یہاں ہوا نہیں لگ رہی، چلو اوپر چلتے ہیں۔ وہاں زبردست ہوا چل رہی تھی۔ اس وقت حضرت فرمانے لگے: دیکھو ہوا چل رہی تھی لیکن اس دیوار کی وجہ سے اس ہوا کے فیض سے محروم تھے بالکل اسی طرح مرید شیخ کے پاس رہتاہے لیکن گناہِ کبیرہ کرتاہے تو جس طرح دیوار ہوا کے چلنے کے باوجود رکاوٹ بن رہی تھی اسی طرح مرید کے گناہ شیخ کے فیض میں رکاوٹ بنتے ہیں، وہ سمجھتاہے کہ میرے شیخ میں کمال نہیں، گناہ چھوڑے گا تو فائدہ ہوگا۔ ایک آدمی اپنے حکم سے دوائی لیتاہے ساتھ پرہیز نہ کرے تو دوائی اثر نہیں کرتی۔ اسی طرح شیخ کی مجلس میں ذکر کرتارہے لیکن گناہوں سے نہ بچے تو پھر ذکر کیا اثر کرے گا۔ اللہ ہمیں گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بقیہ قصہ:
خیر دروازے پر دستک دی بزرگ تشریف لائے۔ ابلیس نے ان سے مسئلہ پوچھا:حضرت! یہ فرمائیں کہ سوئی کے ناکہ سے اللہ تعالیٰ اونٹ گزارسکتے ہیں؟ انہوں نےفرمایا کہ گزار سکتے ہیں، اس لیے کہ
’’ إِنَّ اللّهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں،ابلیس نے کہا: کیسے گزاریں گے؟فرمایا کہ ناکہ بڑا کردیں گے یا اونٹ کو چھوٹا کردیں گے۔ ابلیس نے کہا: نہیں، سوئی کا ناکہ بھی بڑا نہ کریں اور اونٹ کو بھی چھوٹا نہ کریں۔ اب گزار سکتے ہیں یا نہیں؟
عابدنے کہا: تیرا دماغ ٹھیک ہے؟ اللہ قادر ہیں یا تو سوئی کا ناکہ بڑا کردیں گے یا اونٹ کو چھوٹا کردیں لیکن یہ تو نہیں کہ ناکہ بھی بڑا نہ کریں اور اونٹ کو بھی چھوٹا نہ کریں پھر بھی گزار دیں، تو مذاق کرتاہے؟!ابلیس نے کہا: جاؤ جا کر سو جاؤ۔ پھر ابلیس ایک عالم کے مکان پر لے گیا۔ وہ سوئے ہوئے تھے۔ دیکھا عابد عبادت کررہا ہے اور عالم سویا ہوا ہے، لیکن پھر بھی عالم افضل ہے عابد سے۔ اس لیے کہتے عالم کی نیند عابد کی عبادت سے بہتر ہے۔
علماء کرام کے اوقات کا خیال رکھیں:
آپ جمعہ کے دن آئیں، میں اپنی بات نہیں کرتا میں تو ملتاہوں، وقت دیتاہوں،کسی عالم کے پاس جائیں اور وہ نہ ملے۔ کیوں؟ جی وہ آرام کررہے ہیں توغصہ نہ کیا کریں۔ وہ اس لیے آرام کرتاہے کہ وہ سوچتا ہے، میں دو گھنٹے آرام کروں گا، دو گھنٹے مطالعہ کروں گا، میرا بیان ہزار بندوں نے سننا ہے۔ تو اس کا سونا بھی آپ کے لیے ہے، کہ آرام کرے گا توکھل کربیان کرے گا، ورنہ دور سےآنے والے لوگوں کو نفع نہ ہوگا۔ لیکن ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔
مولانا صاحب سوئے ہوئے تھے۔ وہ تہجد میں لگے ہوئے ہیں اور یہ سوئے ہوئے ہیں۔
دروازہ کھٹکھٹایا، گھر والوں نے بتلایا کہ وہ تو آرام کررہے ہیں۔ ابلیس نے کہا کہ بڑا ضروری مسئلہ ہے، بڑی دور سے آئے ہیں۔ مولوی صاحب تشریف لائے۔ پوچھا:کیا کام ہے؟انہوں نے وہی مسئلہ پوچھا کہ بتاؤ اللہ پاک سوئی کے ناکہ کو بڑا کیے بغیر، اونٹ کو چھوٹا کیے بغیر گزار سکتے ہیں یا نہیں؟فرمایا: ہاں گزار سکتے ہیں۔ کہا:کیسے؟فرمایا:’’وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘ ہیں، گزار سکتے ہیں۔ کہا: کیسے؟فرمایا: اگر بات عقل میں آئے پھر مانیں تو پھر ہم نے عقل کی بات مانی خدا کی قدرت کو تو نہیں مانا۔ عقل میں نہ آئے پھر بھی مانے، اس کانام خدا کی قدرت کو ماننا ہے۔
ابلیس نے کہا: ٹھیک ہے جا کر سو جائیں اور اپنے چیلوں سے کہا: چلو اب بتاؤ بات سمجھ میں آئی ؟کہنے لگے: نہیں، تو ابلیس کہنے لگا: بزرگ صبح اٹھے گا اور لوگوں کو بتائے گا کہ رات کو یہ واقعہ پیش آیا، میں نے یہ جواب دیا خود بھی کفر پر مرا، پورے محلہ کو بھی کافر بنا دے گا۔ مولانا صاحب فجر کی نماز پڑھائیں گے یہ واقعہ بتلائیں گے، خود بھی توحید پر جائیں گے اور پورے گاؤں کو توحید پر لے آئیں گے۔ اس نے بچہ کو مولوی بننے سے روک دیا اس نے بہت بڑا کام کیا ہے۔
علاقے کے علاقے بدلتے ہیں ایک عالم کے وجود سے۔ اللہ ہمیں ان کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائے [آمین]
زندگی اور موت پیدا کرنے کا مقصد:
اگلی بات فرمائی
’’الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ
‘‘ اللہ نے موت کو بھی پیدا فرمایا اور اللہ نے زندگی کو بھی پیدا فرمایا۔ کیوں پیدا فرمایا؟اللہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں:’’أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا‘‘کہ تم میں سے اچھا عمل کون کرتاہے؟
ایک عجیب نکتہ:
حضرت حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ میں خود یہ آیت اپنے شیخ سے پڑھ رہا تھا، میرے شیخ مولانا عبدالغنی پھولپوری رحمہ اللہ نے مجھ سے پوچھا: بتاؤ! پہلے زندگی ہے یا موت ؟میں نے کہا: پہلے زندگی ہےپھر موت۔ فرمایا: جب پہلے زندگی پھر موت ہے تو اللہ کو یوں فرمانا چاہیے تھا کہ ’’ الَّذِي خَلَقَ الْحَيَاةَ وَالْمَوْتَ‘‘۔ اب ادب دیکھو فرماتے ہیں:میں نے شیخ سے کہا: آپ ہی جواب عنائیت فرمائیں۔ شیخ نے کہا: اللہ رب العزت نے موت کو پہلے اس لیے بیان کیا کہ موت بھی ہے اورزندگی بھی ہے لیکن جو بندہ موت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارتاہے اس کے جینے کا انداز اور ہوتا ہے اور جو زندگی کو سامنے رکھ کر زندگی گزارتاہے اس کے جینے کا انداز اور ہوتاہے۔
آج دنیا میں اسی لئے جھگڑے چل رہے ہیں۔ اللہ کرے جوبات میں سمجھانا چاہتا ہوں، وہ مجھے اور آپ کو سمجھ آجائے اور سب کو اس پر عمل کی توفیق مل جائے۔
زندگی گزارنے کے طریقے:
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے دو طریقے ہیں:
1: آدمی زندہ رہے جینے کے لیے۔
2: آدمی زندہ رہے مرنے کے لیے۔
جو آدمی جیتا ہے جینے کے لیے اس کے جینے کے انداز اور ہوتے ہیں اور جو آدمی جیتا ہے مرنے کے لیے اس کے جینے کے انداز اور ہوتے ہیں۔
آج دو مسئلے ہیں۔ ایک ہماری ذات کااور دوسرا ہماری اولاد کاکہ میرا مکان اچھا ہو، میری اولاد کا مکان بھی اچھاہو، میں بھی اچھی زندگی گزاروں اور میری اولاد بھی اچھی زندگی گزارے، میں بھی خوشحال ر ہوں اور میری اولاد بھی خوشحال ہو۔
جینے کے لیے جینا:
جہاں تک اپنی ذات کا مسئلہ ہےآج پوری دنیا میں ایک لڑائی شروع ہے، آپ سیاسی جماعتیں دیکھ لیں، یونینیں دیکھ لیں، پوری دنیا میں ایک ہی لڑائی جاری ہے، وہ لڑائی کیاہے؟اسے کہتے ہیں ’’حقوق کی جنگ‘‘۔ ہمارا حق ہے حکومت نہیں دیتی، حکومت کہتی ہمارا حق ہے وہ نہیں دیتے،وکیل کہتے ہمارا حق ہے، عدالت نہیں دیتی،استاد کہتاہے: شاگرد میرا حق نہیں دیتا، شاگرد کہتاہے: استاد میرا حق نہیں دیتا۔ پوری دنیا میں حقوق کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ان کی ہے جو دنیا میں جیتے ہیں جینے کے لیے۔ ان کو ایک ہی فکر ہے کہ اپنا حق کیسے لے لیں اور اب تو اپنے حق سے بڑھ کر یہ ہے کہ دوسرے کا حق کیسے چھین لیں؟
اگر بات یہیں تک ہوتی کہ اپنا حق لینا ہے تو گنجائش تھی لیکن دوسرے کا حق چھیننا اس کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ لیکن چوبیس گھنٹے ہماری ایک ہی فکر ہے کہ میں اپنا حق کیسے لے لوں یا دوسرے کا حق کیسے چھین لوں؟یہ ان کی زندگی ہے جو جیتاہے جینے کے لیے اس کو یہی فکر ہے کہ میرا مال کسی کے پاس نہ رہ جائے، میں لے کر مروں گا،مرجاؤں گا لیکن ایک مرلہ نہیں چھوڑوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی لڑائی ہوتی ہے آٹھ آٹھ آنے پر۔
دو واقعات:
ایک واقعہ سرگودہا جیل میں دیکھا، بالکل ہمارے قریب گاؤں ہے۔ وہاں کا ایک آدمی جیل میں پچیس سالہ سزا کاٹ رہا ہے، وجہ کیاکہ ایک بندہ آیا اس نے اپنی سائیکل کو پنکچر لگوایا اورپیسے نہیں دئیے۔ اس نے پمپ مارا اور بندہ مرگیا۔ یہ آج سے بارہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے، اس وقت پنکچر کتنے کا لگتاتھا؟ آٹھ آنے یا ایک روپے کااور پرسوں اخبارات میں آپ نے خبر پڑھی ہوگی، کراچی میں پٹرول پمپ پر دو لڑکے آئے، پٹرول ڈلوایا موٹر سائیکل میں تیس روپے کا۔ کہا: ہم نہیں دیتےپیسے، گارڈ کھڑا تھا، اس نے فائر مارا۔ ایک مرگیا ایک زخمی ہوگیا۔
اب جب مرگیاتو وہ کھڑا معافیاں مانگ رہاہے کہ مجھے معاف کردو،اب معافی کا کیا مطلب؟ اب تجھے سزائے موت ہوگی اور آپ نے اپنے دیہاتوں میں دیکھا ہےلڑائی کس پر ہے ایک بنّے پر،پانی کی باری پر،بکریاں کھیت میں آگئیں اس پر لڑائی، یہ ساری لڑائیاں کیوں ہیں؟کہ بندہ جیتاہے جینے کے لیے۔
مرنے کے لیے جینا:
اور جو آدمی جیتاہے مرنے کے لیے وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں نے کس کس سے لینا ہے بلکہ وہ سوچتاہے کہ میں نے کس کس کو دینا ہے؟ اس کی خواہش یہ ہے کہ جب میں دنیا سے جاؤں تو میرے ذمے کسی کا قرض نہ ہو،میں اپنا نامہ اعمال صاف کرکے اللہ کے ہاں پہنچ جاؤں۔ جو جیتاہے جینے کے لیے وہ دیکھتاہے کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے؟داڑھی رکھ لی لوگ کیا کہیں گے؟پگڑی باندھ لی لوگ کیا کہیں گے؟حرام کام چھوڑ دیا تو لوگ کیا کہیں گے؟اور جو جیتا ہے مرنے کے لیے وہ دیکھتاہے میں نے یہ کام کرلیا تو میرا اللہ کیا کہے گا؟
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا مرید کو جواب:
حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لوگوں کے امراض کو جانتے تھے، ایک شخص نے خط لکھا۔ مرید کا خط اور شیخ کا جواب سنو۔ مرید نے کہا: حضرت!آپ کی بیعت کرلی ہے، پھر میں نے داڑھی رکھ لی ہے، داڑھی رکھنے پر لوگ ہنستے ہیں۔ جواب سنو، فرمایا: آج لوگ ہنستے ہیں، اگر داڑھی تو نے برقرار رکھی تو پھر قیامت کے دن تجھے رونا نہیں پڑے گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، یہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟پوری جنگ اس بات پر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟آج تھوڑے سے لوگ ہیں تھوڑی سی بدنامی کا ڈر ہے اور قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے اربوں کھربوں لوگ جمع ہوں گے، کیا وہ ذلت برداشت کر لیں گے؟
اللہ ان کے سامنے پوچھ لیں کہ یہ کام کیوں کیا تھا؟ نبی کی سنت کو کاٹ کر گندی نالی میں کیوں بہایاتھا؟میں نے تجھے سودیے تجھے ساڑھے ستانوے نظر نہیں آئے تجھے اڑھائی کا بوجھ نظر آتاہے؟کتنا ظالم ہے اس کو زکوٰۃ بوجھ نظر آتی ہے، اڑھائی جو دیتاہے وہ بھی اپنے لیے نہیں بندوں کے لیے اور اس پر بھی وعدہ ہے کہ میں اس کو کئی گنا ضرب دے کر تجھے واپس کردوں گا۔
جینے کے لیے جینےوالوں کی فکر:
جو جینے کےلیے جیتاہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے لے لوں اور جو مرنے کے لیے جیتاہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں سب کو دے دوں۔ اس لیے جینے کے لیے جینے والے کی فکر اور ہوتی ہے اور مرنے کے لیے جینے والے کی فکر اور ہوتی ہے۔
حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں بکری کابھنا ہوا گوشت کہیں سے آیا۔ میں نے ساراگوشت تقسیم کردیا، صرف ایک کندھے کا گوشت بچا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ سارا گوشت میں نے تقسیم کر دیا ہے، صرف یہ کندھے کا گوشت باقی ہے۔ تو اللہ کے نبیﷺنے فرمایا:’’لاَ، كُلُّهَا لَكُمْ إِلاَّ كَتِفَهَا‘‘۔ فرمایا: نہیں، سارا بچا ہے سوائے اس کندھے کے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ:9909 )
کیونکہ جو صدقہ کردیا وہ تو بچ گیا اس کندھے کا مسئلہ ہے کہ اس کا کیا بنے گا۔ کیونکہ قرآن کا وعدہ ہے
’’ مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ ‘‘
[النحل:96]
جو تمہارے پاس ہے وہ فنا ہوگا اور جو خدا کے پاس چلاگیا وہ باقی رہے گا۔ اس لیے میں گزارش کرتاہوں کہ صدقہ کرنے کا مزاج بنایا کرو، صدقہ کرنے کا یہ معنیٰ نہیں کہ ایک ارب روپیہ دیں، ایک کروڑ دیں، ایک لاکھ دیں، یہ مزاج چھوڑیں ایک روپیہ موجود ہے وہی دے دیں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا :
’’ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ‘‘
(صحیح البخاری:1417 )
کہ جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دے دو۔
شیطان دھوکہ دیتاہے کہ ایک روپیہ صدقہ کیا کرناہے، سو دیں گے۔ سو موجودہے اس کا کیا صدقہ کرنا، ایک لاکھ روپیہ دیں گے۔ شیطان بڑی نیکی کا جھانسہ دے کر چھوٹی نیکی سے محروم کردیتاہے۔ تھوڑا بہت جو موقع پر موجودہے وہ اللہ کے نام پر دے دو۔ اللہ پاک مزید توفیق عطا فرمائیں گے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واقعات:
1: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہت بڑےامام ہیں۔ بہت بڑے زاہد، بہت بڑے عابد، بہت بڑے فقیہ اور بہت بڑےتاجر بھی تھے۔ ایک مرتبہ ایک خاتون ریشم لے کر آئی۔ امام صاحب نے پوچھا: کتنے کا ہے؟کہنے لگی سو درہم کا،فرمایا:یہ زیادہ کا ہے، کہنے لگی: دو سو درہم۔ آپ نے فرمایا: اور بھی زیادہ کا ہے۔ اس نے کہا: تین سو درہم۔ فرمایا: اب بھی زیادہ کا ہے۔
اب بتلاؤ دکاندار کی خواہش ہوتی ہے، میں سستا مال لوں اور اس کو مہنگا بیچوں۔ امام صاحب فرمارہے ہیں:یہ مہنگا ہے تو سستا بیچ رہی ہے۔ آخرچار سو درہم تک بات گئی۔ فرمایا: نہیں، یہ اس سے بھی مہنگا ہے۔ تو وہ عورت کہنے لگی:آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے مذاق کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جاؤ کسی مرد کو بلا لاؤ، وہ مرد کو بلا لائی تو امام صاحب نے پانچ سو درہم میں اس ریشم کو خرید لیا۔
(عقود الجمان مترجم: ص318، 319 )
سو درہم کی ریشم پانچ سو درہم میں لے رہے ہیں، کیوں؟یہ دیہاتی عورت ہے اسے پتہ نہیں قیمت کا۔ تو میں اسے دھوکہ کیوں دوں؟ یہ امام اعظم تھے۔
2: امام اعظم رحمہ اللہ ایک آدمی کے دروازے کے پاس دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ گرمی کا موسم ہے اور آپ دیوار کے سایہ میں نہیں بیٹھے ہوئے تھے؟ تو حضرت امام یحییٰ بن ابی زائدہ﷫نے پوچھا: آپ سائے میں کیوں نہیں آئے؟تو فرمایا:اس سائے میں بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ کہا: کیوں؟فرمایا:مالک مکان پر میرا قرض ہے اور جس بندہ سے قرضہ لینا ہو اس سے نفع اٹھانا سود ہوتاہے۔ میں اس کے مکان کے سائے میں بھی نہیں بیٹھوں گا، کہیں یہ قیامت میں سود میں شمار نہ کیا جائے۔
(عقود الجمان مترجم: ص321 )
فکرِ آخرت سے دنیا بنتی ہے:
اب فکر ہے کہ میں نے مرنا ہے۔اللہ کی قسم اٹھا کرکہتاہوں کہ اگر مجھے اور آپ کو مرنے کی فکر ہوجائے، تو پھر آپ خود کہیں گے کہ میں نے فلاں کے پیسے دینے ہیں، فلاں کے پیسے دینے ہیں۔ اس لیے کہ آدمی کسی کا بوجھ لے کر مرجائے یہ بہت نقصان کی بات ہے۔
تو میں نے پہلی فکر یہ بتلائی کہ جو جیتاہے مرنے کے لیے اس کی فکر یہ ہوتی ہے کہ میں نے کس کس کے دینے ہیں اور جو جیتاہے جینے کے لیے اس کی فکر یہ ہوتی ہے کہ میں نے کس کس سے لینے ہیں۔ دوسری فکر میں نے بتائی کہ جو آدمی جیتاہے جینے کے لیے اس کی فکر یہ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور جو جیتاہے مرنے کےلیے اس کی فکر کیا ہے’’ میرا اللہ کیا کہے گا، میرا رسول کیا کہے گا، میں نے کل ان کے سامنے جانا ہے، کس منہ سے ان کے سامنے جاؤں گا، کون سی شکل لے کر جاؤں گا‘‘
ایمان سےبتاؤ! بندہ اگر پندرہ ہزار روپے پر پولیس کا ملازم ہو اور اس کو پتہ ہو کہ آئی جی بغیر ٹوپی کے آنے کو پسند نہیں کرتا، وہ آئی جی کے سامنے ننگے سر جاسکتاہے؟ بتاؤ کبھی بھی جائے گا؟ [نہیں۔ سامعین]اور اللہ کے دربار میں ننگے سر کیوں ہے؟بندہ کو فکر نہیں، دل میں خدا کی عظمت نہیں، وگرنہ بندہ کٹ جاتا کبھی ننگے سر خدا کے دربار میں نہ جاتا۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق دے۔ اس پر میں ایک دلچسپ واقعہ عرض کرتاہوں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا ایمان افروز جواب:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض صحابہ کو خاص لقب ملے ہیں، جیسے حضرت ابوبکر کو ’’صدیق‘‘،حضرت عمر کو ’’فاروق‘‘،حضرت عثمان کو ’’ذو النورین‘‘، حضرت علی کو’’ اسداللہ‘‘، حضرت حذیفہ کو لقب ملا
’’صاحب سررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
‘‘ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز دار۔ کتنا بڑا لقب ہے۔ ایک جگہ جمعہ تھا میں نے اور باتیں بھی کیں، ایک یہ بھی کی میں نے کہا: لوگ فضائل اعمال کی تعریف کرتے ہیں اور فضائل اعمال سے جو مسائل نکلتے ہیں، ان پر توجہ نہیں دیتے۔
فضائل اعمال میں واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں جب کوئی جنازہ ہوتا، تو پوچھتے کہ اس جنازہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں یا نہیں؟ اگر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ہوتے تو جنازہ پڑھتے، وگرنہ جنازہ نہ پڑھتے، فرماتے اس لیے کہ اللہ کے نبی نے منافقین کا حال حضرت حذیفہ کو بتا دیا تھا کہ کون کون منافق ہیں۔ اگر حذیفہ نہ آئے تو سمجھنا ،منافق کا جنازہ ہے اور عمر منافق کا جنازہ نہیں پڑھے گا۔
(فضائل اعمال: ص118 حکایات صحابہ، آٹھواں باب )
میں نے کہا: بتاؤ اس فضائل اعمال سے کیا پتہ چلا کہ ہر بندے کا نماز جنازہ نہیں پڑھا کرتے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں کا پڑھو، فلاں کا نہ پڑھو، تو کہتے ہیں شرارتی ہے، امت میں توڑ پیدا کرتا ہے۔ میں نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ، معاذ اللہ امت میں توڑ پیدا کرتے تھے؟اللہ کے نبی جو نام لے کر بتلاتے تھے، فلاں منافق ہے، وہ معاذاللہ توڑ پیدا کرتے تھے؟شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی فضائل اعمال امت کو توڑنے کے لیے یا جوڑنے کے لیے؟ [جوڑنے کے لیے۔ سامعین]
مرکز کا کام حضرت حذیفۃ الیمان والا:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دار تھے۔ چلو بات چل پڑی، آپ کو سمجھانے کے لیے کہتاہوں، علماء تو سمجھتے ہیں یہ جو ہمارے ہاں مرکز اہل السنۃ والجماعۃ کے نام سے ادارہ ہے، ہم یہ بات سمجھانے کے لیے کہتے ہیں، اس مرکز کا کام حضرت حذیفہ ؓوالا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے
’’ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ ‘‘
(صحیح البخاری رقم:7084)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام خیر کی بات پوچھتے اور میں شر کی باتیں پوچھتا تھا۔
وہ خیر کی باتیں پوچھتے حاصل کرنے کے لیے اور میں شر کی باتیں پوچھتا، امت کو بچانے کےلیے۔ آپ کسی بھی حکیم کے پاس جائیں،حکیم دوا دیتاہے ساتھ پرہیز بھی بتاتاہے یا نہیں؟[بتاتاہے۔ سامعین]کہتاہے یہ تمہارے لیے خیر ہے، یہ شر ہے۔ تو ہمارے اس مرکز کا کام حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ والا ہے کہ امت کو بتاؤ، یہ فتنہ ہے اس سے بچواور یہ دنیا کا مشکل کام ہے۔ اس پر غیر تو کیا اپنوں کا مزاج بھی بدل جاتاہے۔ ’’یہ کوئی زمانہ ہے ان باتوں کا، امت کو لڑاتے ہیں‘‘نہ بابا! ہم امت کو لڑاتے نہیں صحیح راستہ بتاتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور لوگوں کی ملامت:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دار ہیں۔ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔ سامنے ایران کے جرنیل بیٹھے ہیں، مذاکرات تھے۔ حضرت حذیفہ کے ہاتھ سے کھانے کا لقمہ زمین پر گرا۔ حضرت حذیفہ نے اٹھایا، صاف کیا۔ جب صاف کرکے کھانے لگے، ساتھ بیٹھے آدمی نےکہنی ماری: یہ لوگ کیا کہیں گےکہ ان کو کھانے کا طریقہ نہیں آتا۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بڑا پیارا جواب دیا۔
(میں جب پہلی بار افریقہ سفر پر گیا، تو میں چپاٹا جارہا تھا۔ میرے میزبانوں نے کہا، راستہ میں ایک جگہ آتی ہے، لوگ وہاں آپ کو اتاریں گے، کھانا کھلائیں گے، پھر آگے گاڑی پر چھوڑ آئیں گے۔ میں وہاں اترا، وہ لے گئے کھانے کےلیے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہندوستان ضلع گجرات کے ہیں۔ ان کی عادت کیا ہے؟ وہ کھانے سے پہلے میٹھا کھاتے ہیں اور کھانا بعد میں کھاتے ہیں، ہمارے ہاں کھانا پہلے میٹھا بعد میں۔
انسانی معدہ،اللہ کی ایک عظیم نعمت:
اب یہ کھانے سے پہلے میٹھا کیوں؟معدہ کا مزاج یہ ہے کہ یہ مٹھاس کو بڑی جلدی قبول کرتاہے۔ اگر کسی کھانے میں مٹھاس نہ ہوتو معدہ اس کھانے کو قبول کرتاہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں میٹھے کا مطلب کھنڈ[چینی،شوگر]گڑ وغیرہ ہے،ایک میٹھے کی خاص مقدار جو معدہ کو چاہیے، وہ گندم میں موجود ہے،چاول میں موجود ہے۔ اگر ان میں میٹھے کا وجود ختم ہوجائے تو معدہ خوراک قبول ہی نہ کرے۔ یہ معدہ کا مزاج ہے اور معدہ کا مزاج ہے یہ مکھی کبھی قبول نہیں کرتا۔ آپ نے دیکھا اگر منہ میں مکھی آئے تو باہر پھینکتے ہیں یا نہیں؟خود باہر پھینکتے ہیں، بوٹی اندر جاتی ہے، لیکن مکھی اندر کیوں نہیں جاتی ؟یہ معدے کا مزاج ہے، مکھی قبول نہیں کرتا، مٹھاس قبول کرلیتاہے۔
قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے بانی فرمایا کرتے تھے، جس طرح معدہ مٹھاس کو قبول کرتاہے، اسی طرح صدیق صداقت کو قبول کرتاہے، جس طرح معدہ مکھی قبول نہیں کرتا اسی طرح صدیق کذب قبول نہیں کرتا۔ اب یہ نانوتوی رحمہ اللہ کا مسئلہ تب سمجھ میں آئے گا جب معدہ کا مزاج سمجھ میں آئے گا۔
اب گجراتی لوگ پہلے میٹھا کیوں کھاتے ہیں؟تاکہ کھانا زیادہ کھائیں۔ ہم لوگ میٹھا بعد میں کیوں کھاتے ہیں کہ بعد میں میٹھا کھانا سنت ہے۔ کیوں؟پہلے میٹھا کھائیں گے بھوک زیادہ لگے گی، بعد میں میٹھا کھائیں گے، جو کھایا ہوگا ہضم ہوگا۔ اللہ کے نبی یہ نہیں چاہتے کہ آپ زیادہ کھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں کہ جو کھایا ہضم ہوجائے۔ سنت کی حکمت سمجھ میں آئی؟
میں بتا رہا تھا کہ دسترخوان لگا تو انہوں نے مٹھائی رکھ دی،ساتھ کھانا بھی رکھ دیا۔ اب میں نےمرغ کی ٹانگ نکالی تو مجھ سے پہلے کراچی کے مولوی صاحب وہاں تھے، آہستہ سےمجھے کہنے لگے: یوں نہ کرو۔ میں نے کہا :کیوں؟کہنے لگے: یہ سمجھیں گے اس کو کھانے کا طریقہ نہیں آتا، یہ پہلے میٹھا کھاتے ہیں بعد میں سالن کھاتے ہیں۔ میں نے کہا: میں سمجھو گا ان کو کھانے کا طریقہ نہیں آتا۔ بات تو صرف اتنی ہے وہ ہمارے بارے میں سمجھیں ہم ان کے بارے میں سمجھیں۔
بات حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی چل رہی تھی
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جس کو تاریخ نے سینہ میں محفوظ کر رکھا ہے، فرمایا۔
’’ اترک سنۃ حبیبی لہولاء الحمقاء‘‘
ان بےوقوفوں کی وجہ سے محبوب کی سنت کو چھوڑ دوں؟ یہکیسے ہوسکتا ہے؟
مسلمانوں کو عیسائی پادری کے دو کارآمد مشورے:
آپ میں سے کوئی بندہ یورپ جائے۔وہاں جائےکہ یہ جو یہاں سے یورپ جاتے ہیں، ان کو گھاس کوئی نہیں ڈالتا، میں مذاق نہیں کرتا اور جب کوئی ہم جیسا پگڑی باندھ کر کندھے پر چادر رکھ کر جائے، تو انگریز بھی دیکھتاہے کہ یہ کون ہے؟ جو ہمارے نظام سےمتاثر نہیں ہے۔ ایک عیسائی پادری رائیونڈ آیا۔ چالیس دن لگا کر چلا گیا۔ وہ جماعت میں وقت لگانے آیا تھا، تبلیغی نظام کودیکھنے کے لیے۔ جب وہ جانے لگا تو اس نے کہا: میں تمہیں دو نصیحتیں کرتاہوں، دو کام کبھی نہ چھوڑنا۔
1: جب پاکستان سے باہر جاؤ اپنا لباس کبھی نہ بدلنا۔ ہم لوگ تمہارے لباس سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔
2: جب باہر آؤ، وقت پر اذانیں دے کر نمازیں پڑھنا۔ یہ ہمارے کلیجے کو چیر دیتی ہیں۔
ابھی تین دن پہلے کی بات ہے،ایک ساتھی مجھے کہنے لگا:ایک بات دکھاؤں؟میں نے کہا:دکھاؤ۔ تو اس نے کسی چینل پر دکھایا کہ امریکہ میں پاکستانی کیمونٹی کا اسکول ہےاور یہاں سے انٹریو کرنے کےلیے جانے والی لڑکی ہے۔ آپ حیران ہوں گے، پاکستانی کیمونٹی کا اسکول ہے،لڑکیوں کا بھی اسکارف،ٹیچر کا بھی اسکارف، ہیڈمسٹریس کابھی سکارف اور پاکستانی کپڑوں میں اور جو یہاں سے انٹریو کےلیے گئی، وہ پینٹ شرٹ میں پھر رہی ہے، یعنی وہ امریکہ میں رہ کر بھی مسلمان اور یہ پاکستان میں رہ کر بھی کافروں کی طرح کا لباس پہنےہوئے۔اب بتاؤ امریکہ والے اِن سے متاثر ہوں گے یا اُن سے؟اس کو تو کنجری سمجھیں گے۔ میری باتوں کو سخت نہ سمجھنا۔ وہ سمجھیں گے یہ ہماری طرح ہیں، جیسے ہم ویسے یہ ہیں۔
سوچ کا فرق ہے:
میں نے کہا: جو جیتاہے جینے کےلیے، اس کی فکر کیا ہوتی ہے؟ لوگ کیا کہیں گے اور جو جیتاہے مرنے کے لیے، اس کی فکر کیا ہوتی ہے؟میرا اللہ کیا کہے گا؟ میرا رسول کیا کہے گا؟اب آپ بتائیں، مرنے کےلیے جینا ہے آپ نے یا جینے کے لیے جینا ہے؟
اس پر میں آپ کو ایک شعر سناتاہوں، اس کو ذہن میں رکھا کریں:
لوگ سمجھیں مجھے محروم وقار وتمکین

مگر وہ نہ سمجھیں کہ میری بزم کے قابل نہ رہا

لوگ جیسا بھی سمجھیں، لیکن اللہ یہ سمجھیں کہ یہ میرا ہے۔ تو بس یہ دعا کریں کہ اللہ ہمارا بن جائے، لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمارے شیخ فرماتے ہیں:
جو تو میرا تو سب میرا، آسماں میرا زمیں میری

اک تو نہیں میرا، تو کوئی شئی نہیں میری

اللہ کی قسم آپ اللہ کے بن جائیں، پوری زمین آپ کی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی میں نے سنایا، جگر مراد آبادی شاعر، شرابی تھا،بعد میں اللہ سے توبہ کی، اللہ والا بن گیا، حکیم الامت تھانوی﷫ کےہاتھ پر بیعت کی، شراب چھوڑ دی، بدل گیا۔ جب جگر مراد آبادی واپس آیا۔ جگر کو ڈاکٹروں نے کہا :جگر! شراب پیو وگرنہ مر جاؤ گے،تمہارا معدہ شراب کا عادی ہے۔ تو جگر نے پوچھا: اگر میں شراب پیتا رہا تو کتنے سال تک جی سکتاہوں؟تو انہوں نے کہا: اگر شراب پیو گے تو چھ، سات سال زندہ رہ جاؤ گے۔
جگر چونکہ بیعت ہوگیا تھا، اب دل میں اللہ کی محبت کی چوٹ لگ گئی تھی، جگر انہیں کہنے لگا: میں شراب پی کر زندہ رہوں، اس سے بہتر ہے کہ شراب چھوڑوں اور ابھی مرجاؤں۔ کیوں؟شراب پیوں گا تو میرا اللہ ناراض ہوگا، شراب چھوڑوں گا تو میرا اللہ خوش ہوگا، خدا کو ناراض کرکے زندہ رہنے سے بہتر ہے، اللہ کو راضی کروں اور فوراً مرجاؤں۔ شراب چھوڑ دی پھر چھ سال نہیں کئی سال تک زندہ رہا۔ موت وحیات تو اللہ کے اختیار میں ہے۔
رنج وغم دور کرنے کا نسخہ:
میں اللہ کی قسم اٹھا کر یہ بات کہتاہوں، میں یہ بات کس درد کےساتھ آپ کو سمجھاؤں!مرنے کے لیے تم جینا شروع کردو ،اللہ دل کو غموں سے آزاد کردے گا۔ دنیا جہاں کا نقصان ہوگا، آپ کا دل غمگین نہیں ہوگا۔
ہمارے شیخ کا بڑا پیارجملہ ہے، فرماتے ہیں: بتاؤ! دنیا والے ایک گھڑی کو واٹر پروف بنا سکتےہیں، کیا اللہ غم پروف دل نہیں بنا سکتے؟ایسا دل جس میں غم جائے ہی نہ۔ کبھی اللہ والے کے چہرے پر غم آتاہے؟ اس کے دل میں غم نہیں ہوتا۔ اللہ دل کی وہ خوشیاں عطا کرتے ہیں کہ دنیا اس کو تصور بھی نہیں کرسکتی۔
میں تمہیں یہ بات کس درد سے سمجھاؤں؟ہمارے ہاں معاملات چلتے ہیں آپ کے سامنے ہیں ہم نے شعبان میں ہال بنایا، ساڑھے سات لاکھ لگائے۔ گرگیا، سب پریشان تھے۔ میں قسم اٹھاؤں مسجد میں تو جھوٹا نہیں ہوں گا،ہمیں رتی برابر بھی دکھ نہیں ہوا۔ میں نے کہا: خدا نے بنایا تھا،گر گیا پھر بن جائے گا۔دو مہینے بھی نہیں گزرے اس سے بہتر بن گیا۔ آپ کے سامنے ہے، میرے دوسال میں کتنے ایکسڈنٹ ہوئے ہیں۔ ابھی تازہ ہوا تھا، کتنی مہنگی گاڑی تھی۔ طلبہ میرے پاس موجود تھے، ان سے پوچھ سکتے ہو، اگر مجھے رتی برابر بھی دکھ ہوا ہو۔ یہ ٹوٹ جاتی، اللہ اور دیتا۔ کچھ اللہ پر اعتماد کرنا سیکھو۔
والد پر اعتماد ہے، اللہ پر نہیں:
مجھے ایمان سے بتاؤ! باپ اپنے بیٹے کو کہتاہے: بیٹا دیکھو، مجھے خوش کردو میرے مرنے کے بعد جائیداد ساری تیری ہے۔ مجھے خوش کردو فیکٹری ساری تیری،اللہ کہتاہے :مجھے خوش کردو ساری کائنات تیری ہے۔ اللہ پر اعتماد نہیں ہے، باپ پر اعتماد ہے،خدا پر اعتماد کرکے دیکھو، اللہ کیسی خوشیاں عطا کرتے ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے میں نے ایک ساتھی کو کہا: کیا کر رہے ہو؟کہنے لگا: فلاں کام کرتاہوں۔ میں نے کہا: بھائی صدقہ بھی نکالتے ہو ؟کہنے لگا: جب سے آپ نے کہا، نکالتاہوں۔ میں نے کہا: کہاں پر ؟کہنے لگا: جہاں ضرورت ہو۔ میں نے کہا: ضرورت تو ہمارے ہاں بھی بہت ہے۔ کہنے لگا: چھڈو جی تہانوں کیہڑی لوڈ اے؟ [چھوڑئیے جی آپ کو کیا ضرورت ہے؟] وجہ کیا ہے؟ہمارےچہرےپہ غم نظر نہیں آتا تو سمجھتے ہیں ان کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم بھیک نہیں مانگتے، رات کو اٹھ کر خدا کے حضور روتے ہیں، اس سے مانگتے ہیں، اللہ پھر کوئی ترتیب بنا دیتے ہیں۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔
موت سامنے ہو تو گناہ نہیں ہوتے:
میں عرض کر رہا تھاکہ موت کو سامنے رکھو، پھر گناہ چھوڑنے بہت آسان ہیں۔ مسئلہ صرف اعمال کا نہیں ہماری زندگی کا مسئلہ بھی ہے۔ موت سامنے رکھ کر جئیں گے، تو ڈاکے پڑنے پر کبھی ہارٹ اٹیک نہیں ہوگا، مکان گرنے پر ہارٹ اٹیک نہیں ہوگا،کیوں؟یقین ہے اس میں اللہ نے خیر رکھی ہے۔
ہماری ذات،ہماری اولاد:
میں نے عرض کیا تھاکہ ایک معاملہ ہے ہماری ذات کا، دوسرا معاملہ ہےہماری اولاد کا۔ ذات کے بارے میں دو باتیں بتلائیں۔ جو شخص دنیا میں جیتاہے جینے کےلیے، اس کو فکر ہوتی ہے، میں مر گیا تو میری اولاد کا کیا بنے گا؟اور جو جیتاہے مرنے کےلیے اس کی فکر ہوتی ہے، میری اولاد مر گئی، تو اس کا کیا بنے گا؟ ہم میں سے ہر ایک کو یہ فکر ہےکہ میں مرگیا تو اولاد کا کیا بنے گا ؟چلو میٹرک کرے، بی اے کرے، ایم/اے کرے، کوئی محنت ومزدوری کرے،’’بیٹا! جتنی دیر میں زندہ ہوں اتنی دیر تک بہاریں ہیں، میں مر گیا تو تجھے کسی نے پوچھنا تک نہیں‘‘
والدین یہی بات کہتے ہیں نا؟کیا جو خدا تجھے پوچھتاہے تیری اولاد کو نہیں پوچھے گا؟ اِس سے پوچھو: جب تیرا باپ مرا پھر تجھے خدا نے چھوڑ دیا تھا؟ ہمارا دادا مرگیا، خدا نے باپ کو نہیں چھوڑا، باپ مرگیا تو ہمیں نہیں چھوڑا ہم مرگئے تو خدا ہماری اولاد کو چھوڑدیں گے؟ہم کیسی بات کرتے ہیں؟اولاد کے جینے کا فکر کرو ہم اس سے منع نہیں کرتے لیکن اولاد کے مرنے کا بھی فکر کرو، وگرنہ بڑا نقصان ہوگا۔
اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر یقین کرو۔ ہم مسلمان نہیں کریں گے تو کون یقین کرے گا؟قیامت کے دن جب جہنم میں اولاد جائے گی تو کہے گی اللہ میرے والدین کو دوگنا عذاب دے۔ یہ ہمیں دین پر لگاتے ہم لگ جاتے، ہم جو دین پر نہیں لگے تو یہ میرے باپ اور میری ماں کا قصور ہے۔ کیوں قیامت میں خدا کی عدالت میں مجرم بن کے کھڑے ہوتے ہو؟اس لیے آج طے کرو کہ ہم اپنی زندگی بھی بدلیں گے اور اپنی اولاد کی زندگی بھی بدلنے کی فکر کریں گے۔
اولاد ،والدین کا عکس ہوتے ہیں:
میری بات کا مطلب سمجھیں، کیونکہ آپ لوگ مولوی نہیں ہیں نا،اس لیے میں اس کی شرح کردیتاہوں، ہم اپنی زندگی نہیں بدلتے، اولاد کی فکر کرتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے گاؤں کا واقعہ ہے۔ بیٹھک میں بیٹھے تھے ہم چار بھائی،باتیں کر رہے تھے۔ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا:مولوی صاحب ان بچوں کو مسجد لے جاؤ، نہ جائیں تو جوتے لگاؤ۔ میں نے کہا: تجھے کیا لگائیں؟خود نماز پڑھ نہیں رہے، بچوں کو جوتے لگاؤ،بچوں کو جوتے لگانے کا کیا مطلب؟
جب باپ نماز پڑھے گا تو بیٹا جائے گا یانہیں؟ماں نماز پڑھے گی تو بیٹی پڑھےگی یا نہیں؟مجھے کوئی ایسا گھر بتائیں کہ باپ گانا نہ سنے، بیٹا پھر بھی سنے۔ پہلے جوانی میں ماں فلمیں دیکھتی ہے، پھر بوڑھی ہوتی ہے توبہ کرتی ہے، تو اولاد دیکھتی ہے،گھر میں ٹیلی ویژن لایا کون ہے؟ٹیلی ویژن تو ماں لائی ہے جہیز میں،ٹیلی ویژن تو باپ لایا ہے۔ یہ گھر میں کیبل کا کنکشن کس نے دیا ہے؟پھر کہتاہے کہ بیٹا ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس لیے کہتاہوں کہ اس بات کو سمجھو، خود بدلو اور اولاد کو بدلنے کی فکر کرو۔ ہم خود نہیں بدلتے لیکن اولاد کے بدلنے کی فکر کرتے ہیں۔ ایسے اولاد نہیں بدلتی،باپ بدل جائے، اولاد بدل جاتی ہے۔ بہت کم ایسے ہوتاہے کہ باپ بدلے، پھر بھی اولاد نہ بدلے۔ اس لیے کہتاہوں کہ پہلے خود کوبدلو، بعد میں مسئلہ اولاد کا ہے۔ اللہ ہم سب کو مرنے کے لیے زندہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔اس لیے قبر وآخرت کو سامنے رکھیں۔
میں انہی باتوں پر اپنی گفتگو ختم کرتاہوں۔ میں بھی توبہ کرتاہوں، آپ بھی توبہ کریں۔ کسی بندے کا حق دینا ہے، تو اللہ کے لیے حق کو جلدی ادا کریں اور اگر استعداد نہیں ہے، تو اس سے معافی مانگو۔ اگر معاف نہیں کرتا تو لکھ کر اپنے گھر رکھو اور اولاد کو کہہ دو: میں نے فلاں فلاں کا دینا ہے، جب اللہ توفیق عطا فرمائے دے دینا۔ وصیت کرکے مرجاؤ۔ امید ہے اللہ کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرمادیں گے۔ اللہ ہم سب کویہ باتیں سمجھنے اور ان پر عمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین